60.
Prophets
٦٠-
كتاب أحاديث الأنبياء


9
Chapter: And Allah's Statement: "... hastening."

٩
باب ‏{‏يَزِفُّونَ‏}‏ النَّسَلاَنُ فِي الْمَشْىِ

Sahih al-Bukhari 3365

Narrated Ibn `Abbas: When Abraham had differences with his wife), (because of her jealousy of Hajar, Ishmael's mother), he took Ishmael and his mother and went away. They had a water-skin with them containing some water, Ishmael's mother used to drink water from the water-skin so that her milk would increase for her child. When Abraham reached Mecca, he made her sit under a tree and afterwards returned home. Ishmael's mother followed him, and when they reached Kada', she called him from behind, 'O Abraham! To whom are you leaving us?' He replied, '(I am leaving you) to Allah's (Care).' She said, 'I am satisfied to be with Allah.' She returned to her place and started drinking water from the water-skin, and her milk increased for her child. When the water had all been used up, she said to herself, 'I'd better go and look so that I may see somebody.' She ascended the Safa mountain and looked, hoping to see somebody, but in vain. When she came down to the valley, she ran till she reached the Marwa mountain. She ran to and fro (between the two mountains) many times. They she said to herself, 'i'd better go and see the state of the child,' she went and found it in a state of one on the point of dying. She could not endure to watch it dying and said (to herself), 'If I go and look, I may find somebody.' She went and ascended the Safa mountain and looked for a long while but could not find anybody. Thus she completed seven rounds (of running) between Safa and Marwa. Again she said (to herself), 'I'd better go back and see the state of the child.' But suddenly she heard a voice, and she said to that strange voice, 'Help us if you can offer any help.' Lo! It was Gabriel (who had made the voice). Gabriel hit the earth with his heel like this (Ibn `Abbas hit the earth with his heel to Illustrate it), and so the water gushed out. Ishmael's mother was astonished and started digging. (Abu Al-Qasim) (i.e. the Prophet) said, If she had left the water, (flow naturally without her intervention), it would have been flowing on the surface of the earth. ) Ishmael's mother started drinking from the water and her milk increased for her child . Afterwards some people of the tribe of Jurhum, while passing through the bottom of the valley, saw some birds, and that astonished them, and they said, 'Birds can only be found at a place where there is water.' They sent a messenger who searched the place and found the water, and returned to inform them about it. Then they all went to her and said, 'O ishmael's mother! Will you allow us to be with you (or dwell with you)?' (And thus they stayed there.) Later on her boy reached the age of puberty and married a lady from them. Then an idea occurred to Abraham which he disclosed to his wife (Sarah), 'I want to call on my dependents I left (at Mecca).' When he went there, he greeted (Ishmael's wife) and said, 'Where is Ishmael?' She replied, 'He has gone out hunting.' Abraham said (to her), 'When he comes, tell him to change the threshold of his gate.' When he came, she told him the same whereupon Ishmael said to her, 'You are the threshold, so go to your family (i.e. you are divorced).' Again Abraham thought of visiting his dependents whom he had left (at Mecca), and he told his wife (Sarah) of his intentions. Abraham came to Ishmael's house and asked. Where is Ishmael? Ishmael's wife replied, He has gone out hunting, and added, Will you stay (for some time) and have something to eat and drink?' Abraham asked, 'What is your food and what is your drink?' She replied, 'Our food is meat and our drink is water.' He said, 'O Allah! Bless their meals and their drink. Abu Al-Qa-sim (i.e. Prophet) said, Because of Abraham's invocation there are blessings (in Mecca). Once more Abraham thought of visiting his family he had left (at Mecca), so he told his wife (Sarah) of his decision. He went and found Ishmael behind the Zamzam well, mending his arrows. He said, O Ishmael, Your Lord has ordered me to build a house for Him. Ishmael said, Obey (the order of) your Lord. Abraham said, Allah has also ordered me that you should help me therein. Ishmael said, Then I will do. So, both of them rose and Abraham started building (the Ka`ba) while Ishmael went on handing him the stones, and both of them were saying, O our Lord ! Accept (this service) from us, Verily, You are the All-Hearing, the All-Knowing. (2.127). When the building became high and the old man (i.e. Abraham) could no longer lift the stones (to such a high position), he stood over the stone of Al- Maqam and Ishmael carried on handing him the stones, and both of them were saying, 'O our Lord! Accept (this service) from us, Verily You are All-Hearing, All-Knowing. (2.127)

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے کثیر بن کثیر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی ( سارہ علیہ السلام ) کے درمیان جو کچھ جھگڑا ہونا تھا جب وہ ہوا تو آپ اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ( ہاجرہ علیہ السلام ) کو لے کر نکلے، ان کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا۔ جس میں پانی تھا، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسی مشکیزہ کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ جب ابراہیم مکہ پہنچے تو انہیں ایک بڑے درخت کے پاس ٹھہرا کر اپنے گھر واپس جانے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں۔ جب مقام کداء پر پہنچے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی کہ اے ابراہیم! ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پر! ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ پھر میں اللہ پر خوش ہوں۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ اپنی جگہ پر واپس چلی آئیں اور اسی مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں جب پانی ختم ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ ادھر ادھر دیکھنا چاہئے، ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہی سوچ کر وہ صفا ( پہاڑی ) پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آ جائے لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ پھر جب وادی میں اتریں تو دوڑ کر مروہ تک آئیں۔ اسی طرح کئی چکر لگائے، پھر سوچا کہ چلوں ذرا بچے کو تو دیکھوں کس حالت میں ہے۔ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا ( جیسے تکلیف کے مارے ) موت کے لیے تڑپ رہا ہو۔ یہ حال دیکھ کر ان سے صبر نہ ہو سکا، سوچا چلوں دوبارہ دیکھوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے، آئیں اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف نظر پھیر پھیر کر دیکھتی رہیں لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ اس طرح ہاجرہ علیہ السلام نے سات چکر لگائے پھر سوچا، چلوں دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے؟ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی۔ انہوں نے ( آواز سے مخاطب ہو کر ) کہا کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کرو۔ وہاں جبرائیل علیہ السلام موجود تھے۔ انہوں نے اپنی ایڑی سے یوں کیا ( اشارہ کر کے بتایا ) اور زمین ایڑی سے کھودی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس عمل کے نتیجے میں وہاں سے پانی پھوٹ پڑا۔ ام اسماعیل ڈریں۔ ( کہیں یہ پانی غائب نہ ہو جائے ) پھر وہ زمین کھودنے لگیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا: اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی زمین پر بہتا رہتا۔ غرض ہاجرہ علیہ السلام زمزم کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وادی کے نشیب سے گزرے۔ انہیں وہاں پرند نظر آئے۔ انہیں یہ کچھ خلاف عادت معلوم ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ پرندہ تو صرف پانی ہی پر ( اس طرح ) منڈلا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنا آدمی وہاں بھیجا۔ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی وہاں پانی موجود تھا۔ اس نے آ کر اپنے قبیلے والوں کو خبر دی تو یہ سب لوگ یہاں آ گئے اور کہا کہ اے ام اسماعیل! کیا ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی یا ( یہ کہا کہ ) اپنے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ پھر ان کے بیٹے ( اسماعیل علیہ السلام ) بالغ ہوئے اور قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہو گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا اور انہوں نے اپنی اہلیہ ( سارہ علیہا السلام ) سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو ( مکہ میں ) چھوڑ آیا تھا ان کی خبر لینے جاؤں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لائے اور سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو ان کی بیوی نے واقعہ کی اطلاع دی۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں ہو ( جسے بدلنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کہہ گئے ہیں ) اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ بیان کیا کہ پھر ایک مدت کے بعد دوبارہ ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا اور انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں انہیں دیکھنے جاؤں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ٹھہرئیے اور کھانا تناول فرما لیجئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے پیتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ان کے کھانے اور ان کے پانی میں برکت نازل فرما۔ بیان کیا کہ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی برکت اب تک چلی آ رہی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ( تیسری بار ) ابراہیم علیہ السلام کو ایک مدت کے بعد خیال ہوا اور اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ جن کو میں چھوڑ آیا ہوں ان کی خبر لینے مکہ جاؤں گا۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور اس مرتبہ اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جو زمزم کے پیچھے اپنے تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اے اسماعیل! تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناؤں، بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائیے۔ انہوں نے فرمایا اور مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو۔ عرض کیا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ یا اسی قسم کے اور الفاظ ادا کئے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں باپ بیٹے اٹھے۔ ابراہیم علیہ السلام دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام انہیں پتھر لا لا کر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے جاتے تھے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول کر۔ بیشک تو بڑا سننے والا، بہت جاننے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر جب دیوار بلند ہو گئی اور بزرگ ( ابراہیم علیہ السلام ) کو پتھر ( دیوار پر ) رکھنے میں دشواری ہوئی تو وہ مقام ( ابراہیم ) کے پتھر پر کھڑے ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے اور ان حضرات کی زبان پر یہ دعا جاری تھی۔ ”اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اسے قبول فرما لے۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔“

Hum se Abdullah bin Muhammad ne bayan kiya, kaha hum se Abu Aamir Abdul Malik bin Amr ne bayan kiya, kaha ke hum se Ibrahim bin Nafi ne bayan kiya, un se Kashir bin Kashir ne, un se Saeed bin Jubair ne aur un se Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne bayan kiya ke Ibrahim Alayhi assalam aur un ki biwi ( Sarah Alayhi assalam ) ke darmiyan jo kuchh jhagda hona tha jab woh hua to aap Ismail Alayhi assalam aur un ki walidah ( Hajirah Alayhi assalam ) ko le kar nikale, un ke sath ek mushakizah tha. Jis mein pani tha, Ismail Alayhi assalam ki walidah usi mushakizah ka pani peti rahin aur apna doodh apne bache ko pilati rahin. Jab Ibrahim Makkah pahunche to unhein ek bade darakht ke pass thahra kar apne ghar wapas jane lage. Ismail Alayhi assalam ki walidah un ke pichhe pichhe aain. Jab makam Kada per pahunche to unhon ne pichhe se awaz di ke aey Ibrahim! Hamein kis per chhor kar ja rahe hain? Unhon ne farmaaya ke Allah par! Hajirah Alayhi assalam ne kaha ke phir main Allah per khush hun. Bayan kiya ke phir Hajirah apni jagah per wapas chali aain aur usi mushakizah se pani peti rahin aur apna doodh apne bache ko pilati rahin jab pani khatam ho gaya to unhon ne socha ke udhar udhar dekhna chahiye, mumkin hai ke koi aadmi nazar a jaaye. Ravi ne bayan kiya ke yahi soch kar woh Safa ( pahaadi ) per chadh gain aur charon taraf dekha ke shayad koi nazar a jaaye lekin koi nazar nahin aaya. Phir jab wadi mein utri to dour kar Marwah tak aain. Isi tarah kai chakkar lagaye, phir socha ke chalon zara bache ko to dekhoon kis halat mein hai. Chanancha aain aur dekha to baccha usi halat mein tha ( jaise takleef ke mare ) maut ke liye tarap raha ho. Yeh hal dekh kar un se sabar nahin ho saka, socha chalon dubara dekhoon mumkin hai ke koi aadmi nazar a jaaye, aain aur Safa pahad per chadh gain aur charon taraf nazar phir phir kar dekhati rahin lekin koi nazar nahin aaya. Is tarah Hajirah Alayhi assalam ne sat chakkar lagaye phir socha, chalon dekhoon baccha kis halat mein hai? Usi waqt unhein ek