44.
Book of Oaths
٤٤-
كِتَابُ الْقَسَامَةِ


Chapter on the precedence of the people of blood in oath taking

‌بَابُ تَبْدِئَةِ أَهْلِ الدَّمِ فِي الْقَسَامَةِ

Muwatta Imam Malik 1566

Yahya said from Malik from Yahya ibn Said that Bushayr ibn Yasar informed him that Abdullah ibn Sahl al-Ansari and Muhayyisa ibn Masud went out to Khaybar, and they separated on their various businesses and Abdullah ibn Sahl was killed. Muhayyisa, and his brother Huwayyisa and Abd ar-Rahman ibn Sahl went to the Prophet, may Allah bless him and grant him peace, and Abd ar-Rahman began to speak before his brother. The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, "The older first, the older first.Therefore Huwayyisa and then Muhayyisa spoke and mentioned the affair of Abdullah ibn Sahl. The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said to them, "Do you swear with fifty oaths and claim the blood-money of your companion or the life of the murderer?" They said, "Messenger of Allah, we did not see it and we were not present." The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, "Will you acquit the jews for fifty oaths?' They said, "Messenger of Allah, how can we accept the oaths of a people who are kafirun?"Yahya ibn Said said, "Bushayr ibn Yasar claimed that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, paid the blood-money from his own property."Malik said, "The generally agreed on way of doing things in our community and that which I heard from whoever I am content with, concerning the oath of qasama, and upon which the past and present imams agree, is that those who claim revenge begin with the oaths and swear. The oath for revenge is only obligatory in two situations. Either the slain person says, 'My blood is against so-and-so,' or the relatives entitled to the blood bring a partial proof of it that is not irrefutable against the one who is the object of the blood-claim. This obliges taking an oath on the part of those who claim the blood against those who are the object of the blood-claim. With us, swearing is only obliged in these two situations."Malik said, "That is the sunna in which there is no dispute with us and which is still the behaviour of the people. The people who claim blood begin the swearings, whether it is an intentional killing or an accident."Malik said, "The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, began with Banu Harith in the case of the killing of their kinsman murdered at Khaybar."Malik said, "If those who make the claim swear, they deserve the blood of their kinsman and whoever they swear against is slain. Only one man can be killed in the qasama. Two cannot be killed in it. Fifty men from the blood-relatives must swear fifty oaths. If their number is less or some of them draw back, they can repeat their oaths, unless one of the relatives of the murdered man who deserves blood and who is permitted to pardon it, draws back. If one of these draws back, there is no way to revenge."Yahya said that Malik said, "The oaths can be made by those of them who remain if one of them draws back who is not permitted to pardon. If one of the blood-relatives draws back who is permitted to pardon, even if he is only one, more oaths can not be made after that by the blood- relatives. If that occurs, the oaths can be on behalf of the one against whom the claim is made. So fifty of the men of his people swear fifty oaths. If there are not fifty men, more oaths can be made by those of them who already swore. If there is only the defendant, he swears fifty oaths and is acquitted."Yahya said that Malik said, "One distinguishes between swearing for blood and oaths for one's rights. When a man has a money-claim against another man, he seeks to verify his due. When a man wants to kill another man, he does not kill him in the midst of people. He keeps to a place away from people. Had there only been swearing in cases where there is a clear proof and had one acted in it as one acts about one's rights (i.e. needing witnesses), the right of blood retribution would have been lost and people would have been swift to take advantage of it when they learned of the decision on it. However, the relatives of the murdered man were allowed to initiate swearing so that people might restrain themselves from blood and the murderer might beware lest he was put into a situation like that (i.e. qasama) by the statement of the murdered man.' "Yahya said, "Malik said about a people of whom a certain number are suspected of murder and the relatives of the murdered man ask them to take oaths and they are numerous, so they ask that each man swears fifty oaths on his own behalf. The oaths are not divided out between them according to their number and they are not acquitted unless each man among them swears fifty oaths on his own behalf."Malik said, "This is the best I have heard about the matter."He said, "Swearing goes to the paternal relatives of the slain. They are the blood-relatives who swear against the killer and by whose swearing he is killed."

