Narrated Ibn `Abbas: For the whole year I had the desire to ask `Umar bin Al-Khattab regarding the explanation of a Verse (in Surat Al-Tahrim) but I could not ask him because I respected him very much. When he went to perform the Hajj, I too went along with him. On our return, while we were still on the way home. `Umar went aside to answer the call of nature by the Arak trees. I waited till he finished and then I proceeded with him and asked him. O chief of the Believers! Who were the two wives of the Prophet who aided one another against him? He said, They were Hafsa and `Aisha. Then I said to him, By Allah, I wanted to ask you about this a year ago, but I could not do so owing to my respect for you. `Umar said, Do not refrain from asking me. If you think that I have knowledge (about a certain matter), ask me; and if I know (something about it), I will tell you. Then `Umar added, By Allah, in the Pre-lslamic Period of Ignorance we did not pay attention to women until Allah revealed regarding them what He revealed regarding them and assigned for them what He has assigned. Once while I was thinking over a certain matter, my wife said, I recommend that you do so-and-so. I said to her, What have you got to do with the is matter? Why do you poke your nose in a matter which I want to see fulfilled.? She said, How strange you are, O son of Al-Khattab! You don't want to be argued with whereas your daughter, Hafsa surely, argues with Allah's Messenger so much that he remains angry for a full day! `Umar then reported; how he at once put on his outer garment and went to Hafsa and said to her, O my daughter! Do you argue with Allah's Messenger so that he remains angry the whole day? H. afsa said, By Allah, we argue with him. `Umar said, Know that I warn you of Allah's punishment and the anger of Allah's Messenger . . . O my daughter! Don't be betrayed by the one who is proud of her beauty because of the love of Allah's Messenger for her (i.e. `Aisha). `Umar addled, Then I went out to Um Salama's house who was one of my relatives, and I talked to her. She said, O son of Al-Khattab! It is rather astonishing that you interfere in everything; you even want to interfere between Allah's Apostle and his wives!' By Allah, by her talk she influenced me so much that I lost some of my anger. I left her (and went home). At that time I had a friend from the Ansar who used to bring news (from the Prophet) in case of my absence, and I used to bring him the news if he was absent. In those days we were afraid of one of the kings of Ghassan tribe. We heard that he intended to move and attack us, so fear filled our hearts because of that. (One day) my Ansari friend unexpectedly knocked at my door, and said, Open Open!' I said, 'Has the king of Ghassan come?' He said, 'No, but something worse; Allah's Messenger has isolated himself from his wives.' I said, 'Let the nose of `Aisha and Hafsa be stuck to dust (i.e. humiliated)!' Then I put on my clothes and went to Allah's Messenger 's residence, and behold, he was staying in an upper room of his to which he ascended by a ladder, and a black slave of Allah's Messenger was (sitting) on the first step. I said to him, 'Say (to the Prophet ) `Umar bin Al-Khattab is here.' Then the Prophet admitted me and I narrated the story to Allah's Messenger . When I reached the story of Um Salama, Allah's Messenger smiled while he was lying on a mat made of palm tree leaves with nothing between him and the mat. Underneath his head there was a leather pillow stuffed with palm fibres, and leaves of a saut tree were piled at his feet, and above his head hung a few water skins. On seeing the marks of the mat imprinted on his side, I wept. He said.' 'Why are you weeping?' I replied, O Allah's Messenger ! Caesar and Khosrau are leading the life (i.e. Luxurious life) while you, Allah's Messenger though you are, is living in destitute . The Prophet then replied. 'Won't you be satisfied that they enjoy this world and we the Hereafter?'