awaz sunai di. Unhon ne ( awaz se mukhatib ho kar ) kaha ke agar tumhare pass koi bhalaai hai to meri madad karo. Wahin Jibrail Alayhi assalam maujood the. Unhon ne apni edhi se yun kiya ( ishara kar ke bataya ) aur zameen edhi se khodhi. Ravi ne bayan kiya ke is amal ke natije mein wahin se pani phot pada. Um Ismail drain. ( Kahin yeh pani ghaib nahin ho jaaye ) phir woh zameen khodne lagi. Ravi ne bayan kiya ke Abu al-Qasim salla Allahu alayhi wa sallam ne farmaaya: agar woh pani ko yun hi rehne deti to pani zameen par bahta rehta. Ghaz Hajirah Alayhi assalam Zamzam ka pani peti rahin aur apna doodh apne bache ko pilati rahin. Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne bayan kiya ke is ke baad qabila Jarhum ke kuchh log wadi ke nashib se guzre. Unhein wahin parand nazar aaye. Unhein yeh kuchh khilal adat maloom hua. Unhon ne aapas mein kaha ke parindah to sirf pani hi par ( is tarah ) mundla sakta hai. In logon ne apna aadmi wahin bheja. Us ne ja kar dekha to waqai wahin pani maujood tha. Us ne a kar apne qabile walon ko khabar di to yeh sab log yahan a gaye aur kaha ke aey Um Ismail! Kya humein apne sath rehne ki ya ( yeh kaha ke ) apne sath qiyam karne ki ijazat den gi? Phir un ke bete ( Ismail Alayhi assalam ) baaligh hue aur qabila Jarhum hi ki ek ladki se un ka nikah ho gaya. Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne bayan kiya ke phir Ibrahim Alayhi assalam ko khayal aaya aur unhon ne apni ahliyah ( Sarah Alayhi assalam ) se farmaaya ke main jin logon ko ( Makkah mein ) chhor aaya tha un ki khabar lene jaon ga. Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne bayan kiya ke phir Ibrahim Alayhi assalam Makkah tashreef laye aur salam kar ke dar yaft farmaaya ke Ismail kahan hain? Un ki biwi ne bataya ke shikar ke liye gaye. Unhon ne farmaaya ke jab woh aain to un se kahna ke apne darwaze ki chaukhat badal dalain. Jab Ismail Alayhi assalam aaye to un ki biwi ne waqia ki itla di. Ismail Alayhi assalam ne farmaaya ke tumhein ho ( jise badalne ke liye Ibrahim Alayhi assalam kah gye hain ) ab tum apne ghar ja sakti ho. Bayan kiya ke phir ek muddat ke baad dubara Ibrahim Alayhi assalam ko khayal hua aur unhon ne apni biwi se farmaaya ke main jin logon ko chhor aaya hun unhein dekhne jaon ga. Ravi ne bayan kiya ke Ibrahim Alayhi assalam tashreef laye aur dar yaft farmaaya ke Ismail kahan hain? Un ki biwi ne bataya ke shikar ke liye gaye. Unhon ne yeh bhi kaha ke aap thahraye aur khana tanavul farma lijiye. Ibrahim Alayhi assalam ne dar yaft farmaaya ke tum log khate pite kya ho? Unhon ne bataya ke gosht khate hain aur pani pite hain. Aap ne dua ki ke aey Allah! Un ke khane aur un ke pani mein barkat nazil farma. Bayan kiya ke Abu al-Qasim salla Allahu alayhi wa sallam ne farmaaya, Ibrahim Alayhi assalam ki is dua ki barkat ab tak chali aa rahi hai. Ravi ne bayan kiya ke phir ( tisri bar ) Ibrahim Alayhi assalam ko ek muddat ke baad khayal hua aur apni ahliyah se unhon ne kaha ke jin ko main chhor aaya hun un ki khabar lene Makkah jaon ga. Chanancha aap tashreef laye aur is martaba Ismail Alayhi assalam se mulaqat hui, jo Zamzam ke pichhe apne teer theek kar rahe the. Ibrahim Alayhi assalam ne farmaaya, aey Ismail! Tumhare Rab ne mujhe hukm diya hai ke main yahan is ka ek ghar banau, bete ne arz kiya ke phir aap apne Rab ka hukm baja laaiye. Unhon ne farmaaya aur mujhe yeh bhi hukm diya hai ke tum is kaam mein meri madad karo. Arz kiya ke main is ke liye tayyar hun. Ya isi qism ke aur alfaz ada kiye. Ravi ne bayan kiya ke phir dono bap bete uthhe. Ibrahim Alayhi assalam diwariyan uthate the aur Ismail Alayhi assalam unhein patthar la la kar dete the aur dono yeh dua karte jaate the. Aey hamare Rab! Hamari taraf se yeh khidmat qabool kar. Beshak tu bada sunne wala, bahut jaanne wala hai. Ravi ne bayan kiya ke aakhir jab diwar buland ho gai aur barag ( Ibrahim Alayhi assalam ) ko patthar ( diwar per ) rakhne mein mushkil hoi to woh makam ( Ibrahim ) ke patthar per khade hue aur Ismail Alayhi assalam un ko patthar utha utha kar dete jaate aur in hazrat ki zaban per yeh dua jari thi. “Aey hamare Rab! Hamari taraf se ise qabool farma le. Beshak tu bada sunne wala bahut jaanne wala hai.”

