35.
Book of Wills
٣٥-
كتاب الوصايا


Chapter on one who takes precautions and bequeaths to settle his debts

باب من احتاط فأوصى بقضاء ديونه

Sunan al-Kubra Bayhaqi 12682

Abdullah bin Zubair (may Allah be pleased with him) narrates: On the occasion of the Battle of the Camel, when Zubair (may Allah be pleased with him) stood up, he called me. I went and stood by his side. He said, "Son, in today's battle, either the oppressor will be killed or the oppressed, and I believe that today I will be killed oppressed. And I am most worried about my debts. Do you have any idea if any of our wealth will be left after paying off the debts?" Then he said, "Son, sell our property and pay off the debts with it." He bequeathed one-third for me and one-third of that third for my children, meaning the children of Abdullah bin Zubair. He had said, "Divide that third into three parts." If anything is left of our property after paying off the debts, one-third of it will be for your children. Hisham narrated that some of Abdullah's children were the same age as Zubair's children, like Khabib and Ubaid. And Zubair had seven daughters at that time. Ibn Zubair (may Allah be pleased with him) said: Then Zubair began to advise me about his debt and said, "Son! If you are unable to repay the debt, then ask my Master and Lord for help in it." Abdullah (may Allah be pleased with him) said, "By Allah! Whatever difficulty I faced in repaying the debt, I prayed in the same way, 'O Zubair's Master! Please have his debt repaid from Your side.' And the means of repayment would become available." So, when Zubair was martyred, he did not leave behind dirhams or dinars in his inheritance, but his inheritance was in the form of some land. This included the land of Ghaba. There were eleven houses in Medina, two houses in Basra, one house in Kufa, and one in Egypt. Abdullah said that the reason for such a large debt on him was that when someone would come to him with their wealth to keep it as a trust, he would not refuse, but would say, "I can keep it on the condition that it remains as a debt on me, because I am afraid of it being lost." Zubair was never appointed as the governor of any region, nor was he ever appointed to collect taxes, nor did he ever accept any other position. However, he participated in Jihad with the Messenger of Allah (peace and blessings of Allah be upon him) and with Abu Bakr, Umar, and Uthman (may Allah be pleased with them). Ibn Zubair (may Allah be pleased with him) said that when I calculated the amount that was owed to him, it totaled twenty-two hundred thousand. It is narrated that then Hakim bin Hizam met Abdullah bin Zubair (may Allah be pleased with him) and asked, "Son, how much debt is left on my brother?" Abdullah wanted to hide it and said, "One hundred thousand." Upon this, Hakim said, "By Allah, I don't think this debt can be repaid from the capital you have." Now Abdullah said, "What would you say if the debt is twenty-two hundred thousand?" He said, "Then this debt is beyond your capacity. Well, if any difficulty arises, let me know." Abdullah (may Allah be pleased with him) said that Zubair had bought the property of Ghaba for one hundred and seventy thousand, but Abdullah sold it for sixteen hundred thousand. Then he announced that whoever had a debt on Zubair should come to Ghaba and meet us. So, Abdullah bin Ja'far came; he had four hundred thousand rupees on Zubair. He offered, "If you wish, I can waive this debt." But Abdullah said, "No." Then he said, "If you wish, I will take it after all the debts have been paid." Abdullah (may Allah be pleased with him) said to this, "There is no need to delay." Finally, he said, "Then allocate my share of the land." Abdullah said that after selling Zubair's property, houses, etc., his debt was paid off, and all the debt was cleared, and four and a half parts of the property of Ghaba could not be sold yet. Therefore, Abdullah went to Mu'awiya (in Syria). Mu'awiya asked them about the price set for the property of Ghaba. They informed him that it was set at seven hundred thousand, or one hundred thousand per share. Mu'awiya asked, "How many are left now?" They replied, "Four and a half parts." Upon this, Mundhir said, "I will take one part for one hundred thousand." Amr bin Uthman said, "I will take one part for one hundred thousand." Then Zama said, "I will take one part for one hundred thousand." After this, Mu'awiya asked, "How many parts are left now?" They replied, "One and a half parts." Mu'awiya said, "I will take it for one hundred and fifty thousand." Then later, Abdullah bin Ja'far sold his share to Mu'awiya for six hundred thousand. Then when Ibn Zubair had finished paying off the debt, Zubair's children said, "Now divide our inheritance." But Abdullah said, "I cannot divide your inheritance yet until I announce for four years during the Hajj season that whoever has any debt on Zubair should come to us and take their debt." The narrator said that Abdullah then started announcing this every year during the Hajj season, and when four years had passed, Abdullah divided the inheritance among them. Zubair had four wives, and Abdullah had taken out one-third from the amount received from the sale. Then each wife received twelve hundred thousand in her share, and the total property of Zubair (may Allah be pleased with him) amounted to five crores and two lakhs.


