32.
Statement of Knowing the Companions of the Prophet (may Allah be pleased with them)
٣٢-
بیان معرفة الصحابة الكرام رضوان الله علیهم
The virtues of Arqam bin Abi Arqam Makhzumi (RA)
فضائل حضرت أرقم بن أبي أرقم مخزومي رضي الله عنه
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
‘uthmān bn al-arqam | Uthman ibn al-Arqam al-Qurashi | Acceptable |
yaḥyá bn ‘uthmān bn al-arqam | Yahya ibn Imran al-Madani | Acceptable |
abī | Imran ibn Hind al-Makhzumi | Unknown |
‘uthmān bn hind bn ‘abd al-lah bn ‘uthmān bn al-arqam bn abī al-arqam al-makhzūmī | Muhammad ibn Imran al-Makhzumi | Unknown |
muḥammad bn ‘umar | Muhammad ibn Umar al-Waqidi | Weak in Hadith |
al-ḥusayn bn al-faraj | Al-Husayn ibn al-Faraj al-Khayyat | Abandoned in Hadith |
al-ḥasan bn al-jahm | Al-Hasan ibn al-Jahm al-Tamimi | Unknown |
abū ‘abd al-lah al-aṣbahānī | Muhammad ibn Ahmad al-Asbahani | Trustworthy, good in hadith |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
عُثْمَانُ بْنُ الأَرْقَمِ | عثمان بن الأرقم القرشي | مقبول |
يَحْيَى بْنِ عُثْمَانَ بْنِ الأَرْقَمِ | يحيى بن عمران المدني | مقبول |
أَبِي | عمران بن هند المخزومي | مجهول الحال |
عُثْمَانُ بْنُ هِنْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ الأَرْقَمِ بْنِ أَبِي الأَرْقَمِ الْمَخْزُومِيُّ | محمد بن عمران المخزومي | مجهول الحال |
مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ | محمد بن عمر الواقدي | ضعيف الحديث |
الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ | الحسين بن الفرج الخياط | متروك الحديث |
الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ | الحسن بن الجهم التميمي | مجهول الحال |
أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الأَصْبَهَانِيُّ | محمد بن أحمد الأصبهاني | صدوق حسن الحديث |
Mustadrak Al Hakim 6129
Uthman bin Arqam used to say that I am the son of the seventh person to embrace Islam. My father was the seventh person to accept Islam. His house was in Safa, and it is the same house where the Messenger of Allah (ﷺ) started preaching Islam. Many people embraced Islam in that house. On the night of the migration (to Medina), the Messenger of Allah (ﷺ) prayed in this house, "O Allah! Between the two men, Umar bin Khattab and Umar bin Hisham, whomever You love more, honor Islam through him." The very next morning, Umar bin Khattab (may Allah be pleased with him) came and accepted Islam at Dar-ul-Arqam. After his acceptance of Islam, all the Companions (may Allah be pleased with them) came out of Dar-ul-Arqam, reciting the Takbeer (Allahu Akbar) aloud, and performed Tawaf of the Holy Ka'bah openly. Dar-ul-Arqam was then named Dar-ul-Islam (House of Islam). Arqam donated that house as Sadaqah (charity) in the name of his son. I myself have read the document of the Sadaqah of Dar-ul-Arqam. It was written like this, "In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful. This document bears witness that Arqam has given this house, which is opposite Safa, as Sadaqah for the Haram. It cannot be divided as inheritance nor can it be sold. Hisham bin Aas and the freed slave of Hisham bin Aas are witnesses to this." After that, this house remained as Sadaqah until the time of Abu Ja'far. The offspring of Arqam (may Allah be pleased with him) used to live in this house on rent. Muhammad bin Umar said: Yahya bin Umran bin Uthman bin Arqam said: I still remember the