Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, Nauf Al-Bukah claims that Moses, the companion of Al-Khadir was not Moses (the prophet) of the children of Israel, but some other Moses. Ibn `Abbas said, Allah's enemy (i.e. Nauf) has told a lie. Ubai bin Ka`b told us that the Prophet said, 'Once Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked who was the most learned man amongst the people. He said, 'I.' Allah admonished him as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So, Allah said to him, 'Yes, at the junction of the two seas there is a Slave of Mine who is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord! How can I meet him?' Allah said, 'Take a fish and put it in a large basket and you will find him at the place where you will lose the fish.' Moses took a fish and put it in a basket and proceeded along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon, till they reached the rock where they laid their heads (i.e. lay down). Moses slept, and the fish, moving out of the basket, fell into the sea. It took its way into the sea (straight) as in a tunnel. Allah stopped the flow of water over the fish and it became like an arch (the Prophet pointed out this arch with his hands). They travelled the rest of the night, and the next day Moses said to his boy (servant), 'Give us our food, for indeed, we have suffered much fatigue in this journey of ours.' Moses did not feel tired till he crossed that place which Allah had ordered him to seek after. His boy (servant) said to him, 'Do you know that when we were sitting near that rock, I forgot the fish, and none but Satan caused me to forget to tell (you) about it, and it took its course into the sea in an amazing way?.' So there was a path for the fish and that astonished them. Moses said, 'That was what we were seeking after.' So, both of them retraced their footsteps till they reached the rock. There they saw a man Lying covered with a garment. Moses greeted him and he replied saying, 'How do people greet each other in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man asked, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes, I have come to you so that you may teach me from those things which Allah has taught you.' He said, 'O Moses! I have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught me, and which you do not know, while you have some of the Knowledge of Allah which Allah has taught you and which I do not know.' Moses asked, 'May I follow you?' He said, 'But you will not be able to remain patient with me for how can you be patient about things which you will not be able to understand?' (Moses said, 'You will find me, if Allah so will, truly patient, and I will not disobey you in aught.') So, both of them set out walking along the sea-shore, a boat passed by them and they asked the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and so they took them on board without fare. When they were on board the boat, a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice into the sea. Al-Khadir said to Moses, 'O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's Knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak.' Then suddenly Al-Khadir took an adze and plucked a plank, and Moses did not notice it till he had plucked a plank with the adze. Moses said to him, 'What have you done? They took us on board charging us nothing; yet you I have intentionally made a hole in their boat so as to drown its passengers. Verily, you have done a dreadful thing.' Al-Khadir replied, 'Did I not tell you that you would not be able to remain patient with me?' Moses replied, 'Do not blame me for what I have forgotten, and do not be hard upon me for my fault.' So the first excuse of Moses was that he had forgotten. When they had left the sea, they passed by a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boys head and plucked it with his hand like this. (Sufyan, the sub narrator pointed with his fingertips as if he was plucking some