Imran (رضي الله تعالى عنه) narrated that once we were traveling with the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) and we carried on traveling till the last part of the night and then we (halted at a place) and slept (deeply). There is nothing sweeter than sleep for a traveler in the last part of the night. So it was only the heat of the sun that made us to wake up and the first to wake up was so and so, then so and so and then so and so (the narrator Auf said that Abu Raja had told him their names but he had forgotten them) and the fourth person to wake up was Umar bin Al- Khattab (رضي الله تعالى عنه). And whenever the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) used to sleep, nobody would wake him up till he himself used to get up as we did not know what was happening (being revealed) to him in his sleep. So, Umar (رضي الله تعالى عنه) got up and saw the condition of the people, and he was a strict man, so he said, "Allahu Akbar" and raised his voice with Takbir, and kept on saying loudly till the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) got up because of it. When he got up, the people informed him about what had happened to them. He said, "There is no harm (or it will not be harmful). Depart!" So they departed from that place, and after covering some distance the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) stopped and asked for some water to perform the ablution. So he performed the ablution and the call for the prayer was pronounced and he led the people in prayer. After he finished from the prayer, he saw a man sitting aloof who had not prayed with the people. He asked, "O so and so! What has prevented you from praying with us?" He replied, "I am Junub and there is no water. " The Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) said, "Perform Tayammum with (clean) earth and that is sufficient for you." Then the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) proceeded on and the people complained to him of thirst. Thereupon he got down and called a person (the narrator Auf added that Abu Raja had named him but he had forgotten) and Ali ( رضي الله تعالى عنه), and ordered them to go and bring water. So they went in search of water and met a woman who was sitting on her camel between two bags of water. They asked, "Where can we find water?" She replied, "I was there (at the place of water) this hour yesterday and my people are behind me." They requested her to accompany them. She asked, "Where?" They said, "To Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) ." She said, "Do you mean the man who is called the Sabi, (with a new religion)?" They replied, "Yes, the same person. So come along." They brought her to the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) and narrated the whole story. He said, "Help her to dismount." The Prophet ( صلى الله عليه وآله وسلم) asked for a pot, then he opened the mouths of the bags and poured some water into the pot. Then he closed the big openings of the bags and opened the small ones and the people were called upon to drink and water their animals. So they all watered their animals and they (too) all quenched their thirst and also gave water to others and last of all the Prophet (صلى هللا عليه و آله وسلم) gave a pot full of water to the person who was Junub and told him to pour it over his body. The woman was standing and watching all that which they were doing with her water. By Allah ( ه وَجَلهعَز), when her water bags were returned they looked like as if they were more full (of water) than they had been before (Miracle of Allah's Apostle ﷺ). Then the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) ordered us to collect something for her; so dates, flour and Sawiq were collected which amounted to a good meal that was put in a piece of cloth. She was helped to ride on her camel and that cloth full of foodstuff was also placed in front of her and then the Prophet ( صلى الله عليه وآله وسلم) said to her, "We have not taken your water but Allah ( ه وَجَلهعَز) has given water to us." She returned home late. Her relatives asked her: "O so and so what has delayed you?" She said, "A strange thing! Two men met me and took me to the man who is called the Sabi' and he did such and such a thing. By Allah, he is either the greatest magician between this and this (gesturing with her index and middle fingers raising them towards the sky indicating the heaven and the earth) or he is Allah's true Apostle." Afterwards the Muslims used to attack the pagans around her abode but never touched her village. One day she said to her people, "I think that these people leave you purposely. Have you got any inclination to Islam?" They obeyed her and all of them embraced Islam. Abu Abdullah said: The word Saba'a means "The one who has deserted his old religion and embraced a new religion." Abu al-Ailya said, "The Sabis are a sect of people of the Scripture who recite the Book of Psalms."
