32.
Statement of Knowing the Companions of the Prophet (may Allah be pleased with them)
٣٢-
بیان معرفة الصحابة الكرام رضوان الله علیهم


Mention of Hazrat Sanaa bint Asmaa bin Salit Salmiyah (RA)

ذكر حضرت سناء بنت أسماء بنت صلت سلمية رضي الله عنها

Mustadrak Al Hakim 6816

Abdul Wahid bin Abi Aun Dosi states: Nu'man bin Abi Jaun Kindi and his siblings resided near Sharba in the Najd region. Nu'man bin Abi Jaun Kindi, upon embracing Islam, presented himself before the Messenger of Allah (ﷺ). He submitted, "O Messenger of Allah (ﷺ), shall I not arrange your marriage with the most beautiful widowed woman among the Arabs? She was married to your paternal cousin. Now, her husband has passed away, and she has become a widow. She admires your character and has even sent a marriage proposal for you." The Messenger of Allah (ﷺ) agreed to marry her and settled the dowry at 12 ounces and one Nush of silver. The Messenger of Allah (ﷺ) stated, "They said, 'O Messenger of Allah (ﷺ), do not reduce her dowry.'" The Prophet (ﷺ) replied, "I have never fixed a higher dowry for any of my wives, nor have I ever taken a higher dowry for any of my daughters." Nu'man bin Abi Jaun said, "Our sympathies are with you." They suggested, "O Messenger of Allah (ﷺ), send someone to bring her to you. I will accompany your emissary, and upon reaching there, I will send her back with your representative." Therefore, the Messenger of Allah (ﷺ) sent Abu Aseed Saidi (may Allah be pleased with him) along with Nu'man. When they both reached her, she was sitting inside her house. They were granted permission to enter. Abu Aseed mentioned, "The Mothers of the Believers observe Hijab from men." This incident occurred after the commandments of Hijab were revealed. I had sent a message to the Messenger of Allah (ﷺ), and he had granted me leniency. Nu'man added, "You should observe Hijab from men you converse with, unless he is a Mahram (a close male relative) to you." They accepted these commandments of Hijab. I stayed there for three days, and then I helped them mount a camel with the Messenger of Allah's emissary. I brought them to Medina. They were hosted in Bani Sa'ida. The women of the neighborhood gathered around them, offering their blessings. As she emerged, everyone praised her beauty. The news of her arrival in Medina spread widely and became the talk of the town. Abu Aseed Saidi (may Allah be pleased with him) narrates: I went to the Prophet (ﷺ) while he was in Bani Amr bin Auf. I informed the Messenger of Allah (ﷺ) about her. Meanwhile, a woman, upon hearing about her beauty from the women of Medina, came to her. She was indeed the most beautiful. The woman said, "You are like a princess! If you desire to live with the Messenger of Allah (ﷺ), then repent, for in this way, the Messenger of Allah (ﷺ) will be drawn to you, and you will attain good fortune." Ibn Abi Aun states that the Prophet (ﷺ) married Kindiya in Rabi' al-Awwal, 9 AH. Walid bin Abdul Malik wrote a letter to Urwa, inquiring, "Did the Messenger of Allah (ﷺ) marry the sister of Ash'ath bin Qais?" He replied, "No, the Messenger of Allah (ﷺ) never married her, nor did he marry any woman named Kindiya. However, the sister of Bani al-Jaun came under his possession, and he married her. But when she arrived in Medina, the Prophet (ﷺ) looked at her and divorced her before consummating the marriage." Abu Aseed Saidi (may Allah be pleased with him), a companion of Badr, narrates: The Messenger of Allah (ﷺ) married Asma bint Nu'man. He sent me to bring her, and I brought her back. (When she arrived) Umm al-Mu'minin Hafsa (may Allah be pleased with her) said to Aisha (may Allah be pleased with her), "I will apply kohl to her eyes, and you comb her hair." So, they both did this. Then one of them (Asma) said, "The Prophet (ﷺ) likes it when his new wife goes to him and says, 'A'udhu billahi min-ka' (I seek refuge in Allah from you)." When Asma entered the chamber of the Messenger of Allah (ﷺ), he closed the door, hung a curtain, and extended his hand towards her. She said, "A'udhu billahi min-ka." The Messenger of Allah (ﷺ) covered his face with his sleeve, using it as a veil, and said to her, "You have been granted refuge." He repeated these words thrice. Abu Aseed narrates, "Then the Messenger of Allah (ﷺ) came to me and said, 'O Abu Aseed! Take her back to her family and give her two Raziqin (two pieces of cloth) as a dowry.'" Asma bint Nu'man used to say, "Call me 'Shaqiya' (wretched)." Zuhair bin Mu'awiya Ja'fi says, "She passed away due to a heart ailment." Abdullah bin Abbas (may Allah be pleased with both of them) narrates: Muhajir bin Abi Umayya accused Asma bint Nu'man. Umar (may Allah be pleased with him) intended to punish Asma, but she said, "Neither was Hijab made obligatory upon me, nor was I given the status of 'Umm al-Mu'minin' (Mother of the Believers)." So, Umar (may Allah be pleased with him) left her alone.