Grade: Sahih

(١٢٦٨٢) حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں : جمل کی جنگ کے موقع پر جب زبیر کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا، میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہوگیا، انھوں نے کہا : بیٹے آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم اور میں سمجھتا ہوں آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے، کیا تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ سکے گا ؟ پھر انھوں نے کہا : بیٹے ہمارا مال فروخت کر کے اس سے قرض ادا کردینا۔ انھوں نے ایک تہائی کی میرے لیے اور اس تہائی کے تیسرے حصہ کی وصیت میرے بچوں کے لیے کی، یعنی عبداللہ بن زبیر کے بچوں کے لیے۔ انھوں نے کہا تھا : اس تہائی کے تین حصے کرلینا۔ اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا ایک تہائی تمہارے بچوں کے لیے ہوگا، ہشام نے بیان کیا کہ عبداللہ کے بعض لڑکے زبیر کے لڑکوں کے ہم عمر تھے، جیسے خبیب اور عباد اور زبیر کی اس وقت سات بیٹیاں تھیں، ابن زبیر (رض) نے کہا : پھر مجھے زبیر اپنے قرض کے متعلق وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا ! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہوجائے تو میرے مالک ومولیٰ سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم ! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی کہ اے زبیر کے مولیٰ ! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہوجاتی تھی، چنانچہ جب زبیر شہید ہوگئے تو انھوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا۔ اسی میں غابہ کی زمین شامل تھی، گیارہ مکانات مدینہ میں تھے دو مکان بصرہ میں، ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا، عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا زیادہ قرض ہوگیا تھا، اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے نہیں بلکہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمہ بطور قرض رہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا بھی خوف ہے، زبیر کبھی کسی علاقے کے امیر نہ بنے تھے اور نہ وہ خراج وصول کرنے پر کبھی مقرر ہوئے تھے اور نہ کوئی دوسرا عہدہ کبھی قبول کیا تھا۔ البتہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور ابوبکر و عمر اور عثمان (رض) کے ساتھ جہاد میں شرکت تھی۔ ابن زبیر (رض) نے کہا کہ جب میں نے اس رقم کا حساب کیا جو ان پر قرض تھی تو ان کی تعداد بائیس لاکھ تھی۔ بیان کیا کہ پھر حکیم بن حزام عبداللہ بن زبیر (رض) سے ملے تو پوچھا : بیٹے میرے بھائی پر کتنا قرض رہ گیا ہے، عبداللہ نے چھپانا چاہا اور کہہ دیا کہ لاکھ، اس پر حکیم نے کہا : اللہ کی قسم میں تو نہیں سمجھتا کہ تمہارے پاس موجود سرمایہ سے یہ قرض ادا ہو سکے گا، اب عبداللہ نے کہا : اگر قرض بائیس لاکھ ہو تو آپ کی کیا رائے ہوگی ؟ انھوں نے کہا : پھر تو یہ قرض تمہاری برداشت سے باہر ہے، خیر اگر کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے کہنا۔ عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ زبیر نے غابہ کی جائیداد ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی، لیکن عبداللہ نے وہ سولہ لاکھ میں بیچی۔ پھر اعلان کیا کہ حضرت زبیر پر جس کا قرض ہو وہ غابہ میں آکر ہم سے مل لے۔ چنانچہ عبداللہ بن جعفر آئے ان کا زبیر پر چار لاکھ روپیہ تھا۔ انھوں نے پیش کش کی کہ اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں، لیکن عبداللہ نے کہا کہ نہیں، پھر انھوں نے کہا : اگر تم چاہو میں سارے قرض کی ادائیگی کے بعد لے لوں گا۔ عبداللہ (رض) نے اس پر کہا کہ تاخیر کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر انھوں نے کہا کہ پھر اس زمین میں میرے حصہ کا قطعہ مقرر کر دو ۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ زبیر کی جائیداد اور مکانات وغیرہ بیچ کر ان کا قرض ادا کردیا گیا اور سارے قرض کی ادائیگی ہوگئی اور غابہ کی جائیداد سے ساڑھے چار حصے ابھی بک نہیں سکے تھے۔ اس لیے عبداللہ معاویہ کے پاس (شام) تشریف لے گئے۔ وہاں عمرو بن عثمان، منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی موجود تھے، معاویہ نے ان سے دریافت کیا کہ غابہ کی جائیداد کی کتنی قیمت طے ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ سات لاکھ یا کہا ہر حصے کی ایک لاکھ طے پائی تھی۔ معاویہ نے پوچھا : اب کتنے باقی رہ گئے ہیں ‘ انھوں نے بتایا : ساڑھے چار حصے۔ اس پر منذر نے کہا : ایک حصہ ایک لاکھ میں میں لیتا ہوں، عمرو بن عثمان نے کہا : ایک حصہ ایک لاکھ میں میں لیتا ہوں۔ اس پر زمعہ نے کہا : ایک حصہ ایک لاکھ میں میں لیتا ہوں، اس کے بعد معاویہ نے پوچھا، اب کتنے حصے باقی بچے ہیں ؟ انھوں نے کہا : ڈیڑھ حصہ۔ معاویہ نے کہا : میں اسے ڈیڑھ لاکھ میں لے لیتا ہوں، پھر بعد میں عبداللہ بن جعفر نے اپنا حصہ معاویہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا، پھر جب ابن زبیر قرض کی ادائیگی کرچکے تو زبیر کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث تقسیم کردیجیے، لیکن عبداللہ نے کہا : ابھی تمہاری میراث اس وقت تک تقسیم نہیں کرسکتا جب تک چار سال تک ایام حج میں اعلان نہ کرلوں کہ جس شخص کا بھی زبیر پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اپنا قرض لے جائے۔ راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ نے اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرانا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے تو عبداللہ نے ان کو میراث تقسیم کردی اور زبیر کی چار بیویاں تھیں اور عبداللہ نے تہائی حصہ بیچی ہوئی رقم سے نکال لیا تھا، پھر بھی ہر بیوی کے حصہ میں بارہ بارہ لاکھ کی رقم آئی اور کل جائیداد حضرت زبیر کی پانچ کروڑ دو لاکھ ہوئی۔

12682 Hazrat Abdullah bin Zubair (Razi Allah Anhu) farmate hain : Jamal ki jang ke mauqe par jab Zubair kharay huay to mujhe bulaya, main un ke pahlu mein ja kar khara ho gaya, unhon ne kaha : Beta aaj ki ladai mein zaalim mara jayega ya mazloom aur main samajhta hun aaj main mazloom qatl kiya jaunga aur mujhe sab se zyada fikr apne qarzoun ki hai, kya tumhen kuch andaz hai ki qarz ada karne ke bad hamara kuch maal bach sakega ? Phir unhon ne kaha : Beta hamara maal farokht kar ke is se qarz ada kardena. Unhon ne ek tihai ki mere liye aur is tihai ke teesre hissa ki wasiyat mere bachchon ke liye ki, yani Abdullah bin Zubair ke bachchon ke liye. Unhon ne kaha tha : Is tihai ke teen hisse karlena. Agar qarz ki adaygi ke bad hamare amwal mein se kuch bach jaye to is ka ek tihai tumhare bachchon ke liye hoga, Hisham ne bayan kiya ki Abdullah ke baaz larke Zubair ke larkon ke ham umar thay, jaise Khabib aur Abbad aur Zubair ki us waqt saat betiyan thin, Ibn Zubair (Razi Allah Anhu) ne kaha : Phir mujhe Zubair apne qarz ke mutalliq wasiyat karne lage aur farmane lage ki beta ! Agar qarz ada karne se aajiz hojae to mere Malik o Mola se is mein madad chahna. Abdullah (Razi Allah Anhu) ne bayan kiya ki Allah ki qasam ! Qarz ada karne mein jo bhi dushwari samne aai to main ne isi tarah dua ki ki aye Zubair ke Mola ! Un ki taraf se un ka qarz ada kara de aur adaygi ki surat paida hojati thi, chunancha jab Zubair shaheed hogaye to unhon ne tarke mein dirham o dinar nahin chhoray balki un ka tarka kuch to arazi ki surat mein tha. Isi mein Ghaba ki zameen shamil thi, gyarah makanat Madina mein thay do makan Basra mein, ek makan Kufa mein tha aur ek Misr mein tha, Abdullah ne bayan kiya ki un par jo itna zyada qarz hogaya tha, is ki wajah ye thi ki jab un ke pass koi shakhs apna maal le kar amanat rakhne aata to aap use kahte nahin balki is surat mein rakh sakta hun ki ye mere zimme ba-taur qarz rahe kyunki mujhe is ke zaya hone ka bhi khauf hai, Zubair kabhi kisi elake ke ameer na banay thay aur na wo kharaj wasool karne par kabhi muqarrar huay thay aur na koi dusra uhda kabhi qubool kiya tha. Albatta unhon ne Rasul Allah ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ke sath aur Abu Bakr o Umar aur Usman (Razi Allah Anhum) ke sath jihad mein shirkat thi. Ibn Zubair (Razi Allah Anhu) ne kaha ki jab main ne is raqam ka hisab kiya jo un par qarz thi to un ki tadad baais lakh thi. Bayan kiya ki phir Hakim bin Hizam Abdullah bin Zubair (Razi Allah Anhu) se milay to poocha : Beta mere bhai par kitna qarz reh gaya hai, Abdullah ne chhupana chaha aur keh diya ki lakh, is par Hakim ne kaha : Allah ki qasam main to nahin samajhta ki tumhare pass maujood sarmaya se ye qarz ada ho sakega, ab Abdullah ne kaha : Agar qarz baais lakh ho to aap ki kya raay hogi ? Unhon ne kaha : Phir to ye qarz tumhari bardasht se bahar hai, khair agar koi dushwari pesh aaye to mujh se kehna. Abdullah (Razi Allah Anhu) ne bayan kiya ki Zubair ne Ghaba ki jaidad ek lakh sattar hazar mein kharidi thi, lekin Abdullah ne wo solah lakh mein bechi. Phir elaan kiya ki Hazrat Zubair par jis ka qarz ho wo Ghaba mein aakar hum se mil le. Chunancha Abdullah bin Ja'far aaye un ka Zubair par chaar lakh rupaya tha. Unhon ne peshkash ki ki agar tum chaho to main ye qarz chhor sakta hun, lekin Abdullah ne kaha ki nahin, phir unhon ne kaha : Agar tum chaho main sare qarz ki adaygi ke bad le lunga. Abdullah (Razi Allah Anhu) ne is par kaha ki takheer ki zaroorat nahin hai. Aakhir unhon ne kaha ki phir is zameen mein mere hissa ka qat'a muqarrar kar do . Abdullah ne bayan kiya ki Zubair ki jaidad aur makanat waghaira bech kar un ka qarz ada kardiya gaya aur sare qarz ki adaygi hogayi aur Ghaba ki jaidad se saare chaar hisse abhi bik nahin sake thay. Is liye Abdullah Muawiya ke pass (Sham) tashreef le gaye. Wahan Amr bin Usman, Munzir bin Zubair aur Ibn Zam'a bhi maujood thay, Muawiya ne un se دریافت kiya ki Ghaba ki jaidad ki kitni qeemat taye hui. Unhon ne bataya ki saat lakh ya kaha har hisse ki ek lakh taye pai thi. Muawiya ne poocha : Ab kitne baqi reh gaye hain ‘ unhon ne bataya : Saare chaar hisse. Is par Munzir ne kaha : Ek hissa ek lakh mein main leta hun, Amr bin Usman ne kaha : Ek hissa ek lakh mein main leta hun. Is par Zam'a ne kaha : Ek hissa ek lakh mein main leta hun, is ke bad Muawiya ne poocha, ab kitne hisse baqi bache hain ? Unhon ne kaha : Dedh hissa. Muawiya ne kaha : Main ise dedh lakh mein le leta hun, phir bad mein Abdullah bin Ja'far ne apna hissa Muawiya ko chhe lakh mein bech diya, phir jab Ibn Zubair qarz ki adaygi kar chuke to Zubair ki aulad ne kaha ki ab hamari miraas taqseem kardijiye, lekin Abdullah ne kaha : Abhi tumhari miraas is waqt tak taqseem nahin karsakta jab tak chaar saal tak ayyam Hajj mein elaan na karlun ki jis shakhs ka bhi Zubair par qarz ho wo hamare pass aaye aur apna qarz le jaye. Rawi ne bayan kiya ki Abdullah ne ab har saal ayyam Hajj mein is ka elaan karana shuru kiya aur jab chaar saal guzar gaye to Abdullah ne un ko miraas taqseem kardi aur Zubair ki chaar biwiyan thin aur Abdullah ne tihai hissa bechi hui raqam se nikaal liya tha, phir bhi har biwi ke hissa mein barah barah lakh ki raqam aai aur kul jaidad Hazrat Zubair ki panch crore do lakh hui.

١٢٦٨٢ - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ عِيسَى الْحِيرِيُّ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَوَّارٍ، أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ الطَّرَسُوسِيُّ، ثنا أَبُو أُسَامَةَ حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ،عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ:لَمَّا وَقَفَ الزُّبَيْرُ يَوْمَ الْجَمَلِ دَعَانِي، فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ،فَقَالَ:" يَا بُنِيَّ، إِنَّهُ لَا يُقْتَلُ الْيَوْمَ إِلَّا ظَالِمٌ أَوْ مَظْلُومٌ، وَإِنِّي أَرَانِي سَأُقْتَلُ الْيَوْمَ مَظْلُومًا، وَإِنَّ مِنْ أَكْبَرِ هَمِّي لَدَيْنِي، أَفَتُرَى دَيْنُنَا يُبْقِي مِنْ مَالِنَا شَيْئًا؟ يَا بُنِيَّ، بِعْ مَالَنَا وَاقْضِ دَيْنِي، وَأَوْصِ بِالثُّلُثِ، وَثَلِّثِ الثُّلُثَ لِبَنِي عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، فَإِنْ فَضَلَ مِنْ مَالِنَا بَعْدَ قَضَاءِ الدَّيْنِ شَيْءٌ فَثُلُثُهُ لِوَلَدِكَ ".قَالَ هِشَامٌ:وَكَانَ بَعْضُ وَلَدِ عَبْدِ اللهِ قَدْ وَازَى بَعْضَ بَنِي الزُّبَيْرِ، خُبَيْبٌ وَعَبَّادٌ،قَالَ:وَلَهُ يَوْمَئِذٍ سَبْعُ بَنَاتٍ،قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ:فَجَعَلَ يُوصِينِي بِدَيْنِهِ وَيَقُولُ: يَا بُنَيَّ، إِنْ عَجَزْتَ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ فَاسْتَعِنْ بِمَوْلَايَ،قَالَ:فَوَاللهِ مَا دَرَيْتُ مَا أَرَادَ حَتَّى قُلْتُ: يَا أَبَتِ، مَنْ ⦗٤٦٨⦘ مَوْلَاكَ؟قَالَ:" اللهُ "،قَالَ:فَوَاللهِ مَا وَقَعْتُ فِي كُرْبَةٍ مِنْ دَيْنِهِ إِلَّا قُلْتُ: يَا مَوْلَى الزُّبَيْرِ، اقْضِ عَنْهُ، فَيَقْضِيَهُ،قَالَ:وَقُتِلَ الزُّبَيْرُ وَلَمْ يَدَعْ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِلَّا أَرَضِينَ، مِنْهَا الْغَابَةُ، وَأَحَدَ عَشَرَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ، وَدَارَيْنِ بِالْبَصْرَةِ، وَدَارًا بِالْكُوفَةِ، وَدَارًا بِمِصْرَ،قَالَ:وَإِنَّمَا كَانَ دَيْنُهُ الَّذِي عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَأْتِيهِ بِالْمَالِ فَيَسْتَوْدِعُهُ إِيَّاهُ،فَيَقُولُ الزُّبَيْرُ:" لَا، وَلَكِنْ هُوَ سَلَفٌ؛ إِنِّي أَخْشَى عَلَيْهِ الضَّيْعَةَ، وَمَا وَلِيَ إِمَارَةً قَطُّ، وَلَا جِبَايَةً، وَلَا خَرَاجًا، وَلَا شَيْئًا قَطُّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي غَزْوَةٍ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ "قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: فَحَسَبْتُ مَا عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ فَوَجَدْتُهُ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ،قَالَ:فَلَقِيَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، كَمْ عَلَى أَخِي مِنَ الدَّيْنِ؟قَالَ:فَكَتَمَ وَقَالَ: مِائَةُ أَلْفٍ،قَالَ حَكِيمٌ:مَا أَرَى أَمْوَالَكُمْ تَسَعُ لِهَذِهِ،قَالَ:فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: أَفَرَأَيْتُكَ إِنْ كَانَتْ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ؟