43.
The Book of Virtues
٤٣-
كتاب الفضائل
46
Chapter: The Virtues Of Al-Khadir, Peace Be Upon Him
٤٦
باب مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ
Sahih Muslim 2380c
Ubayy b. Ka'b (رضي الله تعالى عنه) narrated to us that he had heard Allah's Apostle (ِصلى الله عليه وآله وسلم) as saying, Musa (عليه السالم) had been delivering sermons to his people. And he made this remark, no person upon the earth has better knowledge than I or nothing better than mine. Thereupon Allah revealed to him, I know one who is better than you (in knowledge) or there is a person on the earth having more knowledge than you. Thereupon he said, my Lord, direct me to him. It was said to him, keep a salted fish as a provision for journey. The place where that fish would be lost (there you will find that man). So, he set forth and a young slave along with him until they came to a place Sakhra. but he did not find any clue. So, he proceeded on and left that young man there. The fish began to stir in water and the water assumed the form of an ark over the fish. The young man said, I should meet Allah's Apostle (عليه السالم) and inform him, but he was made to forget and when they had gone beyond that place, Musa (عليه السالم) said to the young man, bring breakfast. We have been exhausted because of the journey, and he was not exhausted until he had crossed that (particular) place (where he had) to meet Khadir (عليه السالم), and the youth was reminded and said, did you not see that as we reached Sakhra I forgot the fish and it is satan alone who has made me forgetful of it'? It is strange that he has been able to find way in the ocean too. He said, this is what we sought for us. They returned retracing their steps, and he (his companion) pointed to him the location (where) the fish (had been lost). Musa (عليه السالم) began to search him there. He suddenly saw Khadir (عليه السالم) wrapped in a cloth and lying on his back. He said to him, As-Salamu-'Alaikum. He removed the cloth from his face and said, Wa 'Alaikum-us-Salam! Who are you? He said, I am Musa (عليه السالم). He said, who Musa (عليه السالم)? He said, Musa (عليه السالم) of Bani Isra'il. He said: What brought you here? He said, I have come so that you may teach me what you have been taught of righteousness. He said, you shall have to bear with me, and how can you have patience about a thing of which you have no comprehensive knowledge? You will not have patience when you see me doing a thing I have been ordered to do. He said, if Allah pleases, you will find me patient, nor shall I disobey you in aught. Khadir (ِعليه السالم) said, if you follow me, don't ask me about anything until I explain it to you. So, they went on until they embarked upon a boat. Khadir (عليه السالم) made a hole in that. Thereupon Musa (عليه السالم) said, you have done this so that you may drown the persons sitting in the boat. You have done something grievous. Thereupon he said, did I not tell you that you will not be able to bear with me? Thereupon Musa (عليه السالم) said, blame me not for what I forgot and be not hard upon me for what I did. So, they went on until they reached a place where boys were playing. He went to one of them and caught hold of one and killed him. Musa (عليه السالم) felt agitated and said, you have killed an innocent person not guilty of slaying another. You have done something abominable. Thereupon Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) said, may Allah have mercy upon us and Musa (عليه السالم). Had he shown patience he would have seen wonderful things, but fear of blame, with respect to his companion, seized him and he said, if I ask anything after this, keep not company with me. You will then have a valid excuse in my case and had Musa (عليه السالم) shown patience he would have seen many wonderful things. He (the narrator) said, whenever the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) made mention of any Prophet, he always said, may there be mercy of Allah upon us and upon my brother so and so. They, however, proceeded on until they came to the inhabitants of a village who were very miserly. They went to the meeting places and asked for hospitality, but they refused to show any hospitality to them. They both found in that village a wall which was about to fall. Khadir (عليه السالم) set it right. Thereupon Musa (عليه السالم) said, if you so liked, you could get wages for it. Thereupon he said, this is the parting of ways between me and you, and, taking hold of his cloth, he said, now I will explain to you the real significance (of all these acts) for which you could not show patience. As for the boat, it belonged to the poor people working on the river and I intended to damage it for there was ahead of them (a king) who seized boats by force. (When he came) to catch hold of it he found it a damaged boat, so he spared it (and later) it was set right with wood. So far as the boy is concerned, he has been, by very nature, an unbeliever, whereas his parents loved him very much. Had he grown up he would have involved them in wrongdoing and unbelief, so we wished that their Lord should give them in its place one better in purity and close to mercy. And as for the wall it belonged to two orphan boys in the city and there was beneath it a (treasure) belonging to them,... up to the last verse.