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم ﷺ آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خودبخود بیدار ہوں۔ کیونکہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح باآواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم ﷺ ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ ﷺ سے شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ ﷺ تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ ﷺ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ ﷺ کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ ﷺ ٹھہر گئے اور فلاں ( یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما ) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی ( یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں ) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، یہ وہی ہیں، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو نبی کریم ﷺ کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو بھی پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا ( اور سب سیر ہو گئے ) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور اللہ کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے ( کھانے کی چیز ) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور ( عجوہ ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، اللہ کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا کہ «صبا» کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورۃ یوسف میں جو «اصب» کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی «امل» کے ہیں۔
Hum se Musaddad ne bayan kiya ke hum se Yahiya bin Saeed ne kaha ke hum se Aouf ne kaha ke hum se Aburja ne Imran ke hawala se, unhon ne kaha ke hum Nabi Karim صلى الله عليه وسلم ke sath ek safar mein the ke hum raat bhar chalte rahe aur jab raat ka aakhiri hissa aaya to hum ne padav dala aur musafir ke liye us waqt ke padav se ziyada marghub aur koi cheez nahin hoti ( phir hum is tarah ghafil ho kar so gaye ) ke humein sooraj ki garmi ke siwa koi cheez bedar nah kar saki. Sab se pehle bedar hone wala shakhs flan tha. Phir flan phir flan. Aburja ne sab ke naam liye lekin Aouf ko ye naam yaad nahin rahe. Phir chauthe number par jaagne wale Umar bin Khattab رضی الله عنه the aur jab Nabi Karim صلى الله عليه وسلم aaram farmate to hum aap ko jagate nahin the. Yahin tak ke aap khud bakhud bedar hon. Kyunki humein kuchh maloom nahin hota ke aap per khwab mein kya taza wahi aati hai. Jab Umar رضی الله عنه jaag gaye aur ye aamada aafat dekhi aur woh ek nidar dil wale aadmi the. Pas zor zor se takbir kahne lage. Isi tarah ba awaz buland, aap us waqt tak takbir kahte rahe jab tak ke Nabi Karim صلى الله عليه وسلم un ki awaz se bedar nah ho gaye. To logoon ne pesh aamada musibat ke mutalliq aap صلى الله عليه وسلم se shikayat ki. Is per aap صلى الله عليه وسلم ne farmaya ke koi harj nahin. Safar shuru karo. Phir aap صلى الله عليه وسلم thodi dur chale, is ke baad aap صلى الله عليه وسلم thakher gaye aur wazu ka pani talab farmaye aur wazu kiya aur azan kahi gayi. Phir aap صلى الله عليه وسلم ne logoon ke sath namaz padhi. Jab aap صلى الله عليه وسلم namaz padhane se farigh hue to ek shakhs per aap صلى الله عليه وسلم ki nazar padi jo alag kinare per khada hua tha aur us ne logoon ke sath namaz nahin padhi thi. Aap صلى الله عليه وسلم ne us se farmaya ke ae flan! Tumhen logoon ke sath namaz mein sharek hone se kaun si cheez ne roka. Us ne jawab diya ke mujhe ghusl ki hajat ho gayi aur pani maujud nahin hai. Aap صلى الله عليه وسلم ne farmaya ke pak mitti se kaam nikal lo. Yehi tujhe kafi hai. Phir Nabi Karim صلى الله عليه وسلم ne safar shuru kiya to logoon ne