Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, Nauf-al-Bakali claims that Moses of Bani Israel was not Moses, the companion of Al-Khadir. Ibn `Abbas said, Allah's enemy tells a lie! Ubai bin Ka`b narrated to us that Allah's Messenger said, 'Moses got up to deliver a sermon before Bani Israel and he was asked, 'Who is the most learned person among the people?' Moses replied, 'I (am the most learned).' Allah then admonished Moses for he did not ascribe all knowledge to Allah only (Then) came the Divine Inspiration:-- 'Yes, one of Our slaves at the junction of the two seas is more learned than you.' Moses said, 'O my Lord ! How can meet him?' Allah said, 'Take a fish in a basket and wherever the fish is lost, follow it (you will find him at that place). So Moses set out along with his attendant Yusha` bin Noon, and they carried with them a fish till they reached a rock and rested there. Moses put his head down and slept. (Sufyan, a sub-narrator said that somebody other than `Amr said) 'At the rock there was a water spring called 'Al-Hayat' and none came in touch with its water but became alive. So some of the water of that spring fell over that fish, so it moved and slipped out of the basket and entered the sea. When Moses woke up, he asked his attendant, 'Bring our early meal' (18.62). The narrator added: Moses did not suffer from fatigue except after he had passed the place he had been ordered to observe. His attendant Yusha` bin Noon said to him, 'Do you remember (what happened) when we betook ourselves to the rock? I did indeed forget (about) the fish ...' (18.63) The narrator added: So they came back, retracing their steps and then they found in the sea, the way of the fish looking like a tunnel. So there was an astonishing event for his attendant, and there was tunnel for the fish. When they reached the rock, they found a man covered with a garment. Moses greeted him. The man said astonishingly, 'Is there any such greeting in your land?' Moses said, 'I am Moses.' The man said, 'Moses of Bani Israel?' Moses said, 'Yes,' and added, 'may I follow you so that you teach me something of the Knowledge which you have been taught?' (18.66). Al-Khadir said to him, 'O Moses! You have something of Allah's knowledge which Allah has taught you and which I do not know; and I have something of Allah's knowledge which Allah has taught me and which you do not know.' Moses said, 'But I will follow you.' Al-Khadir said, 'Then if you follow me, ask me no question about anything until I myself speak to you concerning it.' (18.70). After that both of them proceeded along the seashore. There passed by them a boat whose crew recognized Al-Khadir and received them on board free of charge. So they both got on board. A sparrow came and sat on the edge of the boat and dipped its beak unto the sea. Al-Khadir said to Moses. 'My knowledge and your knowledge and all the creation's knowledge compared to Allah's knowledge is not more than the water taken by this sparrow's beak.' Then Moses was startled by Al-Khadir's action of taking an adze and scuttling the boat with it. Moses said to him, 'These people gave us a free lift, but you intentionally scuttled their boat so as to drown them. Surely you have...' (18.71) Then they both proceeded and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of him by the head and cut it off. Moses said to him, 'Have you killed an innocent soul who has killed nobody? Surely you have done an illegal thing! ' (18.74) He said, Didn't I tell you that you will not be able to have patient with me up to ..but they refused to entertain them as their guests. There they found a wall therein at the point of collapsing.' (18.75-77) Al-Khadir moved his hand thus and set it upright (repaired it). Moses said to him, 'When we entered this town, they neither gave us hospitality nor fed us; if you had wished, you could have taken wages for it,' Al- Khadir said, 'This is the parting between you and me I will tell you the interpretation of (those things) about which you were unable to hold patience.'...(18.78) Allah's Messenger said, 'We wished that Moses could have been more patient so that He (Allah) could have described to us more about their story.' Ibn `Abbas used to recite:-- 'And in front (ahead) of them there was a king who used to seize every (serviceable) boat by force. (18.79) ...and as for the boy he was a disbeliever.
مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے۔ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں انہیں تلاش کرو۔ بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے۔ مچھلی ساتھ تھی۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا، جسے ”حیات“ کہا جاتا تھا۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہو گئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا «قال لفتاه آتنا غداءنا» کہ ”ہمارا ناشتہ لاؤ“ الآیۃ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا «أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت» ”آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا“ الآیۃ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے۔ مچھلی تو پانی میں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ فرمایا کہ جی ہاں! موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔ خضر علیہ السلام نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا، میں خود آپ کو بتاؤں گا۔ چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو خضر علیہ السلام کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھا لیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالا تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میرا، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے۔ بیان کیا کہ پھر یکدم جب خضر علیہ السلام نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون و بدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی، یہ تو بڑی بری بات ہے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ کاش موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما «وكان وراءهم ملك» کی بجائے «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا» قرآت کرتے تھے اور بچہ ( جسے قتل کیا تھا ) اس کے والدین مومن تھے۔ اور یہ بچہ ( مشیت الٰہی میں ) کافر تھا۔
Mujh se Qatibah bin Saeed ne bayan kiya, kaha ke mujh se Sufyan bin A'eynah ne bayan kiya, kaha un se Amro bin Dinar ne aur un se Saeed bin Jubair ne bayan kiya ke main ne Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a se arz kiya. Nauf Bakali kehte hain ke Musa alayhis salam jo Allah ke nabi the woh nahin hain jin hon ne Khidr alayhis salam se mulaqat ki thi. Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne kaha, dushman khuda ne galat baat kahi hai. Hum se Abi bin Ka'ab ne bayan kiya ke Rasoolullah sallahu alayhi wa sallam ne farmaya ke Musa alayhis salam bani Israil ko waz' karne ke liye khade hue to un se poocha gaya ke sab se bada aalim kon shakhs hai. Musa alayhis salam ne farmaya ke main hun. Allah ta'ala ne is par ghussa kiya, kyun ke unhon ne ilm ki nisbat Allah ki taraf nahi ki thi aur un ke pass wahi bheji ke han, mere bandon mein se ek banda do daryaon ke milne ki jagah per hai aur woh tum se bada aalim hai. Musa alayhis salam ne arz kiya: Aye Parvardigaar! In tak pahunchne ka tariqa kya hoga? Allah ta'ala ne farmaya ke ek machhli zanbil mein sath le lo. Phir jahan woh machhli gum ho jaye wahin unhen talash karo. Bayan kiya ke Musa alayhis salam nikal pade aur aap ke sath aap ke rafiq safar Yushua bin Nun bhi the. Machhli sath thi. Jab chatan tak pahunche to wahin thahar gaye. Musa alayhis salam apna sar rakh kar wahin so gaye, Amro ki riwayat ke siwa doosri riwayat ke hawala se Sufyan ne bayan kiya ke is chatan ki jad mein ek chashma tha, jise “hayat” kaha jata tha. Jis cheez per bhi is ka pani pad jata woh zinda ho jati thi. Is machhli per bhi is ka pani pada to is ke andar harakat paida ho gai aur woh apni zanbil se nikal kar darya mein chali gai. Musa alayhis salam jab bidaar hue to unhon ne apne sathi se farmaya «qal laftaha atina ghadaana» ke "humara nashta lao" al-ayath. Bayan kiya ke safar mein Musa alayhis salam ko is waqt tak koi thakan nahi hui jab tak woh muqarrar jagah se aage nahi badh gaye. Rafiq safar Yushua bin Nun ne is per kaha «ara'ayt iza auwina ilal sakhrata fa'ini nasitu al-hoot» "aap ne dekha jab hum chatan ke neeche bathe hue the to main machhli ke mutalliq kahna bhul gaya" al-ayath. Bayan kiya ke phir woh dono ulte paaon wapas lote. Dekha ke jahan machhli pani mein giri thi wahin is ke guzrne ki jagah taq ki si surat bani hui hai. Machhli to pani mein chali gai thi lekin Yushua bin Nun ko is tarah pani ke ruk jane per ta'ajjub tha. Jab chatan per pahunche to dekha ke ek buzurg kapde mein lipat hue wahin maujood hain. Musa alayhis salam ne unhen salam kiya to unhon ne farmaya ke tumhari zamin mein salam kahan se aa gaya? Aap ne farmaya ke main Musa hun. Poocha bani Israil ke Musa? Farmaya ke ji han! Musa alayhis salam ne un se kaha kya aap ke sath rah sakta hun taka ke jo hidayat ka ilm Allah ta'ala ne aap ko diya hai woh aap mujhe bhi sikha dein. Khidr alayhis salam ne jawab diya ke aap ko Allah ki taraf se aisa ilm hasil hai jo main nahi janta aur isi tarah mujhe Allah ki taraf se aisa ilm hasil hai jo aap nahi jante. Musa alayhis salam ne farmaya, lekin main aap ke sath rahunga. Khidr alayhis salam ne is per kaha ke agar aap ko mere sath rehna hi hai to phir mujh se kisi cheez ke mutalliq na poochhiyega, main khud aap ko bataunga. Chunancha dono hazrat darya ke kinare rawana hue, in ke qareeb se ek kashti guzri to Khidr alayhis salam ko kashti walon ne pehchan liya aur apni kashti mein un ko baghair kiraaye ke charha liya dono kashti mein sawari ho gaye. Bayan kiya ke isi arse mein ek chidiya kashti ke kinare aa ke baithi aur us ne apni choonch ko darya mein dali to Khidr alayhis salam ne Musa alayhis salam se farmaya ke mera, aap ka aur tamam makhluqat ka ilm Allah ke ilm ke muqable mein is se zyada nahi hai jitna is chidiya ne apni