fruit.) Moses said to him, Have you killed an innocent person who has not killed any person? You have really done a horrible thing. Al-Khadir said, Did I not tell you that you could not remain patient with me?' Moses said If I ask you about anything after this, don't accompany me. You have received an excuse from me.' Then both of them went on till they came to some people of a village, and they asked its inhabitant for wood but they refused to entertain them as guests. Then they saw therein a wall which was just going to collapse (and Al Khadir repaired it just by touching it with his hands). (Sufyan, the sub-narrator, pointed with his hands, illustrating how Al-Khadir passed his hands over the wall upwards.) Moses said, These are the people whom we have called on, but they neither gave us food, nor entertained us as guests, yet you have repaired their wall. If you had wished, you could have taken wages for it. Al-Khadir said, This is the parting between you and me, and I shall tell you the explanation of those things on which you could not remain patient. The Prophet added, We wished that Moses could have remained patient by virtue of which Allah might have told us more about their story. (Sufyan the sub-narrator said that the Prophet said, May Allah bestow His Mercy on Moses! If he had remained patient, we would have been told further about their case. )
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ‘ صاحب خضر بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ دوسرے موسیٰ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دشمن اللہ نے بالکل غلط بات کہی ہے۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے ہم سے بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے کہ ان سے پوچھا گیا کون سا شخص سب سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انہوں علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ کیوں نہیں میرا ایک بندہ ہے جہاں دو دریا آ کر ملتے ہیں وہاں رہتا ہے اور تم سے زیادہ علم والا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اے رب العالمین! میں ان سے کس طرح مل سکوں گا؟ سفیان نے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے کہ ”اے رب! «وكيف لي به» “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی پکڑ کر اسے اپنے تھیلے میں رکھ لینا ‘ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے بس میرا بندہ وہیں تم کو ملے گا۔ بعض دفعہ راوی نے ( بجائے «فهو ثم» کے ) «فهو ثمه» کہا۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لے لی اور اسے ایک تھیلے میں رکھ لیا۔ پھر وہ اور ایک ان کے رفیق سفر یوشع بن نون روانہ ہوئے ‘ جب یہ چٹان پر پہنچے تو سر سے ٹیک لگالی ‘ موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی اور مچھلی تڑپ کر نکلی اور دریا کے اندر چلی گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ محراب کی طرح ہو گئی ‘ انہوں نے واضح کیا کہ یوں محراب کی طرح۔ پھر یہ دونوں اس دن اور رات کے باقی حصے میں چلتے رہے ‘ جب دوسرا دن آیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر سے فرمایا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ کیونکہ ہم اپنے سفر میں بہت تھک گئے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکان محسوس نہیں کی تھی جب تک وہ اس مقررہ جگہ سے آگے نہ بڑھ گئے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ ان کے رفیق نے کہا کہ دیکھئیے تو سہی جب چٹان پر اترے تھے تو میں مچھلی ( کے متعلق کہنا ) آپ سے بھول گیا اور مجھے اس کی یاد سے شیطان نے غافل رکھا اور اس مچھلی نے تو وہیں ( چٹان کے قریب ) دریا میں اپنا راستہ عجیب طور پر بنا لیا تھا۔ مچھلی کو تو راستہ مل گیا اور یہ دونوں حیران تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں۔ چنانچہ یہ دونوں اسی راستے سے پیچھے کی طرف واپس ہوئے اور جب اس چٹان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ اپنا سارا جسم ایک کپڑے میں لپیٹے ہوئے موجود تھے۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا پھر کہا کہ تمہارے خطے میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ موسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا ‘ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے وہ علم نافع سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے اور آپ اس کو نہیں جانتے۔ اسی طرح آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں انہوں نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے اور واقعی آپ ان کاموں کے بارے میں صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إمرا» تک آخر موسیٰ اور خضر علیہم السلام دریا کے کنارے کنارے چلے۔ پھر ان کے قریب سے ایک کشتی گزری۔ ان حضرات نے کہا کہ انہیں بھی کشتی والے کشتی پر سوار کر لیں۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کوئی مزدوری لیے بغیر ان کو سوار کر لیا۔ جب یہ حضرات اس پر سوار ہو گئے تو ایک چڑیا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ کر اس نے پانی میں اپنی چونچ کو ایک یا دو مرتبہ ڈالا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اے موسیٰ! میرے اور آپ کے علم کی وجہ سے اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں ہوئی جتنی اس چڑیا کے دریا میں چونچ مارنے سے دریا کے پانی میں کمی ہوئی ہو گی۔ اتنے میں خضر علیہ السلام نے کلہاڑی اٹھائی اور اس کشتی میں سے ایک تختہ نکال لیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو نظر اٹھائی تو وہ اپنی کلہاڑی سے تختہ نکال چکے تھے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ جن لوگوں نے ہمیں بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا انہیں کی کشتی پر آپ نے بری نظر ڈالی اور اسے چیر دیا کہ سارے کشتی والے ڈوب جائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ نے نہایت ناگوار کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ( یہ بے صبری اپنے وعدہ کو بھول جانے کی وجہ سے ہوئی ‘ اس لیے ) آپ اس چیز کا مجھ سے مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا تھا اور میرے معاملے میں تنگی نہ فرمائیں۔ یہ پہلی بات موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر ہوئی تھی پھر جب دریائی سفر ختم ہوا تو ان کا گزر ایک بچے کے پاس سے ہوا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے ( دھڑ سے ) جدا کر دیا۔ سفیان نے اپنے ہاتھ سے ( جدا کرنے کی کیفیت بتانے کے لیے ) اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز توڑ رہے ہوں۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے ایک جان کو ضائع کر دیا۔ کسی دوسری جان کے بدلے میں بھی یہ نہیں تھا۔ بلاشبہ آپ نے ایک برا کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اچھا اس کے بعد اگر میں نے آپ سے کوئی بات پوچھی تو پھر آپ مجھے ساتھ نہ لے چلئے گا، بیشک آپ میرے بارے میں حد عذر کو پہنچ چکے ہیں۔ پھر یہ دونوں آگے بڑھے اور جب ایک بستی میں پہنچے تو بستی والوں سے کہا کہ وہ انہیں اپنا مہمان بنا لیں ‘ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کیا۔ سفیان نے ( کیفیت بتانے کے لیے ) اس طرح اشارہ کیا جیسے وہ کوئی چیز اوپر کی طرف پھیر رہے ہوں۔ میں نے سفیان سے «مائلا» کا لفظ صرف ایک مرتبہ سنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ تو ایسے تھے کہ ہم ان کے یہاں آئے اور انہوں نے ہماری میزبانی سے بھی انکار کیا۔ پھر ان کی دیوار آپ نے ٹھیک کر دی ‘ اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت ان سے لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس یہاں سے میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہو گئی جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکتے ‘ میں ان کی تاویل و توجیہ اب تم پر واضح کر دوں گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہماری تو خواہش یہ تھی کہ موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ تکوینی واقعات ہمارے لیے بیان کرتا۔ سفیان نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ‘ اگر انہوں نے صبر کیا ہوتا تو ان کے ( مزید واقعات ) ہمیں معلوم ہوتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ( جمہور کی قرآت «ودرائهم» کے بجائے ) «أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» پڑھا ہے۔ اور وہ بچہ ( جس کی خضر علیہ السلام نے جان لی تھی ) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے۔ پھر مجھ سے سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی اور انہیں سے ( سن کر ) یاد کی تھی۔ سفیان نے کسی سے پوچھا تھا کہ کیا یہ حدیث آپ نے عمرو بن دینار سے سننے سے پہلے ہی کسی دوسرے شخص سے سن کر ( جس نے عمرو بن دینار سے سنی ہو ) یاد کی تھی؟ یا ( اس کے بجائے یہ جملہ کہا ) «تحفظته من إنسان» دو مرتبہ ( شک علی بن عبداللہ کو تھا ) تو سفیان نے کہا کہ دوسرے کسی شخص سے سن کر میں یاد کرتا ‘ کیا اس حدیث کو عمرو بن دینار سے میرے سوا کسی اور نے بھی روایت کیا ہے؟ میں نے ان سے یہ حدیث دو یا تین مرتبہ سنی اور انہیں سے سن کر یاد کی۔