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو؟ میری بیوی نے اس پر کہا: خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی ( حفصہ ) تو رسول اللہ ﷺ کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم ﷺ کو غصہ بھی کر دیا تھا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی! کیا تم رسول اللہ ﷺ کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم ﷺ کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم! ہم نبی کریم ﷺ کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا ( ناراضگی ) سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آ جانا جس نے نبی کریم ﷺ کی محبت حاصل کر لی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو! کھولو! کھولو! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم ﷺ اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام ( رباح ) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا: نبی کریم ﷺ سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت نبی کریم ﷺ کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ ﷺ کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں ( آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔
Hum se Abd al-'Aziz bin Abd Allah ne bayan kiya, kaha hum se Sulaiman bin Bilal ne bayan kiya, un se Yahiya ne, un se 'Ubaid bin Hunain ne ki unhon ne Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه) ko hadees bayan karte hue suna, unhon ne kaha aik aayat ke mutaalliq 'Umar bin Khattab radiyallahu 'anhu se poochhne ke liye ek saal tak mein tawaqqud mein raha, un ka itna dar ghalib tha ke mein un se nah poochh saka. Akhir woh hajj ke liye gaye to mein bhi un ke sath ho liya, wapas mein jab hum rasta mein the to rafa'a-e hajat ke liye woh pailo ke darakht mein gaye. Bayan kiya ke mein un ke intezaar mein khada raha jab woh farigh ho kar aaye to phir mein un ke sath chala is waqt mein ne arz kiya. Amir al-Mu'minin! Ummahat al-Mu'minin mein woh kaun do aurtein thi jinhon ne Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ke liye mutafiqah mansooba banaya tha? Unhon ne btalaya ke Hafsah aur Ayesha (رضي الله تعالى عنه) thi. Bayan kiya ke mein ne arz kiya Allah ki qasam mein yeh sawal aap se karne ke liye ek saal se irada kar raha tha lakin aap ke ra'b ki wajah se poochhne ki himmat nah hoti thi. 'Umar radiyallahu 'anhu ne kaha aisa nah karo jis masala ke mutaalliq tumhara khyal ho ke mere paas is silsile mein koi ilm hai to usse poochh liya karo, agar mere paas is ka koi ilm hoga to tumhein bata diya karonga. Bayan kiya ke 'Umar radiyallahu 'anhu ne kaha: Allah ki qasam! Jahaliyat mein hamari nazar mein aurton ki koi izzat nah thi. Yahin tak ke Allah ta'ala ne un ke bare mein woh ahkaam naazil kiye jo naazil karne the aur un ke huqooq muqarrar kiye jo muqarrar karne the. Btalaya ke ek din mein soch raha tha ke meri biwi ne mujh se kaha ke behtar hai agar tum is mu'amale ka flan flan tarah karo, mein ne kaha tumhara is mein kya kaam. Mu'amala mujh se mutaalliq hai tum is mein dakhal dene wali kon hoti ho? Meri biwi ne is par kaha: Khatab ke bete! Tumhare is tarz e amal par hairat hai tum apni baton ka jawab bardasht nah kar sakte tumhari larkai ( Hafsah ) to Rasoolallah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko bhi jawab de deti hain ek din to us ne Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ko ghussa bhi kar diya tha. Yeh sun kar 'Umar radiyallahu 'anhu khare ho gaye aur apni chadar odh kar Hafsah ke ghar pahunche aur farmaye beti! Kya tum Rasoolallah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki baton ka jawab de deti ho yaha tak ke ek din tum ne Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ko din bhar naraz bhi rakha. Hafsah radiyallahu 'anha ne arz kiya: Ji han, Allah ki qasam! Hum Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ko kabhi jawab de dete hain. 'Umar radiyallahu 'anhu ne kaha ke mein ne kaha jaan lo mein tumhein Allah ki saza aur us ke Rasool ki saza ( narazgi ) se darata hun. Beti! Is aurat ki wajah se dhoka mein nah ja jana jis ne Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ki mohabbat hasil kar li. Un ka ishara Ayesha radiyallahu 'anha ki taraf tha kaha ke phir mein wahin se nikal kar Umm al-Mu'minin Umm Salama radiyallahu 'anha ke paas aaya kyun ke woh bhi meri rishtedar thi. Mein ne un se bhi guftgu ki unhon ne kaha Ibn Khatab! Ta'ajjub hai ke aap har mu'amale mein dakhal andazi karte hain aur aap chahte hain ke Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) aur un ki azwaj ke mu'amalaton mein bhi dakhal den. Allah ki qasam! Unhon ne meri aisi girft ki ke mere ghusse ko thanda kar ke rakh diya, mein un ke ghar se bahar nikal aaya. Mere ek ansari dost the, jab mein Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ki majlis mein haazir nah hota to woh majlis ki tamam baten mujh se aa kar btaya karte aur jab woh haazir nah hote to mein unhein aa kar btaya karta tha. Is zamana mein humein Ghasan ke badshah ki taraf se dar tha itla'a mili thi ke woh Madina par chdhahi karne ka irada kar