reason why Abu Ja'far thought about this house. The incident is like this: When Abu Ja'far came for Hajj, he was performing Sa'ee between Safa and Marwah. We were on the roof of our house, and he passed from beneath us, so close that if we wanted to, we could have removed his cap. Whenever he would descend into the valley, he would look at us, and then he would ascend Safa. When Muhammad bin Abdullah bin Hasan revolted in Medina, Abdullah bin Uthman bin Arqam pledged allegiance to him but did not participate in the revolt with Muhammad bin Abdullah bin Hasan. Abu Ja'far took strict notice of this and wrote a letter to his governor in Medina, instructing him to arrest Abdullah and put him in chains. Then, he sent a man named Shahab bin Abd Rabb, who was from Kufa, along with a letter addressed to the governor of Medina, directing him to act upon whatever Shahab bin Abd Rabb says. So, Shahab bin Abd Rabb went and arrested Abdullah bin Uthman. Abdullah bin Uthman was an elderly man, more than eighty years old at that time. He was terrified due to the imprisonment and chains. Shahab said, "If you sell me this house, I can save you from this trouble. The Amir-ul-Momineen wishes to acquire this house. If you sell it, I will request him to release you." Abdullah bin Uthman said, "This house is a Sadaqah. However, I can surely give you my share in it, but I am not the sole owner of this house, my other brothers are also partners in it." He said, "You are responsible for your share. Give us your share, and you will be free from it." Shahab appointed witnesses for this and wrote a letter to Abu Ja'far, saying, "I have bought that house for 17,000 Dinars." After that, he searched for his brothers and lured them with a large sum of money, so they sold their shares. This is how the house came into the possession of Abu Ja'far and his partners. Later, Mahdi gave this house to Khaizuran, the mother of Musa and Harun. She renovated it, and that became its identity. Then, this house came into the possession of Ja'far bin Musa al-Hadi. After that, the people of Sawt and Adni remained its owners. Then, Ghasan bin Abbad, the son of Ja'far bin Musa, bought most of its shares. Dar-ul-Arqam is located in Bani Zuraiq in Medina. Muhammad bin Umar said: Muhammad bin Imran bin Hind narrated to me from his father that when the time of Arqam bin Abi Arqam's death approached, he willed that Sa'd should lead his funeral prayer. Marwan said, "Are you delaying the funeral of a Companion of the Messenger of Allah for a man who is absent from here? I want to lead the funeral prayer." But, Abdullah bin Arqam stopped Marwan from leading his father's funeral prayer. The Banu Makhzoom stood up in his support. The matter escalated. In the meantime, Sa'd arrived and led his funeral prayer. This incident took place in 55 AH. Arqam's age was a little over eighty years.
" عثمان بن ارقم فرمایا کرتے تھے کہ میں سبع الاسلام ( ساتویں نمبر پر اسلام لانے والے شخص ) کا بیٹا ہوں ، میرے والد ساتویں نمبر پر اسلام لائے تھے ، ان کا گھر صفا پر تھا ، یہ وہی گھر ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز فرمایا ، اور اس گھر میں بہت سارے لوگ مسلمان ہوئے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے اس گھر میں پیر کی شب کو یہ دعا فرمائی ’’ اے اللہ ! دو آدمیوں عمر بن خطاب اور عمر بن ہشام میں سے جو تجھے پسند ہے تو اس کے سبب دین اسلام کو عزت بخش ‘‘ اگلے ہی دن صبح سویرے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور دارارقم میں اسلام قبول کیا ، ( آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بعد ) تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دارارقم سے باہر آئے اور کھلے عام بیت اللہ شریف کا طواف کیا ۔ دارارقم کو دارالاسلام کا نام دیا گیا ۔ حضرت ارقم نے اپنے بیٹے کے نام پر وہ مکان صدقہ کر دیا ، میں نے خود دارارقم میں صدقہ کرنے کی دستاویز پڑھی ، اس کی تحریر یوں تھی ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ دستاویز اس بات کا ثبوت ہیں کہ ارقم نے اپنا یہ مکان جو کہ صفاء کے بالمقابل ہے یہ حرم کیلئے صدقہ ہے ، اس کو نہ وراثت کے طور پر تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کو بیچا جا سکتا ہے ، ہشام بن عاص اور ہشام بن عاص کے فلاں آزاد کردہ غلام اس بات کے گواہ ہیں ۔ اس کے بعد ابوجعفر کے زمانے تک یہ گھر صدقہ کے طور پر رہا ، اس گھر میں حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کی اولادیں کرایہ دے کر رہتی رہیں ۔ محمد بن عمر کہتے ہیں : یحیی بن عمران بن عثمان بن ارقم فرماتے ہیں : مجھے آج بھی وہ بات یاد ہے جس کی بناء پر ابوجعفر کے دل میں اس مکان کے بارے میں خیال پیدا ہوا ۔ ( واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ) جب ابوجعفر حج کے لئے آیا ، وہ صفا مروہ کی سعی کر رہا تھا ، ہم اپنے مکان کی چھت پر تھے ، وہ ہمارے نیچے سے گزرا ، ( وہ اتنے قریب سے گزرا ) کہ اگر ہم اس کی ٹوپی اتارنا چاہتے تو اتار سکتے تھے ، وہ جب وادی سے نیچے اترتا تو ہمیں دیکھتا تھا ، پھر وہ صفا پر چڑھ جاتا ۔ جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے مدینہ میں بغاوت کی تو اس موقع پر عبداللہ بن عثمان بن ارقم نے ان کی بیعت کر لی تھی اور محمد بن عبداللہ بن حسن کے ساتھ بغاوت میں ان کا ساتھ نہیں دیا تھا ، ابوجعفر نے اس بات کا سخت نوٹس لیا ، اس نے مدینہ میں اپنے عامل کی جانب خط لکھا کہ اس کو گرفتار کر کے زنجیروں میں جکڑ دیا جائے ، پھر کوفہ کے رہنے والے ایک شہاب بن عبدرب نامی شخص کو بھیجا اور اس کے ساتھ مدینہ کے عامل کے نام ایک مکتوب بھی بھیجا جس میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ شہاب بن عبدرب جو کہے اس پر عمل کیا جائے ، چنانچہ شہاب بن عبدرب نے جا کر عبداللہ بن عثمان کو گرفتار کر لیا ، عبداللہ بن عثمان اس وقت اسی سال سے زائد عمر کے بزرگ انسان تھے ، قید اور زنجیروں کی وجہ سے بہت گھبرا گئے تھے ، شہاب نے کہا : اگر تم یہ مکان مجھے بیچ دو تو میں تمہیں اس تکلیف سے نجات دلا سکتا ہوں ۔ امیرالمومنین یہ مکان لینے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اگر آپ یہ بیچ دیں تو میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں رہا کر دیں ۔ حضرت عبداللہ بن عثمان نے فرمایا : یہ مکان تو صدقہ کا ہے ، ہاں البتہ میں اپنا حق ان کو دے سکتا ہوں ، لیکن اس مکان میں صرف میں ہی نہیں ہوں بلکہ میرے ہمراہ میرے دیگر بھائی بھی ( شریک ) ہیں ۔ اس نے کہا : آپ اپنے حق کے ذمہ دار ہیں ، آپ اپنا حق ہمیں دے دیں تو تم اس سے بری ہو ، شہاب نے اس بات پر گواہ قائم کئے ، اور ابوجعفر کی طرف خط لکھ دیا کہ میں نے وہ مکان 17 ہزار دینار کے بدلے میں خرید لیا ہے ، اس کے بعد ان کے بھائیوں کو ڈھونڈا ، ان کو بہت زیادہ مال و دولت کی لالچ دی ، انہوں نے اپنا حصہ بیچ دیا ۔ اس طرح وہ مکان ابوجعفر اور اس کے حصہ داروں کا ہو گیا ۔ اس کے بعد یہ مکان مہدی نے موسیٰ و ہارون کی والدہ خیزران کو دیا ، اس نے اس کی تعمیر نو کی ، وہی اس کی پہچان بن گئی ، پھر یہ مکان جعفر بن موسیٰ ہادی کا ہو گیا ، اس کے بعد سطوی اور عدنی لوگ اس کے مالک رہے ، پھر اس کے اکثر حصص کو جعفر بن موسیٰ کے بیٹے غسان بن عباد نے خریدا ۔ اور دارارقم مدینہ بنی زریق میں ہے ۔ محمد بن عمر کہتے ہیں : مجھے محمد بن عمران بن ہند نے اپنے والد کے حوالے سے بتایا ہے کہ ارقم بن ابی ارقم کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ ان کی نماز جنازہ حضرت سعد پڑھائیں ، مروان نے کہا : کیا تم ایک ایسے آدمی کے انتظار میں جو یہاں سے غائب ہے ایک صحابی رسول کو روک رہے ہو ؟ وہ جنازہ پڑھانا چاہتا تھا ۔ لیکن عبداللہ بن ارقم نے مروان کو اپنے والد کا جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا ۔ اور بنو مخزوم ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ، ان میں بات بڑھ گئی ، اتنی دیر میں حضرت سعد تشریف لے آئے اور ان کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔ یہ 55 ہجری کا واقعہ ہے ۔ حضرت ارقم کی عمر اسی سال سے کچھ اوپر تھی ۔"
Usman bin Arqam farmaya karte thay keh mein sab'ul Islam (saatwein number par Islam laane wale shakhs) ka beta hun, mere walid saatwein number par Islam laye thay, un ka ghar Safa par tha, yeh wohi ghar hai jis mein Rasul Allah ﷺ ne Islam ki tabligh ka aghaz farmaya, aur is ghar mein bahut sare log musalman huye thay, Rasul Allah ﷺ ne is ghar mein peer ki shab ko yeh dua farmai ''Aye Allah! do admiyon Umar bin Khattab aur Umar bin Hisham mein se jo tujhe pasand hai to us ke sabab deen Islam ko izzat bakhsh'' agle hi din subah sawere Hazrat Umar bin Khattab razi Allah anhu hazir khidmat huye aur Dar-ul-Arqam mein Islam qubul kiya, (aap razi Allah anhu ke qubul Islam ke baad) tamam sahaba kiram razi Allah anhum nara-e-takbeer buland karte huye Dar-ul-Arqam se bahar aye aur khule aam Baitullah Sharif ka tawaf kiya. Dar-ul-Arqam ko Dar-ul-Islam ka naam diya gaya. Hazrat Arqam ne apne bete ke naam par woh makan sadqa kar diya, mein ne khud Dar-ul-Arqam mein sadqa karne ki dastavez parhi, is ki tahrir yun thi ''Bismillah hir-Rahman nir-Rahim yeh dastavez is baat ka saboot hain keh Arqam ne apna yeh makan jo keh Safa ke balmukabil hai yeh haram ke liye sadqa hai, is ko na wirasat ke taur par taqseem kiya ja sakta hai aur na is ko becha ja sakta hai, Hisham bin Aas aur Hisham bin Aas ke falaan azad kardah ghulam is baat ke gawah hain. Is ke baad Abu Ja'far ke zamane tak yeh ghar sadqa ke taur par raha, is ghar mein Hazrat Arqam razi Allah anhu ki aulaaden kiraya de kar rehti rahin. Muhammad bin Umar kehte hain: Yahyah bin Imran bin Usman bin Arqam farmate hain: mujhe aaj bhi woh baat yaad hai jis ki bina par Abu Ja'far ke dil mein is makan ke bare mein khayal paida hua. (waqea kuch is tarah hai keh) jab Abu Ja'far Hajj ke liye aaya, woh Safa Marwah ki sa'ee kar raha tha, hum apne makan ki chhat par thay, woh humare neeche se guzara, (woh itne qareeb se guzara) keh agar hum us ki topi utarna chahte to utar sakte thay, woh jab wadi se neeche utarta to humein dekhta tha, phir woh Safa par chad jata. Jab Muhammad bin Abdullah bin Hasan ne Madinah mein baghawat ki to is mauqa par Abdullah bin Usman bin Arqam ne un ki bai'at kar li thi aur Muhammad bin Abdullah bin Hasan ke sath baghawat mein un ka sath nahin diya tha, Abu Ja'far ne is baat ka sakht notice liya, us ne Madinah mein apne 'amil ki janib khat likha keh is ko giraftar kar ke zanjeeron mein jakad diya jaye, phir Kufa ke rehne wale ek Shahab bin Abd Rab nami shakhs ko bhijha aur us ke sath Madinah ke 'amil ke naam ek maktub bhi bhijha jis mein yeh hidayat di gayi thi keh Shahab bin Abd Rab jo kahe us par amal kiya jaye, chunancha Shahab bin Abd