hum se 'ali bin 'abd-al-llah madini ne bayan kiya ' kaha hum se sufyan bin 'ayyna ne bayan kiya ' kaha hum se 'amro bin dinar ne bayan kiya ' kaha ke mujhe sa'id bin jubair ne khabar di ' unhon ne kaha ke maine ibn 'abbas radhiyallahu 'anhuma se 'arz kiya ke nuf bakali yeh kehta hai ke musa ' sahib khidr bani isra'il ke musa nahi hain balke woh dusre musa hain. ibn 'abbas radhiyallahu 'anhuma ne kaha ke dushman allah ne bilkul ghalat baat kahi hai. abi bin ka'b radhiyallahu 'anhu ne nabi karim (صلى الله عليه وآله وسلم) se riwayat karte huye hum se bayan kiya ke musa 'alaihis salam bani isra'il ko khare ho kar khatab farma rahe the ke un se pucha gaya kon sa shakhs sab se zyada 'ilm wala hai. unhon ne farmaaya ke main. is par allah ta'ala ne un par 'itab farmaaya kyunke unhon 'ilm ki nisbat allah ta'ala ki taraf nahi ki. allah ta'ala ne un se farmaaya ke kyun nahi mera ek banda hai jahan do darya aa kar milte hain wahan rehta hai aur tum se zyada 'ilm wala hai. unhon ne 'arz kiya: aye rabb-ul-'alamin! main un se kis tarah mil sakun ga? sufyan ne ( apni riwayat mein yeh alfaz ) bayan kiye ke ''aye rabb! «wkayf li bihi» '' allah ta'ala ne farmaaya ke ek machhli pakar kar usse apne thele mein rakh lena ' jahan woh machhli gum ho jaye bas mera banda wahi tum ko milega. ba'z dafa rawi ne ( bajaye «fhu thm» ke ) «fhu thme» kaha. chananchh musa 'alaihis salam ne machhli le li aur usse ek thele mein rakh liya. phir woh aur ek un ke rafiq safar yush'a bin nun rawana huye ' jab yeh chatan par pahunche to sar se tak lagali ' musa 'alaihis salam ko neend aa gayi aur machhli tadap kar nikli aur darya ke andar chali gayi aur usne darya mein apna rasta bana liya. allah ta'ala ne machhli se pani ke baha'o ko rok diya aur woh mihrab ki tarah ho gayi ' unhon ne wazeh kiya ke yuh mihrab ki tarah. phir yeh donon us din aur raat ke baqi hisse mein chalte rahe ' jab dusra din aaya to musa 'alaihis salam ne apne rafiq safar se farmaaya ke ab hamara khana la'o kyunke hum apne safar mein bahut thak gaye hain. musa 'alaihis salam ne us waqt tak koi thakan mahsus nahi ki thi jab tak woh us muqarrar jagah se aage nahin badh gaye jiska allah ta'ala ne unhen hukm diya tha. un ke rafiq ne kaha ke dekhiye to sahi jab chatan par utre the to main machhli ( ke muta'alliq kahna ) aap se bhul gaya aur mujhe us ki yaad se shaitan ne ghafil rakha aur is machhli ne to wahi ( chatan ke qareeb ) darya mein apna rasta 'ajab tor par bana liya tha. machhli ko to rasta mil gaya aur yeh donon hairan the. musa 'alaihis salam ne farmaaya ke yahi woh jagah thi jiska talash mein hum nikle hain. chananchh yeh donon usi raste se pichhe ki taraf wapis huye aur jab us chatan par pahunche to wahan ek buzurg apna sara jism ek kapre mein lipte huye maujood the. musa 'alaihis salam ne unhen salam kiya aur unhon ne jawab diya phir kaha ke tumhare khatte mein salam ka riwaj kahan se aa gaya? musa 'alaihis salam ne farmaaya ke main musa hun. unhon ne pucha ' bani isra'il ke musa? farmaaya ke ji han. main aap ki khidmat mein is liye hajir huwa hun ke aap mujhe woh 'ilm nafi' sikha den jo aap ko sikhaya gaya hai. unhon ne farmaaya: aye musa! mere pass allah ka diya huwa ek 'ilm hai allah ta'ala ne mujhe woh 'ilm sikhaya hai aur aap is ko nahi jante. isi tarah aap ke pass allah ka diya huwa ek 'ilm hai allah ta'ala ne aap ko sikhaya hai aur main isse nahi janta. musa 'alaihis salam ne kaha: kya main aap ke sath reh sakta hun unhon ne kaha ke aap mere sath sabar nahi kar sakenge aur waqai aap in kaamon ke bare mein sabar kar bhi kaise sakte hain jo aap ke 'ilm mein nahi hain. allah ta'ala ke irshad «imra» tak akhir musa aur khidr 'alaihimas salam darya ke kinare kinare chale. phir un ke qareeb se ek kashti guzri. in hazrat ne kaha ke unhen bhi kashti wale kashti par sawar kar len. kashti walon ne khidr 'alaihimas salam ko pehchan liya aur koi mazduri liye bagair un ko sawar kar liya. jab yeh hazrat is par sawar ho gaye to ek chidiya