20.
Tribute, Spoils, and Rulership
٢٠-
كتاب الخراج والإمارة والفىء
1107
Chapter: Regarding Allocating A Special Portion For The Messenger Of Allah (saws) From Wealth
١١٠٧
باب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الأَمْوَالِ
Sunan Abi Dawud 2963
. Malik bin Aws bin Al-Hadathan narrated that Umar (رضي الله تعالى عنه) sent for me when the day rose high. I found him sitting on a couch without cover. When I went to him, he said, Malik some people of you tribe gradually came here, and I have ordered to give them something, so distribute it among them. I said, if you assigned this (work) to some other person, (it would be better). He said, take it. Then Yarfa came to him and said, Commander of the Faithful, will you permit Uthman bin Affan, Abdur Rahman bin Awf, Al-Zubair bin Al-'Awwam, and Sa'd bin Abi Waqqas (رضي الله تعالى عنهم) (to enter) ? He said, yes. So, he permitted them, and they entered. Yarfa' again came to him and said, Commander of the Faithful, would you permit Al-Abbas and Ali (رضي الله تعالى عنهما)? He said, yes. He then permitted them, and they entered. Al-Abbas ( رضي الله تعالى عنه) said, Commander of Faithful, decide between me and this, referring to Ali ( رضي الله تعالى عنه). Some of them said, yes, Commander of the Faithful, decide between them and give them comfort. Malik bin Aws said, it occurred to me that both brought the other people for this. Umar (رضي الله تعالى عنه) said, show patience. He then turned towards those people and said, I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) said, we are not inherited whatever we leave is sadaqah (alms). They said, yes. He then turned towards Ali and Al-Abbas (رضي الله تعالى عنه) and said, I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that Apostle of Allah ( صلى الله عليه وآله وسلم) said, we are not inherited, and whatever we leave is sadaqah (alms). They said, yes. He then said, Allah has appointed for the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) a special portion (in the booty) which he did not do for anyone. Allah, Most High, said, what Allah has bestowed on His Apostle (and taken away) from them, for this you made no expedition with either cavalry or camelry. But Allah gives power to His Apostles over any He pleases; and Allah has power over all things.’ Allah bestowed (the property of) Banu an-Nadir on His Apostle ( صلى الله عليه وآله وسلم). I swear by Allah, he did not reserve it for himself, nor did he take it over and above you. The Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) used his share for his maintenance annually or used to take his contribution and give his family their annual contribution (from this property), then take what remained and deal with it as he did with Allah's property. He then turned towards those people and said, I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that? They said, yes. He then turned towards Ali and Al-Abbas (رضي الله تعالى عنهما) and said, I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that? They said, yes. When the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) died, Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) said, I am the protector of the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم). Then you and this (Ali - رضئ هللا تعال ی عنہ) came to Abu Bakr ( رضي الله تعالى عنه), demanding a share from the inheritance of your cousin, and this (Ali - رضي الله تعالى عنه) demanding the share of his wife from (the property of her) father. Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) then said, the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) said, we are not inherited. Whatever we leave is sadaqah. Allah knows that Abu Bakr ( رضي الله تعالى عنه) was true, faithful, rightly guided, and the follower of Truth. Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) then administered it (property of the Prophet ﷺ). When Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) died, I said, I am the protector of the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) and Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه). So, I administered whatever Allah wished. Then you and this (Ali - رضي الله تعالى عنه) came. Both of you are at one, and your matter is the same. So, they asked me for it (property), and I said, if you wish I give it to you on condition that you are bound by the covenant of Allah, meaning that you will administer it as the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) used to administer. So, you took it from me on that condition. Then again you have come to me so that I decide between you other than that. I swear by Allah, I shall not decide between you other than that till the Last Hour comes. If you helpless, return it to me. Imam Abu Dawood said, they asked him for making it half between them, and not that they were ignorant of the fact the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) said, we are not inherited. Whatever we leave is sadaqah (alms). They were also seeking the truth. 'Umar ( رضي الله تعالى عنه) then said, I do not apply the name of division to it; It leave it on its former condition.
Grade: Sahih
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چنانچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پر جس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے: مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لیے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو، میں نے کہا: اگر اس کام کے لیے آپ کسی اور کو کہتے ( تو اچھا رہتا ) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں تم ( جو میں دے رہا ہوں ) لے لو ( اور ان میں تقسیم کر دو ) اسی دوران یرفاء ۱؎ آ گیا، اس نے کہا: امیر المؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ( بلا لو ) اس نے انہیں اجازت دی، وہ لوگ اندر آ گئے، جب وہ اندر آ گئے، تو یرفا پھر آیا، اور آ کر کہنے لگا: امیر المؤمنین! ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں؟ کہا: ہاں ( آنے دو ) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چنانچہ وہ بھی اندر آ گئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے ( یعنی علی رضی اللہ عنہ کے ) درمیان ( معاملے کا ) فیصلہ کر دیجئیے، ( تاکہ جھگڑا ختم ہو ) ۲؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں امیر المؤمنین! ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں ( عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم ) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا ( کہ وہ لوگ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدد دیں ) ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ان پر رحم کرے! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو ( میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں ) پھر ان موجود صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟ ، سبھوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔ پھر وہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، و آسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ہمارا ( گروہ انبیاء کا ) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟ ، ان دونوں نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ایک ایسی خصوصیت سے سرفراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سرفراز نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شىء قدير» اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ( سورۃ الحشر: ۶ ) چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ ﷺ نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لیے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ ﷺ اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کا سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا ( یعنی مستحقین اور ضرورت مندوں میں خرچ ہوتا ) ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو ( یعنی یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایسا کرتے تھے ) انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں ( یعنی ایسا ہی ہے ) پھر جب رسول اللہ ﷺ انتقال فرما گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں، پھر تم اور یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے ( یعنی رسول اللہ ﷺ ) کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی ( فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر ( اللہ ان پر رحم کرے ) نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے ، اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔ پھر تم اور یہ ( علی ) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پر دے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ ﷺ متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چنانچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔ اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوا دوسرے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں ۳؎ تو قسم اللہ کی! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا ( معاہدہ کے مطابق ) اہتمام نہیں کر سکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو ( میں اپنی تولیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا ) ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان دونوں حضرات نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کر دیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم ﷺ کا فرمان:«لا نورث ما تركنا صدقة» ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا ( کیونکہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں ) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پر باقی رہنے دوں گا۔
Malik bin Aws bin Hudhayn kehte hain ke Umar (رضي الله تعالى عنه) ne mujhe din chare bula bheja, chananche mein aaya to unhen ek takht per jis per koi cheez bachhi hui nahin thi beta hua paya, jab mein un ke pas pahuncha to mujhe dekh kar kehne lage: Malik! tumhari qoum ke kuchh log mere pas aaye hain aur mein ne unhen kuchh dene ke liye hukm diya hai to tum in mein taksim kar do, mein ne kaha: agar is kaam ke liye aap kisi aur ko kehte ( to acha rehta) Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: nahin tum ( jo mein de raha hun ) le lo ( aur in mein taksim kar do ) isi doran Yirfa 1 ؎ aa gaya, us ne kaha: Amir al Momineen! Usman bin Affan, Abdul Rahman bin Auf, Zubair bin Awwam aur Saad bin Abi Waqqas (رضي الله تعالى عنه) aaye huye hain aur milne ki ijazat chahte hain, kya unhen bula lun? Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: han ( bula lo ) us ne unhen ijazat di, woh log andar aa gaye, jab woh andar aa gaye, to Yirfa phir aaya, aur aa kar kehne laga: Amir al Momineen! Ibn Abbas aur Ali ( (رضي الله تعالى عنه) a aana chahte hain; agar hukm ho to aane dun? kaha: han ( aane do ) us ne unhen bhi ijazat de di, chananche woh bhi andar aa gaye, Abbas (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: Amir al Momineen! mere aur un ke ( yani Ali (رضي الله تعالى عنه) ke) darmiyan ( maamle ka) faisla kar dijie, ( ta ke jhagda khatam ho) 2 ؎ is per un mein se ek shakhs ne kaha: han Amir al Momineen! in dono ka faisla kar dijie aur unhen rahat pahunchaiye. Malik bin Aws kehte hain ke mera guman yeh hai ke in dono hi ne in logo ( Usman, Abdul Rahman, Zubair aur Saad bin Abi Waqqas (رضي الله تعالى عنه) ko apne se pehle isi maqsad se bheja tha ( ke woh log is qadiya ka faisla karane mein madad den) . Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: Allah in per rahm kare! tum dono sabar o sukoon se betho ( mein abhi faisla kiye deta hun) phir un maujud sahaba ki jamat ki taraf mutawajjeh huye aur un se kaha: mein tum se is Allah ki qasam de kar puchhta hun jis ke hukm se aasman o zamin qaem hain kya tum jaante ho ke Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam ne farmaya hai: hum anbiya ka koi waris nahin hota, hum jo kuchh chhor kar marte hain woh sadaqa hota hai?, sabhon ne kaha: han hum jaante hain. phir woh Ali aur Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ki taraf mutawajjeh huye aur in dono se kaha: mein tum dono se is Allah ki qasam de kar puchhta hun jis ke hukm se zamin, o aasman qaem hain, kya tum jaante ho ke Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam ne farmaya tha: humara ( groh anbiya ka) koi waris nahin hota, hum jo chhor jaen woh sadaqa hota hai?, in dono ne kaha: han humein maloom hai. Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: Allah ne apne Rasool salla Allahu alayhi wa sallam ko ek aisi khasiyat se sarfraz farmaya tha jis se duniya ke kisi insaan ko bhi sarfraz nahin kiya, Allah Ta'ala ne farmaya: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شىء قدير» aur in ka jo maal Allah Ta'ala ne apne Rasool ke hath lagaaya hai jis per na to tum ne apne ghore dauraye hain aur na ont balki Allah Ta'ala apne Rasool ko jis per chahe ghalib kar deta hai aur Allah Ta'ala har cheez per qadir hai ( Surah al-Hashr: 6) chananche Allah ne apne Rasool ko Banu Nadhir ka maal dilaya, lekin qasam Allah ki Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam ne use tumhen mahroom kar ke sirf apne liye nahin rakh liya, Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam is maal se sirf apne aur apne ahl o ayyal ka saal bhar ka kharcha nikal lete the, aur jo baki bachta woh dusre malo ki tarah rehta ( yani mustahiqeen aur zaruratmandon mein kharch hota) . phir Umar (رضي الله تعالى عنه) sahaba ki jamat ki taraf mutawajjeh huye aur kehne lage: mein tum se is Allah ki qasam de kar puchhta hun jis ke hukm se aasman o zamin qaem hain, kya tum is baat ko jaante ho ( yani yeh ke Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam aisa karte the) unhon ne kaha: han hum jaante hain, phir Umar (رضي الله تعالى عنه) Abbas aur Ali ( (رضي الله تعالى عنه) a ki taraf mutawajjeh huye aur un se kaha: mein is Allah ki zat ko gawaah bana kar tum se puchhta hun jis ke hukm se aasman o zamin qaem hain kya tum is ko jaante ho? unhon ne kaha: han hum jaante hain ( yani aisa hi hai) phir jab Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam intqal farma gaye to Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: mein Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam ka khaleefa hun, phir tum aur yeh Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ke pas aaye, tum apne bhatije ( yani Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam) ke turke mein se apna hissa mang rahe the aur yeh apni biwi ( Fatima ( (رضي الله تعالى عنه) ا)) ki miras mang rahe hain jo unhen un ke baap ke turke se milne wala tha, phir Abu Bakr ( Allah in per rahm kare) ne kaha: Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam ne farmaya hai: humara koi waris nahin hota hai hum jo chhor jaen woh sadaqa hai, aur Allah jaanta hai ke Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) sache naik aur haq ki pehrooi karne wale the, phir Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) is maal per qabiz rahe, jab unhon ne wafat payi to mein ne kaha: mein Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam aur Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ka khaleefa hun, aur is waqt tak wali hun jab tak Allah chahe. phir tum aur yeh ( Ali) aaye tum dono ek hi the, tumhara maamla bhi ek hi tha tum dono ne use mujh se talab kiya to mein ne kaha tha: agar tum chahte ho ke mein use tum dono ko is shart per de dun ke Allah ka ahd kar ke kaho is maal mein usi tarah kaam karoge jis tarah Rasool Allah salla Allahu alayhi wa sallam mutwali rahte huye karte the, chananche usi shart per woh maal tum ne mujh se le liya. ab phir tum dono mere pas aaye ho ke is ke siwa dusre tarike per mein tumhare darmiyan faisla kar dun 3 ؎ to qasam Allah ki! mein qiyamat tak tumhare darmiyan is ke siwa aur koi faisla na karun ga, agar tum dono in malo ka ( muahida ke mutabiq) ehtemal nahin kar sakte to phir use mujhe luta do ( mein apni tualit mein le kar pehle ki tarah ehtemal karunga). Abu Dawood kehte hain: in dono hazrat ne is baat ki dar khwast ki thi ke yeh in dono ke darmiyan aadha aadha kar diya jaaye, aisa nahin ke unhen Nabi Akram salla Allahu alayhi wa sallam ka farman:«لا نورث ما تركنا صدقة» humara koi waris nahin hota hum jo chhor jaen woh sadaqa hai maloom nahin tha balki woh bhi haq hi ka mutabala kar rahe the, is per Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: mein is per taksim ka naam na aane dun ga ( kyounke mumkin hai baad wale miras samajh len) balki mein use pehli hi halat per baki rehnae dun ga.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ: يَا مَالِ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْءٍ فَأَقْسِمْ فِيهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِكَ فَقَالَ: خُذْهُ فَجَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا يَعْنِي عَلِيًّا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْمهُمَا، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ، فَقَالَا: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6، وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالَا: نَعَمْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ . وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ. فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَوَلِيتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ فَسَأَلْتُمَانِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلِيهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَى ذَلِك، ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِنَّمَا سَأَلَاهُ أَنْ يَكُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ لَا أَنَّهُمَا جَهِلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَإِنَّهُمَا كَانَا لَا يَطْلُبَانِ إِلَّا الصَّوَابَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ أَدَعُهُ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ.