3.
Knowledge
٣-
كتاب العلم
44
Chapter: When a religious learned man is asked, "Who is the most learned person." it is better for him to attribute or entrust absolute knowledge to Allah 'Azza wa Jall and to say. "Allah is the Most Learned (than anybody else)"
٤٤
باب مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَىُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
ubay bn ka‘bin | Ubayy ibn Ka'b al-Ansari | Sahabi |
li-ibn ‘abbāsin | Abdullah bin Abbas Al-Qurashi | Companion |
sa‘īd bn jubayrin | Saeed bin Jubair al-Asadi | Trustworthy, Established |
‘amrw | Amr ibn Dinar al-Juhani | Trustworthy, Firm |
sufyān | Sufyan bin `Uyainah Al-Hilali | Trustworthy Hadith Scholar |
‘abd al-lah bn muḥammadin | Abdullah bin Muhammad Al-Ja'fi | Trustworthy Haafiz |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ | أبي بن كعب الأنصاري | صحابي |
لِابْنِ عَبَّاسٍ | عبد الله بن العباس القرشي | صحابي |
سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ | سعيد بن جبير الأسدي | ثقة ثبت |
عَمْرٌو | عمرو بن دينار الجمحي | ثقة ثبت |
سُفْيَانُ | سفيان بن عيينة الهلالي | ثقة حافظ حجة |
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ | عبد الله بن محمد الجعفي | ثقة حافظ |
Sahih al-Bukhari 122
Sa'id bin Jubair (رضئ هللا تعالی عنہ) reported that 'I said to Ibn Abbas (رضئ هللا تعالی عنہ), "Nauf-Al-Bakali claims that Moses (عليه السالم) (in the episode of Khadirؓ ) was not the Moses (عليه السالم) of Bani Israel but he was another Moses." Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه) remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka`b (رضي الله تعالى عنه), the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) said, "Once Prophet Moses (عليه السالم) stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man among the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses (عليه السالم) as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah ( ََّّ وَ جَلعَز) revealed to him "At the junction of the two seas there is a servant among My servants who is more learned than you." Moses (عليه السالم) said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah (جَلَّ ذُو) said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses ( عليهالسالم) set out along with his (servant) boy 'Yusha bin Noon' and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (lay down) and slept. The fish came out of the basket and took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses (عليه السالم) and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses (عليه السالم) said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses (عليه السالم) did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses (عليه السالم), "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses (عليه السالم) remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their footsteps, till they reached the rock. There they saw a man (sitting) covered with (his) garment. Moses ( عليهالسالم) greeted him. Al-Khadir (عليه السالم) replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses (عليه السالم) said, "I am Moses (عليه السالم)." He asked, "The Moses ( عليهالسالم) of Bani Israel?" Moses (عليه السالم) replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir (عليه السالم) replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses (عليه السالم)! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses (عليه السالم) said, "Allah willing, you will find me patient and I will disobey no order of yours. So both of them set out walking along the seashore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir (عليه السالم) and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir (عليه السالم) said : "O Moses (عليه السالم)! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al- Khadir (عليه السالم) went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses (عليه السالم) said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir (عليه السالم) replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses (عليه السالم) said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses (عليه السالم) was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir (عليه السالم) took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (killed him). Moses (عليه السالم) said, "Have you killed an innocent person who has killed none." Al-Khadir (عليه السالم) replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir (عليه السالم) repaired it with his own hands. Moses (عليه السالم) said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir (عليه السالم) replied, "This is the parting between you and me." The Prophet ( صلى الله عليه وآله وسلم) added, "May Allah be Merciful to Moses (عليه السالم)! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir (عليه السالم). "