aai aur kashti ke ek kinare baith kar usne pani mein apni chunch ko ek ya do bartaba dala. khidr 'alaihimas salam ne farmaaya: aye musa! mere aur aap ke 'ilm ki wajah se allah ke 'ilm mein itni bhi kami nahi hui jitni is chidiya ke darya mein chunch marne se darya ke pani mein kami hui ho gi. itne mein khidr 'alaihimas salam ne kalahaari uthai aur is kashti mein se ek takhta nikal liya. musa 'alaihis salam ne jo nazar uthai to woh apni kalahaari se takhta nikal chuke the. is par musa 'alaihis salam bol pade ke yeh aap ne kya kiya? jin logon ne hamen bagair kisi ajrat ke sawar kar liya unhen ki kashti par aap ne bari nazar dali aur usse cheir di ke sare kashti wale dub jaen. is mein koi shabha nahi ke aap ne nihayt nagwar kaam kiya. khidr 'alaihimas salam ne farmaaya: kya maine aap se pahle hi nahi kaha tha ke aap mere sath sabar nahi kar sakte. musa 'alaihis salam ne farmaaya ke ( yeh be sabri apne wa'da ko bhul jane ki wajah se hui ' is liye ) aap is cheez ka mujh se muwa'zaha na karen jo main bhul gaya tha aur mere mu'amale mein tangi na farmaen. yeh pehli baat musa 'alaihis salam se bhul kar hui thi phir jab dariya'i safar khatam hua to un ka guzar ek bache ke pass se hua jo dusre bachon ke sath khel raha tha. khidr 'alaihimas salam ne us ka sir pakar kar apne hath se ( dhad se ) juda kar diya. sufyan ne apne hath se ( juda karne ki kiyafat batane ke liye ) ishara kiya jaise woh koi cheez tor rahe hon. is par musa 'alaihis salam ne farmaaya ke aap ne ek jaan ko za'iy kar diya. kisi dusri jaan ke badle mein bhi yeh nahi tha. balashbaha aap ne ek bura kaam kiya. khidr 'alaihimas salam ne farmaaya: kya maine aap se pahle hi nahi kaha tha ke aap mere sath sabar nahi kar sakte. musa 'alaihis salam ne kaha: achha is ke ba'd agar maine aap se koi baat puchi to phir aap mujhe sath na le chaliye ga, baishk aap mere bare mein had 'uzr ko pahunch chuke hain. phir yeh donon aage badhe aur jab ek basti mein pahunche to basti walon se kaha ke woh unhen apna mehmman bana len ' lekin unhon ne inkar kiya. phir us basti mein unhen ek diwar dikhai di jo bas girne hi wali thi. khidr 'alaihimas salam ne apne hath se yuh ishara kiya. sufyan ne ( kiyafat batane ke liye ) is tarah ishara kiya jaise woh koi cheez upar ki taraf phir rahe hon. maine sufyan se «ma'ila» ka lafz sirf ek bartaba suna tha. musa 'alaihis salam ne kaha ke yeh log to aise the ke hum un ke yahan aaye aur unhon ne hamari mehzbani se bhi inkar kiya. phir un ki diwar aap ne thik kar di ' agar aap chahte to is ki ajrat un se le sakte the. khidr 'alaihimas salam ne farmaaya ke bas yahan se mere aur aap ke darmiyan judai ho gayi jin baaton par aap sabar nahi kar sakte ' main un ki tawil o taujih ab tum par wazeh kar dun ga. nabi karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaaya hamari to khwahish yeh thi ke musa 'alaihis salam sabar karte aur allah ta'ala takwini waqay'at hamara liye bayan karta. sufyan ne bayan kiya ke nabi karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaaya: allah ta'ala musa 'alaihis salam par rahm kare ' agar unhon ne sabar kiya hota to un ke ( mazid waqay'at ) hame maloom hote. ibn 'abbas radhiyallahu 'anhuma ne ( jamhoor ki qirat «wdra'ihim» ke bajaye ) «amamhum malik ya'khudh kul safina salih ghasba» parha hai. aur woh baccha ( jis ki khidr 'alaihimas salam ne jaan li thi ) kafir tha aur us ke walidain mumin the. phir mujh se sufyan ne bayan kiya ke maine yeh hadees 'amro bin dinar se do bartaba suni thi aur unhen se ( sun kar ) yaad ki thi. sufyan ne kisi se pucha tha ke kya yeh hadees aap ne 'amro bin dinar se sunne se pahle hi kisi dusre shakhs se sun kar ( jis ne 'amro bin dinar se suni ho ) yaad ki thi? ya ( is ke bajaye yeh jumla kaha ) «tahaffuzte min insan» do bartaba ( shak 'ali bin 'abd-al-llah ko tha ) to sufyan ne kaha ke dusre kisi shakhs se sun kar main yaad karta ' kya is hadees ko 'amro bin dinar se mere siwa kisi aur ne bhi riwayat kiya hai? maine un se yeh hadees do ya teen bartaba suni aur unhen se sun kar yaad ki.