61.
Virtues and Merits of the Prophet (pbuh) and his Companions
٦١-
كتاب المناقب
11
Chapter: The story of Zamzam
١١
باب قِصَّةِ زَمْزَمَ
Sahih al-Bukhari 3522
Narrated Abu Jamra: Ibn `Abbas said to us, Shall I tell you the story of Abu Dhar's conversion to Islam? We said, Yes. He said, Abu Dhar said: I was a man from the tribe of Ghifar. We heard that a man had appeared in Mecca, claiming to be a Prophet. ! said to my brother, 'Go to that man and talk to him and bring me his news.' He set out, met him and returned. I asked him, 'What is the news with you?' He said, 'By Allah, I saw a man enjoining what is good and forbidding what is evil.' I said to him, 'You have not satisfied me with this little information.' So, I took a waterskin and a stick and proceeded towards Mecca. Neither did I know him (i.e. the Prophet ), nor did I like to ask anyone about him. I Kept on drinking Zam zam water and staying in the Mosque. Then `Ali passed by me and said, 'It seems you are a stranger?' I said, 'Yes.' He proceeded to his house and I accompanied him. Neither did he ask me anything, nor did I tell him anything. Next morning I went to the Mosque to ask about the Prophet but no-one told me anything about him. `Ali passed by me again and asked, 'Hasn't the man recognized his dwelling place yet' I said, 'No.' He said, 'Come along with me.' He asked me, 'What is your business? What has brought you to this town?' I said to him, 'If you keep my secret, I will tell you.' He said, 'I will do,' I said to him, 'We have heard that a person has appeared here, claiming to be a Prophet. I sent my brother to speak to him and when he returned, he did not bring a satisfactory report; so I thought of meeting him personally.' `Ali said (to Abu Dhar), 'You have reached your goal; I am going to him just now, so follow me, and wherever I enter, enter after me. If I should see someone who may cause you trouble, I will stand near a wall pretending to mend my shoes (as a warning), and you should go away then.' `Ali proceeded and I accompanied him till he entered a place, and I entered with him to the Prophet to whom I said, 'Present (the principles of) Islam to me.' When he did, I embraced Islam 'immediately. He said to me, 'O Abu Dhar! Keep your conversion as a secret and return to your town; and when you hear of our victory, return to us. ' I said, 'By H him Who has sent you with the Truth, I will announce my conversion to Islam publicly amongst them (i.e. the infidels),' Abu Dhar went to the Mosque, where some people from Quraish were present, and said, 'O folk of Quraish ! I testify that None has the right to be worshipped except Allah, and I (also) testify that Muhammad is Allah's Slave and His Apostle.' (Hearing that) the Quraishi men said, 'Get at this Sabi (i.e. Muslim) !' They got up and beat me nearly to death. Al `Abbas saw me and threw himself over me to protect me. He then faced them and said, 'Woe to you! You want to kill a man from the tribe of Ghifar, although your trade and your communications are through the territory of Ghifar?' They therefore left me. The next morning I returned (to the Mosque) and said the same as I have said on the previous day. They again said, 'Get at this Sabi!' I was treated in the same way as on the previous day, and again Al-Abbas found me and threw himself over me to protect me and told them the same as he had said the day before.' So, that was the conversion of Abu Dhar (may Allah be Merciful to him) to Islam.
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم سے زید نے جو اخزم کے بیٹے ہیں، بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ نے بیان کیا، ان سے مثنیٰ بن سعید قصیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے بارے معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے، میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر آنحضرت ﷺ کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی۔ آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے۔ مسجدالحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم ﷺ کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا آپ میرے گھر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجدالحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم ﷺ کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتادوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے انہیں اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں ( راستے میں ) کوئی ایسی بات دیکھوں جس سے مجھے تمہارے بارے میں کوئی خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا ( کسی دیوار کے قریب ) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے۔ اس وقت تم میرا انتظار مت کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے، آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا: اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاو تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے ( تو پھر ہمارے پاس آ جانا ) ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کے یہاں سے واپس وہ مسجدالحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں“ یہ سنتے ہی ان پر سارا مجمع ٹوٹ پڑا اور سب نے انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے انہوں نے کہا افسوس! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے، اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجدالحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگے۔ اس دن بھی عباس ان پر اوندھے پڑ گئے۔ کیا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ تمہیں سناؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور سنائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا۔ میرا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ ہمارے یہاں یہ خبر پہنچی تھی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں ( پہلے تو ) میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس شخص کے پاس مکہ جا، اس سے گفتگو کر اور پھر اس کے سارے حالات آ کر مجھے بتا۔ چنانچہ میرے بھائی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور آنحضرت ﷺ سے ملاقات کی اور واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا، اللہ کی قسم! میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھے کاموں کے لیے کہتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہاری باتوں سے تو میری تشفی نہیں ہوئی۔ اب میں نے توشے کا تھیلا اور چھڑی اٹھائی اور مکہ آ گیا۔ وہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا اور آپ کے متعلق کسی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں ( صرف ) زمزم کا پانی پی لیا کرتا تھا، اور مسجدالحرام میں ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شہر میں مسافر ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ بیان کیا کہ تو پھر میرے گھر چلو۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے۔ بیان کیا کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ گیا۔ نہ انہوں نے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے کچھ کہا۔ صبح ہوئی تو میں پھر مسجدالحرام میں آ گیا تاکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کسی سے پوچھوں لیکن آپ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے کہ کیا ابھی تک آپ اپنے ٹھکانے کو نہیں پا سکے ہیں؟ بیان کیا، میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پھر میرے ساتھ آئیے، انہوں نے بیان کیا کہ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ آپ کا مطلب کیا ہے۔ آپ اس شہر میں کیوں آئے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: آپ اگر ظاہر نہ کریں تو میں آپ کو اپنے معاملے کے بارے میں بتاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ تب میں نے ان سے کہا۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی شخص پیدا ہوئے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے پہلے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے مجھے کوئی تشفی بخش اطلاعات نہیں دیں۔ اس لیے میں اس ارادہ سے آیا ہوں کہ ان سے خود ملاقات کروں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے اچھا راستہ پایا کہ مجھ سے مل گئے۔ میں انہیں کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ جہاں میں داخل ہوں آپ بھی داخل ہو جائیں۔ اگر میں کسی ایسے آدمی کو دیکھوں گا جس سے آپ کے بارے میں مجھے خطرہ ہو گا تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا، گویا کہ میں اپنا جوتا ٹھیک کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ آگے بڑھ جائیں چنانچہ وہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور آخر میں وہ ایک مکان کے اندر گئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اندر داخل ہو گیا۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و ارکان مجھے سمجھا دیجئیے۔ آپ نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور میں مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے ابوذر! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر کو چلے جانا۔ پھر جب تمہیں ہمارے غلبہ کا حال معلوم ہو جائے تب یہاں دوبارہ آنا۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں تو ان سب کے سامنے اسلام کے کلمہ کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہ مسجدالحرام میں آئے۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے اور کہا، اے قریش کی جماعت! ( سنو ) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ( ﷺ ) قریشیوں نے کہا کہ اس بددین کی خبر لو۔ چنانچہ وہ میری طرف لپکے اور مجھے اتنا مارا کہ میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے چھپا لیا اور قریشیوں کی طرف متوجہ ہو کر انہوں کہا۔ ارے نادانو! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو۔ غفار سے تو تمہاری تجارت بھی ہے اور تمہارے قافلے بھی اس طرف سے گزرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب دوسری صبح ہوئی تو پھر میں مسجدالحرام میں آیا اور جو کچھ میں نے کل پکارا تھا اسی کو پھر دہرایا۔ قریشیوں نے پھر کہا: پکڑو اس بددین کو۔ جو کچھ انہوں نے میرے ساتھ کل کیا تھا وہی آج بھی کیا۔ اتفاق سے پھر عباس بن عبدالمطلب آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے انہوں نے چھپا لیا اور جیسا ا نہوں نے قریشیوں سے کل کہا تھا ویسا ہی آج بھی کہا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتداء اس طرح سے ہوئی تھی۔
mujh se 'amro bin 'abbas ne bayan kiya, kaha hum se 'abd-ur-rahman bin mahdi ne, kaha hum se muthana ne, un se abu-jamra ne aur un se ibn 'abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne bayan kiya ke ham se zayd ne jo akhzam ke bete hain, bayan kiya, kaha hum se abu-qateeba salim bin qateeba ne bayan kiya, un se muthana bin sae'd qaseer ne bayan kiya, kaha ke mujh se abu-jamra ne bayan kiya, kaha ke hum se 'abd-ullah bin 'abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne kaha ke jab abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ko rasool-ullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki nubuwwat ke baare maloom huwa to unhon ne apne bhai anis se kaha makka jane ke liye sawari tayyar kar aur is shakhs ke mutallik jo nabi hone ka mud'i hai aur kehta hai ke uske paas asman se khabar ati hai, mere liye khabarain hasil kar ke la. is ki baton ko khud ghor se sunna aur phir mere paas ana. un ke bhai wahan se chale aur makka haazir ho kar anhuzur (صلى الله عليه وآله وسلم) ki baatain khud sunin phir wapas ho kar unhon ne abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ko bataya ke main ne unhein khud dekha hai, woh ache akhlaq ka logon ko hukm karte hain aur main ne un se jo kalam suna woh sha'ir nahi hai. is par abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha jis maqsad ke liye main ne tumhein bheja tha mujhe is par puri tarah tashfi nahi hui. akhir unhon ne khud toshha bandha, pani se bhara huwa ek purana mishqizah sath liya aur makka aaye. masjid-ul-haram mein hazri di aur yahan nabi kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ko talash kiya. abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) anhuzur (صلى الله عليه وآله وسلم) ko pehchanty nahi the aur kisi se aap ke mutallik poochhna bhi munasib nahi samjha, kuchh raat guzri ke woh late hue the, hazrat 'ali (رضي الله تعالى عنه) ne un ko is halat mein dekha aur samjh gaye ke koi musafir hai. 'ali (رضي الله تعالى عنه) ne un se kaha aap mere ghar chal kar aaram kijye. abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) un ke pichhe pichhe chale gaye lekin kisi ne ek doosre ke baare mein baat nahi ki. jab subah hui to abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ne apna mishqizah aur toshha uthaya aur masjid-ul-haram mein aa gaye. yeh din bhi yunhi guzar gaya aur woh nabi kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ko nah dekh sake. sham hui to sone ki tayyari karne lage. 