58.
Book of Journeys
٥٨-
كتاب السير
Chapter: Manifesting the religion of the Prophet, peace be upon him, among religions
باب إظهار دين النبي صلى الله عليه وسلم على الأديان
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
‘abd al-lah bn ‘abbāsin | Abdullah bin Abbas Al-Qurashi | Companion |
‘ubayd al-lah bn ‘abd al-lah bn ‘tbh | Ubayd Allah ibn Abd Allah al-Hudhali | Trustworthy jurist, sound |
ibn shihābin | Muhammad ibn Shihab al-Zuhri | The Faqih, the Hafiz, agreed upon for his greatness and mastery |
ṣāliḥ bn kaysān | Salih ibn Kaysan al-Dawsi | Trustworthy, Upright |
ibrāhīm bn sa‘din | Ibrahim ibn Sa'd al-Zuhri | Trustworthy Hadith Scholar |
ibrāhīm bn ḥamzah | Ibrahim bin Hamza Zubairi | Trustworthy |
abū isḥāq ismā‘īl bn isḥāq al-qāḍī | Ismail bin Ishaq Al-Qadi | Trustworthy Haafiz |
abū bakrin muḥammad bn aḥmad bn khanabin | Muhammad ibn Ahmad al-Dahqan | Trustworthy, Good Narrator |
abū sahlin muḥammad bn naṣrawayh bn aḥmad al-marwazī | Muhammad ibn Nasruwayh al-Marwazi | Trustworthy |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ | عبد الله بن العباس القرشي | صحابي |
عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ | عبيد الله بن عبد الله الهذلي | ثقة فقيه ثبت |
ابْنِ شِهَابٍ | محمد بن شهاب الزهري | الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه |
صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ | صالح بن كيسان الدوسي | ثقة ثبت |
إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ | إبراهيم بن سعد الزهري | ثقة حجة |
إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ | إبراهيم بن حمزة الزبيري | ثقة |
أَبُو إِسْحَاقَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِي | إسماعيل بن إسحاق القاضي | ثقة حافظ |
أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ خَنَبٍ | محمد بن أحمد الدهقان | صدوق حسن الحديث |
أَبُو سَهْلٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرَوَيْهِ بْنِ أَحْمَدَ الْمَرْوَزِيُّ | محمد بن نصرويه المروزي | ثقة |
Sunan al-Kubra Bayhaqi 18607
Ibn Abbas narrated that the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, wrote to Caesar inviting him to Islam and sent his letter with Dihya al-Kalbi.
Grade: Sahih
(١٨٦٠٧) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیصر رو م کی طرف حضرت دحیہ قلبی کو اسلام کی دعوت کے لیے خط دے کر بھیجا اور ان سے فرمایا کہ اسے بصرہ کے امیرکو پہنچاؤ تاکہ وہ اسے قیصر روم تک پہنچا دے اور قیصر سے جب اللہ رب العزت نے فارس کے لشکروں کو دور کردیا تو وہ حمص سے ایلیاء کی جانب شکرانے کے طور پر چلا، جو اللہ رب العزت نے اس کو کامیابی دی تھی۔ جب قیصر کے پاس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط آیا اس نے خط پڑھا تو اس نے کہا : ان کی قوم کا کوئی آدمی تلاش کر کے میرے پاس لاؤ۔ میں اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پوچھ لوں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ابو سفیان نے مجھے بتایا کہ وہ شام میں قریشی آدمیوں کے ساتھ تھے۔ ابو سفیان کہتے ہیں : قیصر کے قاصد نے ہمیں تلاش کرلیا۔ وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو لے کر ایلیاء شہر میں اپنے بادشاہ کے پاس لے آیا۔ جس پر بادشاہت کا تاج تھا اور روم کے بڑے بڑے شرفاء اس کے ارد گرد موجود تھے۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہا۔ ان سے پو چھوکہ جو شخص اپنے آپ کو نبی گمان کرتا ہے تم میں سے اس کا قریبی کون ہے ؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں نسب کے اعتبار سے اس کا قریبی ہوں۔ ترجمان نے پوچھا : تمہاری آپس میں رشتہ داری کیا ہے۔ ابو سفیان کہتے ہیں : میں نے کہا : وہ میرے چچا کا بیٹا ہے۔ کیونکہ اس دن قافلہ میں میرے علاوہ بنو عبد مناف کا کوئی شخص نہ تھا۔ قیصر نے کہا : اس کو میرے قریب کرو۔ پھر میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے کندھے کے برابر کھڑا کردیا اور پھر ترجمان سے کہا کہ اس کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ میں اس سے اس شخص کے بارے میں جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے سوال کرنے لگا ہوں۔ اگر جھوٹ بولے تو تم اس کی تکذیب کردینا۔ ابو سفیان کہتے ہیں : اللہ کی قسم ! اگر حیا نہ ہوتا کہ میرے ساتھی میری تکذیب کردیں گے تو میں ضرور جھوٹ بولتا۔ جب وہ مجھ سے سوال کرتا لیکن میں حیا کر گیا کہ وہ میری جانب جھوٹ کی نسبت کریں گے تو میں نے اس سے سچ ہی بولا۔ پھر قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس شخص کا تمہارے اندر نسب کیسا ہے ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا کہ وہ ہمارے اندر اعلیٰ نسب والا ہے۔ اس نے کہا : کیا تم میں سے پہلے بھی کسی شخص نے ایسی بات کی ہے یعنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا تم اس سے پہلے اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا اس کے آباؤ اجاد میں کوئی بادشاہ تھا۔ میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا اس کے پیروکار مال دار لوگ ہیں یا کمزور ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : بلکہ کمزور لوگ۔ اس نے کہا : وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : بلکہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ اس نے کہا : کیا ان میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : نہیں۔ اس نے کہا : کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے یا دھوکا دیتا ہے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ لیکن اب ہمارا اس سے ایک معاہدہ ہوا ہے ہمیں ڈر ہے کہ وہ دھوکا کرے گا : ابو سفیان نے کہا۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ میں کسی جگہ کوئی بات اپنی جانب سے داخل کر پاتا کہ مجھے خوف نہیں کہ اسے میری جانب منسوب کیا جائے۔ اس نے کہا : کیا تم نے ایک دوسرے سے لڑائی کی ہے ؟ میں نے کہا : لڑائی ہوئی ہے۔ اس نے کہا تمہاری اور اس کی لڑائی کیسی رہی ؟ کہتے ہیں : میں نے کہا : وہ ایک ڈول کی مانند ہے کہ کبھی وہ ہمارے اوپر غالب رہا، کبھی ہم نے اس پر غلبہ پایا۔ اس نے کہا : وہ تمہیں حکم کیا دیتا ہے ؟ میں نے کہا : وہ ہمیں اکیلے اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہے کہ ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور ان کی عبادت سے منع کرتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے اور ہمیں نماز، سچائی، پاک دامنی، وعدہ پورا کرنا اور امانت کو ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے کہہ کہ جب میں نے تجھ سے تمہارے اندر اس کے نسب کے بارے میں پوچھا ؟ تو تیرا گمان ہے کہ وہ اعلیٰ نسب والا ہے اور رسول اسی طرح اپنی قوم کے اعلیٰ نسب ہی سے مبعوث کیے جاتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ اس طرح کی بات تم میں سے پہلے بھی کسی نے کی ہے ؟ تو آپ کہتے ہیں : نہیں۔ اگر تم میں سے کسی نے بھی یہ بات پہلے کی ہوتی تو میں کہہ دیتا کہ یہ پہلی بات کی پیروی کررہا ہے جو بات پہلے ہوچکی اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ کیا تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے ہو کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کبھی اس نے جھوٹ بولا ہو تو آپ نے کہا : نہیں تو میں پہچان گیا کہ جو لوگوں پر جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ پر جھوٹ کیسے بولے گا اور میں نے تجھ سے پوچھا : کیا اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بادشاہ تھا تو آپ نے کہا : نہیں تو میں نے سمجھا کہ اگر اس کے آباؤ اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ شاید وہ اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت کو طلب کررہا ہے اور میں نے تجھ سے سوال کیا کہ اس کی پیروی کرنے والے اشراف ہیں یا کمزور لوگ ؟ آپ نے کہہ دیا : اس کی پیروی کرنے والے کمزور لوگ ہیں اور انبیاء کے پیروکار ایسے ہی ہوتے ہیں اور میں نے آپ سے پوچھا کہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم تو آپ کا گمان ہے کہ وہ زیادہ ہو رہے ہیں اور ایمان اسی طرح ہی ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ مکمل ہوجائے اور میں نے آپ سے پوچھا : کیا ان میں سے کوئی دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ کر مرتد ہوا ؟ تو آپ کا گمان ہے کہ نہیں کہ جب ایمان کی روشنی دلوں کے اندر داخل ہوجاتی ہے تو کوئی اس کو ناپسند نہیں کرتا اور میں نے تجھ سے پوچھا : کیا اس نے دھوکا دیا ہے تو آپ کہتے ہیں : وہ دھوکا باز نہیں اور رسول واقع ہی دھوکا باز نہیں ہوتے اور میں نے تمہاری اور اس کی لڑائی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے یہ کہہ دیا کہ تمہاری لڑائی ایک ڈول کی مانند ہے کہ کبھی تم نے اس پر غلبہ پایا اور کبھی اس نے تم کو شکست دی اور رسولوں کی اس طرح آزمائش کی جاتی ہے اور آخرت کا بہترین انجام انہی کے لیے ہوتا ہے اور میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو وہ کس چیز کا حکم دیتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ وہ اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اس کے ساتھ شرک سے منع کرتا ہے اور ہمیں اس کی عبادت سے منع کرتا ہے جس کی عبادت تمہارے آباؤ اجداد کیا کرتے تھے اور تمہیں نماز، سچائی، پاک دامنی، وعدہ کو پورا کرنے اور امانت کو ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ہیں۔ میں جانتا تھا کہ وہ آنے والا ہے لیکن میرا یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم سے ہوگا۔ اگر وہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے کہا ہے تو قریب ہے کہ وہ میرے قدموں والی جگہ کا مالک بن جائے اور اگر میں اس تک پہنچ سکوں تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہوں اور اگر میں اس کے پاس موجود ہوتا تو میں اس کے قدموں کو دھوتا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط منگوایا اور اس نے حکم دیا تو اس کے سامنے پڑھا گیا۔ اس خط میں لکھا تھا شروع اللہ کے نام سے جو بڑا بخشنے والا بڑا مہربان ہے محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے روم کے حاکم ہرقل۔ کی طرف اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی اتباع کرے۔ بعد ازاں میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ آپ اسلام لائیں اس طرح محفوظ رہیں گے۔ آپ ایمان لائیں اللہ تعالیٰ آپکو دوگنا اجر عطا کریں گے۔ اگر آپ نے اسلام سے انحراف کیا اور آپ کی وجہ سے لوگ ایمان نہ لائے تو ان کا گناہ بھی آپ پر ہوگا۔{ قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْن } [ال عمران ٦٤] ” اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اس کی طرف آؤ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ سمجھیں۔ اگر یہ لوگ نہ مانیں تو کہہ دو : گواہ رہنا۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فرمان بردار ہیں۔ ابو سفیان کہتے ہیں : جب اس کی بات ختم ہوئی تو اس کے اردگرد روم کے بڑے لوگوں کی آوازیں اور شور بلند ہوا۔ میں سمجھ نہ پایا کہ انھوں نے کیا کہا اور ہمیں دربار سے نکال دیا گیا۔ جس وقت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تنہائی میں ملا۔ میں نے ان سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ بنو اصفرکا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔ ابو سفیان کہتا ہے کہ اللہ کی قسم ! میں ہمیشہ ذلیل ہو کر یقین رکھنے والا تھا کہ اس کا دین عنقریب غالب آجائے گا یہاں تک کہ اللہ نے میرے دل میں اسلام کو ڈال دیا اور پہلی میں اس کو ناپسند کرتا تھا۔ “ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر (رض) کے دور میں اس کا بعض حصہ فتح ہوا اور حضرت عمر (رض) کے دور میں مکمل فتح ہوگئی اور حضرت عمر (رض) نے عراق وفارس کو فتح کیا۔ امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنے دین کو تمام ادیان باطلہ پر غالب فرما دیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر سختی کی۔ انھوں نے خوشی ناخوشی دین کو قبول کرلیا اور اہل کتاب سے قتال کیا۔ قیدی بنائے یہاں تک کہ بعض دین کے قریب ہوئے اور بعض نے ذلیل ہو کر جزیہ ادا کیا اور ان پر آپ کا حکم جاری ہوا اور یہ دین کا مکمل غلبہ تھا۔ امام شافعی (رض) فرماتے ہیں کہ کبھی کہا جائے گا کہ صرف اللہ کا دین ہی باقی ہے یہ جب ہوگا جب اللہ چاہے گا۔
18607 Hazrat Abdullah bin Abbas (Razi Allah Anhu) farmate hain ki Nabi Akram ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ne Qaisar Room ki taraf Hazrat Dahiyah Qalbi ko Islam ki dawat ke liye khat de kar bheja aur un se farmaya ki ise Basra ke ameer ko pahunchao taake woh ise Qaisar Room tak pahuncha de aur Qaisar se jab Allah Rab ul Izzat ne Faris ke lashkaron ko door kar diya to woh Hims se Iliya ki jaanib shukrane ke taur par chala jo Allah Rab ul Izzat ne usko kamyabi di thi Jab Qaisar ke pass Nabi ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ka khat aaya usne khat parha to usne kaha In ki qaum ka koi aadmi talash kar ke mere pass lao main is se Rasul Allah ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ke bare mein pooch loon Hazrat Abdullah bin Abbas (Razi