" عبدالواحد بن ابی عون دوسی فرماتے ہیں : نعمان بن ابی جون کندی اور اس کے بہن بھائی شربہ کے قریب مقام نجد میں رہتے تھے ، نعمان بن ابی جون کندی مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا میں آپ کے نکاح عرب کی سب سے حسین ترین بیوہ خاتون سے نہ کرا دوں ؟ وہ آپ کے چچا زاد بھائی کے نکاح میں تھی ۔ اب اس کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے ، اور وہ بیوہ ہو چکی ہے ، وہ آپ کی شخصیت میں دلچسپی رکھتی ہے اور اس نے آپ کے لئے پیغام نکاح بھی بھیجا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ نکاح فرما لیا ، اور حق مہر 12 اوقیہ اور ایک نش چاندی رکھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اس کا مہر کم مت رکھئے ، حضور ﷺ نے فرمایا : میں نے اپنی کسی بیوی کا حق مہر اس سے زیادہ نہیں رکھا ۔ اور نہ ہی اپنی کسی بیٹی کا حق مہر اس سے زیادہ لیا ہے ۔ نعمان بن ابی جون نے کہا ، ہماری ہمدردیاں تو آپ کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ آپ کسی کو بھیج دیجئے ، جو ان کو اپنے ساتھ آپ تک لے آئے ، میں آپ کے سفیر کو ساتھ لے جاؤں گا اور وہاں جا کر ان کو آپ کے سفیر کے ہمراہ بھیج دوں گا ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ کو نعمان کے ساتھ بھیجا ، جب یہ دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں ، اور ان کو اندر آنے کی اجازت دی ، حضرت ابواسید نے کہا : رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات مردوں سے پردہ کرتی ہیں ۔ یہ بات پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد کی ہے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں پیغام بھیجا تھا ، تو حضور ﷺ نے میرے لئے نرمی فرما دی تھی ، نعمان نے کہا : تم جن مردوں کے ساتھ گفتگو کرتی ہو ، تمہارے اور ان کے درمیان پردہ ہونا چاہیے ، البتہ اگر وہ آپ کا محرم ہو ( تو اس کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں ہے ) انہوں نے پردہ کے یہ احکام قبول کر لئے ، میں وہاں پر تین دن ٹھہرا ، پھر میں نے رسول اللہ ﷺ کے سفیر کے ہمراہ ایک اونٹ پر ان کو سوار کرا دیا ، میں ان کو لے کر مدینہ منورہ میں آ گیا ۔ ان کو بنی ساعدہ میں ٹھہرایا ، محلے کی خواتین ان کے پاس اکٹھی ہوئیں ، ان کو مبارک بادیاں دیں ، پھر جب وہ باہر نکلیں تو سب ان کے حسن و جمال کی تعریفیں کر رہی تھیں ، مدینہ منورہ میں یہ بات عام ہو گئی اور ان کی مدینہ منورہ میں آمد زباں زد عام ہو گئی ، ابواسید ساعدی فرماتے ہیں ۔ میں نبی اکرم ﷺ کی طرف آیا ، آپ ﷺ اس وقت بنی عمرو بن عوف میں موجود تھے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا ۔ ادھر مدینہ کی خواتین میں ان کے حسن و جمال کا چرچا سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی وہ واقعی سب سے زیادہ حسین و جمیل تھیں ، اس عورت نے کہا : تو بادشاہ زادی ہے ، اگر تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو ان سے توبہ کرو ، کیونکہ ( اس طرح ) رسول اللہ ﷺ تیری طرف متوجہ ہوں گے اور تو صاحب نصیب ہو گی ۔ ابن ابی عون فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ماہ ربیع الاول سن 9 ہجری کو کندیہ کے ساتھ نکاح کیا تھا ۔ ولید بن عبدالملک نے حضرت عروہ کی طرف خط لکھ کر پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے اشعت بن قیس کی بہن کے ساتھ نکاح کیا تھا ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے ہرگز نکاح نہیں کیا اور نہ ہی کسی کندیہ سے نکاح کیا ہے ، ہاں البتہ بنی الجون کی بہن آپ کی ملکیت میں آئی تھی ، آپ ﷺ نے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا لیکن جب وہ حضور ﷺ کے پاس مدینہ منورہ میں آئی ، آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو اس کو طلاق دے دی تھی ، اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کی تھی ۔ ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں ، آپ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اسماء بنت نعمان جونیہ کے ساتھ نکاح کیا ، حضور ﷺ نے ان کو لینے کے لئے مجھے بھیجا تھا ، میں جا کر ان کو لے آیا ، ( جب وہ آ گئیں تو ) ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : میں اس کو خضاب لگاؤں گی اور تو اس کو کنگھی کرنا : پھر ان دونوں نے یہ کام کیا ۔ اس کے بعد ان میں سے ایک ( اسماء سے ) کہنے لگی : نبی اکرم ﷺ کو یہ بات پسند ہے کہ جب آپ ﷺ کی نئی بیوی ان کے پاس جائے تو وہ کہے ’’ اعوذ باللہ منک ‘‘۔ ( میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں ) ۔ جب اسماء رسول اللہ ﷺ کے حجرہ میں داخل ہوئی ، رسول اللہ ﷺ نے دروازہ بند کیا ، اور پردے لٹکا دئیے ، اور اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تو اس نے کہہ دیا ’’ اعوذ باللہ منک ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی آستین کے ساتھ اپنا چہرہ چھپایا ، اس سے پردہ کر لیا اور اس سے فرمایا : تجھے پناہ دی گئی ہے ، یہ الفاظ حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمائے ۔ حضرت ابواسید فرماتے ہیں : پھر رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا : اے ابواسید ! تم اس کو اس کے گھر والوں تک پہنچا دو ، اور اس کو دو رازقین یعنی دو کرباس حق مہر دے دو ۔ اسماء بنت نعمان کہا کرتی تھیں : مجھے ’’ شقیہ ‘‘ ( بدبخت ) کہہ کر پکارا کرو ۔ زہیر بن معاویہ جعفی کہتے ہیں : وہ دل کی بیماری کی وجہ سے فوت ہوئی تھیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مہاجر بن ابی امیہ نے حضرت اسماء بنت نعمان پر الزام لگایا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء کو سزا دینے کا ارادہ کیا ، تو انہوں نے کہا : نہ تو مجھ پر پردہ فرض کیا گیا تھا اور نہ ہی مجھے ’’ ام المومنین ‘‘ کا رتبہ ملا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو چھوڑ دیا ۔"

Abdulwahid bin Abi Aun Dosi farmate hain : نعمان بن ابی جون کندی aur iske bahan bhai sharba ke qareeb maqam najd mein rehte the, نعمان بن ابی جون کندی musalman ho kar Rasool Allah ﷺ ki bargah mein hazir hue . Unhon ne arz ki : Ya Rasool Allah ﷺ kya main aapke nikah arab ki sab se haseen tareen biwi khatoon se na kara doon? Woh aapke chacha zad bhai ke nikah mein thi . Ab iske shohar ka inteqal ho chuka hai, aur woh biwi ho chuki hai, woh aap ki shakhsiyat mein dilchaspi rakhti hai aur isne aapke liye paigham nikah bhi bheja hai . Rasool Allah ﷺ ne unke sath nikah farma liya, aur haq mehr 12 auqiya aur ek nish chandi rakhi . Rasool Allah ﷺ ne farmaya : Unhon ne kaha : Ya Rasool Allah ﷺ iska mehr kam mat rakhiye, Huzoor ﷺ ne farmaya : Maine apni kisi biwi ka haq mehr is se zyada nahin rakha . Aur na hi apni kisi beti ka haq mehr is se zyada liya hai . نعمان بن ابی جون ne kaha, hamari hamdardiyan to aapke sath hain . Unhon ne kaha : Ya Rasool Allah ﷺ aap kisi ko bhej dijiye, jo in ko apne sath aap tak le aaye, main aapke safeer ko sath le jaunga aur wahan ja kar in ko aapke safeer ke hamrah bhej doonga . Chunache Rasool Allah ﷺ ne Hazrat Abuasaid Saidi razi Allah anhu ko نعمان ke sath bheja, jab ye donon inke pass pahunche to woh apne ghar mein baithi hui thin, aur in ko andar aane ki ijazat di, Hazrat Abuasaid ne kaha : Rasool Allah ﷺ ki azwaj mutahhirat mardon se parda karti hain . Ye baat parda ke ahkam nazil hone ke baad ki hai, maine Rasool Allah ﷺ ki bargah mein paigham bheja tha, to Huzoor ﷺ ne mere liye narmi farma di thi, نعمان ne kaha : Tum jin mardon ke sath guftgu karti ho, tumhare aur unke darmiyan parda hona chahiye, albatta agar woh aapka mahram ho ( to iske samne aane mein koi harj nahin hai ) Unhon ne parda ke ye ahkam qubool kar liye, main wahan par teen din thahra, phir maine Rasool Allah ﷺ ke safeer ke hamrah ek unt par in ko sawar kara diya, main in ko le kar Madina munawwara mein aa gaya . In ko Bani Saida mein thahraya, mohalle ki khawateen inke pass ikatthi huin, in ko mubarak badiyaan din, phir jab woh bahar niklin to sab in ke husn o jamal ki tarifain kar rahi thin, Madina munawwara mein ye baat aam ho gai aur in ki Madina munawwara mein aamad zaban zad aam ho gai, Abuasaid Saidi farmate hain . Main Nabi akram ﷺ ki taraf aaya, aap ﷺ is waqt Bani Amr bin Auf mein maujood the, maine Rasool Allah ﷺ ko bataya . Idhar Madina ki khawateen mein in ke husn o jamal ka charcha sun kar ek aurat inke pass aai woh waqai sab se zyada haseen o jamil thin, is aurat ne kaha : To badshah zaidi hai, agar to Rasool Allah ﷺ ke sath rehna chahti hai to in se tauba karo, kyunki ( is tarah ) Rasool Allah ﷺ teri taraf mutawajjah honge aur to sahib nasib ho gi . Ibn Abi Aun farmate hain ki Nabi akram ﷺ ne mah rabiul awwal san 9 hijri ko kandiyah ke sath nikah kiya tha . Walid bin Abdulmalik ne Hazrat Urwah ki taraf khat likh kar pucha : Kya Rasool Allah ﷺ ne Ash'as bin Qais ki bahan ke sath nikah kiya tha? Unhon ne kaha : Nahin, Rasool Allah ﷺ ne is se hargiz nikah nahin kiya aur na hi kisi kandiyah se nikah kiya hai, haan albatta Bani al-Jun ki bahan aap ki milkayat mein aai thi, aap ﷺ ne iske sath nikah kiya tha lekin jab woh Huzoor ﷺ ke pass Madina munawwara mein aai, aap ﷺ ne is ki taraf dekha to is ko talaq de di thi, iske sath humbistari nahin ki thi . Abuasaid Saidi razi Allah anhu badri sahabi hain, aap farmate hain : Rasool Allah ﷺ ne Asma bint نعمان jonia ke sath nikah kiya, Huzoor ﷺ ne in ko lene ke liye mujhe bheja tha, main ja kar in ko le aaya, ( jab woh aa gain to ) Ummulmomineen Hazrat Hafsa razi Allah anha ne Hazrat Ayesha razi Allah anha se kaha : Main is ko khuzab lagaaungi aur to is ko kanghi karna : Phir in donon ne ye kaam kiya . Iske baad in mein se ek ( Asma se ) kehne lagi : Nabi akram ﷺ ko ye baat pasand hai ki jab aap ﷺ ki nayi biwi inke pass jaye to woh kahe '' Auzubillah minke ''. ( Main tujh se Allah ki panaah mangti hun ) . Jab Asma Rasool Allah ﷺ ke hujra mein dakhil hui, Rasool Allah ﷺ ne darwaza band kiya, aur parde latka diye, aur apna hath