Yahya related to me from Malik from Humayd ibn Qays al-Makki from Tawus al Yamani that from thirty cows, Muadh ibn Jabal took one cow in its second year, and from forty cows, one cow in its third or fourth year, and when less than that (i.e. thirty cows) was brought to him he refused to take anything from it. He said, "I have not heard anything about it from the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace. When I meet him, I will ask him." But the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, died before Muadh ibn Jabal returned.Yahya said that Malik said, "The best that I have heard about some one who has sheep or goats with two or more shepherds in different places is that they are added together and the owner then pays the zakat on them. This is the same situation as a man who has gold and silver scattered in the hands of various people. He must add it all u p and pay whatever zakat there is to pay on the sum total."Yahya said that Malik said, about a man who had both sheep and goats, that they were added up together for the zakat to be assessed, and if between them they came to a number on which zakat was due, he paid zakat on them. Malik added, "They are all considered as sheep, and in Umar ibn al-Khattab's book it says, 'On grazing sheep and goats, if they come to forty or more, one ewe.' "Malik said, "If there are more sheep than goats and their owner only has to pay one ewe, the zakat collector takes the ewe from the sheep. If there are more goats than sheep, he takes it from the goats. If there is an equal number of sheep and goats, he takes the ewe from whichever kind he wishes."Yahya said that Malik said, "Similarly, Arabian camels and Bactrian camels are added up together in order to assess the zakat that the owner has to pay. They are all considered as camels. If there are more Arabian camels than Bactrians and the owner only has to pay one camel, the zakat collector takes it from the Arabian ones. If, however, there are more Bactrian camels he takes it from those. If there is an equal number of both, he takes the camel from whichever kind he wishes."Malik said, "Similarly, cows and water buffaloes are added up together and are all considered as cattle. If there are more cows than water buffalo and the owner only has to pay one cow, the zakat collector takes it from the cows. If there are more water buffalo, he takes it from them. If there is an equal number of both, he takes the cow from whichever kind he wishes. So if zakat is necessary, it is assessed taking both kinds as one group."Yahya said that Malik said, "No zakat is due from anyone who comes into possession of livestock, whether camels or cattle or sheep and goats, until a year has elapsed over them from the day he acquired them, unless he already had in his possession a nisab of livestock. (The nisab is the minimum amount on which zakat has to be paid, either five head of camels, or thirty cattle, or forty sheep and goats). If he already had five head of camels, or thirty cattle, or forty sheep and goats, and he then acquired additional camels, or cattle, or sheep and goats, either by trade, or gift, or inheritance, he must pay zakat on them when he pays the zakat on the livestock he already has, even if a year has not elapsed over the acquisition. And even if the additional livestock that he acquired has had zakat taken from it the day before he bought it, or the day before he inherited it, he must still pay the zakat on it when he pays the zakat on the livestock he already has "Yahya said that Malik said, "This is the same situation as some one who has some silver on which he pays the zakat and then uses to buy some goods with from somebody else. He then has to pay zakat on those goods when he sells them. It could be that one man will have to pay zakat on them one day, and by the following day the other man will also have to pay."Malik said, in the case of a man who had sheep and goats which did not reach the zakatable amount, and who then bought or inherited an additional number of sheep and goats well above the zakatable amount, that he did not have to pay zakat on all his sheep and goats until a year had elapsed over them from the day he acquired the new animals, whether he bought them or inherited them.This was because none of the livestock that a man had, whether it be camels, or cattle, or sheep and goats, was counted as a nisab until there was enough of any one kind for him to have to pay zakat on it. This was the nisab which is used for assessing the zakat on what the owner had additionally acquired, whether it were a large or small amount of livestock.Malik said, "If a man has enough camels, or cattle, or sheep and goats, for him to have to pay zakat on each kind, and then he acquires another camel, or cow, or sheep, or goat, it must be included with the rest of his animals when he pays zakat on them "Yahya said that Malik said, "This is what I like most out of what I heard about the matter."Malik said, in the case of a man who does not have the animal required of him for the zakat, "If it is a two-year-old she-camel that he does not have, a three-year-old male camel is taken instead. If it is a three- or four- or five-year-old she-camel that he does not have, then he must buy the required animal so that he gives the collector what is due. I do not like it if the owner gives the collector the equivalent value."Malik said, about camels used for carrying water, and cattle used for working water-wheels or ploughing, "In my opinion such animals are included when assessing zakat."
یحییٰ نے مجھ سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام مالک نے حمید بن قیس مکی سے روایت کی، انہوں نے طاؤس یمانی سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہ تیس گایوں میں سے ایک بچھیا (زکوٰۃ میں) لی جاتی ہے جو دوسرے سال کی ہو اور چالیس (گایوں) میں ایک گائے لی جاتی ہے جو تیسرے یا چوتھے سال کی ہو اور جب اس سے کم (یعنی تیس گایوں) سے کوئی مال (زکوٰۃ کا) لایا جاتا تو آپ اسے لینے سے انکار کر دیتے اور کہتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سنا جب میں آپ سے ملوں گا تو آپ سے اس بارے میں دریافت کروں گا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی واپسی سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ امام مالک نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ جس شخص کی بکریاں یا دنبے ہوں اور ان کے چرواہے مختلف جگہوں پر ہوں تو ان سب کو جمع کر لیا جائے گا پھر ان پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا سونا اور چاندی مختلف لوگوں کے پاس ہو تو اسے بھی جمع کر کے اس پر زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس بکریاں بھی ہوں اور دنبے بھی تو ان دونوں کو ملا کر زکوٰۃ کی مقدار کا حساب لگایا جائے گا، پھر اگر ان پر زکوٰۃ واجب ہوئی تو وہ ان پر زکوٰۃ ادا کرے گا۔ امام مالک نے کہا کہ یہ سب "غنم" (بکریاں اور دنبے) کے حکم میں ہیں اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب میں ہے کہ چارپایوں پر جو چری جاتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس یا اس سے زیادہ ہو تو ایک دنبی (زکوٰۃ میں دی جائے گی) امام مالک نے فرمایا کہ اگر بکریوں سے زیادہ دنبے ہوں اور مالک پر صرف ایک دنبی زکوٰۃ ہو تو زکوٰۃ وصول کرنے والا اس دنبی کو دنبوں میں سے لے گا اور اگر دنبوں سے زیادہ بکریاں ہوں تو بکریوں میں سے لے گا اور اگر دنبے اور بکریاں برابر ہوں تو جس میں سے چاہے لے لے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا کہ اسی طرح اونٹ اور دو کوہان والے اونٹ ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہونے کے لیے جمع کیے جائیں گے یہ سب "ابل" (اونٹ) کے حکم میں ہیں اگر اونٹ دو کوہان والے اونٹوں سے زیادہ ہوں اور مالک پر صرف ایک اونٹ زکوٰۃ ہو تو زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے اونٹوں میں سے لے گا اور اگر دو کوہان والے زیادہ ہوں تو ان میں سے لے گا اور اگر دونوں برابر ہوں تو جس میں سے چاہے لے لے۔ امام مالک نے فرمایا کہ اسی طرح گائے اور بھینسیں ان کو بھی جمع کیا جائے گا اور یہ سب "بقر" (گائے) کے حکم میں ہیں، اگر گائے بھینسوں سے زیادہ ہوں اور مالک پر صرف ایک گائے زکوٰۃ ہو تو زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے گایوں میں سے لے گا اور اگر بھینسیں زیادہ ہوں تو ان میں سے لے گا اور اگر دونوں برابر ہوں تو جس میں سے چاہے لے لے تو جب ان پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تو ان کی زکوٰۃ ایک جنس کے طور پر ہی لی جاتی ہے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا کہ جس شخص کو چارپایوں کا مال حاصل ہو چاہے وہ اونٹ ہوں یا گائے یا بکریاں اور دنبے جب تک ان پر ایک سال نہ گزر جائے ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی سوائے اس کے کہ اس کے پاس پہلے ہی سے نصاب (زکوٰۃ کی کم از کم مقدار) کے بقدر چارپائے موجود ہوں، (اور نصاب یہ ہے کہ پانچ اونٹ یا تیس گائے یا چالیس بکریاں اور دنبے) تو اگر اس کے پاس پہلے ہی سے پانچ اونٹ یا تیس گائے یا چالیس بکریاں اور دنبے موجود تھے پھر اس نے کچھ اونٹ یا گائے یا بکریاں اور دنبے خریدے یا انہیں ہبے میں یا ورثے میں حاصل کیے تو ان پر بھی اسے زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی جب وہ اپنے پہلے مال پر زکوٰۃ ادا کرے گا خواہ ان پر ایک سال بھی نہ گزرا ہو اور اگر اس مال پر جسے اس نے حاصل کیا ہے ایک دن پہلے ہی زکوٰۃ ادا کی گئی ہو یعنی اسے خریدنے سے ایک دن پہلے یا ورثے میں ملنے سے ایک دن پہلے تب بھی اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی جب وہ اپنے پہلے مال پر زکوٰۃ ادا کرے گا۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کے پاس کچھ چاندی ہو اور وہ اس پر زکوٰۃ ادا کرے پھر اس سے کسی دوسرے شخص سے کوئی مال خرید لے تو اب اس پر اس مال کی زکوٰۃ واجب ہو گی جب وہ اسے بیچے گا تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ان پر ایک دن زکوٰۃ ادا کرے اور دوسرے شخص پر اگلے ہی دن واجب ہو جائے۔ امام مالک نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس بکریاں اور دنبے ہوں اور وہ نصاب کو نہ پہنچتے ہوں پھر اس نے کچھ بکریاں اور دنبے خریدے یا ورثے میں ملے اور ان سے زکوٰۃ کی مقدار پوری ہو گئی تو اس پر اپنی تمام بکریوں اور دنبوں پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی جب تک ان پر جنہیں اس نے خریدا یا ورثے میں پایا ایک سال نہ گزر جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے چاہے وہ اونٹ ہوں یا گائے یا بکریاں اور دنبے ان میں سے کسی پر بھی اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ ان میں سے کسی ایک جنس میں اتنی مقدار نہ ہو جائے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو جائے اور یہ وہ نصاب ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے اس شخص پر جو مال بعد میں حاصل ہوا اس کی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے چاہے وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ امام مالک نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس اتنے اونٹ ہوں یا اتنی گائے ہوں یا اتنی بکریاں اور دنبے ہوں کہ ان سب پر الگ الگ زکوٰۃ واجب ہوتی ہو پھر اسے ایک اونٹ یا ایک گائے یا ایک بکری یا ایک دنبہ اور مل جائے تو اسے بھی اپنے دوسرے مویشیوں کے ساتھ شامل کر لیا جائے گا جب وہ ان پر زکوٰۃ ادا کرے گا۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا کہ جو کچھ میں نے اس مسئلے میں سنا ہے ان میں مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے۔ امام مالک نے اس شخص کے بارے میں جس کے پاس زکوٰۃ میں دینے کے لیے جانور موجود نہ ہو فرمایا کہ اگر اس کے پاس دو سال کی اونٹنی نہ ہو تو اس کی جگہ تین سال کا اونٹ لیا جائے گا اور اگر تین یا چار یا پانچ سال کی اونٹنی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی قیمت ادا کر دے تا کہ زکوٰۃ وصول کرنے والے کو اس کا حق پہنچ جائے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ وہ اس (جانور) کی قیمت دے۔ امام مالک نے پانی کھینچنے والے اونٹوں اور چرس چلانے والی اور زمین کھودنے والی گایوں کے بارے میں فرمایا کہ میرے نزدیک ان کو بھی زکوٰۃ کی مقدار کا حساب لگاتے وقت شامل کیا جائے گا۔
Yahiya ne mujh se bayan kiya, woh kahte hain ki mujh se Imam Malik ne Hamid bin Qais Makki se riwayat ki, unhon ne Taus Yamani se aur unhon ne Hazrat Muaz bin Jabal Radi Allahu Anhu se ki tees gaon mein se ek bachhiya (zakat mein) li jati hai jo doosre saal ki ho aur chalis (gaon) mein ek gae li jati hai jo teesre ya chauthe saal ki ho aur jab is se kam (yani tees gaon) se koi maal (zakat ka) laya jata to aap use lene se inkar kar dete aur kahte ki maine Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam se is silsile mein kuchh nahin suna jab main aap se milunga to aap se is bare mein daryaft karunga lekin Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam Hazrat Muaz bin Jabal Radi Allahu Anhu ki wapsi se pehle hi wafaat pa gaye. Yahiya kahte hain ki Imam Malik ne kaha ki maine suna hai ki jis shakhs ki bakriyan ya dumbe hon aur un ke charwahe alag alag jagahon par hon to un sab ko jama kar liya jayega phir un par zakat ada ki jayegi yeh bilkul aisa hi hai jaise kisi shakhs ka sona aur chandi alag alag logon ke paas ho to use bhi jama kar ke us par zakat ada karni hogi. Yahiya ne bayan kiya ki Imam Malik ne farmaya ki jis shakhs ke paas bakriyan bhi hon aur dumbe bhi to un donon ko mila kar zakat ki miqdar ka hisab lagaya jayega, phir agar un par zakat wajib hui to woh un par zakat ada karega. Imam Malik ne kaha ki yeh sab "ghanam" (bakriyan aur dumbe) ke hukm mein hain aur Hazrat Umar bin Khattab Radi Allahu Anhu ki kitab mein hai ki chaarpayon par jo chari jati hain agar un ki tadad chalis ya is se ziyada ho to ek dumbi (zakat mein di jayegi) Imam Malik ne farmaya ki agar bakriyon se ziyada dumbe hon aur malik par sirf ek dumbi zakat ho to zakat wasool karne wala is dumbi ko dumbon mein se lega aur agar dumbon se ziyada bakriyan hon to bakriyon mein se lega aur agar dumbe aur bakriyan barabar hon to jis mein se chahe le le. Yahiya ne bayan kiya ki Imam Malik ne farmaya ki isi tarah unt aur do kohan wale unt in par bhi zakat wajib hone ke liye jama kiye jayenge yeh sab "ibil" (unt) ke hukm mein hain agar unt do kohan walon se ziyada hon aur malik par sirf ek unt zakat ho to zakat wasool karne wala use unton mein se lega aur agar do kohan wale ziyada hon to un mein se lega aur agar donon barabar hon to jis mein se chahe le le. Imam Malik ne farmaya ki isi tarah gae aur bhainsain in ko bhi jama kiya jayega aur yeh sab "baqar" (gae) ke hukm mein hain, agar gae bhainson se ziyada hon aur malik par sirf ek gae zakat ho to zakat wasool karne wala use gaon mein se lega aur agar bhainsain ziyada hon to un mein se lega aur agar donon barabar hon to jis mein se chahe le le to jab un par zakat wajib hoti hai to un ki zakat ek jins ke tor par hi li jati hai. Yahiya ne bayan kiya ki Imam Malik ne farmaya ki jis shakhs ko chaarpayon ka maal hasil ho chahe woh unt hon ya gae ya bakriyan aur dumbe jab tak un par ek saal na guzar jaye un par zakat wajib nahin hogi siwaye is ke ki us ke paas pehle hi se nisab (zakat ki kam az kam miqdar) ke baqadr chaarpaye maujood hon, (aur nisab yeh hai ki paanch unt ya tees gae ya chalis bakriyan aur dumbe) to agar us ke paas pehle hi se paanch unt ya tees gae ya chalis bakriyan aur dumbe maujood the phir us ne kuchh unt ya gae ya bakriyan aur dumbe khareedi ya unhen hibe mein ya warse mein hasil kiye to un par bhi use zakat ada karni hogi jab woh apne pehle maal par zakat ada karega chahe un par ek saal bhi na guzara ho aur agar is maal par jise us ne hasil kiya hai ek din pehle hi zakat ada ki gayi ho yani use kharidne se ek din pehle ya warse mein milne se ek din pehle tab bhi us par zakat wajib hogi jab woh apne pehle maal par zakat ada karega. Yahiya ne bayan kiya ki Imam Malik ne farmaya ki yeh bilkul aisa hi hai jaise kisi shakhs ke paas kuchh chandi ho aur woh us par zakat ada kare phir us se kisi doosre shakhs se koi maal kharid le to ab us par is maal ki zakat wajib hogi jab woh use bechega to ho sakta hai ki ek shakhs un par ek din zakat ada kare aur doosre shakhs par agle hi din wajib ho jaye. Imam Malik ne farmaya ki jis shakhs ke paas bakriyan aur dumbe hon aur woh nisab ko na pahunchte hon phir us ne kuchh bakriyan aur dumbe khareedi ya warse mein mile aur un se zakat ki miqdar poori ho gayi to us par apni tamam bakriyon aur dumbon par is waqt tak zakat wajib nahin hogi jab tak un par jinhen us ne khareeda ya warse mein paya ek saal na guzar jaye. Is ki wajah yeh hai ki kisi shakhs ke liye chahe woh unt hon ya gae ya bakriyan aur dumbe in mein se kisi par bhi us waqt tak zakat wajib nahin hoti jab tak ki in mein se kisi ek jins mein itni miqdar na ho jaye ki us par zakat wajib ho jaye aur yeh woh nisab hai jise mad nazar rakhte hue is shakhs par jo maal baad mein hasil hua us ki zakat wajib hoti hai chahe woh thora ho ya ziyada. Imam Malik ne farmaya ki agar kisi shakhs ke paas itne unt hon ya itni gae hon ya itni bakriyan aur dumbe hon ki un sab par alag alag zakat wajib hoti ho phir use ek unt ya ek gae ya ek bakri ya ek dumba aur mil jaye to use bhi apne doosre moweeshion ke sath shamil kar liya jayega jab woh un par zakat ada karega. Yahiya ne bayan kiya ki Imam Malik ne farmaya ki jo kuchh maine is masle mein suna hai un mein mujhe yeh baat ziyada pasand hai. Imam Malik ne is shakhs ke bare mein jis ke paas zakat mein dene ke liye janwar maujood na ho farmaya ki agar us ke paas do saal ki untni na ho to us ki jagah teen saal ka unt liya jayega aur agar teen ya chaar ya paanch saal ki untni na ho to use chahiye ki woh us ki qeemat ada kar de taaki zakat wasool karne wale ko us ka haq pahunch jaye aur mujhe yeh pasand nahin ki woh us (janwar) ki qeemat de. Imam Malik ne pani kheechne wale unton aur charas chalane wali aur zameen khodne wali gaon ke bare mein farmaya ki mere nazdeek in ko bhi zakat ki miqdar ka hisab lagate waqt shamil kiya jayega.
حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيَّ " أَخَذَ مِنْ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً ، تَبِيعًا ، وَمِنْ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً ، مُسِنَّةً . وَأُتِيَ بِمَا دُونَ ذَلِكَ ، فَأَبَى أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا . وَقَالَ : لَمْ أَسْمَعْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِيهِ شَيْئًا ، حَتَّى أَلْقَاهُ فَأَسْأَلَهُ "، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَبْلَ أَنْ يَقْدُمَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ⦗ص:٢٦٠⦘ قَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : « أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِيمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ عَلَى رَاعِيَيْنِ مُفْتَرِقَيْنِ ، أَوْ عَلَى رِعَاءٍ مُفْتَرِقِينَ ، فِي بُلْدَانٍ شَتَّى ، أَنَّ ذَلِكَ يُجْمَعُ كُلُّهُ عَلَى صَاحِبِهِ ، فَيُؤَدِّي مِنْهُ صَدَقَتَهُ . وَمِثْلُ ذَلِكَ ، الرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الذَّهَبُ أَوِ الْوَرِقُ مُتَفَرِّقَةً ، فِي أَيْدِي نَاسٍ شَتَّى ، إِنَّهُ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَجْمَعَهَا ، فَيُخْرِجَ مِنْهَا مَا وَجَبَ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ مِنْ زَكَاتِهَا » وقَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : " فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ الضَّأْنُ وَالْمَعْزُ : أَنَّهَا تُجْمَعُ عَلَيْهِ فِي الصَّدَقَةِ . فَإِنْ كَانَ فِيهَا مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ ، صُدِّقَتْ . وَقَالَ : إِنَّمَا هِيَ غَنَمٌ كُلُّهَا . وَفِي كِتَابِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ ، إِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ شَاةً ، شَاةٌ " قَالَ مَالِكٌ : « فَإِنْ كَانَتِ الضَّأْنُ هِيَ أَكْثَرَ مِنَ الْمَعْزِ ، وَلَمْ يَجِبْ عَلَى رَبِّهَا إِلَّا شَاةٌ وَاحِدَةٌ ، أَخَذَ الْمُصَدِّقُ تِلْكَ الشَّاةَ الَّتِي وَجَبَتْ عَلَى رَبِّ الْمَالِ مِنَ الضَّأْنِ ، وَإِنْ كَانَتِ الْمَعْزُ أَكْثَرَ مِنَ الضَّأْنِ ، أُخِذَ مِنْهَا . فَإِنِ اسْتَوَى الضَّأْنُ وَالْمَعْزُ ، أَخَذَ الشَّاةَ مِنْ أَيَّتِهِمَا شَاءَ » قَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : " وَكَذَلِكَ الْإِبِلُ الْعِرَابُ وَالْبُخْتُ ، يُجْمَعَانِ عَلَى رَبِّهِمَا فِي الصَّدَقَةِ . وَقَالَ : إِنَّمَا هِيَ إِبِلٌ كُلُّهَا . فَإِنْ كَانَتِ الْعِرَابُ هِيَ أَكْثَرَ مِنَ الْبُخْتِ ، وَلَمْ يَجِبْ عَلَى رَبِّهَا إِلَّا بَعِيرٌ وَاحِدٌ ، فَلْيَأْخُذْ مِنَ الْعِرَابِ صَدَقَتَهَا . فَإِنْ كَانَتِ الْبُخْتُ أَكْثَرَ فَلْيَأْخُذْ مِنْهَا ، فَإِنِ اسْتَوَتْ ، فَلْيَأْخُذْ مِنْ أَيَّتِهِمَا شَاءَ " قَالَ مَالِكٌ : " وَكَذَلِكَ الْبَقَرُ وَالْجَوَامِيسُ ، تُجْمَعُ فِي الصَّدَقَةِ عَلَى رَبِّهَا . ⦗ص:٢٦١⦘ وَقَالَ : إِنَّمَا هِيَ بَقَرٌ كُلُّهَا ، فَإِنْ كَانَتِ الْبَقَرُ هِيَ أَكْثَرَ مِنَ الْجَوَامِيسِ ، وَلَا تَجِبُ عَلَى رَبِّهَا إِلَّا بَقَرَةٌ وَاحِدَةٌ ، فَلْيَأْخُذْ مِنَ الْبَقَرِ صَدَقَتَهُمَا ، وَإِنْ كَانَتِ الْجَوَامِيسُ أَكْثَرَ ، فَلْيَأْخُذْ مِنْهَا . فَإِنِ اسْتَوَتْ ، فَلْيَأْخُذْ مِنْ أَيَّتِهِمَا شَاءَ . فَإِذَا وَجَبَتْ فِي ذَلِكَ الصَّدَقَةُ صُدِّقَ الصِّنْفَانِ جَمِيعًا " قَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : « مَنْ أَفَادَ مَاشِيَةً مِنْ إِبِلٍ أَوْ بَقَرٍ أَوْ غَنَمٍ فَلَا صَدَقَةَ عَلَيْهِ فِيهَا حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ أَفَادَهَا . إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُ قَبْلَهَا نِصَابُ مَاشِيَةٍ ، وَالنِّصَابُ مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ ، إِمَّا خَمْسُ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ ، وَإِمَّا ثَلَاثُونَ بَقَرَةً ، وَإِمَّا أَرْبَعُونَ شَاةً ، فَإِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ خَمْسُ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ ، أَوْ ثَلَاثُونَ بَقَرَةً أَوْ أَرْبَعُونَ شَاةً ، ثُمَّ أَفَادَ إِلَيْهَا إِبِلًا أَوْ بَقَرًا أَوْ غَنَمًا ، بِاشْتِرَاءٍ أَوْ هِبَةٍ أَوْ مِيرَاثٍ ، فَإِنَّهُ يُصَدِّقُهَا مَعَ مَاشِيَتِهِ حِينَ يُصَدِّقُهَا ، وَإِنْ لَمْ يَحُلْ عَلَى الْفَائِدَةِ الْحَوْلُ ، وَإِنْ كَانَ مَا أَفَادَ مِنَ الْمَاشِيَةِ إِلَى مَاشِيَتِهِ ، قَدْ صُدِّقَتْ قَبْلَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا بِيَوْمٍ وَاحِدٍ ، أَوْ قَبْلَ أَنْ يَرِثَهَا بِيَوْمٍ وَاحِدٍ ، فَإِنَّهُ يُصَدِّقُهَا مَعَ مَاشِيَتِهِ حِينَ يُصَدِّقُ مَاشِيَتَهُ » قالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : « وَإِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ ، مَثَلُ الْوَرِقِ يُزَكِّيهَا الرَّجُلُ ثُمَّ يَشْتَرِي بِهَا مِنْ رَجُلٍ آخَرَ عَرْضًا ، وَقَدْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ فِي عَرْضِهِ ذَلِكَ ، إِذَا بَاعَهُ ، الصَّدَقَةُ ، فَيُخْرِجُ الرَّجُلُ الْآخَرُ صَدَقَتَهَا هَذَا الْيَوْمَ . وَيَكُونُ الْآخَرُ قَدْ صَدَّقَهَا مِنَ الْغَدِ » قَالَ مَالِكٌ : « فِي رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا تَجِبُ فِيهَا الصَّدَقَةُ ، فَاشْتَرَى إِلَيْهَا غَنَمًا كَثِيرَةً تَجِبُ فِي دُونِهَا الصَّدَقَةُ ، أَوْ وَرِثَهَا ، أَنَّهُ لَا تَجِبُ عَلَيْهِ فِي الْغَنَمِ كُلِّهَا الصَّدَقَةُ ، حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ أَفَادَهَا بِاشْتِرَاءٍ أَوْ مِيرَاثٍ . وَذَلِكَ أَنَّ كُلَّ مَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ مِنْ مَاشِيَةٍ لَا تَجِبُ ⦗ص:٢٦٢⦘ فِيهَا الصَّدَقَةُ ، مِنْ إِبِلٍ أَوْ بَقَرٍ أَوْ غَنَمٍ ، فَلَيْسَ يُعَدُّ ذَلِكَ نِصَابَ مَالٍ ، حَتَّى يَكُونَ فِي كُلِّ صِنْفٍ مِنْهَا مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ ، فَذَلِكَ النِّصَابُ الَّذِي يُصَدِّقُ مَعَهُ مَا أَفَادَ إِلَيْهِ صَاحِبُهُ ، مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ مِنَ الْمَاشِيَةِ » قَالَ مَالِكٌ : « وَلَوْ كَانَتْ لِرَجُلٍ إِبِلٌ أَوْ بَقَرٌ أَوْ غَنَمٌ ، تَجِبُ فِي كُلِّ صِنْفٍ مِنْهَا الصَّدَقَةُ ، ثُمَّ أَفَادَ إِلَيْهَا بَعِيرًا أَوْ بَقَرَةً أَوْ شَاةً ، صَدَّقَهَا مَعَ مَاشِيَتِهِ حِينَ يُصَدِّقُهَا » قَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : « وَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي هَذَا » قَالَ مَالِكٌ : " فِي الْفَرِيضَةِ تَجِبُ عَلَى الرَّجُلِ ، فَلَا تُوجَدُ عِنْدَهُ : أَنَّهَا إِنْ كَانَتِ ابْنَةَ مَخَاضٍ فَلَمْ تُوجَدْ ، أُخِذَ مَكَانَهَا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ . وَإِنْ كَانَتْ بِنْتَ لَبُونٍ ، أَوْ حِقَّةً ، أَوْ جَذَعَةً ، وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ، كَانَ عَلَى رَبِّ الْإِبِلِ أَنْ يَبْتَاعَهَا لَهُ حَتَّى يَأْتِيَهُ بِهَا . وَلَا أُحِبُّ أَنْ يُعْطِيَهُ قِيمَتَهَا " وقَالَ مَالِكٌ : " فِي الْإِبِلِ النَّوَاضِحِ ، وَالْبَقَرِ السَّوَانِي ، وَبَقَرِ الْحَرْثِ : إِنِّي أَرَى أَنْ يُؤْخَذَ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ ، إِذَا وَجَبَتْ فِيهِ الصَّدَقَةُ "