Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه) narrated that he was ever determined to ask Umar (رضي الله تعالى عنه) about the two Ummul Momineen, among the wives of the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم), about whom Allah said – [If you both (wives) turn in repentance to Allah (it will be better) as your hearts have indeed so inclined (to oppose what the Prophet ﷺ likes).] (At-Tahrim - 4), until once when Umar (رضي الله تعالى عنه) performed Hajj, and I performed Hajj along with him. I poured water for his Wudu from a water holder, and I said, ‘O Coؑؑander of the Believers, who are the two Ummul Momineen among the wives of the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم), about whom Allah said – [If you both (wives) turn in repentance to Allah (it will be better) as your hearts have indeed so inclined (to oppose what the Prophet ﷺ likes).] (At-Tahrim - 4). He said, ‘I aؑ astonished at you O Ibn Abbas.’ Az-Zubair (one of the narrators) said, ‘by Allah, Umar ( رضي الله تعالى عنه) disliked what Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه) asked him, but he did not withhold it from him. Ibn Abbas (رضئ هللا تعالی عنہ) said, then Umar (رضئ هللا تعالی عنہ) told they were Ummul Momineen Aisha and Hafsa (رضئ هللا تعالی Imam Tirmidhi said, this Hadith is Hasan Sahih Gharib. It has also been related from another root from Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه).
Grade: Sahih
عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» ”اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہت بہتر ہے ) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں ( یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں“ ( التحریم: ۴ ) ، ( مگر مجھے موقع اس وقت ملا ) جب عمر رضی الله عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا، ( اسی دوران ) میں نے ان سے پوچھا: امیر المؤمنین! نبی اکرم ﷺ کی وہ دو بیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه» عمر رضی الله عنہ نے مجھ سے حیرت سے کہا: ہائے تعجب! اے ابن عباس ( تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں ) ( زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس رضی الله عنہما نے جو بات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتا دی ) انہوں نے مجھے بتایا: وہ عائشہ اور حفصہ رضی الله عنہما ہیں، پھر وہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا: ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دبا کر رکھتے تھے، مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں، تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں، ایک دن ایسا ہوا کہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہو گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے ( سخت ) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے، اس نے کہا: آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے؟ قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ ﷺ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑے رہتی ہیں ( روٹھی اور اینٹھی رہتی ) ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا: آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی، میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا، اور میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم باری باری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے، ایک دن وہ آتا اور جو کچھ ہوا ہوتا وہ واپس جا کر مجھے بتاتا، اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جا کر اسے بتاتا، ہم ( اس وقت ) باتیں کیا کرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں، ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آ کر، دروازہ کھٹکھٹایا، میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا، اس نے کہا: ایک بڑی بات ہو گئی ہے، میں نے پوچھا: کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کر آئے ہیں؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آ گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے، میں نے اپنے جی میں کہا: حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی، میں سوچا کرتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا، حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ ( بیٹھی ) رو رہی تھی، میں نے پوچھا: کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم ہے، البتہ آپ اس بالاخانے پر الگ تھلگ بیٹھے ہیں، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں ( اٹھ کر آپ سے ملنے ) چلا، میں ایک کالے رنگ کے ( دربان ) لڑکے کے پاس آیا اور اس سے کہا: جاؤ، آپ ﷺ سے عمر کے آنے کی اجازت مانگو، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کے آنے کی خبر کی مگر آپ نے کچھ نہ کہا، میں مسجد چلا گیا ( دیکھا ) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رو رہے تھے، میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا، ( مجھے سکون نہ ملا ) میری فکرو تشویش بڑھتی گئی، میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا، میں نے کہا: جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، اس نے کہا: میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا، لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں دوبارہ مسجد میں آ کر بیٹھ گیا، مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہو گئی، میں ( سہ بارہ ) لڑکے کے پاس آ گیا اور اس سے کہا: جاؤ اور آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو، وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا، کہا: میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا، ( یہ سن کر ) میں پلٹ پڑا، یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا، ( آ جائیے آ جائیے ) اندر تشریف لے جائیے، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہے، میں اندر چلا گیا، میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر و نشان آپ کے پہلوؤں میں دیکھا، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: اللہ اکبر، آپ نے دیکھا ہو گا اللہ کے رسول! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ آ گئے تو ہمارا سابقہ ایک ایسی قوم سے پڑ گیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں، ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ( ان کے طور طریقے ) سیکھنے لگیں، ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی، مجھے یہ سخت برا لگا، کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برا لگ رہا ہے، قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر ( روٹھی و اینٹھی ) رہتی ہے، میں نے حفصہ سے کہا: کیا تم پلٹ کر رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں، ہم میں کوئی بھی آپ سے ( خفا ہو کر ) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے، میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ گھاٹے میں رہی اور ناکام ہوئی، کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض و ناخوش ہو جائے اور وہ ہلاک و برباد ہو جائے؟ ( یہ سن کر ) آپ ﷺ مسکرا پڑے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے حفصہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو، جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیا کرو، اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن تو تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے ۱؎ ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺ پھر مسکرا دیئے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں دل بستگی کی بات کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، عمر کہتے ہیں: میں نے سر اٹھایا تو گھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی و فراوانی دے جو اس نے روم و فارس کو دی ہے، جب کہ وہ اس کی عبادت و بندگی بھی نہیں کرتے ہیں، ( یہ سن کر ) آپ جم کر بیٹھ گئے، فرمایا: ”خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک و شبہہ میں پڑے ہوئے ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں“، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین ( قسم کا کفارہ ) ادا کرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں: عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ عائشہ رضی الله عنہا نے بتایا کہ جب مہینے کے ۲۹ دن گزر گئے تو نبی اکرم ﷺ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے، آپ نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والا ہوں، اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا“، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «يا أيها النبي قل لأزواجك» ( آخر آیت تک ) ”اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگینیاں چاہیئے، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں، اور خوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں، اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بیشک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے“ ( الاحزاب: ۲۸، ۲۹ ) ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ جانتے تھے، قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کر لینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے، میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اور پسند کرتی ہوں۔
``'Ubaid-al-Laah bin 'Abd-al-Laah bin Abi Thu'oor kehte hain ki main ne Ibn 'Abbaas radi-Allahu 'anhuma ko kehte hu'e suna: meri barabar yeh khwahish rahi ki main 'Umar radi-Allahu 'anhu se Nabi-e-Akram salla-Allahu 'alaihi wa sallam ki un dono biwiyon ke baare mein poochhun jin ke baare mein Allah Ta'ala ne farmaya hai «In tatuba ila-Allahi fa qad saghat qulubukuma» “Aye Nabi ki dono biwiyo! Agar tum dono Allah ke saamne tubah kar lo ( to bahut behtar hai ) yaqinana tumhare dil jhak pad gaye hain ( yani haq se hat gaye hain“ ( al-Tahrim: 4 ), ( magar mujhe mauqa us waqt mila ) jab 'Umar radi-Allahu 'anhu ne hajj kiya aur main ne bhi un ke saath hajj kiya, main ne dol se pani daal kar unhen wazu kraya, ( isi doran ) main ne un se poocha: Ameer-ul-Momineen! Nabi-e-Akram salla-Allahu 'alaihi wa sallam ki woh do biwiyaan kaun hain jin ke baare mein Allah ne kaha hai «In tatuba ila-Allahi fa qad saghat qulubukuma wa in tazahaara 'alaihi fa inna-Allahu huwa maulahu» 'Umar radi-Allahu 'anhu ne mujh se hairat se kaha: haye ta'ajjub! Aye Ibn 'Abbaas ( tumhein itni si baat maloom nahi ) ( Zahri kehte hain qasam Allah ki Ibn 'Abbaas radi-Allahu 'anhuma ne jo baat poochi woh unhen bari lagi magar unhon ne haqiqat chhupai nahi batayi ) unhon ne mujhe bataya: woh 'Aisha aur Hafsah radi-Allahu 'anhuma hain, phir woh mujhe puri baat batane lage kaha: hum Quraish wale aurton par hawi rahte aur unhen daba kar rakhte the, magar jab Madinah a'e to yahaan aise log mile jin par un ki biwiyaan ghalib aur hawi hoti thin, to hamari aurtiyaan un ki aurton se un ke rang dhang seekhne lagi, ek din aisa hua ki main apni biwi per ghussa ho gaya, kya dekhta hoon ki woh bhi mujhe palt kar jawab dene lagi, mujhe ( sakht ) nagawar hua ki woh mujhe palt kar jawab de, us ne kaha: aap