قَالَ:مَا أَرَاكُمْ تُطِيقُونَ هَذَا، فَإِنْ عَجَزْتُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاسْتَعِينُونِي،قَالَ:وَكَانَ الزُّبَيْرُ اشْتَرَى الْغَابَةَ بِسَبْعِينَ وَمِائَةِ أَلْفٍ، وَبَاعَهَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ بِأَلْفِ أَلْفٍ وَسِتِّمِائَةِ أَلْفٍ،ثُمَّ قَامَ فَقَالَ:مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى الزُّبَيْرِ دَيْنٌ فَلْيُوَافِنَا بِالْغَابَةِ،قَالَ:فَأَتَاهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، وَكَانَ لَهُ عَلَى الزُّبَيْرِ أَرْبَعُمِائَةِ أَلْفٍ،فَقَالَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ:إِنْ شِئْتُمْ تَرَكْنَاهَا لَكُمْ،قَالَ عَبْدُ اللهِ:لَا،قَالَ:فَإِنْ شِئْتُمْ جَعَلْتُمُوهَا فِيمَا تُؤَخِّرُونَ إِنْ أَخَّرْتُمْ شَيْئًا،فَقَالَ عَبْدُ اللهِ:لَا،قَالَ:فَاقْطَعُوا لِي قِطْعَةً،قَالَ:عَبْدُ اللهِ: لَكَ مِنْ هَا هُنَا إِلَى هَا هُنَا،قَالَ:فَبَاعَهَا مِنْهُ، فَقَضَى دَيْنَهُ فَأَوْفَاهُ، وَبَقِيَ مِنْهَا أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَنِصْفٌ،قَالَ:فَقَدِمَ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَالْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ زَمْعَةَ،فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ:كَمْ قُوِّمَتِ الْغَابَةُ،قَالَ:سِتُّمِائَةِ أَلْفٍ،أَوْ قَالَ:كُلُّ سَهْمٍ مِائَةُ أَلْفٍ،قَالَ:كَمْ بَقِيَ؟قَالَ:أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَنِصْفٌ،قَالَ الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ:قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ،وَقَالَ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ:قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ،وَقَالَ ابْنُ زَمْعَةَ:قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ،فَقَالَ مُعَاوِيَةُ:كَمْ بَقِيَ؟قَالَ:سَهْمٌ وَنِصْفٌ،قَالَ:قَدْ أَخَذْتُهُ بِمِائَةِ أَلْفٍ وَخَمْسِينَ أَلْفًا،وَقَالَ:وَبَاعَ عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ نَصِيبَهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ بِسِتِّمِائَةِ أَلْفٍ،فَلَمَّا فَرَغَ ابْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ قَضَاءِ دَيْنِهِ قَالَ بَنُو الزُّبَيْرِ:اقْسِمْ بَيْنَنَا مِيرَاثَنَا،قَالَ:لَا وَاللهِ،لَا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ حَتَّى أُنَادِيَ بِالْمَوْسِمِ أَرْبَعَ سِنِينَ:أَلَا مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى الزُّبَيْرِ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنِي فَلْنَقْضِهِ،قَالَ:فَجَعَلَ كُلَّ سَنَةٍ يُنَادِي بِالْمَوْسِمِ، فَلَمَّا مَضَى أَرْبَعُ سِنِينَ قَسَمَ بَيْنَهُمْ مِيرَاثَهُمْ،قَالَ:وَكَانَ لِلزُّبَيْرِ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ، وَرَفَعَ الثُّلُثَ فَأَصَابَ كُلُّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ أَلْفَ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ، فَجَمِيعُ مَالِهِ خَمْسُونَ أَلْفَ أَلْفٍ وَمِائَتَا أَلْفٍ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