Narrated Abu Qilaba: Once `Umar bin `Abdul `Aziz sat on his throne in the courtyard of his house so that the people might gather before him. Then he admitted them and (when they came in), he said, What do you think of Al-Qasama? They said, We say that it is lawful to depend on Al-Qasama in Qisas, as the previous Muslim Caliphs carried out Qisas depending on it. Then he said to me, O Abu Qilaba! What do you say about it? He let me appear before the people and I said, O Chief of the Believers! You have the chiefs of the army staff and the nobles of the Arabs. If fifty of them testified that a married man had committed illegal sexual intercourse in Damascus but they had not seen him (doing so), would you stone him? He said, No. I said, If fifty of them testified that a man had committed theft in Hums, would you cut off his hand though they did not see him? He replied, No. I said, By Allah, Allah's Apostle never killed anyone except in one of the following three situations: (1) A person who killed somebody unjustly, was killed (in Qisas,) (2) a married person who committed illegal sexual intercourse and (3) a man who fought against Allah and His Apostle and deserted Islam and became an apostate. Then the people said, Didn't Anas bin Malik narrate that Allah's Apostle cut off the hands of the thieves, branded their eyes and then, threw them in the sun? I said, I shall tell you the narration of Anas. Anas said: Eight persons from the tribe of `Ukl came to Allah's Apostle and gave the Pledge of allegiance for Islam (became Muslim). The climate of the place (Medina) did not suit them, so they became sick and complained about that to Allah's Apostle. He said (to them ), Won't you go out with the shepherd of our camels and drink of the camels' milk and urine (as medicine)? They said, Yes. So they went out and drank the camels' milk and urine, and after they became healthy, they killed the shepherd of Allah's Apostle and took away all the camels. This news reached Allah's Apostle , so he sent (men) to follow their traces and they were captured and brought (to the Prophet). He then ordered to cut their hands and feet, and their eyes were branded with heated pieces of iron, and then he threw them in the sun till they died. I said, What can be worse than what those people did? They deserted Islam, committed murder and theft. Then 'Anbasa bin Sa`id said, By Allah, I never heard a narration like this of today. I said, O 'Anbasa! You deny my narration? 'Anbasa said, No, but you have related the narration in the way it should be related. By Allah, these people are in welfare as long as this Sheikh (Abu Qilaba) is among them. I added, Indeed in this event there has been a tradition set by Allah's Apostle. The narrator added: Some Ansari people came to the Prophet and discussed some matters with him, a man from amongst them went out and was murdered. Those people went out after him, and behold, their companion was swimming in blood. They returned to Allah's Apostle and said to him, O Allah's Apostle, we have found our companion who had talked with us and gone out before us, swimming in blood (killed). Allah's Apostle went out and asked them, Whom do you suspect or whom do you think has killed him? They said, We think that the Jews have killed him. The Prophet sent for the Jews and asked them, Did you kill this (person)? They replied, No. He asked the Al-Ansars, Do you agree that I let fifty Jews take an oath that they have not killed him? They said, It matters little for the Jews to kill us all and then take false oaths. He said, Then would you like to receive the Diya after fifty of you have taken an oath (that the Jews have killed