is ki taraf barhaya to isne keh diya '' Auzubillah minke ''. Rasool Allah ﷺ ne apni aastin ke sath apna chehra chhupaya, is se parda kar liya aur is se farmaya : Tujhe panaah di gai hai, ye alfaz Huzoor ﷺ ne teen martaba farmaye . Hazrat Abuasaid farmate hain : Phir Rasool Allah ﷺ mere pass tashreef laaye, aur farmaya : Ae Abuasaid! Tum is ko iske ghar walon tak pahuncha do, aur is ko do raziqeen yani do karbas haq mehr de do . Asma bint نعمان kaha karti thin : Mujhe '' shaqiya '' ( badbakht ) keh kar pukara karo . Zaheer bin Muawiya Ja'fi kehte hain : Woh dil ki bimari ki wajah se faut hui thin . Hazrat Abdullah bin Abbas razi Allah anhuma farmate hain : Muhajir bin Abi Umayyah ne Hazrat Asma bint نعمان par ilzaam lagaya tha, Hazrat Umar razi Allah anhu ne Asma ko saza dene ka irada kiya, to inhon ne kaha : Na to mujh par parda farz kiya gaya tha aur na hi mujhe '' Ummulmomineen '' ka rutba mila . Hazrat Umar razi Allah anhu ne is ko chhod diya .

حَدَّثَنَا بِشَرْحِ هَذِهِ الْقِصَّةِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ الدَّوْسِيِّ، قَالَ: قَدِمَ النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي جَوْنِ الْكِنْدِيُّ وَكَانَ يَنْزِلُ وَبَنُو أَبِيهِ نَجْدًا مِمَّا يَلِي الشَّرْبَةَ فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْلِمًا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلَا أُزَوِّجُكَ أَجْمَلَ أَيِّمٍ فِي الْعَرَبِ كَانَتْ تَحْتَ ابْنِ عَمٍّ لَهَا فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فَتَأَيَّمَتْ وَقَدْ رَغِبَتْ فِيكَ وَخُطِبَتْ إِلَيْكَ، فَتَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشٍّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَقْصُرْ بِهَا فِي الْمَهْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَصْدَقْتُ أَحَدًا مِنْ نِسَائِي فَوْقَ هَذَا وَلَا أُصَدِّقُ أَحَدًا مِنْ بَنَاتِي فَوْقَ هَذَا» فَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ أَبِي جَوْنٍ: فَفِيكَ الْأَسَى، فَقَالَ: فَابْعَثْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَى أَهْلِكَ مَنْ يحْمِلُهُمْ إِلَيْكَ فَإِنِّي خَارِجٌ مَعَ رَسُولِكَ فَمُرْسِلٌ أَهْلَكَ مَعَهُ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فَلَمَّا قَدِمَا عَلَيْهَا جَلَسَتْ فِي بَيْتِهَا وَأَذِنَتْ لَهُ أَنْ يَدْخُلَ فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: إِنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُرَاهِنَّ الرِّجَالَ، قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ - وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ نَزَلَ الْحِجَابَ فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ فَيَسَّرَ لِي أَمْرِي - قَالَ: حِجَابُ بَيْنِكِ وَبَيْنَ مَنْ تُكَلَّمِينَ مِنَ الرِّجَالِ إِلَّا ذَا مَحْرَمٍ مِنْكِ فَقَبِلَتْ فَقَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: فَأَقَمْتُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ثُمَّ تَحَمَّلْتُ مَعَ الظَّعِينَةِ عَلَى جَمَلٍ فِي مِحَفَّةٍ فَأَقْبَلْتُ بِهَا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَنْزَلْتُهَا فِي بَنِي سَاعِدَةَ فَدَخَلَ عَلَيْهَا نِسَاءُ الْحَيِّ فَرَحَّبْنَ بِهَا وَسَهَّلْنَ وَخَرَجْنَ مِنْ عِنْدِهَا فَذَكَرْنَ جَمَالَهَا وَشَاعَ ذَلِكَ بِالْمَدِينَةِ وَتَحَدَّثُوا بِقُدُومِهَا. قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ: وَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَخْبَرْتُهُ وَدَخَلَ عَلَيْهَا دَاخِلٌ مِنَ النِّسَاءِ لِمَا بَلَغَهُنَّ مِنْ جَمَالِهَا وَكَانَتْ مِنْ أَجْمَلِ النِّسَاءِ فَقَالَتْ: إِنَّكِ مِنَ الْمُلُوكِ فَإِنْ كُنْتِ تُرِيدِينَ أَنْ تَحْظِي عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَعِيذِي مِنْهُ فَإِنَّكِ تَحْظِينَ عِنْدَهُ وَيَرْغَبُ فِيكِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَوْنٍ، قَالَ: «تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِنْدِيَّةَ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ تِسْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ» قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ كَتَبَ إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ هَلْ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُخْتَ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ؟ فَقَالَ: «مَا تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ وَلَا تَزَوَّجَ كِنْدِيَّةً إِلَّا أُخْتَ بَنِي الْجَوْنِ فَمَلِكَهَا فَلَمَّا أَتَى بِهَا وَقَدِمَتِ الْمَدِينَةَ نَظَرَ إِلَيْهَا فَطَلَّقَهَا وَلَمْ يَبْنِ بِهَا» قَالَ: وَذَكَرَ هِشَامُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ ابْنَ الْغَسِيلِ، حَدَّثَهُ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ بَدْرِيًّا قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَاءَ بِنْتَ النُّعْمَانِ الْجَوْنِيَّةَ فَأَرْسَلَنِي فَجِئْتُ بِهَا، فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: أَخْضِبِيهَا أَنْتِ وَأَنَا أُمَشِّطُهَا فَفَعَلَتَا ثُمَّ قَالَتْ لَهَا إِحْدَاهُمَا: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ مِنَ الْمَرْأَةِ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ أَنْ تَقُولَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ وَأَغَلَقَ الْبَابَ وَأَرْخَى السِّتْرَ مَدَّ يَدَهُ إِلَيْهَا فَقَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكُمِّهِ عَلَى وَجْهِهِ فَاسْتَتَرَ بِهِ وَقَالَ: «عُذْتِ بِمُعَاذٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ» . قَالَ أَبُو أُسَيْدٍ: ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ: «يَا أَبَا أُسَيْدٍ أَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا وَمَتِّعْهَا بِرَازِقِيَّيْنِ» - يَعْنِي كِرْبَاسَيْنِ - فَكَانَتْ تَقُولُ: ادْعُونِي الشَّقِيَّةَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَالَ هِشَامُ بْنُ مُحَمَّدٍ: فَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُعْفِيُّ «أَنَّهَا مَاتَتْ كَمَدًا» قَالَ هِشَامُ: وَحَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَلَفَ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ النُّعْمَانِ الْمُهَاجِرُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، فَأَرَادَ عُمَرُ أَنْ يُعَاقِبَهَا فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ مَا ضُرِبَ عَلَيَّ الْحِجَابُ وَلَا سُمِّيتُ بِأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ» فَكَفَّ عَنْهَا [التعليق - من تلخيص الذهبي] 6816 - سنده واه