Allah Anhu) kahte hain ki Abu Sufyan ne mujhe bataya ki woh Sham mein Quraishi aadmiyon ke sath the Abu Sufyan kahte hain Qaisar ke qasid ne hamein talash kar liya woh mujhe aur mere sathiyon ko le kar Iliya shehar mein apne badshah ke pass le aaya jis par badshahat ka taj tha aur Room ke bade bade shurafa uske ird gird mojood the Usne apne tarjuman se kaha in se poochho ki jo shakhs apne aap ko Nabi guman karta hai tum mein se uska qareebi kaun hai Abu Sufyan ne kaha ki mein nasab ke aitbaar se uska qareebi hoon Tarjuman ne poochha tumhari aapas mein rishtedari kya hai Abu Sufyan kahte hain maine kaha woh mere chacha ka beta hai kyunki us din qafila mein mere alawa Banu Abd Manaf ka koi shakhs na tha Qaisar ne kaha isko mere qareeb karo phir mere sathiyon ko mere peechhe kandhe ke barabar khara kar diya aur phir tarjuman se kaha ki iske sathiyon se kah do ki mein is se is shakhs ke bare mein jo apne aap ko Nabi khyal karta hai sawal karne laga hoon agar jhoot bole to tum iski takzeeb kar dena Abu Sufyan kahte hain Allah ki qasam agar haya na hota ki mere sathi meri takzeeb kar denge to mein zaroor jhoot bolta jab woh mujh se sawal karta lekin mein haya kar gaya ki woh meri jaanib jhoot ki nisbat karenge to maine is se sach hi bola Phir Qaisar ne apne tarjuman se kaha ki is shakhs ka tumhare andar nasab kaisa hai kahte hain maine kaha ki woh hamare andar aala nasab wala hai Usne kaha kya tum mein se pehle bhi kisi shakhs ne aisi baat ki hai yani nabuat ka daawa kiya hai Main ne kaha nahin Usne kaha kya tum is se pehle is par jhoot ki tohamat lagate ho Main ne kaha nahin Usne kaha kya iske abaau ajdad mein koi badshah tha Main ne kaha nahin Usne kaha kya iske pairakar maldar log hain ya kamzor kahte hain maine kaha balki kamzor log Usne kaha woh zyada ho rahe hain ya kam kahte hain maine kaha balki woh barh rahe hain Usne kaha kya in mein se koi deen mein dakhil hone ke baad deen ko napasand karte huye murtad bhi hua hai kahte hain maine kaha nahin Usne kaha kya woh waada khilafi karta hai ya dhoka deta hai Main ne kaha nahin Lekin ab hamara is se ek muaahida hua hai hamein dar hai ki woh dhoka karega Abu Sufyan ne kaha mere liye mumkin na tha ki mein kisi jagah koi baat apni jaanib se dakhil kar pata ki mujhe khauf nahin ki use meri jaanib mansoob kiya jaye Usne kaha kya tumne ek doosre se larai ki hai Main ne kaha larai hui hai Usne kaha tumhari aur iski larai kaisi rahi kahte hain maine kaha woh ek dol ki manind hai ki kabhi woh hamare upar ghalib raha kabhi humne is par ghalba paya Usne kaha woh tumhen hukum kya deta hai Main ne kaha woh hamein akele Allah ki ibadat ka hukum deta hai ki hum iske sath kisi ko sharik na karen aur inki ibadat se mana karta hai jinki ibadat hamare abaau ajdad karte the aur hamein namaz sachai pak damani waada pura karne aur amanat ko ada karne ka hukum deta hai Ravi kahte hain ki Qaisar ne apne tarjuman se kaha ki is se kah ki jab maine tujh se tumhare andar iske nasab ke bare mein poochha to tera gumaan hai ki woh aala nasab wala hai aur rasool isi tarah apni qaum ke aala nasab hi se mabus kiye jate hain aur maine tujh se poochha ki is tarah ki baat tum mein se pehle bhi kisi ne ki hai to aap kahte hain nahin agar tum mein se kisi ne bhi yeh baat pehle ki hoti to mein kah deta ki yeh pehli baat ki pairavi kar raha hai jo baat pehle ho chuki aur maine tujh se poochha ki kya tum is par jhoot ki tohamat lagate ho ki nabuat ka daawa karne se pehle kabhi isne jhoot bola ho to aap ne kaha nahin to mein pehchan gaya ki jo logon par jhoot nahin bolta woh Allah par jhoot kaise bolega aur maine tujh se poochha ki kya iske abaau ajdad mein koi badshah tha to aap ne kaha nahin to maine samjha ki agar iske abaau ajdad mein se koi badshah hota to mein kahta ki shayad woh apne abaau ajdad ki badshahat ko talab kar raha hai aur maine tujh se sawal kiya ki iski pairavi karne wale ashraf hain ya kamzor log Aap ne kah diya iski pairavi karne wale kamzor log hain aur anbiya ke pairakar aise hi hote hain aur maine aap se poochha ki woh zyada ho rahe hain ya kam to aap ka gumaan hai ki woh zyada ho rahe hain aur imaan isi tarah hi hota hai yahan tak ki woh mukammal ho jaye aur maine aap se poochha ki kya in mein se koi deen mein dakhil hone ke baad deen ko napasand karte huye chhor kar murtad hua to aap ka gumaan hai ki nahin ki jab imaan ki roshni dilon ke andar dakhil ho jati hai to koi isko napasand nahin karta aur maine tujh se poochha ki kya isne dhoka diya hai to aap kahte hain woh dhoka baz nahin aur rasool waqe hi dhoka baz nahin hote aur maine tumhari aur iski larai ke bare mein poochha to aap ne yeh kah diya ki tumhari larai ek dol ki manind hai ki kabhi tumne is par ghalba paya aur kabhi isne tum ko shikast di aur rasoolon ki is tarah azmaish ki jati hai aur aakhirat ka behtarin anjam unhi ke liye hota hai aur maine aap se poochha ki aap ko woh kis cheez ka hukum deta hai to aap kahte hain ki woh Allah ki ibadat ka hukum deta hai aur iske sath shirk se mana karta hai aur hamein iski ibadat se mana karta hai jiski ibadat tumhare abaau ajdad karte the aur tumhen namaz sachai pak damani waada ko pura karne aur amanat ko ada karne ka hukum deta hai aur yeh Nabi ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ki sifat hain Main janta tha ki woh aane wala hai lekin mera yeh gumaan nahin tha ki woh tum se hoga Agar woh aise hi hai jaise aap ne kaha hai to qareeb hai ki woh mere qadmon wali jagah ka malik ban jaye aur agar mein is tak pahunch sakoon to mein iski mulaqat ko pasand karta hoon aur agar mein iske pass mojood hota to mein iske qadmon ko dhota Abu Sufyan kahte hain ki usne Nabi ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ka khat mangwaya aur usne hukum diya to uske samne parha gaya Is khat mein likha tha shuru Allah ke naam se jo bada bakhshne wala bada meherban hai Muhammad Allah ke bande aur uske rasool ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ki taraf se Room ke hakim Harqal ki taraf is shakhs par salaam ho jo hidayat ki ettaba kare Baad azaan mein aap ko Islam ki dawat deta hoon Aap Islam laen is tarah mahfooz rahenge Aap imaan laen Allah Ta'ala aapko dugna ajr ata karenge Agar aap ne Islam se inhiraf kiya aur aap ki wajah se log imaan na laye to unka gunah bhi aap par hoga {Qul ya ahla al kitabi ta'alau ila kalimatin sawa in baynana wa baynakum alla na'buda illallaha wa la nushrika bihi shai an wa la yattakhiza ba'duna ba'dan arbaban min duni Allahi fa in tawallau faqulu ishadu bi anna muslimun} [Al Imran 64] Aey ahle kitab jo baat hamare aur tumhare darmiyan yaksan hai uski taraf aao ki hum Allah ke siwa kisi ko apna karsaz na samjhen Agar yeh log na manen to kah do gawaah rehna hum to Allah Ta'ala ke farman bardar hain Abu Sufyan kahte hain jab iski baat khatam hui to uske ird gird Room ke bade logon ki aawazain aur shor buland hua mein samajh na paya ki unhon ne kya kaha aur hamein darbar se nikal diya gaya Jis waqt mein apne sathiyon ke sath tanhai mein mila maine unse kaha ki Ibn Abi Kabshah ka mamla yahan tak pahuncha ki Banu Asfar ka badshah is se dar raha hai Abu Sufyan kahta hai ki Allah ki qasam mein hamesha zaleel ho kar yaqeen rakhne wala tha ki uska deen anqareeb ghalib aa jayega yahan tak ki Allah ne mere dil mein Islam ko daal diya aur pehli mein isko napasand karta tha Imam Shafai (Rahmatullah Alaih) farmate hain Hazrat Abubakar (Razi Allah Anhu) ke daur mein iska baaz hissa fatah hua aur Hazrat Umar (Razi Allah Anhu) ke daur mein mukammal fatah ho gayi aur Hazrat Umar (Razi Allah Anhu) ne Iraq o Faris ko fatah kiya Imam Shafai (Razi Allah Anhu) farmate hain ki Allah ne apne deen ko tamam adiyan batla par ghalib farma diya to Nabi ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ne in par sakhti ki Inhon ne khushi nakhushi deen ko qubool kar liya aur ahle kitab se qatal kiya qaidi banaye yahan tak ki baaz deen ke qareeb huye aur baaz ne zaleel ho kar jizya ada kiya aur in par aap ka hukum jari hua aur yeh deen ka mukammal ghalba tha Imam Shafai (Razi Allah Anhu) farmate hain ki kabhi kaha jayega ki sirf Allah ka deen hi baqi hai yeh jab hoga jab Allah chahega
١٨٦٠٧ - أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرَوَيْهِ بْنِ أَحْمَدَ الْمَرْوَزِيُّ قَدِمَ عَلَيْنَا بِنَيْسَابُورَ، ثنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ خَنَبٍ إِمْلَاءً، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِي، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ يَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ وَبَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَيْهِ مَعَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، وَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى لِيَدْفَعَهُ إِلَى قَيْصَرَ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى قَيْصَرَ، وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلِيَاءَ شُكْرًا لَمَّا أَبْلَاهُ اللهُ،فَلَمَّا أَنْ جَاءَ قَيْصَرَ كِتَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ قَرَأَهُ:الْتَمِسُوا لِي هَهُنَا أَحَدًا مِنْ قَوْمِهِ أَسْأَلُهُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّامِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ،قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّامِ فَانْطَلَقَ بِي وَبِأَصْحَابِي حَتَّى قَدِمْنَا إِيلِيَاءَ فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ وَعَلَيْهِ التَّاجُ،وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ:سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ.قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:فَقُلْتُ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا.قَالَ:مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ؟قَالَ:فَقُلْتُ: هُوَ ابْنُ عَمِّي.قَالَ:وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي،فَقَالَ قَيْصَرُ:أَدْنُوهُ مِنِّي، ⦗٣٠٠⦘ ثُمَّ أَمَرَ بِأَصْحَابِي فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي،ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ:قُلْ لِأَصْحَابِهِ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَ فَكَذِّبُوهُ.قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:وَاللهِ لَوْلَا الْحَيَاءُ يَوْمَئِذٍ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْكَذِبَ كَذَبْتُ عَنْهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ، وَلَكِنِ اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الْكَذِبَ عَنِّي فَصَدَقْتُهُ عَنْهُ،ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ:قُلْ لَهُ كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ؟قَالَ:قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ،قَالَ:فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ؟قَالَ:قُلْتُ: لَا،قَالَ:وَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَنِ الْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟قَالَ:قُلْتُ: لَا،قَالَ:فَهَلْ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟قَالَ:قُلْتُ: لَا،قَالَ:فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟قَالَ:قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ،قَالَ:فَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟قَالَ:قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ،قَالَ:فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟قَالَ:قُلْتُ: لَا،قَالَ:فَهَلْ يَغْدِرُ؟قَالَ:قُلْتُ: لَا، وَنَحْنُ الْآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ،قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:وَلَمْ يُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ لَا أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا،قَالَ:فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ؟قَالَ:قُلْتُ: نَعَمْ،قَالَ:فَكَيْفَ كَانَتْ حَرْبُكُمْ وَحَرْبُهُ؟قَالَ:قُلْتُ: كَانَتْ دُوَلًا وَسِجَالًا يُدَالُ عَلَيْنَا الْمَرَّةَ وَنُدَالُ عَلَيْهِ الْأُخْرَى،قَالَ:فَمَاذَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ؟قَالَ:يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللهَ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالصِّدْقِ، وَالْعَفَافِ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ.قَالَ:فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ ذَلِكَ لَهُ: قُلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَبْلَهُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ،قُلْتُ:رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ وَيَكْذِبَ عَلَى اللهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا،فَقُلْتُ:لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمُ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا يَغْدِرُونَ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ يَكُونُ دُوَلًا، يُدَالُ عَلَيْكُمُ الْمَرَّةَ، وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الْأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى وَتَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ، وَالصِّدْقِ، وَالْعَفَافِ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ، قَدْ كُنْتُ⦗٣٠١⦘ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ، وَإِنْ يَكُنْ مَا قُلْتَ حَقًّا فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمِيَّ هَاتَيْنِ، وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ.قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهِ فَقُرِئَ،فَإِذَا فِيهِ:" بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ، وَ{يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ}[آل عمران: ٦٤].قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:فَلَمَّا أَنْ قَضَى مَقَالَتَهُ عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ، فَلَا أَدْرِي مَاذَا قَالُوا، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا،فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَوْتُ بِهِمْ قُلْتُ لَهُمْ:لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنُ أَبِي كَبْشَةَ، هَذَا مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ.قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:وَاللهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللهُ قَلْبِي الْإِسْلَامَ وَأَنَا كَارِهٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَمْزَةَ،وَأَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللهُ:فَأَغْزَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الشَّامَ عَلَى ثِقَةٍ مِنْ فَتْحِهَا؛ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَتَحَ بَعْضَهَا، وَتَمَّ فَتْحُهَا فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَفَتَحَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْعِرَاقَ وَفَارِسَ.قَالَ الشَّيْخُ:وَهَذَا الَّذِي ذَكَرَهُ الشَّافِعِيُّ بَيِّنٌ فِي التَّوَارِيخِ، وَسِيَاقُ تِلْكَ الْقَصَصِ مِمَّا يَطُولُ بِهِ الْكِتَابُ.قَالَ الشَّافِعِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ:فَقَدْ أَظْهَرَ اللهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ دِينَهُ الَّذِي بَعَثَ بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَدْيَانِ بِأَنْ أَبَانَ لِكُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنَّهُ الْحَقُّ، وَمَا خَالَفَهُ مِنَ الْأَدْيَانِ بَاطِلٌ، وَأَظْهَرَهُ بِأَنَّ جِمَاعَ الشِّرْكِ دِينَانِ، دِينُ أَهْلِ الْكِتَابِ، وَدِينُ الْأُمِّيِّينَ، فَقَهَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأُمِّيِّينَ حَتَّى وَاتَوْهُ بِالْإِسْلَامِ طَوْعًا وَكَرْهًا، وَقَتَلَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَسَبَى حَتَّى دَانَ بَعْضُهُمُ الْإِسْلَامَ، وَأَعْطَى بَعْضٌ الْجِزْيَةَ صَاغِرِينَ، وَجَرَى عَلَيْهِمْ حُكْمُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا ظُهُورُ الدِّينِ كُلِّهِ.قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللهُ:وَقَدْ يُقَالُ: لَيُظْهِرَنَّ اللهُ دِينَهُ عَلَى الْأَدْيَانِ حَتَّى لَا يُدَانُ اللهُ إِلَّا بِهِ، وَذَلِكَ مَتَى شَاءَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