raha hai, is zamana mein kai'i masihi aur iranai badshah aisa ghalat ghumand rakhte the ke yeh musalman kya hain hum jab chahenge un ka safaya kar denge magar yeh sare khyalaat ghalat sabit hue Allah ne Islam ko ghalib kiya. Chanancha hum ko har waqt yahi khatra rehta tha, ek din achanak mere ansari dost ne darwaza khatkhataya aur kaha kholo! Kholo! Kholo! Mein ne kaha ma'loom hota hai ghasani aa gaye. Unhon ne kaha balki is se bhi ziyada ahmiyat wala mu'amala pesh aa gaya hai, woh yeh ke Rasoolallah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne apni biwiyon se alihadgi ikhtiyar kar li. Mein ne kaha Hafsah aur Ayesha (رضي الله تعالى عنه) ki nak ghubar alooad ho. Chanancha mein ne apna kapra pehna aur bahar nikal aaya. Mein jab pahuncha to Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) apne bala khanah mein tashreef rakhte the jis par seedhi se chdha jata tha. Nabi Karim ka ek habashi ghulam ( Ribaah ) seedhi ke sare par maujood tha, mein ne kaha: Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) se arz karo ke 'Umar bin Khattab aaya hai aur andar aane ki ijazat chahta hai. Mein ne Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein pahunch kar apna sara waqia suna. Jab mein Umm Salama radiyallahu 'anhama ki guftgu par pahuncha to aap ko hansi aa gayi. Is waqt Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) khajoor ki ek chatai par tashreef rakhte the aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke jism Mubarak aur is chatai ke darmiyan koi aur cheez nah thi aap ke sar ke neeche ek chamre ka takiya tha. Jis mein khajoor ki chhal bhari hoi thi. Paon ki taraf kikar ke patton ka dher tha aur sar ki taraf muskija latak raha tha. Mein ne chatai ke nishanaat aap ke pahloo par dekhe to ro para. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaye, kis baat par rone lag gaye ho mein ne arz ki ya Rasoolallah! Qaisar wa Khosrau ko dunya ka har tarah ka aaram mil raha hai aap Allah ke Rasool hain ( aap phir aisi tang zindagi guzarte hain ) Nabi Karim (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaye kya tum is par khush nah ho ke un ke hisse mein dunya hai aur hamare hisse mein akhirat.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ ، أَنَّهُ قَالَ : مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ ، حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا ، فَخَرَجْتُ مَعَهُ ، فَلَمَّا رَجَعْنَا وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ ، قَالَ : فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ، ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ ، فَقُلْتُ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ، مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ ؟ فَقَالَ : تِلْكَ حَفْصَةُ ، وَعَائِشَةُ ، قَالَ : فَقُلْتُ : وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ ، قَالَ : فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي ، فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ بِهِ ، قَالَ : ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ ، وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ ، قَالَ : فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ إِذْ قَالَتِ امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا ، قَالَ : فَقُلْتُ لَهَا : مَا لَكَ وَلِمَا هَا هُنَا وَفِيمَ تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ ، فَقَالَتْ لِي : عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ ، فَقَامَ عُمَرُ ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ ، فَقَالَ لَهَا : يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ ، فَقَالَتْ حَفْصَةُ : وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ ، فَقُلْتُ : تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا ، يُرِيدُ عَائِشَةَ ، قَالَ : ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا ، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ : عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ ، فَأَخَذَتْنِي وَاللَّهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ ، فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ ، وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ ، وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا ، فَقَدِ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ ، فَقَالَ : افْتَحْ افْتَحْ ، فَقُلْتُ : جَاءَ الْغَسَّانِيُّ ، فَقَالَ : بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ ، فَقُلْتُ : رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ ، فَأَخَذْتُ ثَوْبِي ، فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ ، فَقُلْتُ لَهُ : قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَأَذِنَ لِي ، قَالَ عُمَرُ : فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ ، وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ ، وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ ، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ ، فَبَكَيْتُ ، فَقَالَ : مَا يُبْكِيكَ ؟ فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، فَقَالَ : أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ .