1.
The Book of Faith
١-
كتاب الإيمان


84
Chapter: The Status of the Lowest people in paradise

٨٤
باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا ‏‏

Sahih Muslim 193e

Ma'bad b. Hilal al 'Anazi reported:We went to Anas b. Malik through Thabit and reached there (his house) while he was offering the forenoon prayer. Thabit sought permission for us and we entered, and he seated Thabit with him on his bedstead. He (Thabit) said to him (Anas b. Malik): O Abu Hamza (kunya of Anas b. Malik), your brothers from among the inhabitants of Basra ask you to narrate to them the hadith of intercession. He said: Muhammad (ﷺ) narrated to us: When it would be the Day of Resurrection, some of the people would rush to one another in bewilderment. They would come to Adam and say: Intercede (with your Lord) for your progeny. He would say: I am not fit to do this, but go to Ibrahim (peace be upon him) for he is the Friend of Allah. They would come to Ibrahim, but he would say: I am not fit to do this, but go to Moses, for he is Allah's Interlocutor. They would come to Moses, but he would say: I am not fit to do this, but you should go to Jesus, for he is the Spirit of Allah and His word. They would come to Jesus, and he would say, I am not fit to do this; you better go to Muhammad (ﷺ). They would come to me, and I would say: I am in a position to do that, I would go and ask the permission of my Lord and it would be granted to me. I would then stand before Him and would extol Him with praises which I am not able to do now, but with which Allah would inspire me, then I would fall in prostration and it would be said to me: O Muhammad, raise thy head, and say and it would be listened to; ask and it would be granted, intercede and it would be accepted. I shall say: My Lord, my people, my people It would be said: Go, and bring forth from it (Hell) him who has in his heart faith equal to the weight of a wheat grain or a barley seed. I would go and do that; then I would return to my Lord and extol Him with those praises (taught to me by Allah), then I would fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head, and say and it would be heard; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. So I would say: My people. my people. It would be said to me: Go and take out from it (Hell) him who has in his heart faith equal to the weight of a mustard seed. I would go and do that. I would again return to my Lord and extol Him with those praises. I would then fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head: say, and you would be listened to; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted. I would say: My Lord, my people, my people. It would be said to me: Go, and bring out of the Fire him who has in his heart as much faith as the smallest, smallest, smallest grain of mustard seed. I would go and do that. This is the hadith which Anas narrated to us. We went out of his (house) and when we reached the upper part of Jabban (graveyard) we said: Would that we meet Hasan and salute him and he was hiding in the house of Abu Khalifa. He (Ma'bad b. Hilal, the narrator) said: We went to him and greeted him and we said: O Abu Sa'id, we come from your brother Abu Hamza (kunya of Anas), and we have never heard a hadith like this relating to intercession, which he has narrated to us. He said: Narrate it, we narrated the hadith. He said: Narrate it (still further). We said: He did not (narrate it) before us more than this. He said: He (Anas) had narrated it to us twenty years back, when he was strong and healthy. He has in fact missed something. I cannot make out whether the old man has forgotten or he has (intentionally) avoided to narrate it to you lest you should rely (absolutely) upon it (and abandon doing good deeds). We said to him: Relate that to us, and he laughed and said: There is haste in the nature of man. I did not make mention of it to you but for the fact that I wanted to narrate that to you (and added that the Prophet said): I would then return to my Lord for the fourth time and extol Him with these praises. I would then fall in prostration. It would be said to me: O Muhammad, raise your head: say and it will be listened to; ask and it will be granted; intercede and intercession would be accepted. I would say: O my Lord, permit me regarding him who professed: There is no god but Allah. He (the Lord) would say: That is not for thee or that is not what lies with thee, but by My Honour, Glory, Greatness and Might, I would certainly take him out who professed it: There is no god but Allah. He (the narrator, Ma'bad) said: I hear testimony to the fact that the hadith transmitted to us-by Hasan was heard by him from Anas b. Malik and I can see that he reported it twenty years back, when he was hale and hearty.

معبد بن ہلال عنزی نے کہا : ہم لوگ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے پاس گئے اور ثابت ( البنانی ) کو اپنا سفارشی بنایا ( ان کے ذریعے سے ملاقات کی اجازت حاصل کی ۔ ) ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ۔ ثابت نے ہمارے لیے ( اندر آنے کی ) اجازت لی ۔ ہم اندر ان کے سامنے حاضر ہوئے ۔ انہوں نے ثابت کو اپنے ساتھ اپنی چارپائی پر بٹھالیا ۔ ثابت نے ان سے کہا : اے ابوحمزہ! بصرہ کےباشندوں میں سے آپ کو ( یہ ) بھائی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انہیں شفاعت کی حدیث سنائیں ۔ حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : ہمیں حضرت محمدﷺ نے بتایا : ’’ جب قیامت کا دن ہو گا تولوگ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ۔ وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے : اپنی اولاد کے حق میں سفارش کیجیے ( کہ وہ میدان حشر کے مصائب اور جاں گسل انتظار سے نجات پائیں ۔ ) وہ کہیں گے : میں اس کے لیے نہیں ہوں ۔ لیکن تم ابراہیم علیہ السلام کا دامن تھام لو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ( خالص دوست ) ہیں ۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے ۔ وہ جواب دیں گے : میں اس کے لیےنہیں ۔ لیکن تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچ جاؤ وہ کلیم اللہ ہیں ( جن سے اللہ نے براہ راست کلام کیا ) تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضری ہو گی ۔ وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم عیسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کےساتھ لگ جاؤ کیونکہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔ تو عیسیٰ ‌علیہ ‌السلام ‌ کے پاس آمد ہو گی ، وہ فرمائیں گے : میں اس کے لیے نہیں ۔ لیکن تم محمدﷺ کے پاس پہنچ جاؤ ، تو ( ان کی ) آمد میرے پاس ہو گی ۔ میں جواب دوں گا : اس ( کام ) کے لیے میں ہوں ۔ میں چل پڑوں گا اور اپنے رب کے سامنے حاضری کی اجازت چاہوں گا ، مجھے اجازت عطا کی جائے گی ، اس میں اس کے سامنے کھڑا ہوں گا اور تعریف کی ایسی باتوں کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جس پر میں اب میں قادر نہیں ہوں ، اللہ تعالیٰ ہی یہ ( حمد ) میرے دل میں ڈالے گا ، پھر میں اس کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا ، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سراٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی ، مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! ، میری امت! تو مجھ سے کہاجائے گا : جائیں جس کےدل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہے اسے نکال لیں ، میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھر میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور لوٹ آؤں گا اور حمد کے انہی اسلوبوں سے اس کی تعریف بیان کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا تو مجھے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت! مجھے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو ، اسے نکال لیں ۔ تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ، پھراپنے رب کے حضور لوٹ آؤں گا اور اس جیسی تعریف سے اس کی حمد کروں گا ، پھر اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤں گا ۔ تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد ! ا پنا سر اٹھائیں ، کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیا جائے گا اور سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں کہوں گا : اے میرے رب ! میری امت ! میری امت !تو مجھ سے کہا جائے گا : جائیں ، جس کے دل میں رائی کے دانے سے کم ، اس سے ( بھی ) کم ، اس سے ( اور بھی ) کم ایمان ہو اسے آگ سے نکال لیں تو میں جاؤں گا اور ایسا کروں گا ۔ ‘ ‘ یہ حضرت انس کی روایت ہے جو انہوں نے ہمیں بیان کی ۔ ( معبدی بن ہلال عنزی نے ) کہا : چنانچہ ہم ان کے ہاں سے نکل آئے ، جب ہم چٹیل میدان کے بالائی حصے پر پہنچے تو ہم نے کہا : ( کیا ہی اچھاہو ) اگر ہم حسن بصری کا رخ کریں اور انہیں سلام کرتے جائیں ۔ وہ ( حجاج بن یوسف کے ڈر سے ) ابو خلیفہ کے گھر میں چھپے ہوئے تھے ۔ انہوں نےکہا : جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں سلام کیا ۔ ہم نے کہا : جناب ابوسعید! ہم آپ کے بھائی ابو حمزہ ( حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی کنیت ہے ) کے پاس سے آرہے ہیں ۔ ہم نے کبھی اس جیسی حدیث نہیں سنی جو انہوں شفاعت کے بارے میں ہمیں سنائی ۔ حسن بصری نے کہا : لائیں سنائیں ۔ ہم نے انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کہا : آگے سنائیں ۔ ہم نے کہا : انہوں نےہمیں اس سے زیادہ نہیں سنایا ۔ انہوں ( حسن بصری ) نے کہا : ہمیں انہوں نے یہ حدیث بیس برس پہلے سنائی تھی ، اس وقت وہ پوری قوتوں کے مالک تھے ۔ انہوں نے کچھ حصہ چھوڑ دیا ہے ، معلوم نہیں ، شیخ بھول گئے یا انہوں نے تمہیں پوری حدیث سنانا پسند نہیں کیا کہ کہیں تم ( اس میں بیان کی ہوئی بات ہی پر ) بھروسا نہ کر لو ۔ ہم نےعرض کی : آپ ہمیں سنا دیں تو وہ ہنس پڑے اور کہا : انسان جلدباز پیدا کیاگیا ہے ، میں نے تمہارے سامنے اس بات کا تذکرہ اس کے سوا ( اور کسی وجہ سے ) نہیں کیا تھا مگر اس لیے کہ میں تمہیں یہ حدیث سنانا چاہتا تھا ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’پھر میں چوتھی بار اپنے رب کی طرف لوٹوں گا ، پھر انہی تعریفوں سے اس کی حمد بیان کروں گا ، پھر اس حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور کہیں ، آپ کی بات سنی جائے گی اور مانگیں ، آپ کو دیاجائے گااور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول ہو گی ۔ تو میں عرض کروں گا : اے میرے رب ! مجھے ان کےبارے میں ( بھی ) اجازت دیجیے جنہوں نے ( صرف ) لا الہ الا اللہ کہا ۔ اللہ فرمائے گا : یہ آپ کے لیے نہیں لیکن میری عزت کی قسم ، میری کبریائی ، میری عظمت اور میری بڑائی کی قسم ! میں ان کو ( بھی ) جہنم سے نکال لوں گا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ۔ ‘ ‘ معبد کا بیان ہے : میں حسن بصری کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے یہ روایت سنی ۔ میرا خیال ہے ، انہوں نے کہا : بیس سال پہلے ، اور اس وقت ان کی صلاحتیں بھر پور تھیں ۔

Ma`bad bin Hilal `Anzi ne kaha: Hum log Anas bin Malik radi Allahu `anhu ke paas gaye aur Thabit (al-Banaani) ko apna safarishi banaya (un ke zari`e se mulaqat ki ijazat hasil ki). Hum un ke han pahunche to woh chast ki namaz padh rahe the. Thabit ne hamare liye (andar aane ki) ijazat li. Hum andar un ke samne hazir hue. Unhon ne Thabit ko apne sath apni charpai par bithaliya. Thabit ne un se kaha: Aay Abu Hamza! Basrah ke bashindon mein se aap ko (yeh) bhai aap se darkhwast karte hain ke aap unhen shifa`at ki hadees sunaen. Hazrat Anas radi Allahu `anhu ne kaha: Hamein Hazrat Muhammadﷺ ne bataya: ''Jab qayamat ka din hoga to log maujon ki tarah ek doosre se takraye rahe honge. Woh Adam `alayhi al-salam ke paas aayenge aur un se arz karenge: Apni aulad ke haq mein shifa`at kijiye (ke woh maidan hashr ke musaibat aur jaan gasal intezaar se nijat payen). Woh kahenge: Main is ke liye nahi hon. Lekin tum Ibrahim `alayhi al-salam ka daman tham lo kyunke woh Allah Ta`ala ke khalil (khaliq dost) hain. Log Ibrahim `alayhi al-salam ke paas jayenge. Woh jawab denge: Main is ke liye nahi hon. Lekin tum Musa `alayhi al-salam ke paas pahunch jao woh kalamullah hain (jin se Allah ne brahe raast kalam kiya) to Musa `alayhi al-salam ke paas hazri hogi. Woh farmaenge: Main is ke liye nahi hon. Lekin tum Isa radi Allahu `anhu ke sath lag jao kyunke woh Allah ki ruh aur us ka kalam hain. To Isa `alayhi al-salam ke paas aamad hogi, woh farmaenge: Main is ke liye nahi hon. Lekin tum Muhammadﷺ ke paas pahunch jao, to (un ki) aamad mere paas hogi. Main jawab dunga: Is (kam) ke liye main hon. Main chal padunga aur apne Rab ke samne hazri ki ijazat chahunga, mujhe ijazat ata ki jayegi, is mein us ke samne khada hon ga aur tarif ki aisi baaton ke sath us ki hamd karoonga jis par main ab main qader nahi hon, Allah Ta`ala hi yeh (haamd) mere dil mein dalega, phir main us ke huzur sujdo mein gir jaoonga, phir mujh se kaha jayega: Aay Muhammad! Apna sir uthain aur kahen, aap ki bat suni jayegi, mangen, aap ko diya jayega aur shifa`at karen, aap ki shifa`at kabul ki jayegi. Main arz karoonga: Aay mere Rab! Meri ummat! Meri ummat! To mujh se kaha jayega: Jayen jis ke dil mein gandum ya jo ke dane ke barabar iman hai use nikal len, main jaunga aur aisa karoonga, phir main apne Rab Ta`ala ke huzur laut aaunga aur hamd ke inhi aslubon se us ki tarif bayan karoonga, phir us ke samne sujdo mein gir jaoonga to mujhe kaha jayega: Aay Muhammad! Apna sir uthain aur kahen, aap ki bat suni jayegi aur mangen, aap ko diya jayega aur shifa`at karen, aap ki shifa`at kabul hogi. Main arz karoonga: Aay mere Rab! Meri ummat! Meri ummat! Mujhe kaha jayega: Jayen, jis ke dil mein rai ke dane ke barabar iman ho, use nikal len. To main jaunga aur aisa karoonga, phir apne Rab ke huzur laut aaunga aur us jaisi tarif se us ki hamd karoonga, phir us ke samne sujdo mein gir jaoonga. To mujh se kaha jayega: Aay Muhammad! Aapna sir uthain, kahen, aap ki bat suni jayegi aur mangen, aap ko diya jayega aur shifa`at karen, aap ki shifa`at kabul hogi. To main kahunga: Aay mere Rab! Meri ummat! Meri ummat! To mujh se kaha jayega: Jayen, jis ke dil mein rai ke dane se kam, us se (bhi) kam, us se (aur bhi) kam iman ho use aag se nikal len to main jaunga aur aisa karoonga.'' Yeh Hazrat Anas ki riwayat hai jo unhon ne hamen bayan ki. (Ma`badi bin Hilal `Anzi ne) kaha: Chanaanchhe hum un ke han se nikal aaye, jab hum chatil maidan ke balai hisse par pahunche to hum ne kaha: (Kya hi acha ho) agar hum Hasan Basri ka rukh karen aur unhen salam karte jayen. Woh (Hajjaj bin Yusuf ke dar se) Abu Khalifa ke ghar mein chhupe hue the. Unhon ne kaha: Jab hum un ke paas pahunche to unhen salam kiya. Hum ne kaha: Janab Abu Sa`id! Hum aap ke bhai Abu Hamza (Hazrat Anas radi Allahu `anhu ki kunyat hai) ke paas se aa rahe hain. Hum ne kabhi is jaisi hadees nahi suni jo unhon shifa`at ke baare mein hamen sunaayi. Hasan Basri ne kaha: Laen sunaen. Hum ne unhen hadees sunaayi to unhon ne kaha: Aage sunaen. Hum ne kaha: Unhon ne hamen is se zyada nahi sunaya. Unhon (Hasan Basri) ne kaha: Hamein unhon ne yeh hadees bees bars pehle sunaayi thi, is waqt woh puri quwaton ke malik the. Unhon ne kuchh hissa chhod diya hai, maloom nahi, sheikh bhool gaye ya unhon ne tumhen puri hadees sunaana pasand nahi kiya ke kahen tum (is mein bayan ki hui baat hi par) bharosa na kar lo. Hum ne arz ki: Aap hamen suna den to woh hans padhe aur kaha: Insaan jaldbaz paida kiya gaya hai, main ne tumhare samne is baat ka thakrikh is ke siwa (aur kisi wajah se) nahi kiya tha magar is liye ke main tumhen yeh hadees sunaana chahta tha. Aapﷺ ne farmaya: ''Phir main chauthi bar apne Rab ki taraf lautunga, phir inhi tarifon se us ki hamd bayan karoonga, phir us huzur sujdo reez ho jaunga to mujh se kaha jayega: Aay Muhammad! Apna sir uthain aur kahen, aap ki bat suni jayegi aur mangen, aap ko diya jayega aur shifa`at karen, aap ki shifa`at kabul hogi. To main arz karoonga: Aay mere Rab! Mujhe in ke baare mein (bhi) ijazat dijiye jinhon ne (sirf) la ilaha illa Allah kaha. Allah farmayega: Yeh aap ke liye nahi lekin meri `izzat ki qasam, meri kubrayai, meri `azmat aur meri barai ki qasam! Main in ko (bhi) jahannam se nikal lunga jinhon ne la ilaha illa Allah kaha.'' Ma`bad ka bayan hai: Main Hasan Basri ke baare mein gawai deta hon ke unhon ne hamen bataya ke unhon ne Hazrat Anas bin Malik radi Allahu `anhu se yeh riwayat suni. Mera khayal hai, unhon ne kaha: Bees saal pehle, aur is waqt un ki salahiyat bhar poor thi.

حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلاَلٍ الْعَنَزِيُّ، ح وَحَدَّثَنَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، - وَاللَّفْظُ لَهُ - حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلاَلٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ انْطَلَقْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَتَشَفَّعْنَا بِثَابِتٍ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي الضُّحَى فَاسْتَأْذَنَ لَنَا ثَابِتٌ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَأَجْلَسَ ثَابِتًا مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ فَقَالَ لَهُ يَا أَبَا حَمْزَةَ إِنَّ إِخْوَانَكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ يَسْأَلُونَكَ أَنْ تُحَدِّثَهُمْ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ ‏.‏ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ لَهُ اشْفَعْ لِذُرِّيَّتِكَ ‏.‏ فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - فَإِنَّهُ خَلِيلُ اللَّهِ ‏.‏ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللَّهِ ‏.‏ فَيُؤْتَى مُوسَى فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - فَإِنَّهُ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ ‏.‏ فَيُؤْتَى عِيسَى فَيَقُولُ لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فَأُوتَى فَأَقُولُ أَنَا لَهَا ‏.‏ فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي فَأَقُومُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لاَ أَقْدِرُ عَلَيْهِ الآنَ يُلْهِمُنِيهِ اللَّهُ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ لِي يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي ‏.‏ فَيُقَالُ انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ بُرَّةٍ أَوْ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا ‏.‏ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ لِي يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ‏.‏ فَأَقُولُ أُمَّتِي أُمَّتِي ‏.‏ فَيُقَالُ لِي انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنْهَا ‏.‏ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ثُمَّ أَعُودُ إِلَى رَبِّي فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ لِي يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي ‏.‏ فَيُقَالُ لِي انْطَلِقْ فَمَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِنْ مِثْقَالِ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ ‏"‏ ‏.‏ هَذَا حَدِيثُ أَنَسٍ الَّذِي أَنْبَأَنَا بِهِ فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرِ الْجَبَّانِ قُلْنَا لَوْ مِلْنَا إِلَى الْحَسَنِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَهُوَ مُسْتَخْفٍ فِي دَارِ أَبِي خَلِيفَةَ - قَالَ - فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَقُلْنَا يَا أَبَا سَعِيدٍ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ أَخِيكَ أَبِي حَمْزَةَ فَلَمْ نَسْمَعْ مِثْلَ حَدِيثٍ حَدَّثَنَاهُ فِي الشَّفَاعَةِ قَالَ هِيهِ ‏.‏ فَحَدَّثْنَاهُ الْحَدِيثَ ‏.‏ فَقَالَ هِيهِ ‏.‏ قُلْنَا مَا زَادَنَا ‏.‏ قَالَ قَدْ حَدَّثَنَا بِهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ وَلَقَدْ تَرَكَ شَيْئًا مَا أَدْرِي أَنَسِيَ الشَّيْخُ أَوْ كَرِهَ أَنْ يُحَدِّثَكُمْ فَتَتَّكِلُوا ‏.‏ قُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا ‏.‏ فَضَحِكَ وَقَالَ خُلِقَ الإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ مَا ذَكَرْتُ لَكُمْ هَذَا إِلاَّ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ ‏"‏ ثُمَّ أَرْجِعُ إِلَى رَبِّي فِي الرَّابِعَةِ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا فَيُقَالُ لِي يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ‏.‏ فَأَقُولُ يَا رَبِّ ائْذَنْ لِي فِيمَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‏.‏ قَالَ لَيْسَ ذَاكَ لَكَ - أَوْ قَالَ لَيْسَ ذَاكَ إِلَيْكَ - وَلَكِنْ وَعِزَّتِي وَكِبْرِيَائِي وَعَظَمَتِي وَجِبْرِيَائِي لأُخْرِجَنَّ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ فَأَشْهَدُ عَلَى الْحَسَنِ أَنَّهُ حَدَّثَنَا بِهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أُرَاهُ قَالَ قَبْلَ عِشْرِينَ سَنَةً وَهُوَ يَوْمَئِذٍ جَمِيعٌ ‏.‏