37.
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
٣٧-
كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله


10
Chapter: What Has Been Related About the Matter of Intercession

١٠
باب مَا جَاءَ فِي الشَّفَاعَةِ

Jami` at-Tirmidhi 2434

Abu Hurairah narrated: Some meat was brought to the Prophet (s.a.w) and a foreleg was presented to him, and he used to like it, so he bit from it. Then he said: 'I will be the 'Leader' of the people on the Day of Resurrection. Do you know why that is? Allah will gather the people, the first and the last, on one level ground where they will (all) be able to hear a caller, and all of them will be visible, and the sun will be brought near such that the people will suffer distress and trouble that they cannot tolerate nor bear. Then some people will say: Don't you see the state you have reached? Why don't you look for a person who can intercede for you with your Lord? Some of them will say to others: You should go to Adam. So they will go to Adam and say, You are the father of all mankind, Allah created you with His Own Hands, and breathed into you from His spirit (which He creted for you) and ordered the angels to prostrate for you. Will you not intercede for us with your Lord? Don't you see what has happened to us? Don't you see the state we have reached? On that Adam will reply, Today my Lord has become angry such that He has never before been angry, and will never be thereafter. He forbade me (to eat from) the tree, but I disobeyed(Him), Myself! Myself! Myself! Go to somebody else; Go to Nuh. They will go to Nuh and say: O Nuh! You are the first among the Messengers to the people of the earth, and Allah named you a thankful slave. Will you not intercede for us with your Lord? Don't you see what has happened to us? Don't you see the state we have reached? Nuh will say to them : Today my Lord has become angry as He has never before been angry, and will never be thereafter. I had been given one supplication, and I supplicated against my own people. Myself! Myself! Myself! Go to someone else! Go to Ibrahim. They will go to Ibrahim and say: O Ibrahim! You are Allah's Prophet and His Khalil among the people of the earth, so intercede for us with your Lord, don't you see what hads happened to us? He will say: Today my Lord has become angry as He has never before been angry and will never be thereafter. Indeed I uttered three lies. - Abu Hayyyan (a narrator) mentioned them in his narration - Myself! Myself! Myself! Go to someone else! Go to Musa. So they will go to Musa and say: O Musa! You are the Messenger of Allah who Allah distinguished above the people with His Message and His Speech, intercede for us with your Lord. Don't you see what has happened to us? So he will say Today my Lord has become angry as He has never before been angry and will never be thereafter. Indeed I killed a person whom I was ordered not to kill. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; Go to 'Eisa. They will go to 'Eisa and say: O 'Eisa ! You are the Messenger of Allah and His Word which He placed into Mariam, and a Spirit from Him, and you spoke to the people in the cradle. Intercede for us with your Lord. Don't you see what has happened to us? Then 'Eisa will say: Today my Lord has become angry as He has never before been angry and will never be thereafter. He will not mention a sin, but will say: Myself! Myself! Myself! Go to someone else! Go to Muhammad. He said: 'They will go to Muhammad(s.a.w) and they say: O Muhammad! You are the Messenger of Allah and the last of the Prophets, and your past and future sins have been pardoned. Will you not intercede for us with your Lord, don't you see what has happened to us? Then I will depart until I come to under the Throne to fall prostrating before my Lord. Then Allah will guide me to such praises and beautiful statements of glorification which He did not guide anyone to before me. Then He will say: O Muhammad! Raise your head. Ask,so that you may be granted and intercede so that your intercession may be accepted. I will raise my head and say: O Lord! My Ummah! O Lord! My Ummah! O Lord! My Ummah! He will say: O Muhammad! Let those of your Ummah who have no accounts enter the gate on the right among the gates of Paradise, and they shall share in the gates other than that with the people.' Then he (s.a.w) said: 'By the One in Whose Hand is my soul! What is between every two gate-posts in Paradise is as what is between Makkah and Hajar, and what is between Makkah and Busra.' Imam Tirmidhi says: 1- This hadith is hasan sahih, 2- In this chapter, hadiths are narrated from Abu Bakr Siddiq, Anas, Aqabah bin Amir, and Abu Sa'id al-Khudri, may Allah be pleased with them.


Grade: Sahih

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: ”قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر سکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہٰذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، یقیناً اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے، اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کر لیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل ( یعنی گہرے دوست ) ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکا ہوں ( ابوحیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے ) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گود ہی میں کلام کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، محمد ﷺ کے پاس جاؤ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمد ﷺ کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ( آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ) ”پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتنا کسی پر نہیں کھولا ہو گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد! اپنے سر کو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کر لیں، جن پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے، اور یہ سب ( امت محمد ) دیگر دروازوں میں بھی ( داخل ہونے میں ) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے“، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دو پٹ کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان فاصلہ ہے“ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، انس، عقبہ بن عامر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

Abu Hurayrah Radi Allahu anhu kahe hain ke Rasul Allah Sallallahu alayhi wa sallam ki khidmat mein gosht pesh kiya gaya, is mein se aap ko dast ka gosht diya gaya jo ke aap ko bahut pasand tha, isay aap ne noch noch kar khaya, phir farmaaya: "Qayamat ke din mein logon ka sardar rahunga, kya tum logon ko is ki wajah maloom hai? Woh is liye ke us din Allah Ta'ala ek hamwara kashda zamin par aglay pichhlay tamam logon ko jama karega, jinhen ek pukarne wala aawaz dega aur unhen har nigaah wala dekh sakay ga, sooraj un se bilkul qareeb hoga jisse logon ka gham o karb is qadar barh jayega jis ki nah woh taqat rakhenge aur nah hi isay bardasht kar sakenge, log ek doosre se kahenge: kya nahin dekhte ke tumhari mushibat kahan tak pahunch gayi hai, aise shakhs ko kyun nahin dekhte jo tumhare rab se tumhare liye shifaat kare, to baaz log baaz se kahenge ke Adam Alayhis Salam ke pass chalen, lahaza log Adam Alayhis Salam ke pass a kar arz karenge ke aap Abu'l Bashar hain, Allah Ta'ala ne aap ko apne hath se paida kiya, aap ke andar apni ruh phonki, farishton ko hukm diya jinhen ne aap ka sajdah kiya, lahaza aap hamare liye apne rab se shifaat kar dejiye. Kya aap hamari haalat zar ko nahin dekh rahe hain ke hamen kitni mushibat lahaq hai? Adam Alayhis Salam un se kahenge ke aaj mera rab aisa ghazabanak hai ke is se pehle nah to aisa ghussa hua aur nah kabhi aisa ghussa hoga, yaqinan usne mujhe ek darakht se mana farmaya tha, lekin main ne is ki nafarmani ki, aaj meri zat ka mamla hai, nafsa nafsi ka aalam hai, tum log kisi aur ke pass jao, Nooh ke pass jao, chananche woh log Nooh Alayhis Salam ke pass a kar arz karenge, Ae Nooh! Aap zamin walon ki taraf bheje gaye, pehle rasul the, Allah ne aap ko shukr guzar banda kaha hai, lahaza aap hamare liye apne rab se shifaat kar dejiye, kya aap hamari haalat zar ko nahin dekh rahe hain ke hamen kitni mushibat lahaq hai, Nooh Alayhis Salam in logon se farmaayenge ke aaj mera rab aisa ghazabanak hai ke nah to is se pehle aisa ghussa hua aur nah kabhi aisa ghussa hoga, mere liye ek maqbool dua thi jisse main ne apni qoum ki halakat ke liye istemal kar liya, aur aaj meri zat ka mamla hai, nafsi nafsi nafsi, tum log kisi aur ke pass jao, Ibraheem Alayhis Salam ke pass jao, chananche woh log Ibraheem Alayhis Salam ke pass a kar arz karenge: Ae Ibraheem! Aap zamin walon mein se Allah ke nabi aur us ke Khaleel ( yani gehre dost ) hain, lahaza aap hamare liye apne rab se shifaat kar dejiye, kya aap hamari haalat zar ko nahin dekh rahe hain? Woh farmaayenge ke aaj ke din mera rab itna ghazabanak hai ke is se pehle nah to aisa ghussa hua aur nah kabhi aisa ghussa hoga, aur main duniya ke andar teen jhoot bol chuka hoon ( Abu Hayyan ne apni riwayat mein in teenon jhoot ka zikr kiya hai ) aaj meri zat ka mamla hai, nafsi nafsi nafsi, tum log kisi aur ke pass jao, Musa ke pass jao, chananche woh log Musa Alayhis Salam ke pass a kar arz karenge ke Ae Musa! Aap Allah ke rasul hain, Allah ne aap ko apni risalat aur apne kalam ke zariye tamam logon par fazilat ata ki hai, lahaza aap hamare liye apne rab se shifaat kar dejiye, kya aap hamari haalat zar ko nahin dekh rahe hain? Woh farmaayenge ke aaj ke din mera rab itna ghazabanak hai ke is se pehle nah to aisa ghussa hua aur nah kabhi aisa ghussa hoga, duniya ke andar main ne ek shakhs ko mar dala tha jisse marne ka mujhe hukm nahin diya gaya tha, aaj mujhe apni jaan ki fikr hai, nafsi nafsi nafsi, tum log kisi aur ke pass jao, Isa ke pass jao, chananche woh log Isa Alayhis Salam ke pass a kar arz karenge: Ae Isa! Aap Allah ke rasul, aur us ka kalam hain jisse usne Maryam Alayha Salam ki taraf dala, aap Allah ki ruh hain, aap ne logon se god hi mein kalam kiya, lahaza aap hamare liye apne rab se shifaat kar dejiye, kya aap hamari haalat zar ko nahin dekh rahe hain. Isa Alayhis Salam farmaayenge: aaj ke din mera rab itna ghazabanak hai ke is se pehle nah to aisa ghussa hua aur nah kabhi aisa ghussa hoga, aur unhon ne apni kisi galti ka zikr nahin kiya aur kaha ke aaj to meri zat ka mamla hai, nafsi nafsi nafsi, tum log kisi aur ke pass jao, Muhammad Sallallahu alayhi wa sallam ke pass jao, Abu Hurayrah Radi Allahu anhu kahe hain: chananche woh log Muhammad Sallallahu alayhi wa sallam ke pass a kar arz karenge: Ae Muhammad! Aap Allah ke rasul aur us ke aakhiri nabi hain, aap ke aglay aur pichhlay tamam gunaah maaf kar diye gaye hain, lahaza aap hamare liye apne rab se shifaat kijie, kya aap hamari haalat zar ko nahin dekh rahe hain, ( aage Rasul Allah Sallallahu alayhi wa sallam farmate hain ) "phir main chal padunga aur arsh ke neeche a kar apne rab ki tazeem ke liye sajday mein gir jaunga, phir Allah Ta'ala mere oopar apne mahamid aur hasan sana ko is qadar khol dega ke mujh se pehle itna kisi par nahin khola hoga, phir mujh se kaha jayega ke Ae Muhammad! Apna sir ko uthao aur sawal karo, isay pura kiya jayega, aur shifaat karo, tumhari shifaat qabool ki jayegi, chananche main apna sir uthaunga aur kahunga: Ae mere rab! Main apni ummat ki nijat o falaah mangta hoon, Ae mere rab mein apni ummat ki nijat o falaah mangta hoon, Ae mere rab! Main apni ummat ki nijat o falaah mangta hoon, Allah Ta'ala farmayega: Ae Muhammad! Apni ummat mein se in logon ko jannat ke darwaazon mein se daahne darwaze se dakhil kar lein, jin par koi hisab o kitab nahin hai, aur yeh sab ( ummat Muhammad ) diger darwaazon mein bhi ( dakhil hone mein ) aur logon ke sath shareek honge", phir aap Sallallahu alayhi wa sallam ne farmaaya: "Qasam hai us zat ki jiske hath mein meri jaan hai! Jannat ke patton mein se do pat ke darmiyan ka fasla itna hi hai jitna ke Makka aur Hajr ya Makka aur Basra ke darmiyan fasla hai" 1؎. Imam Tirmidhi kahe hain: 1. Yeh Hadith Hasan sahih hai, 2. Is bab mein Abu Bakr Siddique, Anas, Uqbah bin Aamer aur Abu Saeed Khudri Radi Allahu anhum se ahadith aayi hain.

أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، ‏‏‏‏‏‏وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَيَبْلُغُ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَحْتَمِلُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، ‏‏‏‏‏‏خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى الْبَشَرِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوحٌ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ عِيسَى:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُقَالَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، ‏‏‏‏‏‏سَلْ تُعْطَهْ، ‏‏‏‏‏‏وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْفَعُ رَأْسِي ،‏‏‏‏ فَأَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ أُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏يَا رَبِّ أُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏يَا رَبِّ أُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى ،‏‏‏‏ وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ هَرِمٌ.