Rab ne ja kar Abdullah bin Usman ko giraftar kar liya, Abdullah bin Usman us waqt assi saal se zyada umar ke buzurg insan thay, qaid aur zanjeeron ki wajah se bahut ghabra gaye thay, Shahab ne kaha: agar tum yeh makan mujhe bech do to mein tumhein is takleef se nijaat dila sakta hun. Amir-ul-Momineen yeh makan lene ki khwahish rakhte hain. Agar aap yeh bech dein to mein un se darkhwast karunga keh woh tumhein riha kar dein. Hazrat Abdullah bin Usman ne farmaya: yeh makan to sadqa ka hai, haan albatta mein apna haq un ko de sakta hun, lekin is makan mein sirf mein hi nahin hun balkeh mere hamrah mere deegar bhai bhi (sharik) hain. Us ne kaha: aap apne haq ke zimmedar hain, aap apna haq humein de dein to tum is se bari ho, Shahab ne is baat par gawah qaim kiye, aur Abu Ja'far ki taraf khat likh diya keh mein ne woh makan 17 hazar dinar ke badle mein kharid liya hai, is ke baad un ke bhaiyon ko dhunda, un ko bahut zyada maal o daulat ki lalach di, unhon ne apna hissa bech diya. Is tarah woh makan Abu Ja'far aur us ke hissa daron ka ho gaya. Is ke baad yeh makan Mahdi ne Musa o Haroon ki walida Khaizran ko diya, us ne is ki tameer-e-nau ki, wohi is ki pahchan ban gayi, phir yeh makan Ja'far bin Musa Hadi ka ho gaya, is ke baad Satwi aur Adni log is ke malik rahe, phir is ke aksar hisson ko Ja'far bin Musa ke bete Ghassan bin Abbad ne kharida. Aur Dar-ul-Arqam Madinah Bani Zuraiq mein hai. Muhammad bin Umar kehte hain: mujhe Muhammad bin Imran bin Hind ne apne walid ke hawale se bataya hai keh Arqam bin Abi Arqam ki wafat ka waqt qareeb aaya to unhon ne wasiyat ki keh un ki namaz-e-janaza Hazrat Sa'ad padhaen, Marwan ne kaha: kya tum ek aise aadmi ke intezar mein jo yahan se ghaib hai ek sahabi-e-Rasul ko rok rahe ho? Woh janaza padhana chahta tha. Lekin Abdullah bin Arqam ne Marwan ko apne walid ka janaza padhane se mana kar diya. Aur Banu Makhzoom un ki himayat mein aath khare huye, un mein baat badh gayi, itni der mein Hazrat Sa'ad tashrif le aaye aur un ki namaz-e-janaza padha di. Yeh 55 Hijri ka waqea hai. Hazrat Arqam ki umar assi saal se kuch upar thi.
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ هِنْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ الْأَرْقَمِ بْنِ أَبِي الْأَرْقَمِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُثْمَانَ بْنِ الْأَرْقَمِ، حَدَّثَنِي جَدِّي عُثْمَانُ بْنُ الْأَرْقَمِ أَنَّهُ كَانَ، يَقُولُ: أَنَا ابْنُ سُبُعِ الْإِسْلَامِ، أَسْلَمَ أَبِي سَابِعَ سَبْعَةٍ، وَكَانَتْ دَارُهُ عَلَى الصَّفَا وَهِيَ الدَّارُ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ فِيهَا فِي الْإِسْلَامِ، وَفِيهَا دَعَا النَّاسَ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَأَسْلَمَ فِيهَا قَوْمٌ كَثِيرٌ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الِاثْنَيْنِ فِيهَا: «اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ عَمْرِو بْنِ هِشَامٍ» ، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مِنَ الْغَدِ بَكْرَةً، فَأَسْلَمَ فِي دَارِ الْأَرْقَمِ، وَخَرَجُوا مِنْهَا وَكَبَّرُوا وَطَافُوا بِالْبَيْتِ ظَاهِرِينَ، وَدُعِيَتْ دَارُ الْأَرْقَمِ دَارُ الْإِسْلَامِ، وَتَصَدَّقَ بِهَا الْأَرْقَمُ عَلَى وَلَدِهِ، فَقَرَأْتُ نُسْخَةَ صَدَقَةِ الْأَرْقَمِ بِدَارِهِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا قَضَى الْأَرْقَمُ فِي رَبْعِهِ مَا حَازَ الصَّفَا، أَنَّهَا صَدَقَةٌ بِمَكَانِهَا مِنَ الْحَرَمِ لَا تُبَاعُ، وَلَا تُورَّثُ شَهِدَ هِشَامُ بْنُ الْعَاصِ، وَفُلَانٌ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَلَمْ تَزَلْ هَذِهِ الدَّارُ صَدَقَةً قَائِمَةً فِيهَا وَلَدُهُ يَسْكُنُونَ وَيُؤَاجِرُونَ وَيَأْخُذُونَ عَلَيْهَا حَتَّى كَانَ زَمَنُ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ: فَأَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ الْأَرْقَمِ، قَالَ: "" إِنِّي لَأَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي وَقَعَ فِي نَفْسِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّهُ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فِي حَجَّةٍ حَجَّهَا وَنَحْنُ عَلَى ظَهْرِ الدَّارِ، فَيَمُرُّ تَحْتَنَا لَوْ أَشَاءُ أَنْ آخُذَ قَلَنْسُوَتَهُ لَأَخَذْتُهَا، وَأَنَّهُ لَيَنْظُرُ إِلَيْنَا مِنْ حِينِ يَهْبِطُ الْوَادِيَ حَتَّى يَصْعَدَ إِلَى الصَّفَا، فَلَمَّا خَرَجَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ بِالْمَدِينَةِ، كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ الْأَرْقَمِ مِمَّنْ بَايَعَهُ، وَلَمْ يَخْرُجْ مَعَهُ فَتَعَلَّقَ عَلَيْهِ أَبُو جَعْفَرٍ بِذَلِكَ فَكَتَبَ إِلَى عَامِلِهِ بِالْمَدِينَةِ أَنْ يَحْبِسَهُ وَيَطْرِحَهُ فِي الْحَدِيدِ، ثُمَّ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ شِهَابُ بْنُ عَبْدِ رَبٍّ، وَكَتَبَ مَعَهُ إِلَى عَامِلِهِ بِالْمَدِينَةِ أَنْ يَفْعَلَ مَا يَأْمُرُهُ، فَدَخَلَ شِهَابٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ الْحَبْسَ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ابْنُ بِضْعٍ وَثَمَانِينَ سَنَةً، وَقَدْ ضَجَرَ فِي الْحَدِيدِ وَالْحَبْسِ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ أَنْ أُخَلِّصَكَ مِمَّا أَنْتَ فِيهِ وَتَبِيعُنِي دَارَ الْأَرْقَمِ؟ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُهَا، وَعَسَى إِنْ بِعْتُهُ إِيَّاهَا أَنْ أُكَلِّمَهُ فِيكَ فَيَعْفُوَ عَنْكَ، قَالَ: إِنَّهَا صَدَقَةٌ وَلَكِنَّ حَقِّي مِنْهَا لَهُ وَمَعِي فِيهَا شُرَكَاءُ إِخْوَتِي وَغَيْرُهِمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا عَلَيْكَ نَفْسَكَ أَعْطِنَا حَقَّكَ وَبَرِئْتَ فَاشْهَدْ لَهُ، وَكَتَبَ عَلَيْهِ كِتَابَ شِرَاءٍ عَلَى سَبْعَةَ عَشَرَ أَلْفَ دِينَارٍ، ثُمَّ تَتَبَّعَ إِخْوَتَهُ فَفَتَنَهُمْ كَثْرَةُ الْمَالِ فَبَاعُوهُ، فَصَارَتْ لِأَبِي جَعْفَرٍ وَلِمَنْ أَقْطَعَهَا، ثُمَّ صَيَّرَهَا الْمَهْدِيُّ لِلْخَيْزُرَانِ أُمِّ مُوسَى وَهَارُونَ فَبَنَتْهَا وَعُرِفَتْ بِهَا، ثُمَّ صَارَتْ لِجَعْفَرِ بْنِ مُوسَى الْهَادِي، ثُمَّ سَكَنَهَا أَصْحَابُ السَّطَوِيِّ وَالْعَدَنِيُّ، ثُمَّ اشْتَرَى عَامَّتَهَا أَوْ أَكْثَرَهَا غَسَّانُ بْنُ عَبَّادٍ وَلَدُ جَعْفَرِ بْنِ مُوسَى، وَأَمَّا دَارُ الْأَرْقَمِ بِالْمَدِينَةِ فِي بَنِي زُرَيْقٍ فَقَطِيعَةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "" قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: حَضَرَتِ الْأَرْقَمَ بْنَ أَبِي الْأَرْقَمُ الْوَفَاةُ، فَأَوْصَى أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَقَالَ مَرْوَانُ: «أَتَحْبِسُ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ غَائِبٍ أَرَادَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ؟، فَأَبَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَرْقَمِ ذَلِكَ عَلَى مَرْوَانَ، وَقَامَتْ مَعَهُ بَنُو مَخْزُومٍ وَوَقَعَ بَيْنَهُمْ كَلَامٌ، ثُمَّ جَاءَ سَعْدٌ فَصَلَّى عَلَيْهِ وَذَلِكَ سَنَةَ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ بِالْمَدِينَةِ وَهَلَكَ الْأَرْقَمُ وَهُوَ ابْنُ بِضْعٍ وَثَمَانِينَ سَنَةً» [التعليق - من تلخيص الذهبي] 6129 - سكت عنه الذهبي في التلخيص