piyas ki shikayat ki. Aap صلى الله عليه وسلم thakher gaye aur flan ( yani Imran bin Hisaan رضی الله عنهما ) ko bulaya. Aburja ne un ka naam liya tha lekin Aouf ko yaad nahin raha aur Ali رضی الله عنه ko bhi talab farmaye. In dono se aap صلى الله عليه وسلم ne farmaya ke jao pani talash karo. Ye dono nikle. Raste mein ek aurat mili jo pani ki do pakhalain apne ont per latkae hue beech mein sawar ho kar ja rahi thi. Unhon ne us se poochha ke pani kahan milta hai? To us ne jawab diya ke kal isi waqt mein pani per maujud thi ( yani pani itni door hai ke kal mein isi waqt wahan se pani le kar chali thi aaj yahin pahunchi hon ) aur hamare qabila ke mard log peechhe reh gaye. Unhon ne us se kaha. Acha hamare sath chalo. Us ne poochha, kahan chalon? Unhon ne kaha Rasool Allah صلى الله عليه وسلم ki khidmat mein. Us ne kaha, acha wahi jin ko log Saabi kahte hain. Unhon ne kaha, ye wahi hain, jise tum kah rahi ho. Acha ab chalo. Aakhir ye dono hazrat is aurat ko Nabi Karim صلى الله عليه وسلم ki khidmat mubarak mein laye. Aur sara waqia bayan kiya. Imran ne kaha ke logoon ne use ont se utar liya. Phir Nabi Karim صلى الله عليه وسلم ne ek bartan talab farmaye. Aur dono pakhalon ya mishkizon ke munh is bartan mein khol diye. Phir un ka upar ka munh band kar diya. Is ke baad neeche ka munh khol diya aur tamam lashkariyon mein munadi kar di gayi ke khud bhi sair ho kar pani peen aur apne tamam jaanwaron waghera ko bhi pila lein. Pas jis ne chaha pani piya aur pilaaya ( aur sab sair ho gaye ) aakhir mein us shakhs ko bhi ek bartan mein pani diya jise ghusl ki zarurat thi. Aap صلى الله عليه وسلم ne farmaya, le ja aur ghusl kar le. Woh aurat khadi dekh rahi thi ke is ke pani se kya kya kaam liye ja rahe hain aur Allah ki qasam! Jab pani liya jaana in se band hua, to hum dekh rahe the ke ab mishkizon mein pani pehle se bhi ziyada maujud tha. Phir Nabi Karim صلى الله عليه وسلم ne farmaya ke kuchh is ke liye ( khane ki cheez ) jama karo. Logoon ne is ke liye umda qism ki khajoor ( ajwa ) atta aur satoo ikattha kiya. Yahin tak ke bahut sara khana is ke liye jama ho gaya. To use logoon ne ek kapde mein rakha aur aurat ko ont per sawar kar ke is ke samne woh kapda rakh diya. Rasool Allah صلى الله عليه وسلم ne us se farmaya ke tumhen maloom hai ke hum ne tumhare pani mein koi kami nahin ki. Lekin Allah Ta'ala ne humein sirab kar diya. Phir woh apne ghar aayi, der kafi ho chuki thi is liye ghar walon ne poochha ke ae flani! Kyon itni der hui? Us ne kaha, ek ajib baat hui woh ye ke mujhe do aadmi mile aur woh mujhe us shakhs ke pass le gaye jise log Saabi kahte hain. Wahan is tarah ka waqia pesh aaya, Allah ki qasam! Woh to is ke aur is ke darmiyan sab se bada jadugar hai aur us ne beech ki angli aur shahadat ki angli aasman ki taraf uthakar ishara kiya. Is ki mraad aasman aur zameen se thi. Ya phir woh waqai Allah ka Rasool hai. Is ke baad musalman is qabila ke door o nazdeek ke mushrikon per hamle kiya karte the. Lekin is gharane ko jis se is aurat ka taluq tha koi nuqsan nahin pahunchate the. Ye acha bartao dekh kar ek din is aurat ne apni qoum se kaha ke mera khyal hai ke ye log tumhen jaan boojh kar chhod dete hain. To kya tumhen Islam ki taraf kuchh raghbat hai? Qoum ne aurat ki baat man li aur Islam le aayi. Abuabdullah ( Imam Bukhari رحمہ اللہ ) ne farmaya ke «Saaba» ke maani hain apna deen chhod kar doosre ke deen mein chala gaya aur Abul'Aliya ne kaha hai ke Saabi'in ahl kitab ka ek firqa hai jo zabur padhte hain aur Surah Yusuf mein jo «Asib» ka lafz hai wahan bhi is ke maani «Amal» ke hain.
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، عَنْ عِمْرَانَ ، قَالَ : كُنَّا فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَإِنَّا أَسْرَيْنَا حَتَّى كُنَّا فِي آخِرِ اللَّيْلِ ، وَقَعْنَا وَقْعَةً وَلَا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا ، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ فُلَانٌ ، ثُمَّ فُلَانٌ ، ثُمَّ فُلَانٌ يُسَمِّيهِمْ أَبُو رَجَاءٍ فَنَسِيَ عَوْفٌ ، ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ الرَّابِعُ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا نَامَ لَمْ يُوقَظْ حَتَّى يَكُونَ هُوَ يَسْتَيْقِظُ ، لِأَنَّا لَا نَدْرِي مَا يَحْدُثُ لَهُ فِي نَوْمِهِ ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ ، وَكَانَ رَجُلًا جَلِيدًا ، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ ، فَمَا زَالَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ لِصَوْتِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ ، قَالَ : لَا ضَيْرَ أَوْ لَا يَضِيرُ ، ارْتَحِلُوا ، فَارْتَحَلَ ، فَسَارَ غَيْرَ بَعِيدٍ ، ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِالْوَضُوءِ فَتَوَضَّأَ وَنُودِيَ بِالصَّلَاةِ ، فَصَلَّى بِالنَّاس ، فَلَمَّا انْفَتَلَ مِنْ صَلَاتِهِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ مُعْتَزِلٍ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ ، قَالَ : مَا مَنَعَكَ يَا فُلَانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ ؟ قَالَ : أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ ، قَالَ : عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ ، ثُمَّ سَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ مِنَ الْعَطَشِ ، فَنَزَلَ فَدَعَا فُلَانًا كَانَ يُسَمِّيهِ أَبُو رَجَاءٍ نَسِيَهُ عَوْفٌ وَدَعَا عَلِيًّا ، فَقَالَ : اذْهَبَا فَابْتَغِيَا الْمَاءَ ، فَانْطَلَقَا ، فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ مِنْ مَاءٍ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا ، فَقَالَا لَهَا : أَيْنَ الْمَاءُ ؟ قَالَتْ : عَهْدِي بِالْمَاءِ أَمْسِ هَذِهِ السَّاعَةَ ، وَنَفَرُنَا خُلُوفًا ، قَالَا لَهَا : انْطَلِقِي ، إِذًا قَالَتْ : إِلَى أَيْنَ ؟ قَالَا : إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ : الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ ، قَالَا : هُوَ الَّذِي تَعْنِينَ ، فَانْطَلِقِي فَجَاءَا بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَدَّثَاهُ الْحَدِيثَ ، قَالَ : فَاسْتَنْزَلُوهَا عَنْ بَعِيرِهَا ، وَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِنَاءٍ فَفَرَّغَ فِيهِ مِنْ أَفْوَاهِ الْمَزَادَتَيْنِ أَوْ سَطِيحَتَيْنِ ، وَأَوْكَأَ أَفْوَاهَهُمَا وَأَطْلَقَ الْعَزَالِيَ وَنُودِيَ فِي النَّاسِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا ، فَسَقَى مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ ، وَكَانَ آخِرَ ذَاكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ ، قَالَ : اذْهَبْ فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ ، وَهِيَ قَائِمَةٌ تَنْظُرُ إِلَى مَا يُفْعَلُ بِمَائِهَا ، وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ أُقْلِعَ عَنْهَا ، وَإِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْنَا أَنَّهَا أَشَدُّ مِلْأَةً مِنْهَا حِينَ ابْتَدَأَ فِيهَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اجْمَعُوا لَهَا ، فَجَمَعُوا لَهَا مِنْ بَيْنِ عَجْوَةٍ وَدَقِيقَةٍ وَسَوِيقَةٍ حَتَّى جَمَعُوا لَهَا طَعَامًا ، فَجَعَلُوهَا فِي ثَوْبٍ وَحَمَلُوهَا عَلَى بَعِيرِهَا وَوَضَعُوا الثَّوْبَ بَيْنَ يَدَيْهَا ، قَالَ لَهَا : تَعْلَمِينَ مَا رَزِئْنَا مِنْ مَائِكِ شَيْئًا ، وَلَكِنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَسْقَانَا ، فَأَتَتْ أَهْلَهَا وَقَدِ احْتَبَسَتْ عَنْهُمْ ، قَالُوا : مَا حَبَسَكِ يَا فُلَانَةُ ؟ قَالَتْ : الْعَجَبُ ، لَقِيَنِي رَجُلَانِ فَذَهَبَا بِي إِلَى هَذَا الَّذِي يُقَالُ لَهُ الصَّابِئُ فَفَعَلَ كَذَا وَكَذَا ، فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَأَسْحَرُ النَّاسِ مِنْ بَيْنِ هَذِهِ وَهَذِهِ ، وَقَالَتْ بِإِصْبَعَيْهَا الْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ : فَرَفَعَتْهُمَا إِلَى السَّمَاءِ تَعْنِي السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ أَوْ إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ حَقًّا ، فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ ذَلِكَ يُغِيرُونَ عَلَى مَنْ حَوْلَهَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَلَا يُصِيبُونَ الصِّرْمَ الَّذِي هِيَ مِنْهُ ، فَقَالَتْ يَوْمًا لِقَوْمِهَا : مَا أُرَى أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ يَدْعُونَكُمْ عَمْدًا ، فَهَلْ لَكُمْ فِي الْإِسْلَامِ ؟ فَأَطَاعُوهَا ، فَدَخَلُوا فِي الْإِسْلَامِ .