ko yeh baat kyon nagawar lag rahi hai? qasam Allah ki Nabi-e-Akram salla-Allahu 'alaihi wa sallam ki ba'az biwiyaan bhi aap salla-Allahu 'alaihi wa sallam ko palt kar jawab de rahi hain aur din se raat tak aap ko chhode rahti hain ( rothi aur aithi rahti ) hain, main ne apne ji mein kaha: aap ki biwiyon mein se jis ne bhi aisa kiya woh nakam hui aur ghaate mein rahi, mera ghar Madinah ke Bani Umayya naamie mahalah mein 'Awali ke ilaqe mein tha, aur mera ek Ansari padoosi tha, hum bari bari Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ke paas aaya karte the, ek din woh aata aur jo kuchh hua hota woh wapas ja kar mujhe batata, aur aise hi ek din main aap ke paas aata aur Wahi waghera ki jo bhi khabar hoti main ja kar use batata, hum ( us waqt ) baatien kya karte the ki Ahl-e-Ghazan hum se lad'ai karne ke liye apne ghodon ke peeron mein na'lien thonk rahe hain, ek din isha' ke waqt hamare padoosi Ansari ne a kar, darwaza khatkhataya, main darwaza khol kar us ke paas gaya, us ne kaha: ek bari baat ho gai hai, main ne poocha: kya Ahl-e-Ghazan hum par chadai kar a'e hain? us ne kaha: is se bhi bada ma'amla pesh a gaya hai, Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ne apni biwiyon ko talaq de di hai, main ne apne ji mein kaha: Hafsah nakam rahi ghaate mein padi, main sochta tha ki aisa hone wala hai, jab main ne fajr padi to apne kapde pahne aur chal pada, Hafsah ke paas pahuncha to woh ( bethi ) ro rahi thi, main ne poocha: kya tum sab biwiyon ko Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ne talaq de di hai? unhon ne kaha: mujhe nahi maloom hai, balki aap is bala-khanah par alag thalg bethe hain, 'Umar radi-Allahu 'anhu kehte hain: main ( uth kar aap se milne ) chala, main ek kaale rang ke ( darban ) larke ke paas aaya aur us se kaha: jao, aap salla-Allahu 'alaihi wa sallam se 'Umar ke aane ki ijazat mango, 'Umar radi-Allahu 'anhu kehte hain: woh laraka aap ke paas gaya phir nikal kar mere paas aaya aur kaha: main ne aap ke aane ki khabar ki magar aap ne kuchh nah kaha, main masjid chala gaya ( dekha ) minbar ke aas paas kuchh log bethe ro rahe the, main bhi unhen logon ke paas beth gaya, ( mujhe sukun nah mila ) meri fikru tashwish badhti gai, main uth kar dobara larke ke paas chala aaya, main ne kaha: jao aap se 'Umar ke andar aane ki ijazat mango, to woh andar gaya phir mere paas wapas aaya, us ne kaha: main ne aap ka zikr Nabi-e-Akram salla-Allahu 'alaihi wa sallam se kiya, lekin aap ne koi jawab nah diya, 'Umar radi-Allahu 'anhu kehte hain: main dobara masjid mein a kar beth gaya, magar mujh par phir wahi fikr sawar ho gai, main ( seh baara ) larke ke paas a gaya aur us se kaha: jao aur aap se 'Umar ke andar aane ki ijazat mango, woh laraka andar gaya phir mere paas wapas aaya, kaha: main ne aap se aap ke aane ka zikr kiya magar aap ne koi jawab nah diya, ( yeh sun kar ) main palt pada, yakinan laraka mujhe pukarne laga, ( a jayiye a jayiye ) andar tashreef le jaiye, Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ne aap ko ijazat de di hai, main andar chala gaya, main ne dekha aap buriye par tek lagaye hu'e hain aur is ka asar o nishan aap ke pahloo'on mein dekha, main ne poocha: Allah ke Rasool! kya aap ne apni biwiyon ko talaq de di hai? aap ne farmaya: “nahi”, main ne kaha: Allah-u-Akbar, aap ne dekha hoga Allah ke Rasool! hum Quraishi log apni biwiyon par control rakhte the, lekin jab hum Madinah a gaye to hamara saabiqa ek aisi qoum se pad gaya hai jin par un ki biwiyaan hawi aur ghalib rahti hain, hamari aurtiyaan un ki aurton se ( un ke tor tariqe ) seekhne lagi, ek din apni biwi par ghussa hua to woh mujhe palt kar jawab dene lagi, mujhe yeh sakht bura laga, kahne lagi aap ko kyon itna bura lag raha hai, qasam Allah ki Nabi-e-Akram salla-Allahu 'alaihi wa sallam ki ba'az biwiyaan bhi aap ko palt kar jawab de rahi hain aur koi bhi aurat din se raat tak aap ko chhod kar ( rothi o aithi ) rehti hai, main ne Hafsah se kaha: kya tum palt kar Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ko jawab deti ho? us ne kaha: haan, hum mein koi bhi aap se ( khafa ho kar ) din se raat tak aap se alihida rahti hai, main ne kaha: tum mein se jis ne bhi aisa kiya woh ghaate mein rahi aur nakam hui, kya tum mein se har koi is baat se mutma'in hai ki Allah apne Rasool ki narazgi ke sabab us se naraz o nakhush ho jaye aur woh halak o barbad ho jaye? ( yeh sun kar ) Aap salla-Allahu 'alaihi wa sallam muskura pad gaye, 'Umar radi-Allahu 'anhu ne kaha: main ne Hafsah se kaha: Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ko palt kar jawab nah do aur nah aap se kisi cheez ka talab karo, jis cheez ki tumhein hajat ho woh mujh se mang liya karo, aur tum bharose mein nah raho tumhari sukan to tum se ziyada khoobsurat aur Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam ki chahiti hai 1 ( yeh sun kar ) Rasul-Allah salla-Allahu 'alaihi wa sallam phir muskura diye, main ne kaha: Allah ke Rasool! kya main dil bastagi ki baat karun? aap ne farmaya: “haan”, 'Umar kehte hain: main ne sar uthaya to ghar mein teen kachi khalon ke siwa koi aur cheez dikhayi nah di, main