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں حدیث سنائی ، کہا : میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : " ایک دن موسیٰ علیہ السلام اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے ( اور ) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں ، اس وقت انھوں نے ( ایک سوال کے جواب میں ) کہا : میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں ، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان ( موسیٰ علیہ السلام ) سے بہتر ہےیا ( فرمایا : ) جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے ۔ ( موسیٰ علیہ السلام نے ) کہا : میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں ، ( رسول اللہ ﷺ نے ) فرمایا : ان سے کہا گیا : ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں ، وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی ۔ فرمایا : موسیٰ علیہ السلام اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے ، یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان ( حضرت موسیٰ علیہ السلام ) پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے ۔ مچھلی ( زندہ ہو کر ) تڑپی اور پانی میں چلی گئی ۔ پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا ، ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا ۔ اس نو جوان نے ( اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور ) کہا : کیا میں اللہ کے نبی ( موسیٰ علیہ السلام ) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا : پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی ۔ جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا : ہمارا دن کا کھانا لے آؤ ، اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا : ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی ۔ یہاں تک کہ وہ ( اس جگہ سے ) آگے نکل گئے تھے ۔ فرمایا : تو اس ( جوان ) کو یادآگیا اور اس نے کہا : آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ( مچھلی ) نے ( زندہ ہوکر ) پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا ۔ انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے ۔ اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی ۔ انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر علیہ السلام اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل ( سیدھے ) لیٹے ہوئے تھے یا کہا : گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے ۔ انھوں نے کہا : السلام علیکم! ( خضر علیہ السلام نے ) کہا : وعلیکم السلام! پوچھا : آپ کون ہیں؟کہا : میں موسیٰ علیہ السلام ہوں ، پوچھا ، کون موسیٰ؟کہا : بنی اسرائیل کے موسیٰ ، پوچھا : کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا : میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں ۔ ( خضر علیہ السلام نے ) کہا : میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے ۔ ( موسیٰ علیہ السلام نے ) کہا : ان شاء اللہ ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا ۔ انھوں نے کہا : اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں ، پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں ( خضر علیہ السلام ) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا ۔ کہا : انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا ( جس سے اس میں درز آگئی ) موسیٰ علیہ السلام نے انھیں کہا : آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں ۔ آپ نے عجیب کام کیا ۔ ( خضر علیہ السلام نے ) کہا : میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے ۔ ( موسیٰ علیہ السلام نے ) کہا : میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں ۔ دونوں ( پھر ) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے ، ، وہ کھیل رہے تھے ۔ وہ ( خضر علیہ السلام ) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے ۔ انھوں نے کہا : کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟ " اس مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا : " ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو ( اور بھی ) عجیب کام دیکھتے ، لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی ، کہا : اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں ، آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور ( فرما یا : ) اگر موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ( اوربھی ) عجائبات کا مشاہدہ کرتے ۔ " ( ابھی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ) کہا : رسول اللہ ﷺ جب انبیاء علیہ السلام میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع ( فرما تے ) : " ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو! ۔ ۔ ۔ پھر وہ دونوں ( آگے ) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے ۔ کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا ، پھر انھوں نے اس ( بستی ) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں ( خضر علیہ السلام ) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا ۔ ( موسیٰ علیہ السلام نے ) کہا : اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت ( بھی ) لے سکتے تھے ۔ انھوں نےکہا : یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت ( کا وقت ) ہے ۔ اور انھوں ( موسیٰ علیہ السلام ) نے ان کا کپڑا تھام لیا ( تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو ) کہا : میں ابھی آپ کوان ( کاموں ) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ۔ جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں ( ملاحی کا ) کام کرتے ہیں ۔ " آیت کے آخر تک " جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی ( کے تختے ) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت ( فطرت ) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی ۔ اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے ۔ اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا ۔ ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی ( اور اس کے نیچے ان دونوں کاخزانہ دفن تھا ۔ ) " آیت کے آخرتک ۔