یحییٰ نے کہا کہ امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی ، انہوں نے بشر بن یسار سے ، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود خیبر گئے ، وہاں ان کے درمیان کسی معاملے پر جھگڑا ہو گیا اور عبداللہ بن سہل مارے گئے ، چنانچہ محیصہ ، ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، عبدالرحمٰن اپنے بھائی سے پہلے کچھ کہنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بڑے کو پہلے ، بڑے کو پہلے ، چنانچہ حویصہ اور پھر محیصہ نے آگے بڑھ کر عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھا کر اپنے ساتھی کا خون بہا لے لو گے یا قاتل کو قتل کراؤ گے ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم نے اسے قتل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہم اس وقت وہاں موجود تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم یہودیوں کی پچاس قسمیں قبول کر لو گے ؟ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم کافروں کی قسمیں کیسے قبول کر سکتے ہیں ؟ یحییٰ بن سعید نے کہا : بشر بن یسار نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خون بہا اپنے مال سے ادا فرما دیا ۔ امام مالک نے کہا : ہمارے یہاں قسامہ کی قسموں کا جو طریقہ معروف ہے اور میں نے جن لوگوں سے بھی علم حاصل کیا ، ان میں اسی طریقے پر عمل کیا جاتا ہے اور سابقہ و لاحقہ ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ جو لوگ قصاص کے مطالب ہیں ، وہی قسم کھائیں گے ، قصاص کی قسم دو صورتوں میں واجب ہوتی ہے ، ایک یہ کہ مقتول خود کہہ جائے کہ میرا خون فلاں پر ہے اور دوسری صورت یہ کہ مقتول کے اولیاء قاتل پر ایسا ثبوت پیش کریں جو مکمل تو نہ ہو لیکن اسے جھٹلانے والا بھی نہ ہو ، ایسی صورت میں قاتل سے مطالبہ قصاص کرنے والوں پر قسم واجب ہو جاتی ہے ، ہمارے نزدیک ان دو صورتوں کے علاوہ کسی اور صورت میں قسم واجب نہیں ہوتی ۔ امام مالک نے کہا : ہمارے یہاں یہی سنت ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور لوگ اسی پر عمل پیرا ہیں کہ مطالبہ قصاص کرنے والے قسم کھائیں گے ، چاہے قتل عمد ہو یا خطا ۔ امام مالک نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قتل خیبر میں اپنے ایک ساتھی کے قتل کے واقعہ میں بنو حارث سے ہی قسم کا مطالبہ فرمایا تھا ۔ امام مالک نے کہا : اگر مطالبہ قصاص کرنے والوں نے قسم کھا لی تو انہیں اپنے مقتول کا خون بہا مل جائے گا اور جس پر وہ قسمیں کھائیں گے اسے قتل کر دیا جائے گا ، البتہ قسامہ میں صرف ایک ہی شخص قتل کیا جا سکتا ہے ، دو نہیں ، مقتول کے ورثاء کی طرف سے پچاس افراد کو پچاس قسمیں کھانی ہوں گی ، اگر ان کی تعداد کم ہو یا ان میں سے کچھ پیچھے ہٹ جائیں تو وہ اپنی قسمیں دہرا سکتے ہیں ، ہاں اگر مقتول کے ورثاء میں سے کوئی ایسا شخص پیچھے ہٹ جائے جسے معاف کرنے کا حق حاصل ہے تو پھر ایسا نہیں ہوگا ، اگر ایسا شخص پیچھے ہٹ گیا تو پھر قصاص کا کوئی طریقہ نہیں ۔ یحییٰ نے امام مالک سے روایت کی ، انہوں نے کہا : اگر کوئی ایسا شخص پیچھے ہٹ جائے جسے معاف کرنے کا حق حاصل نہیں تو بقیہ لوگ اپنی قسمیں کھا سکتے ہیں ، اور اگر کوئی ایسا شخص پیچھے ہٹ جائے جسے معاف کرنے کا حق حاصل ہے تو چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو ، اس کے بعد مقتول کے ورثاء کو قسمیں کھلانے کا حق نہیں رہے گا ، ایسی صورت میں ملزم کی طرف سے قسمیں لی جائیں گی ، چنانچہ اس کے گروہ کے پچاس افراد اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھائیں گے ، اگر پچاس افراد نہ ہوں تو جو لوگ موجود ہوں وہ اپنی قسمیں دہرائیں گے ، اگر ملزم اکیلا ہو تو وہ پچاس قسمیں کھا کر بری ہو جائے گا ۔ یحییٰ نے امام مالک سے روایت کی ، انہوں نے کہا : خون کی قسم اور مال کی قسم میں فرق ہے ، جب کسی شخص کا کسی پر مال کا دعویٰ ہو تو وہ اپنے حق کو ثابت کرتا ہے لیکن جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے لوگوں کے سامنے قتل نہیں کرتا بلکہ اسے ایکांत جگہ لے جا کر قتل کرتا ہے ، اگر خون کے مقدمے میں بھی واضح ثبوت ہی کو شرط قرار دیا جاتا اور اس میں بھی ویسا ہی طریقہ اختیار کیا جاتا جیسا کہ مال کے مقدمے میں اختیار کیا جاتا ہے ( یعنی گواہوں کی شرط ) تو قصاص کا حق ہی ختم ہو جاتا اور جب لوگوں کو اس کا علم ہو جاتا تو وہ اس سے بے باکی سے کام لیتے ، اسی لیے مقتول کے ورثاء کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود قسمیں کھا کر قصاص لے سکتے ہیں تاکہ لوگ ناحق خون خرابہ کرنے سے باز رہیں اور قاتل بھی قتل کرتے وقت خوف زدہ رہے کہ کہیں مقتول کے بیان کی وجہ سے اسے بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے ( یعنی اس کے خلاف قسامہ نہ ہو جائے ) ۔ یحییٰ نے کہا کہ امام مالک نے فرمایا : اگر کسی قوم کے کچھ افراد پر قتل کا شبہ ہو اور مقتول کے ورثاء ان سے قسم کا مطالبہ کریں اور وہ بہت زیادہ تعداد میں ہوں تو وہ یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ ہر شخص اپنی طرف سے پچاس قسمیں کھائے ، ایسی صورت میں ان پر ان کی تعداد کے حساب سے قسمیں تقسیم نہیں کی جائیں گی اور جب تک ہر شخص اپنی طرف سے پچاس قسمیں نہ کھا لے وہ بری نہیں ہوں گے ۔ امام مالک نے کہا : یہ اس مسئلہ میں میرے نزدیک بہترین قول ہے ۔ آپ نے فرمایا : قسمیں مقتول کے باپ کی طرف والے رشتہ دار کھائیں گے ، اصل وہی خون کے رشتہ دار ہیں ، یہی قاتل کے خلاف قسم کھائیں گے اور انہی کی قسموں کی وجہ سے قاتل کو قتل کیا جائے گا ۔

Yahya ne kaha ki Imam Malik ne Yahya bin Saeed se riwayat ki, unhon ne Bashar bin Yasar se, unhon ne kaha ki Abdullah bin Sahl Ansari aur Muhaysah bin Masood Khyber gaye, wahan un ke darmiyan kisi maamle par jhagra ho gaya aur Abdullah bin Sahl maare gaye, chunancha Muhaysah, un ke bhai Huwaysah aur Abdur Rahman bin Sahl Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ki khidmat mein hazir hue, Abdur Rahman apne bhai se pehle kuch kehna lage to Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaya: Bade ko pehle, bade ko pehle, chunancha Huwaysah aur phir Muhaysah ne aage badh kar Abdullah bin Sahl ka waqia bayan kiya, Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ne un se farmaya: kya tum log pachas qasmein kha kar apne saathi ka khoon baha le loge ya qatil ko qatl karao ge? Unhon ne arz kiya: Allah ke Rasul! hum ne use qatl hote hue nahin dekha aur na hum us waqt wahan maujood the, aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaya: kya tum yehudio ki pachas qasmein qubool kar loge? Unhon ne arz kiya: Allah ke Rasul! hum kafiron ki qasmein kaise qubool kar sakte hain? Yahya bin Saeed ne kaha: Bashar bin Yasar ne bataya ki Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ne un ka khoon baha apne maal se ada farma diya. Imam Malik ne kaha: humare yahan qisaas ki qasmon ka jo tariqa maroof hai aur main ne jin logon se bhi ilm hasil kiya, un mein isi tariqe par amal kiya jata hai aur sabiqa-o-lahika aaima ka bhi yahi maslak hai ki jo log qisaas ke mutalib hain, wohi qasam khaiyenge, qisaas ki qasam do suraton mein wajib hoti hai, ek yeh ki maqtool khud keh jaye ki mera khoon falan par hai aur doosri surat yeh ki maqtool ke auliya qatil par aisa saboot pesh karen jo mukammal to na ho lekin use jhutlane wala bhi na ho, aisi surat mein qatil se mutalba qisaas karne walon par qasam wajib ho jati hai, humare nazdeek in do suraton ke alawa kisi aur surat mein qasam wajib nahin hoti. Imam Malik ne kaha: humare yahan yahi sunnat hai, is mein koi ikhtilaf nahin aur log isi par amal paira hain ki mutalba qisaas karne wale qasam khaiyenge, chahe qatl amd ho ya khata. Imam Malik ne kaha ki Rasul Allah Sallallahu Alaihi Wasallam ne bhi qatl Khyber mein apne ek saathi ke qatl ke waqia mein Banu Harith se hi qasam ka mutalba farmaya tha. Imam Malik ne kaha: agar mutalba qisaas karne walon ne qasam kha li to unhen apne maqtool ka khoon baha mil jayega aur jis par wo qasmein khaiyenge use qatl kar diya jayega, albatta qisaas mein sirf ek hi shaks qatl kiya ja sakta hai, do nahin, maqtool ke waris ki taraf se pachas afrad ko pachas qasmein khani hongi, agar un ki tadad kam ho ya un mein se kuchh peeche hat jayen to wo apni qasmein dohra sakte hain, haan agar maqtool ke waris mein se koi aisa shaks peeche hat jaye jise maaf karne ka haq hasil hai to phir aisa nahin hoga, agar aisa shaks peeche hat gaya to phir qisaas ka koi tariqa nahin. Yahya ne Imam Malik se riwayat ki, unhon ne kaha: agar koi aisa shaks peeche hat jaye jise maaf karne ka haq hasil nahin to baqi log apni qasmein kha sakte hain, aur agar koi aisa shaks peeche hat jaye jise maaf karne ka haq hasil hai to chahe wo akela hi kyun na ho, us ke baad maqtool ke waris ko qasmein khilane ka haq nahin rahega, aisi surat mein mulzim ki taraf se qasmein li jayengi, chunancha us ke giroh ke pachas afrad apni taraf se pachas qasmein khaiyenge, agar pachas afrad na hon to jo log maujood hon wo apni qasmein dohraiyenge, agar mulzim akela ho to wo pachas qasmein kha kar bari ho jayega. Yahya ne Imam Malik se riwayat ki, unhon ne kaha: khoon ki qasam aur maal ki qasam mein farq hai, jab kisi shaks ka kisi par maal ka daawa ho to wo apne haq ko sabit karta hai lekin jab koi shaks kisi doosre shaks ko qatl karna chahta hai to wo use logon ke samne qatl nahin karta balki use ekant jagah le ja kar qatl karta hai, agar khoon ke muqaddame mein bhi wazeh saboot hi ko shart qarar diya jata aur is mein bhi waisa hi tariqa ikhtiyar kiya jata jaisa ki maal ke muqaddame mein ikhtiyar kiya jata hai (yani gawahon ki shart) to qisaas ka haq hi khatm ho jata aur jab logon ko is ka ilm ho jata to wo is se bebaaki se kaam lete, isi liye maqtool ke waris ko yeh ikhtiyar diya gaya hai ki wo khud qasmein kha kar qisaas le sakte hain taaki log nahaq khoon kharabah karne se baz rahen aur qatil bhi qatl karte waqt khaufzada rahe ki kahin maqtool ke bayan ki wajah se use bhi aisi hi surat-e-haal ka saamna na karna pade (yani us ke khilaf qisaas na ho jaye). Yahya ne kaha ki Imam Malik ne farmaya: agar kisi qaum ke kuchh afrad par qatl ka shubha ho aur maqtool ke waris un se qasam ka mutalba karen aur wo bahut zyada tadad mein hon to wo yeh darkhwast kar sakte hain ki har shaks apni taraf se pachas qasmein khaye, aisi surat mein un par un ki tadad ke hisab se qasmein taqseem nahin ki jayengi aur jab tak har shaks apni taraf se pachas qasmein na kha le wo bari nahin honge. Imam Malik ne kaha: yeh is masle mein mere nazdeek behtarin qaul hai. Aap ne farmaya: qasmein maqtool ke baap ki taraf wale rishtedar khaiyenge, asl wohi khoon ke rishtedar hain, yahi qatil ke khilaf qasam khaiyenge aur inhi ki qasmon ki wajah se qatil ko qatl kiya jayega.

قَالَ يَحْيَى ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّ ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي حَوَائِجِهِمَا ، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ ، فَقَدِمَ مُحَيِّصَةُ ، فَأَتَى هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ لِمَكَانِهِ مِنْ أَخِيهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : « كَبِّرْ كَبِّرْ »، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ فَذَكَرَا شَأْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : " أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا ، وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ ؟ قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَمْ نَشْهَدْ ، وَلَمْ نَحْضُرْ ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : « فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا »، فَقَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ ؟ ⦗ص:٨٧٩⦘ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ : فَزَعَمَ بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ « وَدَاهُ مِنْ عِنْدِهِ » قَالَ مَالِكٌ : " الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا ، وَالَّذِي سَمِعْتُ مِمَّنْ أَرْضَى فِي الْقَسَامَةِ ، وَالَّذِي اجْتَمَعَتْ عَلَيْهِ الْأَئِمَّةُ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ ، أَنْ يَبْدَأَ بِالْأَيْمَانِ الْمُدَّعُونَ فِي الْقَسَامَةِ فَيَحْلِفُونَ ، وَأَنَّ الْقَسَامَةَ لَا تَجِبُ إِلَّا بِأَحَدِ أَمْرَيْنِ ، إِمَّا أَنْ يَقُولَ الْمَقْتُولُ : دَمِي عِنْدَ فُلَانٍ ، أَوْ يَأْتِيَ وُلَاةُ الدَّمِ بِلَوْثٍ مِنْ بَيِّنَةٍ ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ قَاطِعَةً عَلَى الَّذِي يُدَّعَى عَلَيْهِ الدَّمُ ، فَهَذَا يُوجِبُ الْقَسَامَةَ لِلْمُدَّعِينَ الدَّمَ عَلَى مَنِ ادَّعَوْهُ عَلَيْهِ ، وَلَا تَجِبُ الْقَسَامَةُ عِنْدَنَا إِلَّا بِأَحَدِ هَذَيْنِ الْوَجْهَيْنِ " قَالَ مَالِكٌ : « وَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا عِنْدَنَا ، وَالَّذِي لَمْ يَزَلْ عَلَيْهِ عَمَلُ النَّاسِ ، أَنَّ الْمُبَدَّئِينَ بِالْقَسَامَةِ أَهْلُ الدَّمِ ، وَالَّذِينَ يَدَّعُونَهُ فِي الْعَمْدِ وَالْخَطَإِ » قالَ مَالِكٌ : « وَقَدْ بَدَّأَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَارِثِيِّينَ فِي قَتْلِ صَاحِبِهِمِ الَّذِي قُتِلَ بِخَيْبَرَ » قَالَ مَالِكٌ : « فَإِنْ حَلَفَ الْمُدَّعُونَ اسْتَحَقُّوا دَمَ صَاحِبِهِمْ ، وَقَتَلُوا مَنْ حَلَفُوا عَلَيْهِ ، وَلَا يُقْتَلُ فِي الْقَسَامَةِ إِلَّا وَاحِدٌ ، لَا يُقْتَلُ فِيهَا اثْنَانِ ، يَحْلِفُ مِنْ وُلَاةِ الدَّمِ خَمْسُونَ رَجُلًا خَمْسِينَ يَمِينًا ، فَإِنْ قَلَّ عَدَدُهُمْ أَوْ نَكَلَ بَعْضُهُمْ ، رُدَّتِ الْأَيْمَانُ عَلَيْهِمْ ، إِلَّا أَنْ يَنْكُلَ أَحَدٌ مِنْ وُلَاةِ الْمَقْتُولِ ، وُلَاةِ الدَّمِ الَّذِينَ يَجُوزُ لَهُمُ الْعَفْوُ عَنْهُ ، فَإِنْ نَكَلَ أَحَدٌ مِنْ أُولَئِكَ ، فَلَا سَبِيلَ إِلَى الدَّمِ إِذَا نَكَلَ أَحَدٌ مِنْهُمْ » قَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : « وَإِنَّمَا تُرَدُّ الْأَيْمَانُ عَلَى مَنْ بَقِيَ مِنْهُمْ إِذَا نَكَلَ أَحَدٌ مِمَّنْ لَا يَجُوزُ لَهُ عَفْوٌ ، فَإِنْ نَكَلَ أَحَدٌ مِنْ وُلَاةِ الدَّمِ الَّذِينَ يَجُوزُ لَهُمُ الْعَفْوُ عَنِ الدَّمِ ، وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا ، ⦗ص:٨٨٠⦘ فَإِنَّ الْأَيْمَانَ لَا تُرَدُّ عَلَى مَنْ بَقِيَ مِنْ وُلَاةِ الدَّمِ ، إِذَا نَكَلَ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنِ الْأَيْمَانِ ، وَلَكِنِ الْأَيْمَانُ إِذَا كَانَ ذَلِكَ تُرَدُّ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِمْ ، فَيَحْلِفُ مِنْهُمْ خَمْسُونَ رَجُلًا خَمْسِينَ يَمِينًا ، فَإِنْ لَمْ يَبْلُغُوا خَمْسِينَ رَجُلًا رُدَّتِ الْأَيْمَانُ عَلَى مَنْ حَلَفَ مِنْهُمْ ، فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ أَحَدٌ يَحْلِفُ إِلَّا الَّذِي ادُّعِيَ عَلَيْهِ حَلَفَ هُوَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَبَرِئَ » قَالَ يَحْيَى : قَالَ مَالِكٌ : " وَإِنَّمَا فُرِقَ بَيْنَ الْقَسَامَةِ فِي الدَّمِ وَالْأَيْمَانِ فِي الْحُقُوقِ ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا دَايَنَ الرَّجُلَ اسْتَثْبَتَ عَلَيْهِ فِي حَقِّهِ ، وَأَنَّ الرَّجُلَ إِذَا أَرَادَ قَتْلَ الرَّجُلِ لَمْ يَقْتُلْهُ فِي جَمَاعَةٍ مِنَ النَّاسِ ، وَإِنَّمَا يَلْتَمِسُ الْخَلْوَةَ ، قَالَ : فَلَوْ لَمْ تَكُنِ الْقَسَامَةُ إِلَّا فِيمَا تَثْبُتُ فِيهِ الْبَيِّنَةُ ، وَلَوْ عُمِلَ فِيهَا كَمَا يُعْمَلُ فِي الْحُقُوقِ هَلَكَتِ الدِّمَاءُ ، وَاجْتَرَأَ النَّاسُ عَلَيْهَا إِذَا عَرَفُوا الْقَضَاءَ فِيهَا ، وَلَكِنْ إِنَّمَا جُعِلَتِ الْقَسَامَةُ إِلَى وُلَاةِ الْمَقْتُولِ ، يُبَدَّءُونَ بِهَا فِيهَا ، لِيَكُفَّ النَّاسُ عَنِ الدَّمِ ، وَلِيَحْذَرَ الْقَاتِلُ أَنْ يُؤْخَذَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ بِقَوْلِ الْمَقْتُولِ " قَالَ يَحْيَى : وَقَدْ قَالَ مَالِكٌ : « فِي الْقَوْمِ يَكُونُ لَهُمُ الْعَدَدُ يُتَّهَمُونَ بِالدَّمِ فَيَرُدُّ وُلَاةُ الْمَقْتُولِ الْأَيْمَانَ عَلَيْهِمْ ، وَهُمْ نَفَرٌ لَهُمْ عَدَدٌ أَنَّهُ يَحْلِفُ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ عَنْ نَفْسِهِ خَمْسِينَ يَمِينًا ، وَلَا تُقْطَعُ الْأَيْمَانُ عَلَيْهِمْ بِقَدْرِ عَدَدِهِمْ ، وَلَا يَبْرَءُونَ دُونَ أَنْ يَحْلِفَ كُلُّ إِنْسَانٍ عَنْ نَفْسِهِ خَمْسِينَ يَمِينًا ». قَالَ مَالِكٌ : " وَهَذَا أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ ، قَالَ : وَالْقَسَامَةُ تَصِيرُ إِلَى عَصَبَةِ الْمَقْتُولِ ، وَهُمْ وُلَاةُ الدَّمِ الَّذِينَ يَقْسِمُونَ عَلَيْهِ وَالَّذِينَ يُقْتَلُ بِقَسَامَتِهِمْ "