choonch mein darya ka pani liya. Bayan kiya ke phir yekdam jab Khidr alayhis salam ne busola uthaya aur kashti ko phaar dala to Musa alayhis salam is taraf mutwajjeh hue aur farmaya in logoon ne hamen baghair kisi kiraaye ke apni kashti mein sawar kar liya tha aur aap ne is ka badla yeh diya hai ke in ki kashti hi cheer dali taka ke is ke musafir dub maryain. Balashabah aap ne bada na munasib kaam kiya hai. Phir woh dono aage badhe to dekha ke ek baccha jo bahut se doosre bachon ke sath khel raha tha, Khidr ne is ka sar pakda aur kat dala. Is per Musa alayhis salam bol pade ke aap ne bila kisi khoon o badla ke ek masoom bache ki jaan le li, yeh to bari buri baat hai. Khidr alayhis salam ne farmaya, main ne aap se pehle hi nahi kah diya tha ke aap mere sath sabar nahi kar sakte, Allah ta'ala ke irshad "pas is basti walon ne un ki mizbani se inkar kiya, phir is basti mein unhen ek deewar dikhai di jo bas girne hi wali thi. Khidr alayhis salam ne apna hath yun is per pheyra aur use sidha kar diya. Musa alayhis salam ne farmaya hum is basti mein aaye to unhon ne hamari mizbani se inkar kiya aur hamen khana bhi nahi diya agar aap chahte to is per ajrat le sakte the. Khidr alayhis salam ne farmaya bas yahan se ab mere aur aap ke darmiyan judai hai aur main aap ko in kaamon ki wajah bataunga jin per aap sabar nahi kar sake the. Is ke baad Rasoolullah sallahu alayhi wa sallam ne farmaya. Kash Musa alayhis salam ne sabar kiya hota aur Allah ta'ala un ke silsile mein aur waqiaat hum se bayan karta. Bayan kiya ke Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a «kaan wara'ahum malik» ki bajaye «kaan amamam malik ya'akhud kul safina saliha ghusban» qirat karte the aur baccha ( jise qatl kiya tha ) is ke waldain momin the. Aur yeh baccha ( mashit e ilahi mein ) kafir tha.
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّيَ زْعُمُ أَنَّ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى الْخَضِرِ ، فَقَالَ : كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ ، فَقِيلَ لَهُ : أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ قَالَ : أَنَا ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ ، وَأَوْحَى إِلَيْهِ ، بَلَى عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ ، قَالَ : أَيْ رَبِّ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ ؟ قَالَ : تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ ، فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ ، قَالَ : فَخَرَجَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ ، فَنَزَلَا عِنْدَهَا ، قَالَ : فَوَضَعَ مُوسَى رَأْسَهُ فَنَامَ ، قَالَ سُفْيَانُ : وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو ، قَالَ : وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لَا يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَيْءٌ إِلَّا حَيِيَ ، فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَاءِ تِلْكَ الْعَيْنِ ، قَالَ : فَتَحَرَّكَ وَانْسَلَّ مِنَ الْمِكْتَلِ ، فَدَخَلَ الْبَحْرَ ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَى ، قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا سورة الكهف آية 62 الْآيَةَ ، قَالَ : وَلَمْ يَجِدِ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ ، قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ ، أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ سورة الكهف آية 63 الْآيَةَ ، قَالَ : فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا ، فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ كَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ ، فَكَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا وَلِلْحُوتِ سَرَبًا ، قَالَ : فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى ، قَالَ : وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ ، فَقَالَ : أَنَا مُوسَى ، قَالَ مُوسَى : بَنِي إِسْرَائِيلَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ؟ قَالَ لَهُ الْخَضِرُ : يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ ، وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ ، قَالَ : بَلْ أَتَّبِعُكَ ، قَالَ : فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا ، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ ، فَمَرَّتْ بِهِمْ سَفِينَةٌ ، فَعُرِفَ الْخَضِرُ ، فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ ، يَقُولُ : بِغَيْرِ أَجْرٍ ، فَرَكِبَا السَّفِينَةَ ، قَالَ : وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ ، فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ فِي الْبَحْرِ ، فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى : مَا عِلْمُكَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلَائِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ ، قَالَ : فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى قَدُومٍ ، فَخَرَقَ السَّفِينَةَ ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى : قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ سورة الكهف آية 71 الْآيَةَ ، فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ ، قَالَ لَهُ مُوسَى : أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا إِلَى قَوْلِهِ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 75 - 77 ، فَقَالَ بِيَدِهِ : هَكَذَا ، فَأَقَامَهُ ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى : إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا ، لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ، قَالَ : هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ، سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا ، قَالَ : وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ 0 وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا 0 .