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ خَرَجَ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيلَ وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيهَا مَاءٌ فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ ، ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى أَهْلِهِ فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ حَتَّى لَمَّا بَلَغُوا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِلَى مَنْ تَتْرُكُنَا ، قَالَ : إِلَى اللَّهِ ، قَالَتْ : رَضِيتُ بِاللَّهِ ، قَالَ : فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى لَمَّا فَنِيَ الْمَاءُ ، قَالَتْ : لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا ، قَالَ : فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتْ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ أَحَدًا فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا فَلَمَّا بَلَغَتِ الْوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتْ الْمَرْوَةَ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ أَشْوَاطًا ، ثُمَّ قَالَتْ : لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ تَعْنِي الصَّبِيَّ فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هُوَ عَلَى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا ، فَقَالَتْ : لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتْ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا ، ثُمَّ قَالَتْ : لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ ، فَقَالَتْ : أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ فَإِذَا جِبْرِيلُ ، قَالَ : فَقَالَ : بِعَقِبِهِ هَكَذَا وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الْأَرْضِ ، قَالَ : فَانْبَثَقَ الْمَاءُ فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ الْمَاءُ ظَاهِرًا ، قَالَ : فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الْمَاءِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا ، قَالَ : فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الْوَادِي فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا ذَاكَ ، وَقَالُوا : مَا يَكُونُ الطَّيْرُ إِلَّا عَلَى مَاءٍ فَبَعَثُوا رَسُولَهُمْ فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ فَأَتَوْا إِلَيْهَا ، فَقَالُوا : يَا أُمَّ إِسْمَاعِيلَ أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَكُونَ مَعَكِ أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيهِمُ امْرَأَةً ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ ، فَقَالَ : لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي ، قَالَ : فَجَاءَ فَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ ؟ ، فَقَالَتْ : امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ ، قَالَ : قُولِي لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ ، قَالَ : أَنْتِ ذَاكِ فَاذْهَبِي إِلَى أَهْلِكِ ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ ، فَقَالَ : لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي ، قَالَ : فَجَاءَ فَقَالَ : أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ ؟ ، فَقَالَتْ : امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ ، فَقَالَتْ : أَلَا تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ ، فَقَالَ : وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ ؟ ، قَالَتْ : وَشَرَابُنَا الْمَاءُ : طَعَامُنَا اللَّحْمُ قَالَ : اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ ، قَالَ : فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ ، قَالَ : ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ ، فَقَالَ : لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ يُصْلِحُ نَبْلًا لَهُ ، فَقَالَ : يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا ، قَالَ : أَطِعْ رَبَّكَ ، قَالَ إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِي أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ ، قَالَ : إِذَنْ أَفْعَلَ ، أَوْ كَمَا قَالَ : قَالَ : فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127 ، قَالَ : حَتَّى ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَلَى نَقْلِ الْحِجَارَةِ فَقَامَ عَلَى حَجَرِ الْمَقَامِ فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127 .