Hazrat Abi bin Ka'ab radi Allahu ta'ala anhu ne hamen hadees sunaai, kaha: main ne Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko yeh farmate hue suna: "Ek din Musa alayhi salaam apne logoon mein baithe unhen Allah ke din yaad dilarahe the ( aur ) Allah ke dinoon se Murad Allah ki ne'maten aur uski azmayishen hain, is waqt unhon ne ( ek sawal ke jawab mein ) kaha: mere ilm mein is waqt rue zamin per mujh se behtar aur mujh se ziada ilm rakhne wala aur koi nahin, is par Allah ta'ala ne un ki taraf wahi ki ke main is shakhs ko janta hun jo aan ( Musa alayhi salaam ) se behtar hai ya ( farmaaya: ) jis ke paas un se barh kar hai zamin per ek aadmi hai jo aap se barh kar aalim hai. ( Musa alayhi salaam ne ) kaha: mere parvardigar mujhe is ka pata bataen, ( Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne ) farmaaya: un se kaha gaya: ek namkeen machhli ka zad rah le len, woh aadmi wahi hoga jahan aap se woh machhli gum ho jae gi. Farmaaya: Musa alayhi salaam aur un ka naujawan saathi chal pade, yahin tak ke woh ek chattan ke paas pahunche to un ( Hazrat Musa alayhi salaam ) per ek tarah ki be khabri tari hogi aur woh apne jaawan ko chhod kar aage chale gaye. Machhli ( zinda ho kar ) tarpi aur pani mein chali gayi. Pani is ke ooper ikattha nahin ho raha tha , ek taqche ki tarah ho gaya tha . Is nau jaawan ne ( is machhli ko pani mein jata hua dekh liya aur ) kaha: kya main Allah ke Nabi ( Musa alayhi salaam ) ke paas pahunch kar unhen is baat ki khabar na doon! Farmaaya: phir isse bhi yeh baat bhula di gayi. Jab woh aage nikal gaye to unhon ne apne jaawan se kaha: hamare din ka khana le ao, is safar mein hamen bahut thakawat hogayi farmaaya: un ko is waqt tak thakawat mahsus nahin hui thi. Yahin tak ke woh ( is jagah se ) aage nikal gaye the. Farmaaya: to is ( jaawan ) ko yaad agaya aur us ne kaha: aap ne dekha ke jab hum chattan ke paas baithe the to main machhli bhul gaya aur mujhe shaitan hi ne yeh baat bhulai ke main is ka zikr karoon aur ajib baat yeh hai ke is ( machhli ) ne ( zinda ho kar ) pani mein apna r asthe pakad liya. Unhon ne farmaaya hamen isi ki talash thi phir woh dono wapas apne kadmon ke nishananat per chal pade. Is ne unhen machhli ki jagah dikhai. Unhon ne kaha mujhe isi jagah ke bare mein bataya gaya tha woh talash mein chal pade to unhen Hazrat Khidr alayhi salaam apne ard gird kapda lipate nazar aaye gedi ke bal ( seedhe ) lete hue the ya kaha: gedi ke darmiyani hisse ke bal lete hue the. Unhon ne kaha: assalamu alaikum! ( Khidr alayhi salaam ne ) kaha: wa alaikum assalam! Poocha: aap kon hain? Kaha: main Musa alayhi salaam hoon, poocha, kon Musa? Kaha: Bani Israeel ke Musa, poocha: kaise aana hua hai? Kaha: main is liye aaya hun ke sahih r asthe ka jo ilm aap ko diya gaya hai woh aap mujhe bhi sikha den. ( Khidr alayhi salaam ne ) kaha: meri maiyat mein aap sabar nahin kar paen ge. ( Musa alayhi salaam ne ) kaha: in sha Allah, aap mujhe sabar karne wala paen ge aur main kisi baat mein aap ki khalaf warzi nahin karoon ga. Unhon ne kaha: agar aap mere pichhe chalte hain to mujh se is waqt tak kisi cheez ke bare mein sawal nahin karein jab tak main khud is ka zikr shuru nahin karoon, phir woh dono chal pade yahin tak ke jab woh dono ek kashti mein sawar hue to unhon ( Khidr alayhi salaam ) ne is mein lamba sa surakh kardiya. Kaha: unhon ne kashti per apna pahloo ka zor dala ( jis se is mein darz a gayi ) Musa alayhi salaam ne unhen kaha: aap ne is liye is mein darz dali ke unhen gharq kar den. Aap ne ajib kam kiya. ( Khidr alayhi salaam ne ) kaha: main ne aap se kaha nahin tha ke aap mere sath kisi soorat sabar nahin kar sakenge. ( Musa alayhi salaam ne ) kaha: mere bhool jane per mera muwazakha nahin karen aur mere mamle mein mujh se sakht bartao nahin karen. Dono ( phir ) chal pade yahin tak ke woh kuchh ladkon ke paas pahunche, , woh khel rahe the. Woh ( Khidr alayhi salaam ) tezi se ek ladke ki taraf badhe aur use qatl kardiya. Is per Musa alayhi salaam sakht ghabranat ka shikar ho gaye. Unhon ne kaha: kya aap ne ek masoom jaan ko kisi jaan ke badle ke baghair mar diya? " Is maqam per Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne far ma ya: " Hum per aur Musa alayhi salaam per Allah ki rahmat ho! Agar woh jaldbazi nahin karte to ( aur bhi ) ajib kam dekhte , lekin unhen apne saathi se sharmandagi mahsus hui , kaha: agar main is ke baad aap se kisi cheez ke bare mein sawal karoon to aap mujhe apne sath nahin rakhhen , aap meri taraf se uzr ko pahunch gaye aur ( far ma ya: ) agar Musa alayhi salaam sabr karte to ( aur bhi ) ajayibaat ka mushahidah karte . " ( Abhi bin Ka'ab radi Allahu ta'ala anhu ne ) kaha: Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) jab anbiya alayhi salaam mein se kisi ka zikr karte to apni zat se shuru ( far mate ) : " Hum per Allah ki rahmat ho aur hamare falan bhaa ئی per hum Allah ki rahmat ho! ۔ ۔ ۔ phir woh dono ( aage ) chal pade yahin tak ke ek basti ke bakhil logon ke paas aaye. Kai majalis mein phir ے aur in logoon se kha na talab kiya lekin unhon ne un ki mehman dari se saaf inkar kar diya, phir unhon ne is ( basti ) mein ek diwar dekhi jo girne hi wali thi ke unhon ( Khidr alayhi salaam ) ne use seedha khara kar diya. ( Musa alayhi salaam ne ) kaha: agar aap chahte to is per ujrut ( bhi ) le sakte the. Unhon ne kaha: yeh mere aur aap ke darmiyan mufarqat ( ka waqt ) hai. Aur unhon ( Musa alayhi salaam ) ne un ka kapda tham liya ( tak ke woh juda nahin ho jaen aur kaha ke mujhe un ki haqeeqat bata do ) kaha: main abhi aap ko aan ( kamon ) ki haqeeqat batata hun jin per aap sabar nahin kar sake. Jo kashti thi woh aise miskeen logoon ki thi jo samandar mein ( malahi ka ) kam karte hain. " Aayat ke aakhir tak " Jab is per qabza karne wala aaye ga to use surakh wali pae ga aur aage badh jaye ga aur yeh log ek lakdi ( ke takhte ) se is ko theek kar len ge aur jo ladka tha to jis din is ki sirshta ( fitrat ) banai gayi woh kufr per banai gayi. Is ke waldain ko is ke sath shadid lagao hai. Agar woh apni baloght tak pahunch jata to apni sarkashi aur kufr se unhen ajiz kar deta. Hum ne chaha ke Allah in dinoon ko is ke badle mein pak bazi mein barh kar salha rahmi ke e'tibar se behtar badal ata farma de aur rahi diwar to woh shahr ke do yatim ladkon ki thi ( aur is ke niche in dono ka khazana dafan tha. ) " Aayat ke akhiratak.
حَدَّثَنَا أُبَىُّ بْنُ كَعْبٍ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلاَؤُهُ إِذْ قَالَ مَا أَعْلَمُ فِي الأَرْضِ رَجُلاً خَيْرًا أَوْ أَعْلَمَ مِنِّي . قَالَ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ إِنَّ فِي الأَرْضِ رَجُلاً هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ . قَالَ يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ . قَالَ فَقِيلَ لَهُ تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ . قَالَ فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَعُمِّيَ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ وَتَرَكَ فَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَاءِ فَجَعَلَ لاَ يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ صَارَ مِثْلَ الْكُوَّةِ قَالَ فَقَالَ فَتَاهُ أَلاَ أَلْحَقُ نَبِيَّ اللَّهِ فَأُخْبِرَهُ قَالَ فَنُسِّيَ . فَلَمَّا تَجَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا . قَالَ وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّى تَجَاوَزَا . قَالَ فَتَذَكَّرَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا . قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي . فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا فَأَرَاهُ مَكَانَ الْحُوتِ قَالَ هَا هُنَا وُصِفَ لِي . قَالَ فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ مُسَجًّى ثَوْبًا مُسْتَلْقِيًا عَلَى الْقَفَا أَوْ قَالَ عَلَى حَلاَوَةِ الْقَفَا قَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ . فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ قَالَ وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَى . قَالَ وَمَنْ مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ . قَالَ مَجِيءٌ مَا جَاءَ بِكَ قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا . قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا . شَىْءٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ . قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلاَ أَعْصِي لَكَ أَمْرًا . قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلاَ تَسْأَلْنِي عَنْ شَىْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا . فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا . قَالَ انْتَحَى عَلَيْهَا . قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا . قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلاَ تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا . فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ . قَالَ فَانْطَلَقَ إِلَى أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْىِ فَقَتَلَهُ فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ ذَعْرَةً مُنْكَرَةً . قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ هَذَا الْمَكَانِ " رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى مُوسَى لَوْلاَ أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَى الْعَجَبَ وَلَكِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ . قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَىْءٍ بَعْدَهَا فَلاَ تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا . وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَى الْعَجَبَ - قَالَ وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا مِنَ الأَنْبِيَاءِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ " رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى أَخِي كَذَا رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا - " فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَاسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ . قَالَ لَوْ شِئْتَ لاَتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا . قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ . قَالَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ إِلَى آخِرِ الآيَةِ . فَإِذَا جَاءَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَكَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا . وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلاَمَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ " . إِلَى آخِرِ الآيَةِ .