31.
Book of Expeditions and Jihad
٣١-
كتاب الغزوة والجهاد
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
ibn ‘abbāsin | Abdullah bin Abbas Al-Qurashi | Companion |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
ابْنِ عَبَّاسٍ | عبد الله بن العباس القرشي | صحابي |
Mustadrak Al Hakim 4297
Abdullah bin Abbas (may Allah be pleased with him) narrates: Ibn Ishaq and Urwa bin Zubair said that Aatika bint Abdul Muttalib (may Allah be pleased with her) had a dream three days before Zamzam bin Amr Al-Ghifari's attack on the Quraysh in Makkah. When morning came, Aatika (may Allah be pleased with her) considered the dream insignificant and called her brother, Abbas bin Abdul Muttalib (may Allah be pleased with him), and said: "O my brother! I saw a dream last night, and I am very worried because of it, and I am afraid that some trial and tribulation may befall your people." Abbas (may Allah be pleased with him) asked: "What was it (the dream)?" She said: "I saw a man coming riding on his camel and he stopped at (the place of) Abtah and said: 'O treacherous ones! Come out, there will be a war with you after three days.' I see that people are gathering around him, then I see that his camel enters the Masjid and people gather around him, then he is on top of the Kaaba with the camel and says: 'O treacherous ones! You will be killed in three days,' then he is on Mount Abu Qubais with the camel and says: 'O treacherous ones! Come out, you will be killed in three days.' Then he threw a heavy stone from the top of the mountain, it came down rolling until when it reached the depths of the mountain, it shattered, so there will be no house or place of your people where its particles will not reach." Abbas (may Allah be pleased with him) said: "By Allah, this is a serious matter, keep it hidden." Aatika (may Allah be pleased with her) said: "You also keep it hidden because if the Quraysh find out about it, they will harm me." Abbas (may Allah be pleased with him) left from there and went to his friend Walid bin Utbah and told him this dream and also emphasized that he should not disclose it to anyone, but Walid told this dream to his father, and his father narrated it in different gatherings, due to which this matter spread. Abbas (may Allah be pleased with him) said: "I will circumambulate the Kaaba tomorrow," but when I entered the Masjid, Abu Jahl was sitting with a whole group and they were discussing the same dream. Abu Jahl said: "O Abul Fadl! Since when has this woman among you become a prophet?" I said: "What do you mean?" He said: "The same dream of Aatika bint Abdul Muttalib. O Banu Abdul Muttalib! Was the claim of prophethood of your men not enough for you that now your women have also started making claims of prophethood? We are waiting for these three days, which Atika mentioned, that if (this dream of hers) comes true, then it will be, otherwise, we will write this decision about you that your household is the biggest liar in the entire Arabia." ( Abbas (may Allah be pleased with him) says:) By Allah! There could be nothing more painful to me than this. I denied Atika's dream and I said that neither did she see any dream nor did I hear anything from her. When evening came, all the women of Banu Abdul Muttalib came to me and said: "You have heard the words of this wicked and immoral man and still remained patient, he has taunted your men and fabricated stories about your women, and you (remained a silent spectator) kept listening, is there no such thing as honor left in you?" I said: "By Allah! You are right, I really had no honor in this matter (meaning I did have honor but I could not get angry over it), so I had no choice but to deny this matter, but now if he says such a thing again, I will give him a befitting reply." So, on the third day, I was sitting with the intention of confronting them, so that if they say anything, I would hurl insults at them. By Allah! I was sitting attentively towards him when a man with an iron face, new in appearance and sharp-tongued, walked briskly towards the gate of the Masjid. I said in my heart: "O Allah! Curse him, I cannot compete with him," and he was hearing the voice of Zamzam bin Amr, which I was not hearing. He was standing in "Abtah" riding a camel, he took off his crooked stick, tore his shirt and cut the nose of his camel and said: "O group of Quraysh! Come to the market, come to the market. Your goods are with Abu Sufyan and your trade has been stopped by Muhammad and his companions, so come and help me." So they got busy in this sequence, and we got ready and came out of there. So that day, the Quraysh suffered as much loss as they suffered in the Battle of Badr. Their big men were killed and the chiefs were taken prisoner, so Aatika bint Abdul Muttalib (may Allah be pleased with her) said: "Wasn't my dream true? And its confirmation harmed you, very few people from the tribe could escape." So you said: "And I did not become a liar by your denial because only falsehood denies the truth," and then narrated the detailed story.
" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ابن اسحاق اور عروہ بن زبیر کا بیان ہے کہ عاتکہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا نے ضمضم بن عمرو الغفاری کے مکہ میں قریش پر چڑھائی کرنے سے تین دن پہلے خواب دیکھا ۔ جب صبح ہوئی تو حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا نے اس خواب کو معمولی سمجھا اور اپنے بھائی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کہا : اے میرے بھائی ! میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے ، اس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کی قوم پر کوئی آزمائش اور مصیبت نہ آ جائے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : وہ کیا ( خواب ) ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور ( مقام ) ابطح میں کھڑا ہو کر کہنے لگا : اے غدارو ! باہر نکلو ، تین دن بعد تمہارے ساتھ جنگ ہو گی ۔ میں دیکھتی ہوں کہ وہ لوگ اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں ، پھر میں دیکھتی ہوں کہ اس کا اونٹ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے اور لوگ اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں ، پھر وہ اونٹ سمیت کعبہ کے اوپر ہوتا ہے اور کہتا ہے : اے غدر والو ! تین دن میں تمہارا قتل ہو گا ، پھر وہ اونٹ سمیت ابوقبیس ( پہاڑ ) پر ہوتا ہے اور کہتا ہے : اے غدر والو ! باہر نکلو ، تین دن میں تمہارا قتل ہو گا ۔ پھر اس نے پہاڑ کی چوٹی سے ایک بھاری پتھر گرا دیا ، وہ نیچے کی جانب لڑھکتا آیا حتی کہ جب وہ پہاڑ کی گہرائی میں پہنچا تو پھٹ گیا تو تمہاری قوم کا کوئی گھر اور کوئی مکان ایسا نہیں ہو گا جس میں اس کے ذرات نہ پہنچے ہوں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کی قسم یہ خاص بات ہے ، اس کو چھپا کر رکھنا ۔ حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہا نے کہا : آپ بھی اس کو پوشیدہ رکھنا ، کیونکہ اگر اس بات کی خبر قریش کو ہو گئی تو وہ مجھے تکلیف دیں گے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے نکلے اور اپنے دوست ولید بن عتبہ کے پاس گئے اور یہ خواب اس کو سنا دیا اور ساتھ ہی اس کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کرنے کی تاکید بھی کر دی ، لیکن ولید نے یہ خواب اپنے والد کو بتا دیا ، اور اس کے والد نے جگہ جگہ بیان کر دیا ، اس وجہ سے یہ بات پھیل گئی ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں کل کعبۃ اللہ کا طواف کروں گا ، لیکن جب میں مسجد میں داخل ہوا تو ابوجہل پوری ایک جماعت میں بیٹھا تھا اور ان میں اسی خواب کا تذکرہ ہو رہا تھا ، ابوجہل نے کہا : اے ابوالفضل ! تم میں یہ عورت کب سے نبی بن گئی ہے ؟ میں نے کہا : کیا مطلب ؟ اس نے کہا : وہی عاتکہ بنت عبدالمطلب کی خواب ۔ اے بنی عبدالمطلب ! کیا تمہیں اپنے مردوں کا دعوائے نبوت کافی نہ تھا کہ اب تمہاری عورتوں نے بھی نبوت کے دعوے شروع کر دئیے ہیں ؟۔ ہم ان تین دنوں کا انتظار کر رہے ہیں ، جن کا ذکر عاتکہ نے کیا ہے ۔ کہ اگر ( اس کا یہ خواب ) حق ہوا تو ہو جائے گا ورنہ ہم تمہارے بارے میں یہ فیصلہ لکھ دیں گے کہ پورے عرب میں تمہارا گھرانہ سب سے زیادہ جھوٹا ہے ( حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ) خدا کی قسم ! میرے لئے اس سے بڑھ کر تکلیف دہ کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی ۔ میں عاتکہ کے خواب سے مکر گیا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ اس نے کوئی خواب دیکھا ہے اور نہ میں نے اس سے کوئی بات سنی ہے ۔ جب شام ہوئی تو بنی عبدالمطلب کی تمام عورتیں میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں : تم نے اس فاسق خبیث کی باتیں سن کر بھی صبر کیا ، اس نے تمہارے مردوں پر طعنہ زنی کی ہے اور تمہاری عورتوں پر بھی باتیں بنائیں اور تم ( خاموش تماشائی بنے ) سنتے رہے ، تمہارے اندر غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ؟ میں نے کہا : خدا کی قسم ! سچ کہہ رہی ہو ، اس معاملے میں واقعی مجھ میں غیرت نہیں تھی ( یعنی غیرت تو تھی مگر میں اس پر بگڑ نہیں سکتا تھا ) تو سوائے اس کے کہ میں اس بات سے ہی مکر جاتا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا لیکن اب اگر اس نے دوبارہ ایسی کوئی بات کہی تو میں اس کو بھرپور جواب دوں گا ۔ چنانچہ میں تیسرے دن ان کا مقابلہ کرنے کی نیت سے بیٹھا ہوا تھا کہ وہ کچھ بولے تو میں اس کو گالیاں دوں ۔ خدا کی قسم ! میں تو اس کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی لوہے کے چہرے والا ، دیکھنے میں نیا اور تیز زبان والا ، مسجد کے دروازے کی جانب تیزی سے بڑھا ، میں نے اپنے دل میں کہا : یا اللہ ! اس پر لعنت کر ، میں اس سے مقابلہ بازی نہیں کر سکتا اور وہ ضمضم بن عمرو کی آواز سن رہا تھا جو میں نہیں سن رہا تھا ۔ وہ اونٹ پر سوار ’’ ابطح ‘‘ میں کھڑا تھا ، اس نے اپنا کجاوہ اتارا ، اپنی قمیص پھاڑی اور اپنے اونٹ کی ناک کاٹ ڈالی اور بولا : اے گروہ قریش ! بازار میں آؤ ، بازار میں آؤ ۔ تمہارا مال ابوسفیان کے پاس ہے اور تمہاری تجارت کو محمد اور اس کے ساتھیوں نے روک رکھا ہے اور آؤ میری مدد کرو ۔ تو وہ لوگ اسی سلسلہ میں مشغول ہو گئے ، اور ہم تیاری کر کے وہاں سے نکل گئے ۔ تو اس دن قریش کو اتنا نقصان پہنچا جتنا جنگ بدر میں پہنچا تھا ۔ ان کے بڑے بڑے لوگوں کو قتل کر دیا گیا اور سرداروں کو گرفتار کیا گیا تو حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا نے کہا : کیا میرا خواب سچا نہ تھا ؟ اور اس کی تصدیق نے تمہیں نقصان دیا ، قوم میں سے بہت کم لوگ بھاگ سکے ۔ تو تم نے کہا : اور میں تمہارے جھٹلانے سے جھوٹی نہیں ہو گئی ، کیونکہ سچائی کو جھوٹا ہی جھٹلاتا ہے پھر اس کے بعد مفصل قصہ بیان کیا ۔"
Hazrat Abdullah bin Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a farmate hain : Ibn Ishaq aur Urwah bin Zubair ka bayan hai ki Aatikah bint Abdul Muttalib ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne Zamzam bin Amr Al-Ghifari ke Makkah mein Quresh par chadhayi karne se teen din pehle khwab dekha . Jab subah hui to Hazrat Aatikah ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne is khwab ko mamuli samjha aur apne bhai Hazrat Abbas bin Abdul Muttalib (رضي الله تعالى عنه) ko bulaya aur kaha : Aye mere bhai ! mein ne raat ko ek khwab dekha hai , is ki wajah se mein bahut pareshan hun aur mujhe dar hai ki kahin aap ki qaum par koi azmaish aur musibat na aa jaye , Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) ne kaha : Woh kya ( khwab ) hai ? Unhon ne kaha : Mein ne dekha hai ki ek aadmi apne unt par sawar ho kar aaya aur ( maqam ) Abtah mein khara ho kar kehne laga : Aye ghadaro ! bahar niklo , teen din baad tumhare saath jang hogi . Mein dekhti hun ki woh log us ke ird gird jama ho jate hain , phir mein dekhti hun ki us ka unt masjid mein dakhil ho jata hai aur log us ke ird gird jama ho jate hain , phir woh unt samit Kaba ke upar hota hai aur kehta hai : Aye ghadr walo ! teen din mein tumhara qatl ho ga , phir woh unt samit Abu Qubais ( pahar ) par hota hai aur kehta hai : Aye ghadr walo ! bahar niklo , teen din mein tumhara qatl ho ga . Phir us ne pahar ki choti se ek bhari pathar gira diya , woh neeche ki janib ladhakta aaya hatta ki jab woh pahar ki gehrai mein pahuncha to phat gaya to tumhari qaum ka koi ghar aur koi makan aisa nahi ho ga jis mein us ke zarrar na pahunche hon . Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) ne kaha : Khuda ki qasam yeh khas baat hai , is ko chhupa kar rakhna . Hazrat Aatikah ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne kaha : Aap bhi is ko poshida rakhna , kyunki agar is baat ki khabar Quresh ko ho gayi to woh mujhe takleef denge . Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) wahan se nikle aur apne dost Waleed bin Utbah ke paas gaye aur yeh khwab us ko suna diya aur saath hi us ko kisi ke samne zahir na karne ki takid bhi ki , lekin Waleed ne yeh khwab apne walid ko bata diya , aur us ke walid ne jagah jagah bayan kar diya , is wajah se yeh baat phail gayi , Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) ne kaha : Mein kal Kabah ka tawaf karunga , lekin jab mein masjid mein dakhil hua to Abu Jahl puri ek jamaat mein baitha tha aur un mein isi khwab ka tazkirah ho raha tha , Abu Jahl ne kaha : Aye Abu Al-Fazal ! tum mein yeh aurat kab se nabi ban gayi hai ? mein ne kaha : Kya matlab ? Us ne kaha : Wahi Aatikah bint Abdul Muttalib ki khwab . Aye Bani Abdul Muttalib ! kya tumhen apne mardon ka dawa-e-nabuwat kafi na tha ki ab tumhari auraton ne bhi nabuwat ke daawe shuru kar diye hain ? . Hum in teen dinon ka intezar kar rahe hain , jin ka zikr Aatikah ne kiya hai . Ki agar ( is ka yeh khwab ) haq hua to ho jaye ga warna hum tumhare bare mein yeh faisla likh denge ki pure Arab mein tumhara gharana sab se zyada jhootha hai ( Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : ) Khuda ki qasam ! mere liye is se barh kar takleef deh koi baat nahi ho sakti thi . Mein Aatikah ke khwab se makar gaya aur mein ne kah diya ki na us ne koi khwab dekha hai aur na mein ne us se koi baat suni hai . Jab sham hui to Bani Abdul Muttalib ki tamam auraten mere paas aayin aur kehne lagin : Tum ne is fasiq khabees ki baaten sun kar bhi sabar kiya , us ne tumhare mardon par taane zani ki hai aur tumhari auraton par bhi baaten banayin aur tum ( khamosh tamashai bane ) sunte rahe , tumhare andar ghairat naam ki koi cheez nahi hai ? Mein ne kaha : Khuda ki qasam ! sach kah rahi ho , is mamle mein waqai mujh mein ghairat nahi thi ( yani ghairat to thi magar mein is par bigar nahi sakta tha ) to siwaye is ke ki mein is baat se hi makar jata mere paas koi chara na tha lekin ab agar us ne dobara aisi koi baat kahi to mein us ko bharpur jawab dunga . Chunanche mein teesre din un ka muqabla karne ki niyat se baitha hua tha ki woh kuch bole to mein us ko galiyan dun . Khuda ki qasam ! mein to us ki taraf mutawajjah ho kar baitha hua tha ki ek aadmi lohe ke chehre wala , dekhne mein naya aur tez zaban wala , masjid ke darwaze ki janib tezi se barha , mein ne apne dil mein kaha : Ya Allah ! is par laanat kar , mein is se muqabla bazi nahi kar sakta aur woh Zamzam bin Amr ki awaz sun raha tha jo mein nahi sun raha tha . Woh unt par sawar '' Abtah '' mein khara tha , us ne apna kajawah utara , apni qameez phaari aur apne unt ki nak kaat dali aur bola : Aye giroh Quresh ! bazaar mein aao , bazaar mein aao . Tumhara maal Abu Sufyan ke paas hai aur tumhari tijarat ko Muhammad aur us ke sathiyon ne rok rakha hai aur aao meri madad karo . To woh log isi silsila mein mashghul ho gaye , aur hum taiyari kar ke wahan se nikal gaye . To us din Quresh ko itna nuqsan pahuncha jitna jang Badr mein pahuncha tha . Un ke bare bare logon ko qatl kar diya gaya aur sardaron ko giraftar kiya gaya to Hazrat Aatikah bint Abdul Muttalib ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne kaha : Kya mera khwab sacha na tha ? Aur is ki tasdeeq ne tumhen nuqsan diya , qaum mein se bahut kam log bhaag sake . To tum ne kaha : Aur mein tumhare jhutlane se jhooti nahi ho gayi , kyunki sachai ko jhootha hi jhutlata hai phir is ke baad mufassal qissa bayan kiya .
مَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَا: "" رَأَتْ عَاتِكَةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِيمَا يَرَى النَّائِمُ قَبْلَ مَقْدَمِ ضَمْضَمَ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ عَلَى قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ بِثَلَاثِ لَيَالٍ رُؤْيَا، فَأَصْبَحَتْ عَاتِكَةُ فَأَعْظَمَتْهَا، فَبَعَثَتْ إِلَى أَخِيهَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَتْ لَهُ: يَا أَخِي، لَقَدْ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا أَفْزَعَتْنِي لَيَدْخُلَنَّ عَلَى قَوْمِكَ مِنْهَا شَرٌّ وَبَلَاءٌ، فَقَالَ: وَمَا هِيَ؟ فَقَالَتْ: رَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ أَنَّ رَجُلًا أَقْبَلَ عَلَى بَعِيرٍ لَهُ فَوَقَفَ بِالْأَبْطَحِ، فَقَالَ: انْفِرُوا يَا آلَ غَدْرٍ لِمَصَارِعِكُمْ فِي ثَلَاثٍ، فَأَرَى النَّاسَ اجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، ثُمَّ أُرَى بَعِيرَهُ دَخَلَ بِهِ الْمَسْجِدَ، وَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ثُمَّ مَثَلَ بِهِ بَعِيرُهُ، فَإِذَا هُوَ عَلَى رَأْسِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: انْفِرُوا يَا آلَ غَدْرٍ لِمَصَارِعِكُمْ فِي ثَلَاثٍ، ثُمَّ إِنَّ بَعِيرَهُ مَثُلَ بِهِ عَلَى رَأْسِ أَبِي قُبَيْسٍ، فَقَالَ: انْفِرُوا يَا آلَ غَدْرٍ لِمَصَارِعِكُمْ فِي ثَلَاثٍ، ثُمَّ أَخَذَ صَخْرَةً، فَأَرْسَلَهَا مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ، فَأَقْبَلَتْ تَهْوِي حَتَّى إِذَا كَانَتْ فِي أَسْفَلِ الْجَبَلِ، أَرْفَضَتْ فَمَا بَقِيَتْ دَارٌ مِنْ دُورِ قَوْمِكَ، وَلَا بَيْتٍ إِلَّا دَخَلَ فِيهِ بَعْضُهَا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: وَاللَّهِ، إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا فَاكْتُمِيهَا، قَالَتْ: وَأَنْتَ فَاكْتُمْهَا لَئِنْ بَلَغَتْ هَذِهِ قُرَيْشًا لَيُؤْذُونَنَا، فَخَرَجَ الْعَبَّاسُ مِنْ عِنْدِهَا وَلَقِيَ الْوَلِيدَ بْنَ عُتْبَةَ، وَكَانَ لَهُ صَدِيقًا فَذَكَرَهَا لَهُ وَاسْتَكْتَمَهُ إِيَّاهَا، فَذَكَرَهَا الْوَلِيدُ لِأَبِيهِ، فَتَحَدَّثَ بِهَا فَفَشَا الْحَدِيثُ، قَالَ الْعَبَّاسُ: وَاللَّهِ، إِنِّي لَغَادٍ إِلَى الْكَعْبَةِ لِأَطُوفَ بِهَا إِذْ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا أَبُو جَهْلٍ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ يَتَحَدَّثُونَ، عَنْ رُؤْيَا عَاتِكَةَ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: يَا أَبَا الْفَضْلِ، مَتَى حَدَّثَتْ هَذِهِ النَّبِيَّةُ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ، قَالَ: رُؤْيَا رَأَتْهَا عَاتِكَةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَمَا رَضِيتُمْ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنْ يَتَنَبَّأَ رِجَالُكُمْ حَتَّى تَنَّبَّأَ نِسَاؤُكُمْ فَسَنَتَرَبَّصُ بِكُمْ هَذِهِ الثَّلَاثَ الَّتِي ذَكَرَتْ عَاتِكَةُ، فَإِنْ كَانَ حَقًّا فَسَيَكُونُ، وَإِلَّا كَتَبْنَا عَلَيْكُمْ كِتَابًا إِنَّكُمْ أَكْذَبُ أَهْلِ بَيْتٍ فِي الْعَرَبِ، فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَيْهِ مِنِّي مِنْ كَبِيرٍ إِلَّا أَنِّي أَنْكَرْتُ مَا قَالَتْ، فَقُلْتُ: مَا رَأَتْ شَيْئًا وَلَا سَمِعْتُ بِهَذَا، فَلَمَّا أَمْسَيْتُ لَمْ تَبْقَ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَّا أَتَتْنِي، فَقُلْنَ: أَصَبَرْتُمْ لِهَذَا الْفَاسِقِ الْخَبِيثِ أَنْ يَقَعَ فِي رِجَالِكُمْ، ثُمَّ تَنَاوَلَ النِّسَاءَ وَأَنْتَ تَسْمَعُ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَكَ فِي ذَلِكَ غَيْرَةٌ؟ فَقُلْتُ: قَدْ وَاللَّهِ صَدَقْتُنَّ، وَمَا كَانَ عِنْدِي فِي ذَلِكَ مِنْ غَيْرَةٍ إِلَّا أَنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ مَا قَالَ، فَإِنْ عَادَ لَأَكْفِيَنَّهُ، فَقَعَدْتُ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ أَتَعَرَّضُهُ لَيَقُولَ شَيْئًا فَأُشَاتِمُهُ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَمُقْبِلٌ نَحْوَهُ، وَكَانَ رَجُلًا حَدِيدَ الْوَجْهِ، حَدِيدَ الْمَنْظَرِ، حَدِيدَ اللِّسَانِ إِذْ وَلَّى نَحْوَ بَابِ الْمَسْجِدِ يَشْتَدُّ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: اللَّهُمُ الْعَنْهُ كُلَّ هَذَا فَرَقًا مِنْ أَنْ أُشَاتِمَهُ، وَإِذَا هُوَ قَدْ سَمِعَ مَا لَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ ضَمْضَمَ بْنَ عَمْرٍو وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ بِالْأَبْطَحِ قَدْ حَوَّلَ رَحْلَهُ، وَشَقَّ قَمِيصَهُ، وَجَدَعَ بَعِيرَهُ، يَقُولُ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، اللَّطِيمَةُ اللَّطِيمَةُ أَمْوَالُكُمْ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ، وَتِجَارَتُكُمْ قَدْ عَرَضَ لَهَا مُحَمَّدٌ وَأَصْحَابُهُ، فَالْغَوْثُ، فَشَغَلَهُ ذَلِكَ عَنِّي، فَلَمْ يَكُنْ إِلَّا الْجِهَازُ حَتَّى خَرَجْنَا، فَأَصَابَ قُرَيْشًا مَا أَصَابَهَا يَوْمَ بَدْرٍ، مِنْ قَتْلِ أَشْرَافِهِمْ، وَأَسَرِّ خِيَارِهِمْ، فَقَالَتْ عَاتِكَةُ بِنْتُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: [البحر الطويل] أَلَمْ تَكُنِ الرُّؤْيَا بِحَقٍّ وَعَابَكُمْ ... بِتَصْدِيقِهَا قَلَّ مِنَ الْقَوْمِ هَارِبُ فَقُلْتُمْ وَلَمْ أَكْذِبْ كَذَبْتِ وَإِنَّمَا ... يُكَذِّبْنَ بِالصِّدْقِ مَنْ هُوَ كَاذِبُ"" وَذَكَرَ قِصَّةً طَوِيلَةً [التعليق - من تلخيص الذهبي] 4297 - حسين ضعيف