ne arz kiya, Allah ke Rasool! Allah se dua farmaiye ki woh aap ki ummat ko woh kashdagi o fara'ani de jo us ne Room o Faaris ko di hai, jab ki woh is ki ibadat o bandagi bhi nahi karte hain, ( yeh sun kar ) Aap jam kar beth gaye, farmaya: “Khitab ke bete! kya tum abhi tak Islam ki haqaniyat ke baare mein shak o shabha mein padhe hu'e ho? yeh aise log hain jinhon ke hisse ki achchi cheezain pehle hi duniya mein de di gai hain”, 'Umar radi-Allahu 'anhu kehte hain: aap ne qasam khai thi ki aap ek mahina tak apni biwiyon ke paas nah jayen ge, is par Allah Ta'ala ne fahmaish ki aur aap ko kafar-e-yamin ( qasam ka kafarah ) ada karne ka hukm diya.Zehri kehte hain: عروہ ne Ayesha radiyallahu anha se riwayat karte huye kaha ke Ayesha radiyallahu anha ne bataya ke jab mahine ke 29 din guzar gaye to Nabi e Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) sab se pehle mere pass tashreef laye, aap ne farmaya: “main tum se ek baat ka zikr karne wala hoon, apne waldain se mashawarah kiye baghair jawab dene mein jaldi na karna”, phir aap ne yeh ayat padhi «ya ayyuha annabi qul li azwajik» (aakhir ayat tak) “ae Nabi! apni biwiyon se keh dijiye ke agar tumhein duniya ki zindagi aur uski khush ranginiyan chahiye, to ao main tumhein kuchh de doon, aur khush asloobi se tum ko rukhsat kar doon, aur agar tumhein Allah aur uska Rasool chahiye aur akhirat ki bhlai chahiye to beshak Allah Taala ne tum mein se neik amal karne walon ke liye ajr azim tayyar kar rakha hai” (al-Ahzab: 28, 29), Ayesha radiyallahu anha kehti hain: aap jante the, qasam Allah ki mere waldain mujhe aap se alihdagi ikhtiyar kar lene ka hargiz hukm na denge, main ne kaha: kya main is mamle mein waldain se mashawarah karoon? main to Allah aur uske Rasool aur akhirat ke ghar ko chahti aur pasand karti hoon.Do
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ، عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 حَتَّى حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ سورة التحريم آية 4 فَقَالَ لِي: وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَكَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ، فَقَالَ: هِيَ عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ، فَقَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا، فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ مِنْ ذَلِكَ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَتْ، قَالَ: وَكَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، كُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ، وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: وَكُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا، قَالَ: فَجَاءَنِي يَوْمًا عِشَاءً فَضَرَبَ عَلَيَّ الْبَابَ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: أَجَاءَتْ غَسَّانُ، قَالَ: أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ طَلَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِيَ تَبْكِي، فَقُلْتُ: أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَا أَدْرِي هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرَبَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، قَالَ: فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، قَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْكُونَ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ، فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ أَيْضًا فَجَلَسْتُ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ، فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا، قَالَ: فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا، فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي، فَقَالَ: ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَكَ، فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَنَحْنُ مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ، فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: مَا تُنْكِرُ، فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ، وَتَهْجُرُهُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ، فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ ؟، فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ، وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ صَاحِبَتُكِ أَوْسَمَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ أُخْرَى، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْتَأْنِسُ ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَى فَارِسَ، وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَهُ، فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَقَالَ: أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ ؟ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَ: وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا فَعَاتَبَهُ اللَّهُ فِي ذَلِكَ وَجَعَلَ لَهُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ . (حديث موقوف) قَالَ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَأَ بِي، قَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ شَيْئًا فَلَا تَعْجَلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ سورة الأحزاب آية 28 الْآيَةَ، قَالَتْ: عَلِمَ وَاللَّهِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، فَقُلْتُ: أَفِي هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ.