28.
Statement of Virtues and Qualities
٢٨-
بيان الفضائل والخصائص
Description of the mission and descent of revelation to the Prophet Muhammad (SAW)
بيان علامات النبوة
Mishkat al-Masabih 5841
Aisha (RA) narrated: The commencement of the revelation to the Messenger of Allah (ﷺ) was in the form of true and good dreams. Every dream he saw would come true like the brightness of morning. Then, he started to love solitude, and he used to seclude himself in the Cave of Hira, where he would worship (Allah) for many nights consecutively before returning to his family. He would take provisions for this purpose. Then, he would return to Khadija (RA) and replenish his provisions for another period like that, until, one day, while he was in the Cave of Hira, the Truth (Revelation) descended upon him. The Angel (Jibril) came to him and said, "Read!" The Prophet (ﷺ) replied, "I am not literate (I do not know how to read)." He (ﷺ) continued, "Then he took hold of me and squeezed me so hard that I felt distressed. He released me and said, 'Read!' I replied, 'I am not literate.' He took hold of me and squeezed me a second time with even greater force, causing me more distress than before. Then, he released me and said, 'Read!' I said, 'I am not literate.' He squeezed me for the third time, causing me great distress, then released me and said, 'Read! In the Name of your Lord who created, created man from a clinging clot. Read! And your Lord is the Most Generous, Who taught by the pen, taught man what he knew not." So, the Messenger of Allah (ﷺ) returned with the Revelation, his heart trembling. He went to Khadija (RA) and said, "Cover me! Cover me!" They covered him until his fear subsided. Then, he told Khadija (RA) everything that had happened and said, "I fear for myself." Khadija (RA) replied, "Never! By Allah, Allah will never disgrace you. You keep good relations with your relatives, you are truthful, you bear the burden of the weak, you spend on the needy, you are hospitable to guests, and you help those afflicted by calamities." Then, Khadija (RA) took him to her cousin, Waraqa bin Nawfal, who... She said to him, "O son of my uncle! Listen to your nephew." Waraqa said, "O my nephew! What do you see?" The Messenger of Allah (ﷺ) told him what he had seen. Waraqa said, "This is the same Namus (i.e., Jibril, Angel Gabriel) that Allah sent down to Moses. I wish I was younger and could live up to the time when your people would expel you." The Messenger of Allah (ﷺ) asked, "Will they expel me?" He replied, "Yes, for no man has ever come with something similar to what you have brought but he was treated with hostility. If I live to see that day, I shall support you strongly." Soon after that, Waraqa died, and the revelation was paused for a while. (Agreed upon)
Grade: Sahih
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ پر وحی کا آغاز سچے و پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا ، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح (سچا) ثابت ہو جاتا ، پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے ، آپ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے ، آپ اپنے اہل خانہ کے پاس آنے سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے ، ان ایام کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جایا کرتے تھے ، پھر آپ ﷺ خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی مدت کے لیے پھر زادِراہ ساتھ لے جاتے تھے ، حتی کہ آپ غارِ حرا ہی میں تھے کہ آپ پر حق (وحی) آ گیا ، فرشتہ (جبریل ؑ) آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا پڑھیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں قاری نہیں (پڑھنا نہیں جانتا) ہوں ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس نے مجھے پکڑا اور اتنی شدت سے دبایا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ اس نے مجھے پکڑ کر دوسری مرتبہ خوب دبایا ، مجھے اس بار بھی کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ، اس نے مجھے تیسری مرتبہ دبایا اس بار بھی مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا ، پڑھیے ، آپ کا رب بہت ہی کرم کرنے والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کے بعد واپس ہوئے اور آپ ﷺ کا دل (خوف کی وجہ سے) دھڑک رہا تھا ، آپ خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا :’’ مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، انہوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا حتی کہ آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ ؓ سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا :’’ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے ۔‘‘ خدیجہ ؓ نے عرض کیا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، راست گو ہیں ، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کے لیے کماتے ہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ، اور مصیبت زدہ افراد کی اعانت کرتے ہیں ، پھر خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، انہوں نے ان سے کہا : میرے چچا کے بیٹے !اپنے بھتیجے کی بات سنیں ، ورقہ نے آپ سے کہا : بھتیجے ! آپ کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ ﷺ نے جو دیکھا تھا وہ کچھ اسے بتا دیا ، ورقہ نے کہا : یہ تو وہی ناموس ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا ، کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں جب کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پا لیا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا ، پھر ورقہ جلد ہی وفات پا گئے اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی ۔ متفق علیہ ۔