your man)? They said, We will not take the oath. Then the Prophet himself paid them the Diya (Blood-money). The narrator added, The tribe of Hudhail repudiated one of their men (for his evil conduct) in the Pre-lslamic period of Ignorance. Then, at a place called Al-Batha' (near Mecca), the man attacked a Yemenite family at night to steal from them, but a. man from the family noticed him and struck him with his sword and killed him. The tribe of Hudhail came and captured the Yemenite and brought him to `Umar during the Hajj season and said, He has killed our companion. The Yemenite said, But these people had repudiated him (i.e., their companion). `Umar said, Let fifty persons of Hudhail swear that they had not repudiated him. So forty-nine of them took the oath and then a person belonging to them, came from Sham and they requested him to swear similarly, but he paid one-thousand Dirhams instead of taking the oath. They called another man instead of him and the new man shook hands with the brother of the deceased. Some people said, We and those fifty men who had taken false oaths (Al-Qasama) set out, and when they reached a place called Nakhlah, it started raining so they entered a cave in the mountain, and the cave collapsed on those fifty men who took the false oath, and all of them died except the two persons who had shaken hands with each other. They escaped death but a stone fell on the leg of the brother of the deceased and broke it, whereupon he survived for one year and then died. I further said, `Abdul Malik bin Marwan sentenced a man to death in Qisas (equality in punishment) for murder, basing his judgment on Al-Qasama, but later on he regretted that judgment and ordered that the names of the fifty persons who had taken the oath (Al-Qasama), be erased from the register, and he exiled them in Sham.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر اسماعیل بن ابراہیم الاسدی نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن ابی عثمان نے بیان کیا، ان سے آل ابوقلابہ کے غلام ابورجاء نے بیان کیا اس نے کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن دربار عام کیا اور سب کو اجازت دی۔ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے پوچھا: قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کسی نے کہا کہ قسامہ کے ذریعہ قصاص لینا حق ہے اور خلفاء نے اس کے ذریعہ قصاص لیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا: ابوقلابہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ اور مجھے عوام کے ساتھ لا کھڑا کر دیا۔ میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! آپ کے پاس عرب کے سردار اور شریف لوگ رہتے ہیں آپ کی کیا رائے ہو گی اگر ان میں سے پچاس آدمی کسی دمشقی کے شادی شدہ شخص کے بارے میں زنا کی گواہی دیں جبکہ ان لوگوں نے اس شخص کو دیکھا بھی نہ ہو کیا آپ ان کی گواہی پر اس شخص کو رجم کر دیں گے۔ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر انہیں ( اشراف عرب ) میں سے پچاس افراد حمص کے کسی شخص کے متعلق چوری کی گواہی دے دیں اس کو بغیر دیکھے تو کیا آپ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے؟ فرمایا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا، پس اللہ کی قسم کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کسی کو تین حالتوں کے سوا قتل نہیں کرایا۔ ایک وہ شخص جس نے کسی کو ظلماً قتل کیا ہو اور اس کے بدلے میں قتل کیا گیا ہو۔ دوسرا وہ شخص جس نے شادی کے بعد زنا کیا ہو۔ تیسرا وہ شخص جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی ہو اور اسلام سے پھر گیا ہو۔ لوگوں نے اس پر کہا، کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہیں بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے چوری کے معاملہ میں ہاتھ پیر کاٹ دئیے تھے اور آنکھوں میں سلائی پھروائی تھی اور پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث سناتا ہوں۔ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے آٹھ افراد نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق ہوئی اور وہ بیمار پڑ گئے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شکایت کی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ پھر کیوں نہیں تم ہمارے چرواہے کے ساتھ اس کے اونٹوں میں چلے جاتے اور اونٹوں کا دودھ اور ان کا پیشاب پیتے۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں۔ چنانچہ وہ نکل گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو گئے۔ پھر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہنکا لے گئے۔ اس کی اطلاع جب نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی بھیجے، پھر وہ پکڑے گئے اور لائے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا اور ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا اور آخر وہ مر گئے۔ میں نے کہا کہ ان کے عمل سے بڑھ کر اور کیا جرم ہو سکتا ہے اسلام سے پھر گئے اور قتل کیا اور چوری کی۔ عنبہ بن سعید نے کہا میں نے آج جیسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے کہا: عنبہ! کیا تم میری حدیث رد کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے یہ حدیث واقعہ کے مطابق بیان کر دی ہے۔ واللہ! اہل شام کے ساتھ اس وقت تک خیر و بھلائی رہے گی جب تک یہ شیخ ( ابوقلابہ ) ان میں موجود رہیں گے۔ میں نے کہا کہ اس قسامہ کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کی ایک سنت ہے۔ انصار کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور نبی کریم ﷺ سے بات کی پھر ان میں سے ایک صاحب ان کے سامنے ہی نکلے ( خیبر کے ارادہ سے ) اور وہاں قتل کر دئیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے صحابہ بھی گئے اور دیکھا کہ ان کے ساتھ خون میں تڑپ رہے ہیں۔ ان لوگوں نے واپس آ کر آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی اور کہا: یا رسول اللہ! ہمارے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور اچانک وہ ہمیں ( خیبر میں ) خون میں تڑپتے ملے۔ پھر نبی کریم ﷺ نکلے اور پوچھا کہ تمہارا کس پر شبہ ہے کہ انہوں نے ان کو قتل کیا ہے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہودیوں نے ہی قتل کیا ہے پھر آپ نے یہودیوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کیا تم نے انہیں قتل کیا ہے؟ انہوں نے انکار کر دیا تو آپ نے فرمایا، کیا تم مان جاؤ گے اگر پچاس یہودی اس کی قسم لیں کہ انہوں نے مقتول کو قتل نہیں کیا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ لوگ ذرا بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم سب کو قتل کرنے کے بعد پھر قسم کھا لیں ( کہ قتل انہوں نے نہیں کیا ہے ) نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو پھر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں اور خون بہا کے مستحق ہو جائیں۔ صحابہ نے عرض کیا: ہم بھی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے پاس سے خون بہا دیا ( ابوقلابہ نے کہا کہ ) میں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے اپنے ایک آدمی کو اپنے میں سے نکال دیا تھا پھر وہ شخص بطحاء میں یمن کے ایک شخص کے گھر رات کو آیا۔ اتنے میں ان میں سے کوئی شخص بیدار ہو گیا اور اس نے اس پر تلوار سے حملہ کر کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد ہذیل کے لوگ آئے اور انہوں نے یمنی کو ( جس نے قتل کیا تھا ) پکڑا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے حج کے زمانہ میں اور کہا کہ اس نے ہمارے آدمی کو قتل کر دیا ہے۔ یمنی نے کہا کہ انہوں نے اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب ہذیل کے پچاس آدمی اس کی قسم کھائیں کہ انہوں نے اسے نکالا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر ان میں سے انچاس آدمیوں نے قسم کھائی پھر انہیں کے قبیلہ کا ایک شخص شام سے آیا تو انہوں نے اس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قسم کھائے لیکن اس نے اپنی قسم کے بدلہ میں ایک ہزار درہم دے کر اپنا پیچھا قسم سے چھڑا لیا۔ ہذلیوں نے اس کی جگہ ایک دوسرے آدمی کو تیار کر لیا پھر وہ مقتول کے بھائی کے پاس گیا اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے ملایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ہم پچاس جنہوں نے قسم کھائی تھی روانہ ہوئے۔ جب مقام نخلہ پر پہنچے تو بارش نے انہیں آیا۔ سب لوگ پہاڑ کے ایک غار میں گھس گئے اور غار ان پچاسوں کے اوپر گر پڑا۔ جنہوں نے قسم کھائی تھی اور سب کے سب مر گئے۔ البتہ دونوں ہاتھ ملانے والے بچ گئے۔ لیکن ان کے پیچھے سے ایک پتھر لڑھک کر گرا اور اس سے مقتول کے بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی اس کے بعد وہ ایک سال اور زندہ رہا پھر مر گیا۔ میں نے کہا کہ عبدالملک بن مروان نے قسامہ پر ایک شخص سے قصاص لی تھی پھر اسے اپنے کئے ہوئے پر ندامت ہوئی اور اس نے ان پچاسوں کے متعلق جنہوں نے قسم کھائی تھی حکم دیا اور ان کے نام رجسٹر سے کاٹ دئیے گئے پھر انہوں نے شام بھیج دیا۔
Hum se Qatabah bin Saeed ne bayan kiya, kaha hum se Abu Bashar Ismail bin Ibrahim al-Asadi ne bayan kiya, kaha hum se Hajjaj bin Abi Usmaan ne bayan kiya, un se Aal Abu Qalabah ke ghulaam Abu Jarrah ne bayan kiya, us ne kaha ke mujh se Abu Qalabah ne bayan kiya ke Umar bin Abdul Aziz ne ek din darbar aam kiya aur sab ko ijazat de. Log daakhil hue to unhon ne poocha: Qasaamah ke baare mein tumhara kya khyal hai? Kisi ne kaha ke Qasaamah ke zariye qisas lena haq hai aur Khulafa ne is ke zariye qisas liya hai. Is par unhon ne mujh se poocha: Abu Qalabah! Tumhari kya rai hai? Aur mujhe aam ke sath la khade kar diya. Main ne arz kiya: Ya Amirul Momineen! Aap ke paas Arab ke sardar aur sharif log rahte hain, aap ki kya rai hogi agar in mein se pachas aadmi kisi Dimasqi ke shadi shuda shakhs ke baare mein zina ki gawahhi dein jabke in logon ne is shakhs ko dekha bhi na ho, kya aap in ki gawahhi par is shakhs ko rajm kar denge? Amirul Momineen ne farmaaya ke nahin. Phir main ne kaha ke aap ka kya khyal hai agar inhein (ashraf Arab) mein se pachas afrad Hims ke kisi shakhs ke mutalliq chori ki gawahhi de dein is ko baghair dekhe to kya aap is ka hath kat denge? Farmaaya ke nahin. Phir main ne kaha, pas Allah ki qasam ke Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne kabhi kisi ko teen halaton ke siwa qatal nahin karaya. Ek woh shakhs jis ne kisi ko zalman qatal kiya ho aur is ke badle mein qatal kiya gaya ho. Dusra woh shakhs jis ne shadi ke baad zina kiya ho. Teesra woh shakhs jis ne Allah aur is ke Rasool se jang ki ho aur Islam se phir gaya ho. Logon ne is par kaha, kya Anas bin Malik R.A. ne yeh hadees nahin bayan ki hai ke Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne chori ke maamle mein hath pair kat diye the aur aankhon mein sulai pherwayi thi aur phir unhein dhoop mein dilwa diya tha. Main ne kaha ke main aap logon ko Anas bin Malik R.A. ki hadees sunata hoon. Mujh se Anas R.A. ne bayan kiya ke qabilat Akal ke aatth afrad Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ke pass aaye aur aap se Islam par bai'at ki, phir Madina Munawwara ki ab o hawa unhein namuafik hui aur woh bimar pad gaye to unhon ne Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) se is ki shikayat ki. Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne un se farmaaya ke phir kyun nahin tum hamare churahe ke sath is ke unto mein chale jate aur unto ka doodh aur un ka peshab peete. Unhon ne arz kiya kyun nahin. Chunancha woh nikal gaye aur unto ka doodh aur peshab piya aur sehat mand ho gaye. Phir unhon ne Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ke churahe ko qatal kar diya aur unt hanka le gaye. Is ki itlaah jab Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ko pahunchi to aap ne un ki talash mein aadmi bheje, phir woh pakde gaye aur laye gaye. Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne hukm diya aur un ke bhi hath aur paaon kaat diye gaye aur un ki aankhon mein sulai phir di gayi phir unhein dhoop mein dilwa diya aur akhir woh mar gaye. Main ne kaha ke un ke amal se badh kar aur kya jurm ho sakta hai Islam se phir gaye aur qatal kiya aur chori ki. Anbah bin Saeed ne kaha main ne aaj jaisi baat kabhi nahin suni thi. Main ne kaha: Anbah! Kya tum meri hadees rad karte ho? Unhon ne kaha ke nahin aap ne yeh hadees waqia ke mutabiq bayan kar di hai. Wallahi! Ahl-e-Sham ke sath is waqt tak khair o bhalai rahegi jab tak yeh sheikh (Abu Qalabah) in mein mojood rahenge. Main ne kaha ke is Qasaamah ke silsilah mein Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ki ek sunnat hai. Ansaar ke kuchh log aap ke pass aaye aur Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) se baat ki phir un mein se ek sahib un ke samne hi nikle (Khaibar ke irade se) aur wahan qatal kar diye gaye. Is ke baad dusre Sahaba bhi gaye aur dekha ke un ke sath khoon mein tadrap rahe hain. In logon ne wapas aa kar aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ko is ki itlaah di aur kaha: Ya Rasool Allah! Hamare sath guftugu kar rahe the aur achanak woh hamein (Khaibar mein) khoon mein tadpate mile. Phir Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) nikle aur poocha ke tumhara kis par shabah hai ke unhon ne in ko qatal kiya hai. Sahaba ne kaha ke hum samjhte hain ke yahudiyon ne hi qatal kiya hai phir aap ne yahudiyon ko bula bheja aur un se poocha kya tum ne inhein qatal kiya hai? Unhon ne inkaar kar diya to aap ne farmaaya, kya tum maan jaoge agar pachas yahudi is ki qasam lein ke unhon ne maqtool ko qatal nahin kiya hai. Sahaba ne arz kiya: Yeh log zara bhi parwah nahin karenge ke hum sab ko qatal karne ke baad phir qasam kha lein (ke qatal unhon ne nahin kiya hai). Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaaya to phir tum mein se pachas aadmi qasam kha lein aur khoon baha ke mustahaq ho jaen. Sahaba ne arz kiya: Hum bhi qasam khane ke liye taiyar nahin hain. Chunancha Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne unhein apne pass se khoon baha diya (Abu Qalabah ne kaha ke) main ne kaha ke zamana jahiliyat mein qabilat Hazil ke logon ne apne ek aadmi ko apne mein se nikal diya tha phir woh shakhs Bathaa mein Yaman ke ek shakhs ke ghar raat ko aaya. Itne mein un mein se koi shakhs bedar ho gaya aur us ne is par talwar se humla kar ke qatal kar diya. Is ke baad Hazil ke log aaye aur unhon ne Yemeni ko (jis ne qatal kiya tha) pakda ke Umar R.A. ke pass le gaye hajj ke zamane mein aur kaha ke is ne hamare aadmi ko qatal kar diya hai. Yemeni ne kaha ke unhon ne use apni bradri se nikal diya tha. Umar R.A. ne farmaaya ke ab Hazil ke pachas aadmi is ki qasam khaen ke unhon ne use nikala nahin tha. Bayan kiya ke phir un mein se chalis aadmiyon ne qasam khai phir unhein ke qabilat ka ek shakhs Sham se aaya to unhon ne us se bhi talab kiya ke woh qasam khae lekin us ne apni qasam ke badle mein ek hazar darham de kar apna pichha qasam se chhudawa liya. Haziliyon ne is ki jagah ek doosre aadmi ko taiyar kar liya phir woh maqtool ke bhai ke pass gaya aur apna hath is ke hath se milaaya. Unhon ne bayan kiya ke phir hum pachas jinhon ne qasam khai thi rawana hue. Jab maqam Nakhla par pahunche to barshat ne unhein aaya. Sab log pahad ke ek ghar mein ghus gaye aur ghar in pachaso ke upar gir pada. Jinhon ne qasam khai thi aur sab ke sab mar gaye. Albatta dono hath milane wale bach gaye. Lekin un ke pichhe se ek patthar ladhkar gira aur is se maqtool ke bhai ki tang tut gayi is ke baad woh ek saal aur zinda raha phir mar gaya. Main ne kaha ke Abdul Malik bin Marwan ne Qasaamah par ek shakhs se qisas li thi phir use apne kiye hue par nadamat hui aur us ne in pachaso ke mutalliq jinhon ne qasam khai thi hukm diya aur un ke naam register se kaat diye gaye phir unhon ne Sham bhej diya.