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انہیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ( جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، ( یہ سن کر ) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا کہ ( ایک روز ) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ ( جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں ) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں ( وہیں ) ملے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب ( ایک ) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں ( جتنا وقت باقی تھا ) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے ( کافی ) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، ( بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی ) ( یہ سن کر ) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے ( موجود ہے ) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام ) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ ( اس پر ) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں ( اسے دیکھ کر ) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر ( کے پانی ) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر ( مفت میں ) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی ( کی لکڑی ) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ ( اس پر ) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے ( کشتی سے اتر کر ) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا ( غضب ہو گیا ) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے ( کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے ) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو ( گاؤں والوں سے ) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ ( بس اب ) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے ( اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا ) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔
Hum se ʿAbdullaah bin Muhammad al-Musandi ne bayan kiya, un se Sufyan ne, un se ʿAmr ne, unhen Saeed bin Jubair radhiallahu ʿanhu ne khabar di, woh kehte hain ke main ne Ibn Abbas radhiallahu ʿanhuma se kaha ke Nuf Bakali ka yeh khayal hai ke Musa ʿalaihis-salam ( jo Khidr ʿalaihis-salam ke pass gaye the woh ) Musa Bani Israil walay nahin the balke doosre Musa the, ( yeh sun kar ) Ibn Abbas radhiallahu ʿanhuma bole ke Allah ke dusman ne jhoot kaha hai. Hum se Abi bin Kaʿb radhiallahu ʿanhu ne Rasoolullah ṣallallahu ʿalaihi wa sallam se naqal kiya ke ( ek roz ) Musa ʿalaihis-salam ne khare ho kar Bani Israil mein khutba diya, to aap se poocha gaya ke logon mein sab se ziyada sahib ilm kon hai? Unhon ne farmaya ke main hoon. Is wajah se Allah ka ghussa un par hua ke unhon ne ilm ko Allah ke hawale kyun nah kiya. Tab Allah ne un ki taraf wahy bheji ke mere bandon mein se ek banda daryaoon ke sangam par hai. ( jahaan Faris aur Rum ke samandar milte hain ) woh tujh se ziyada aalim hai, Musa ʿalaihis-salam ne kaha Aye Parwardigaar! Meri un se mulaqat kaise ho? Hukm hua ke ek machhli zanbil mein rakh lo, phir jahaan tum is machhli ko gum kar do ge to woh banda tumhen ( waheen ) milega. Tab Musa ʿalaihis-salam chale aur sath apne khadim Youshaʿ bin Noon ko le liya aur unhon ne zanbil mein machhli rakh li, jab ( ek ) pathar ke pass pahunche, dono apne sar is par rakh kar so gaye aur machhli zanbil se nikal kar darya mein apni raah banati chali gayi aur yeh baat Musa ʿalaihis-salam aur un ke sathi ke liye behhad taʿajjub ki thi, phir dono baqi raat aur din mein ( jitna waqt baki tha ) chalte rahe, jab subah hui Musa ʿalaihis-salam ne khadim se kaha, hamara nashta lao, is safar mein hum ne ( kaafi ) taklif uthai hai aur Musa ʿalaihis-salam bilkul nahin thake the, magar jab is jagah se aage nikal gaye, jahaan tak unhen jaane ka hukm mila tha, tab un ke khadim ne kaha, kya aap ne dekha tha ke jab hum sakhra ke pass thahre the to main machhli ka zikr bhool gaya, ( b-qul-e-baʿz sakhra ke niche aab-e-hyaat tha, woh is machhli par pada, aur woh zinda ho kar b-qudrat-e-ilahi darya mein chal di ) ( yeh sun kar ) Musa ʿalaihis-salam bole ke yeh hi woh jagah hai jis ki humein talash thi, to woh pichhle paon wapas ho gaye, jab pathar tak pahunche to dekha ke ek shakhs kapra odhe hue ( maujood hai ) Musa ʿalaihis-salam ne unhen salam kiya, Khidr ʿalaihis-salam ne kaha ke tumhari sar-zameen mein salam kahan? Phir Musa ʿalaihis-salam ne kaha ke main Musa ( ʿalaihis-salam ) hoon, Khidr bole ke Bani Israil ke Musa? Unhon ne jawab diya ke haan! Phir kaha kya main aap ke sath chal sakta hoon, taake aap mujhe hidayat ki woh baatein bata lein jo Allah ne khas aap hi ko sikhalai hain. Khidr ʿalaihis-salam bole ke tum mere sath sabar nahin kar sako ge. Isse Musa! Mujhe Allah ne aisa ilm diya hai jise tum nahin jaante aur tum ko jo ilm diya hai use main nahin jaanta. ( is par ) Musa ne kaha ke Allah ne chaha to aap mujhe sabir pao ge aur main kisi baat mein aap ki nafarmani nahin karoon ga. Phir dono darya ke kinare kinare paidal chale, un ke pass koi kashti nah thi ke ek kashti un ke samne se guzri, to kashti walon se unhon ne kaha ke humein bithao. Khidr ʿalaihis-salam ko unhon ne pahchan liya aur baghair kraya ke sawar kar liya, itne mein ek chidiya aayi aur kashti ke kinare par baith gayi, phir samandar mein us ne ek ya do chunchen mari ( ise dekh kar ) Khidr ʿalaihis-salam bole ke Aye Musa! Mere aur tumhare ilm ne Allah ke ilm mein se itna hi kam kiya hoga jitna is chidiya ne samandar ( ke pani ) se phir Khidr ʿalaihis-salam ne kashti ke takhton mein se ek takhta nikal dala, Musa ʿalaihis-salam ne kaha ke in logon ne to humein kraya liye baghair ( muft mein ) sawar kiya aur aap ne un ki kashti ( ki lakadi ) akhar dali taake yeh dub jaen, Khidr ʿalaihis-salam bole ke kya main ne nahin kaha tha ke tum mere sath sabar nahin kar sako ge? ( is par ) Musa ʿalaihis-salam ne jawab diya ke bhool par meri girft nah karo. Musa ʿalaihis-salam ne bhool kar yeh pehla e'teraaz kiya tha. Phir dono chale ( kashti se utar kar ) ek lark baachon ke sath khel raha tha, Khidr ʿalaihis-salam ne upar se us ka sar pakar kar hath se use alag kar diya. Musa ʿalaihis-salam bol pade ke aap ne ek begunaah bache ko baghair kisi jaani haq ke mar dala ( ghussa ho gaya ) Khidr ʿalaihis-salam bole ke main ne tum se nahin kaha tha ke tum mere sath sabar nahin kar sako ge. Ibn ʿAyinah kehte hain ke is kalam mein pahle se ziyada takid hai ( kyun ke pahle kalam mein lafz lak nahin kaha tha, is mein lak zaid kiya, jisse takid zahir hai ) phir dono chalte rahe. Hata ke ek gaon walon ke pass aaye, un se khana lena chaha. Unhon ne khana khilane se inkar kar diya. Unhon ne waheen dekha ke ek diwar usi gaon mein girne ke qareeb thi. Khidr ʿalaihis-salam ne apne hath ke ishare se use seedha kar diya. Musa bol uthe ke agar aap chahte to ( gaon walon se ) is kaam ki mazduri le sakte the. Khidr ne kaha ke ( bas ab ) hum aur tum mein judaai ka waqt aa gaya hai. Janab Mahboob-e-Kubra Rasoolullah ṣallallahu ʿalaihi wa sallam farmate hain ke Allah Musa par rahm kare, hamari tamanna thi ke Musa kuchh der aur sabar karte to mazid waqiaat in dono ke bayan kiye jate ( aur hamare samne roshni mein aate, magar Musa ʿalaihis-salam ki ajal ne is ilm-e-laduni ke silsile ko jaldi hi muntaqe kar diya ) Muhammad bin Yousuf kehte hain ke hum se Ali bin Khishram ne yeh hadees bayan ki, un se Sufyan bin ʿAyinah ne poori ki poori bayan ki.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ ، فَقَالَ : كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُ ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ ، قَالَ : يَا رَبِّ ، وَكَيْفَ بِهِ ؟ فَقِيلَ لَهُ : احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ ، فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ ، وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا ، فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ ، فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا ، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ : آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا ، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ : أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ ، قَالَ مُوسَى : ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا ، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى ، فَقَالَ الْخَضِرُ : وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ ، فَقَالَ : أَنَا لمُوسَى ، فَقَالَ مُوسَى : بَنِي إِسْرَائِيلَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ؟ قَالَ : إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى ، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ ، قَالَ : سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا ، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا ، فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ ، فَقَالَ الْخَضِرُ : يَا مُوسَى ، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ ، فَقَالَ مُوسَى : قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ، قَالَ : لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ ، فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا ، فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ ، فَقَالَ مُوسَى : أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ : وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ ، قَالَ الْخَضِرُ : بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى : لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ، قَالَ : هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا .