32.
Statement of Knowing the Companions of the Prophet (may Allah be pleased with them)
٣٢-
بیان معرفة الصحابة الكرام رضوان الله علیهم


The virtues of Hazrat Abu Dhar Jundab bin Junadah Ghifari (RA)

فضائل حضرت أبو ذر جندب بن جنادة الغفاري رضي الله عنه

NameFameRank
الأسمالشهرةالرتبة

Mustadrak Al Hakim 5456

Abu Hamzah narrated that Abdullah bin Abbas (may Allah be pleased with them) said to us: "Shall I tell you the story of Abu Dharr's (may Allah be pleased with him) acceptance of Islam?" We said: "Yes!" He said: Abu Dharr (may Allah be pleased with him) said: "I belonged to the tribe of Ghifar. We received information that a man in Makkah claimed to be a Prophet. I said to my brother: 'Go to this man, talk to him and come back and tell me about him.' My brother went there, met him, and came back. I asked him: 'What news did you bring?' He said: 'By God! I saw that this man commands good and forbids evil.' Abu Dharr (may Allah be pleased with him) said: "I told him: 'Your news did not satisfy me properly.' I took my sword and staff and set off towards Makkah. (When I reached Makkah, the problem was that) I did not recognize the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him), nor did I want to ask anyone about him. I drank Zamzam water and sat down in the Masjid. (Abu Dharr (may Allah be pleased with him) said: 'Ali (may Allah be pleased with him) passed by me. He said: 'It seems you are a traveler?' I said: 'Yes.' You said: 'Come home with me.' I went home with him. He neither asked me anything nor did I tell him anything. When it was morning, I went to the Masjid again, but that day also I neither asked anyone about the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) nor did anyone tell me about him. Then Ali (may Allah be pleased with him) passed by me. He said: 'Have you not found your destination yet?' I said: 'No.' Ali (may Allah be pleased with him) said: 'Come with me to my house.' Today, Ali (may Allah be pleased with him) asked me: 'For what purpose have you come to this city?' I said: 'If you keep my matter confidential, I will tell you.' Ali (may Allah be pleased with him) said: 'Alright.' I told him: 'I have learned that there is a man in this city who claims to be a Prophet. I sent my brother to inquire about this matter. He went and came back, but I was not satisfied with his words, so I thought I should go and meet him myself.' Ali (may Allah be pleased with him) said: 'You have come to the right place. I will walk, and you follow me. And whichever house I enter, you enter it too. If I sense any danger from anyone about you on the way, I will stand by the wall and start fixing the strap of my shoe, and you pass by.' Abu Dharr (may Allah be pleased with him) said: 'Ali (may Allah be pleased with him) kept walking ahead, and I kept following him until he entered a house, and I followed him into that house, into the presence of the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him). I said: 'O Messenger of Allah! Offer me Islam.' The Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) offered me Islam, and I accepted Islam right there. The Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) instructed me: 'O Abu Dharr (may Allah be pleased with him)! Conceal your Islam for now and return to your town. When you hear the news of my dominance, then come.' I said: 'By the One who sent you with the truth! I will shout it out among these polytheists.' Then he came to the Masjid. At that time, the Quraysh were also present in the Masjid. He said: 'O group of Quraysh! 'I bear witness that there is none worthy of worship except Allah, and I bear witness that Muhammad is the slave of Allah and His Messenger.' They said: 'Get hold of this changer of religion!' Then those people got up and started beating me to kill me. Abbas (may Allah be pleased with him) came and fell on top of me, then turned to those people and said: 'Woe to you! You are killing the man of Bani Ghifar, while all your trade is with them, and your trade caravans pass through their tribe. So leave him.' When the next day came, I again came to the Masjid in the same manner and started shouting the Kalimah. They beat me again. Then Abbas (may Allah be pleased with him) came and saved me from them and said to them as he had said the previous day. This was the event of the first day of Abu Dharr's (may Allah be pleased with him) acceptance of Islam. ** This Hadith is Sahih according to the criteria of Imam Bukhari (may Allah have mercy on him) and Imam Muslim (may Allah have mercy on him), but the Shaikhs (may Allah have mercy on them) did not narrate it. And the Syrian commentator on Hadith regarding Abu Dharr's (may Allah be pleased with him) acceptance of Islam is as follows."

" ابوحمزہ کہتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے کہا : کیا میں تمہیں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ سناؤں ؟ ہم نے کہا : جی ہاں ! انہوں نے کہا : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میرا تعلق غفار قبیلے کے ساتھ تھا ، ہمیں یہ اطلاع ملی کہ مکہ مکرمہ میں ایک آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس آدمی سے جا کر ملو اور اس سے بات چیت کر کے آؤ اور مجھے بتاؤ ، میرا بھائی وہاں گیا اور ان سے ملاقات کی ، اور واپس لوٹ کر آ گیا ، میں نے اس سے پوچھا کہ تم کیا خبر لے کر آئے ہو ؟ اس نے کہا : خدا کی قسم ! میں نے دیکھا کہ وہ شخص نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اس سے کہا : مجھے تیری دی ہوئی خبر سے صحیح طور پر تشفی نہیں ہوئی ، میں نے اپنی تلوار اور عصا اٹھایا اور مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہو گیا ، ( جب میں مکہ مکرمہ پہنچا تو پریشانی یہ تھی کہ ) میں حضور ﷺ کو پہچانتا بھی نہ تھا اور میں آپ ﷺ کے بارے میں کسی سے پوچھنا بھی نہیں چاہتا تھا ، میں آب زم زم پی کر مسجد میں بیٹھ گیا ، ( حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گزر میرے پاس سے ہوا ۔ انہوں نے کہا : لگتا ہے تم مسافر ہو ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : میرے ساتھ گھر چلو ، میں ان کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا ، نہ انہوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ ہی میں نے بتایا ۔ جب صبح ہوئی تو میں پھر مسجد میں آ گیا ، لیکن اس دن بھی نہ میں نے کسی سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھا اور نہ ہی کسی نے مجھے اس بارے میں بتایا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے ، آپ نے فرمایا : کیا تمہیں ابھی تک اپنی منزل نہیں ملی ؟ میں نے کہا : نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم میرے ساتھ میرے گھر چلو ۔ آج حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھ لیا کہ تم کس مقصد کی خاطر اس شہر میں آئے ہو ؟ میں نے کہا : اگر آپ میری بات صیغہ راز میں رکھیں تو میں آپ بتاتا ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔ میں ان کو بتایا کہ مجھے پتا چلا ہے کہ اس شہر میں کوئی شخص ہے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ میں اپنے بھائی کو اس معاملے کی خبر لینے بھیجا تھا ، وہ آ کر واپس گیا لیکن مجھے اس کی بات سے تسلی نہیں ہوئی چنانچہ میں نے سوچا کہ مجھے خود جا کر ان سے ملاقات کرنی چاہیے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم بالکل ٹھیک جگہ پر پہنچے ہو ، میں چلتا ہوں اور تم میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ ، اور جس مکان میں میں داخل ہوں تم بھی اس میں داخل ہو جانا ، اگر راستے میں مجھے تمہارے بارے میں کسی سے کوئی خطرہ محسوس ہوا تو میں دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنے جوتے کا تسمہ ٹھیک کرنے لگ جاؤں گا اور تم آگے گزر جانا ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ آگے آگے چلتے رہے اور میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا ، حتی کہ آپ ایک مکان میں داخل ہو گئے اور میں بھی ان کے پیچھے اس مکان میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ مجھ پر اسلام پیش فرمائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے پر اسلام پیش فرمایا ، میں نے وہیں پر ہی اسلام قبول کر لیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اے ابوذر رضی اللہ عنہ ابھی اپنے اسلام کو چھپائے رکھنا اور اپنے شہر کو واپس چلے جاؤ ، جب تمہیں میرے غلبے کی اطلاع ملے تو چلے آنا ۔ میں نے کہا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تو ان مشرکوں کے درمیان چیخ چیخ کر بتاؤں گا ۔ پھر وہ مسجد میں آ گئے ، اس وقت مسجد میں قریش بھی موجود تھے ، انہوں نے کہا : اے گروہ قریش ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ انہوں نے کہا : اس دین بدلنے والے کی جانب اٹھو ، پھر وہ لوگ اٹھ کر آئے اور مجھے قتل کرنے کے لیے مارنا شروع کر دیا ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ آ کر میرے اوپر جھک گئے پھر ان لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا : تمہارے لیے ہلاکت ہو تم بنی غفار کے آدمی کو مار رہے ہو ، حالانکہ تمہاری تمام تر تجارت انہی کے ساتھ ہے اور تمہارے تجارتی قافلوں کا گزر بھی انہیں کے قبیلہ سے ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کو چھوڑ دو ۔ جب اگلا دن ہوا تو میں نے پھر اسی طرح مسجد میں آ کر چیخ چیخ کر کلمہ پڑھنا شروع کر دیا ۔ انہوں نے پھر مجھے مارا پیٹا ، پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آ کر مجھے ان سے بچایا اور پچھلے دن کی طرح ان سے کہا ۔ یہ تھا واقعہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کے پہلے دن کا ۔ ٭٭ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا ۔ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں شامیوں کی مفسر حدیث درج ذیل ہے ۔"

AbuHamza kehte hain : Hazrat Abdullah bin Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ne hum se kaha : kya main tumhen Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) ke Islam qubool karne ka waqeya sunaun ? Hum ne kaha : ji haan ! Unhon ne kaha : Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : mera talluq Ghaffar qabile ke sath tha , humein yeh ittila mili ke Makkah Mukarramah mein ek aadmi ne nabuat ka daawa kiya hai . Main ne apne bhai se kaha ke is aadmi se ja kar milo aur is se baat chit kar ke aao aur mujhe batao , mera bhai wahan gaya aur un se mulaqat ki , aur wapas laut kar aa gaya , main ne is se pucha ke tum kya khabar le kar aaye ho ? Is ne kaha : Khuda ki qasam ! Main ne dekha ke woh shakhs neki ka hukum deta hai aur burai se rokta hai . Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : main ne is se kaha : mujhe teri di hui khabar se sahih tor par tashaffi nahi hui , main ne apni talwar aur assa uthaya aur Makkah Mukarramah ki taraf rawana ho gaya , ( jab main Makkah Mukarramah pahuncha to pareshani yeh thi ke ) main Huzoor (صلى الله عليه وآله وسلم) ko pahchanta bhi nahi tha aur main aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke baare mein kisi se puchhna bhi nahi chahta tha , main aab Zam Zam pee kar masjid mein baith gaya , ( Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) ) farmate hain : Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ka guzar mere paas se hua . Unhon ne kaha : lagta hai tum musafir ho ? Main ne kaha : ji haan . Aap ne farmaya : mere sath ghar chalo , main un ke sath un ke ghar chala gaya , na unhon ne mujh se kuchh pucha aur na hi main ne bataya . Jab subah hui to main phir masjid mein aa gaya , lekin us din bhi na main ne kisi se aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke baare mein pucha aur na hi kisi ne mujhe is baare mein bataya . Phir Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) mere paas se guzre , aap ne farmaya : kya tumhen abhi tak apni manzil nahi mili ? Main ne kaha : nahi . Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne farmaya : tum mere sath mere ghar chalo . Aaj Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne mujh se puch liya ke tum kis maqsad ki khatir is shehar mein aaye ho ? Main ne kaha : agar aap meri baat sigh-e-raaz mein rakhen to main aap batata hun . Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne farmaya : theek hai . Main un ko bataya ke mujhe pata chala hai ke is shehar mein koi shakhs hai jo nabuat ka daawa karta hai . Main apne bhai ko is mamle ki khabar lene bheja tha , woh aa kar wapas gaya lekin mujhe us ki baat se tasalli nahi hui chunancha main ne socha ke mujhe khud ja kar un se mulaqat karni chahiye . Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne farmaya : tum bilkul theek jagah par pahunche ho , main chalta hun aur tum mere piche piche chale aao , aur jis makaan mein main dakhil hun tum bhi us mein dakhil ho jana , agar raste mein mujhe tumhare baare mein kisi se koi khatra mehsoos hua to main deewar ke sath khara ho kar apne joote ka tasma theek karne lag jaunga aur tum aage guzar jana . Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) aage aage chalte rahe aur main un ke piche piche chalta raha , hatta ke aap ek makaan mein dakhil ho gaye aur main bhi un ke piche is makaan mein Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki bargah mein haazir ho gaya . Main ne arz kiya : Ya Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) mujh par Islam pesh farmaen . Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne mujhe par Islam pesh farmaya , main ne wahin par hi Islam qubool kar liya . Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne mujhe hidayat farmaai ke aye Abuzar (رضي الله تعالى عنه) abhi apne Islam ko chhupaye rakhna aur apne shehar ko wapas chale jao , jab tumhen mere ghalbe ki ittila mile to chale aana . Main ne kaha : is zaat ki qasam ! Jis ne aap ko haq ke sath bheja hai main to in mushrikon ke darmiyan cheekh cheekh kar bataunga . Phir woh masjid mein aa gaye , us waqt masjid mein Quresh bhi maujood the , unhon ne kaha : aye giroh Quresh '' main gawahi deta hun ke Allah Ta'ala ke siwa koi ibadat ke layeq nahi hai aur main gawahi deta hun ke Muhammad Allah ke bande aur Rasul hain . Unhon ne kaha : is deen badalne wale ki taraf utho , phir woh log uth kar aaye aur mujhe qatl karne ke liye marna shuru kar diya , Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) aa kar mere upar jhuk gaye phir un logon ki taraf mutawajjah ho kar farmaya : tumhare liye halakat ho tum Bani Ghaffar ke aadmi ko maar rahe ho , halanki tumhari tamam tar tijarat inhi ke sath hai aur tumhare tijarti qaflon ka guzar bhi inhin ke qabila se hota hai . Is liye is ko chhor do . Jab agla din hua to main ne phir isi tarah masjid mein aa kar cheekh cheekh kar kalma parhna shuru kar diya . Unhon ne phir mujhe mara peeta , phir Hazrat Abbas (رضي الله تعالى عنه) ne aa kar mujhe un se bachaya aur pichhle din ki tarah un se kaha . Yeh tha waqeya Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) ke Islam ke pehle din ka . ** yeh hadees Imam Bukhari Rahmatullah Alaih aur Imam Muslim Rahmatullah Alaih ke miyaar ke mutabiq sahih hai lekin Sheikhain Rahmatullah Alaihema ne is ko naql nahi kiya . Aur Hazrat Abuzar (رضي الله تعالى عنه) ke qubool Islam ke baare mein shamiyon ki mufassir hadees darj zel hai .

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَزَّازُ، ثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَسَعْدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَا: ثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الْقَصِيرُ، حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: قَالَ لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِإِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ؟ قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كُنْتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلًا خَرَجَ بِمَكَّةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَقُلْتُ لِأَخِي: انْطَلِقْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَكَلِّمْهُ وَائْتِنِي بِخَبَرِهِ، فَانْطَلَقَ، فَلَقِيَهُ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقُلْتُ: مَا عِنْدَكَ؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ وَيَنْهَى عَنِ الشَّرِّ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَمْ يَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ، قَالَ: فَأَخَذْتُ جِرَابًا وَعَصَا، ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ، فَجَعَلْتُ لَا أَعْرِفُهُ، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ، وَأَشْرَبُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، وَأَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ فَقَالَ: كَأَنَّ الرَّجُلَ غَرِيبٌ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَى الْمَنْزِلِ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ، وَلَا أُخْبِرُهُ، قَالَ: ثُمَّ لَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ لِأَسْأَلَ عَنْهُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ يُخْبِرُنِي عَنْهُ بِشَيْءٍ، فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْرِفَ مَنْزِلَهُ بَعْدُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: انْطَلِقْ مَعِي، فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ هَذِهِ الْبَلْدَةَ؟ قُلْتُ لَهُ: إِنْ كَتَمْتَ عَلَيَّ أَخْبَرْتُكَ؟ قَالَ: فَإِنِّي أَفْعَلُ، قُلْتُ لَهُ: بَلَغَنَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ هَا هُنَا رَجُلٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَأَرْسَلْتُ أَخِي لِيُكَلِّمَهُ، فَرَجَعَ وَلَمْ يَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَاهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّكَ قَدْ رَشَدْتَ، هَذَا وَجْهِي، فَاتَّبِعْنِي، وَادْخُلْ حَيْثُ أَدْخَلُ، فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ أَحَدًا أَخَافَهُ عَلَيْكَ قُمْتُ إِلَى الْحَائِطِ أُصْلِحُ نَعْلِي وَامْضِ أَنْتَ، قَالَ: فَمَضَى وَمَضَيْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ، وَدَخَلْتُ مَعَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْرِضْ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ، فَعَرَضَ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ فَأَسْلَمْتُ مَكَانِي، قَالَ: فَقَالَ لِي: «يَا أَبَا ذَرٍّ، اكْتُمْ هَذَا الْأَمْرَ، وَارْجِعْ إِلَى بَلَدِكَ، فَإِذَا بَلَغَكَ ظُهُورُنَا فَأَقْبِلْ» قَالَ: فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقُرَيْشٍ فِيهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالُوا: قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ، فَقَامُوا فَضُرِبْتُ لِأَمُوتَ، فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ، فَأَكَبَّ عَلَيَّ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ تَقْتُلُونَ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ، وَمَتْجَرُكُمْ وَمَمَرُّكُمْ عَلَى غِفَارٍ، فَأَقْلَعُوا عَنِّي، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ الْغَدَ، رَجَعْتُ فَقُلْتُ مِثْلَ مَا قُلْتُ بِالْأَمْسِ، فَقَالُوا: قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ، فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ، فَأَكَبَّ عَلَيَّ، وَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ بِالْأَمْسِ، فَكَانَ أَوَّلُ إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ» فَأَمَّا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ فِي إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثُ الشَّامِيِّينَ "" [التعليق - من تلخيص الذهبي] 5456 - صحيح على شرط البخاري ومسلم