'ali (رضي الله تعالى عنه) phir wahan se guzre aur samjh gaye ke abhi apne thakaney jaaney ka waqt is shakhs par nahi aaya, woh unhein wahan se phir apne sath le aaye aur aaj bhi kisi ne ek doosre se baat chit nahi ki, teesra din jab hua aur 'ali (رضي الله تعالى عنه) ne un ke sath yehi kaam kiya aur apne sath le gaye to un se poochha kya tum mujhe bata sakte ho ke yahan aane ka ba'is kya hai? abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha ke agar tum mujh se pakhta wa'da kar lo ke meri raah numayi karoge to main tum ko sab kuchh bata dunga. 'ali (رضي الله تعالى عنه) ne wa'da kar liya to unhon ne unhein apne khiyalaat ki khabar di. 'ali (رضي الله تعالى عنه) ne farmaaya ke bilashuba woh haq par hain aur allah ke sacche rasool hain acha subah ko tum mere pichhe pichhe mere sath chalna. agar main ( raste mein ) koi aisi baat dekhun jis se mujhe tumhare baare mein koi khatra ho to main khada ho jaon ga ( kisi deewar ke qareeb ) goya mujhe peshab karna hai. is waqt tum mera intezaar mat karna aur jab main phir chalne lagoon to mere pichhe aa jana takay koi samjh nah sake ke yeh dono sath hain aur is tarah jis ghar mein, main daakhil hoon tum bhi daakhil ho jana. unhon ne aisa hi kiya aur pichhe pichhe chale ta-an ki 'ali (رضي الله تعالى عنه) ke sath woh nabi kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein pahunch gaye, aap ki baatain sunin aur wahan islam le aaye. phir anhuzur (صلى الله عليه وآله وسلم) ne un se farmaaya: ab apni qoum ghaffar mein wapas jao aur unhein mera haal batao ta-an ki jab hamare ghalba ka ilm tum ko ho jaaye ( to phir hamare paas aa jana ) abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ne arz kiya is zat ki qasam! jis ke hath mein meri jaan hai, main in qurayshiyon ke majma mein pakaar kar kalama tauheed ka i'laan karonga. chananchh anhuzur (صلى الله عليه وآله وسلم) ke yahan se wapas woh masjid-ul-haram mein aaye aur buland aawaz se kaha ke ”main gawahi deta hoon ke allah ke siwa koi ma'bud nahi aur yeh ke muhammad allah ke rasool hain“ yeh sunte hi un par sara majma toot pada aur sab ne unhein itna mara ke zamin par lata diya. itne mein 'abbas (رضي الله تعالى عنه) aa gaye aur abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ke upar apne ko daal kar qareesh se unhon ne kaha afsos! kya tumhein maloom nahi ke yeh shakhs qabile ghaffar se hai aur shaam jane wale tumhare tajiron ka rasta udhar hi se padta hai, is tarah se un se un ko bachaya. phir abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) doosre din masjid-ul-haram mein aaye aur apne islam ka izhaar kiya. qoum phir bari tarah un par toot padi aur marne lage. is din bhi 'abbas un par oundhe pad gaye. kya main abu-dhar (رضي الله تعالى عنه) ke islam ka waqia tumhein sunaoon? hum ne arz kiya zarur suna'iye.unhon ne bayan kiya ke abuzar (رضي الله تعالى عنه) ne btlaya. mera taluq qabila ghafar se tha. hamare yaha ye khabar pahuchi thi ke makka mein ek shakhs paida hue hain jin ka dawa hai ke woh nabi hain ( pahle to ) mein ne apne bhai se kaha ke is shakhs ke pas makka ja, us se guftgu kar aur phir us ke sare halat aa kar mujhe bta. chananche mere bhai khidmat nabovi mein hazir hue aur anhazrat sallaallahu alaihi wasallam se mulaqat ki aur vapas aa gae. mein ne pucha ke kya khabar laye? unhon ne kaha, allah ki qasam! mein ne aise shakhs ko dekha hai jo ache kamon ke liye kehta hai aur bure kamon se mana karta hai. mein ne kaha ke tumhari baton se to meri tashfi nahi hui. ab mein ne tushe ka thela aur chhari uthai aur makka aa gaya. wahan mein kisi ko pehchnta nahi tha aur aap ke mutaliq kisi se puchhte hue bhi dar lagta tha. mein ( sirf ) zamzam ka pani pi liya karta tha, aur masjid al haram mein thahra hua tha. unhon ne bayan kiya ke ek martaba ali (رضي الله تعالى عنه) mere samne se guzare aur bole maalum hota hai ke aap is shahar mein musafir hain. unhon ne bayan kiya ke mein ne kaha: ji han. bayan kiya ke to phir mere ghar chalo. phir woh mujhe apne ghar sath le gae. bayan kiya ke mein aap ke sath sath gaya. nah inhon ne koi baat puchi aur nah mein ne kuchh kaha. subah hui to mein phir masjid al haram mein aa gaya takay anhazrat sallaallahu alaihi wasallam ke bare mein kisi se puchun lekin aap ke bare mein koi batane wala nahi tha. bayan kiya ke phir hazrat ali (رضي الله تعالى عنه) mere samne se guzare aur bole ke kya abhi tak aap apne thakane ko nahi pa sake hain? bayan kiya, mein ne kaha ke nahi. unhon ne kaha ke acha phir mere sath aaiye, unhon ne bayan kiya ke phir hazrat ali (رضي الله تعالى عنه) ne pucha. aap ka matlab kya hai. aap is shahar mein kyun