Ayesha بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ پر وحی کا آغاز سچے و پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا ، آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح (سچا) ثابت ہو جاتا ، پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے ، آپ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے ، آپ اپنے اہل خانہ کے پاس آنے سے پہلے کئی کئی راتیں وہاں عبادت میں مشغول رہتے تھے ، ان ایام کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جایا کرتے تھے ، پھر آپ خدیجہ کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی مدت کے لیے پھر زادِراہ ساتھ لے جاتے تھے ، حتی کہ آپ غارِ حرا ہی میں تھے کہ آپ پر حق (وحی) آ گیا ، فرشتہ (جبریل) آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا پڑھیے ، آپ نے فرمایا :’’ میں قاری نہیں (پڑھنا نہیں جانتا) ہوں ۔‘‘ آپ نے فرمایا :’’ اس نے مجھے پکڑا اور اتنی شدت سے دبایا جس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ اس نے مجھے پکڑ کر دوسری مرتبہ خوب دبایا ، مجھے اس بار بھی کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا ، اور کہا : پڑھیے ، میں نے کہا : میں پڑھنا نہیں جانتا ، اس نے مجھے تیسری مرتبہ دبایا اس بار بھی مجھے کافی تکلیف ہوئی ، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا : پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا ، پڑھیے ، آپ کا رب بہت ہی کرم کرنے والا ہے ، جس نے قلم کے ذریعے سکھایا ، انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ اس کے بعد واپس ہوئے اور آپ کا دل (خوف کی وجہ سے) دھڑک رہا تھا ، آپ خدیجہ کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا :’’ مجھے کمبل اوڑھا دو ، مجھے کمبل اوڑھا دو ، انہوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا حتی کہ آپ کا خوف جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور کہا :’’ مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے ۔‘‘ خدیجہ نے عرض کیا : ہرگز نہیں ، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، راست گو ہیں ، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تہی دستوں کے لیے کماتے ہیں ، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ، اور مصیبت زدہ افراد کی اعانت کرتے ہیں ، پھر خدیجہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ، انہوں نے ان سے کہا : میرے چچا کے بیٹے !اپنے بھتیجے کی بات سنیں ، ورقہ نے آپ سے کہا : بھتیجے ! آپ کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہ نے جو دیکھا تھا وہ کچھ اسے بتا دیا ، ورقہ نے کہا : یہ تو وہی ناموس ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی دے کر بھیجا تھا ، کاش ! میں اس وقت توانا ہوتا ، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ، رسول اللہ نے فرمایا :’’ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟‘‘ اس نے کہا : ہاں جب کسی کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پا لیا تو میں تمہاری زبردست مدد کروں گا ، پھر ورقہ جلد ہی وفات پا گئے اور کچھ عرصہ کے لیے وحی رک گئی ۔ متفق علیہ ۔.
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ إليهِ الخَلاءُ وكانَ يَخْلُو بغارِ حِراءٍ فيتحنَّثُ فِيهِ - وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ - قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدَ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدَ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقَالَ: «مَا أَنَا بِقَارِئٍ» . قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: اقْرَأْ. فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجهد ثمَّ أَرْسلنِي فَقَالَ: [اقرَأْ باسمِ ربِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لم يعلم] . فَرجع بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ لخديجةَ وأخبرَها الخبرَ: «لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وتقْرِي الضيفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ ابْنِ عَمِّ خَدِيجَةَ. فَقَالَتْ لَهُ: يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى. فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا هُوَ النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا يَا لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ؟» قَالَ: نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرُكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوَفِّيَ وَفَتَرَ الوحيُ. مُتَّفق عَلَيْهِ