aye? unhon ne bayan kiya ke mein ne kaha: aap agar zahir nah karen to mein aap ko apne mamle ke bare mein bataun. unhon ne kaha ke mein aisa hi karun ga. tab mein ne un se kaha. humein maalum hua hai ke yaha koi shakhs paida hue hain jo nuboot ka dawa karte hain. mein ne pahle apne bhai ko un se baat karne ke liye bheja tha. lekin jab woh vapas hue to unhon ne mujhe koi tashfi bakhsh itlaaat nahi di. is liye mein is irade se aya hun ke un se khud mulaqat karun. ali (رضي الله تعالى عنه) ne kaha ke aap ne acha rasta paya ke mujh se mil gae. mein unhen ke pas ja raha hun. aap mere pichhe pichhe chalain. jahan mein dakhil hun aap bhi dakhil ho jain. agar mein kisi aise aadmi ko dekhun ga jis se aap ke bare mein mujhe khatra ho ga to mein kisi diwar ke pas khara ho jaun ga, goya ke mein apna jutta theek kar raha hun. is waqt aap aage badh jain chananche woh chale aur mein bhi un ke pichhe ho liya aur aakhir mein woh ek makan ke andar gae aur mein bhi un ke sath nabi kareem sallaallahu alaihi wasallam ki khidmat mein andar dakhil ho gaya. mein ne anhazrat sallaallahu alaihi wasallam se arz kiya ke islam ke usool o arkaan mujhe samjha dijiye. aap ne mere samne in ki vazah farmayi aur mein musalman ho gaya. phir aap ne farmaya: aey abuzar! is mamle ko abhi poshida rakhna aur apne shahar ko chale jana. phir jab tumhein hamare ghalba ka hal maalum ho jaye tab yaha dobara ana. mein ne arz kiya is zat ki qasam jis ne aap ko haq ke sath mabuus kiya hai mein to in sab ke samne islam ke kalama ka elaan karun ga. chananche woh masjid al haram mein aye. qareesh ke log wahan maujud the aur kaha, aey qareesh ki jamaat! ( suno ) mein gawah dehta hun ke allah ke siwa koi maabud nahi aur mein gawah dehta hun ke muhammad us ke bande aur us ke rasool hain. ( sallaallahu alaihi wasallam ) qareeshiyon ne kaha ke is baddeen ki khabar lo. chananche woh meri taraf lipke aur mujhe itna mara ke mein marne ke qareeb ho gaya. itne mein hazrat abbas (رضي الله تعالى عنه) aa gae aur mujh per gir kar mujhe apne jism se chhupa liya aur qareeshiyon ki taraf mutwaajih ho kar unhon kaha. are nadano! qabila ghafar ke aadmi ko qatl karte ho. ghafar se to tumhari tijarat bhi hai aur tumhare qafle bhi is taraf se guzarte hain. is par unhon ne mujhe chhod diya. phir jab dusri subah hui to phir mein masjid al haram mein aya aur jo kuchh mein ne kal pukara tha usi ko phir dohraaya. qareeshiyon ne phir kaha: pakro is baddeen ko. jo kuchh unhon ne mere sath kal kiya tha wahi aaj bhi kiya. ittefaq se phir abbas bin abdulmuttalib aa gae aur mujh per gir kar mujhe apne jism se unhon ne chhupa liya aur jaisa unhon ne qareeshiyon se kal kaha tha waisa hi aaj bhi kaha. abdullah bin abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne kaha ke hazrat abuzar (رضي الله تعالى عنه) ke islam kabul karne ki ibtada is tarah se hui thi.
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ , وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي , فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ ، فَقَالَ لَهُ : رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ ، فَقَالَ : مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ , فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ , فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ , فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ , ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى , فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ ، فَقَالَ : أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ , فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ , فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ ، ثُمَّ قَالَ : أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ ، قَالَ : إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ , فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ ، قَالَ : فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي , فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ , فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي , فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ , فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ , ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ , وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ ، قَالَ : وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ , فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا , فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ .