57.
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
٥٧-
كتاب فرض الخمس


1
Chapter: The obligations of Khumus

١
باب فَرْضِ الْخُمُسِ

Sahih al-Bukhari 3094

Narrated Malik bin Aus: While I was at home, the sun rose high and it got hot. Suddenly the messenger of `Umar bin Al- Khattab came to me and said, The chief of the believers has sent for you. So, I went along with him till I entered the place where `Umar was sitting on a bedstead made of date-palm leaves and covered with no mattress, and he was leaning over a leather pillow. I greeted him and sat down. He said, O Malik! Some persons of your people who have families came to me and I have ordered that a gift should be given to them, so take it and distribute it among them. I said, O chief of the believers! I wish that you order someone else to do it. He said, O man! Take it. While I was sitting there with him, his doorman Yarfa' came saying, `Uthman, `Abdur-Rahman bin `Auf, Az-Zubair and Sa`d bin Abi Waqqas are asking your permission (to see you); may I admit them? `Umar said, Yes , So they were admitted and they came in, greeted him, and sat down. After a while Yarfa' came again and said, May I admit `Ali and `Abbas? `Umar said, yes. So, they were admitted and they came in and greeted (him) and sat down. Then `Abbas said, O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. `Ali). They had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle as Fai. The group (i.e. `Uthman and his companions) said, O chief of the believers! Judge between them and relieve both of them front each other. `Umar said, Be patient! I beseech you by Allah by Whose Permission the Heaven and the Earth exist, do you know that Allah's Apostle said, 'Our (i.e. prophets') property will not be inherited, and whatever we leave, is Sadaqa (to be used for charity),' and Allah's Apostle meant himself (by saying we'')? The group said, He said so. `Umar then turned to `Ali and `Abbas and said, I beseech you by Allah, do you know that Allah's Apostle said so? They replied, He said so. `Umar then said, So, I will talk to you about this matter. Allah bestowed on His Apostle with a special favor of something of this Fai (booty) which he gave to nobody else. `Umar then recited the Holy Verses: What Allah bestowed as (Fai) Booty on his Apostle (Muhammad) from them --- for this you made no expedition with either cavalry or camelry: But Allah gives power to His Apostles over whomever He will 'And Allah is able to do all things. 9:6) `Umar added So this property was especially given to Allah's Apostle, but, by Allah, neither did he take possession of it and leave your, nor did he favor himself with it to your exclusion, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till this property remained out of it. Allah's Apostle used to spend the yearly expenses of his family out of this property and used to keep the rest of its revenue to be spent on Allah 's Cause. Allah 's Apostle kept on doing this during all his lifetime. I ask you by Allah do you know this? They replies in the affirmative. `Umar then said to `Ali and `Abbas. I ask you by Allah, do you know this? `Umar added, When Allah had taken His Prophet unto Him, 'Abu Bakr said, 'I am the successor of Allah's Apostle so, Abu Bakr took over that property and managed it in the same way as Allah's Apostle used to do, and Allah knows that he was true, pious and rightlyguided, and he was a follower of what was right. Then Allah took Abu Bakr unto Him and I became Abu Bakr's successor, and I kept that property in my possession for the first two years of my Caliphate, managing it in the same way as Allah's Apostle used to do and as Abu Bakr used to do, and Allah knows that I have been true, pious, rightly guided, and a follower of what is right. Now you both (i.e. 'Ah and `Abbas) came to talk to me, bearing the same claim and presenting the same case; you, `Abbas, came to me asking for your share from your nephew's property, and this man, i.e. `Ali, came to me asking for his wife's share from her father's property. I told you both that Allah's Apostle said, 'Our (prophets') properties are not to be inherited, but what we leave is Sadaqa (to be used for charity).' When I thought it right that I should hand over this property to you, I said to you, 'I am ready to hand over this property to you if you wish, on the condition that you would take Allah's Pledge and Convention that you would manage it in the same way as Allah's Apostle used to, and as Abu Bakr used to do, and as I have done since I was in charge of it.' So, both of you said (to me), 'Hand it over to us,' and on that condition I handed it over to you. So, I ask you by Allah, did I hand it over to them on this condition? The group aid, Yes. Then `Umar faced `Ali and `Abbas saying, I ask you by Allah, did I hand it over to you on this condition? They said, Yes. He said, Do you want now to give a different decision? By Allah, by Whose Leave both the Heaven and the Earth exist, I will never give any decision other than that (I have already given). And if you are unable to manage it, then return it to me, and I will do the job on your behalf.

ہم سے اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن انس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے ( زہری نے بیان کیا کہ ) محمد بن جبیر نے مجھ سے ( اسی آنے والی ) حدیث کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے میں نے مالک بن اوس کی خدمت میں خود حاضر ہو کر ان سے اس حدیث کے متعلق ( بطور تصدیق ) پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ دن چڑھ آیا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ‘ اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ امیرالمؤمنین آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں اس قاصد کے ساتھ ہی چلا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ایک تخت پر بوریا بچھائے ‘ بورئیے پر کوئی بچھونا نہ تھا ‘ صرف ایک چمڑے کے تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے فرمایا ‘ مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے تھے ‘ میں نے ان کے لیے کچھ حقیر سی امداد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اسے اپنی نگرانی میں ان میں تقسیم کرا دو ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا امیرالمؤمنین! اگر آپ اس کام پر کسی اور کو مقرر فرما دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی اصرار کیا کہ نہیں ‘ اپنی ہی تحویل میں بانٹ دو۔ ابھی میں وہیں حاضر تھا کہ امیرالمؤمنین کے دربان یرفا آئے اور کہا کہ عثمان بن عفان ‘ عبدالرحمٰن بن عوف ‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں انہیں اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات داخل ہوئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفا بھی تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور پھر اندر آ کر عرض کیا علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو بھی اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں انہیں بھی اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات بھی اندر تشریف لے آئے۔ اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ یا امیرالمؤمنین! میرا اور ان کا فیصلہ کر دیجئیے۔ ان حضرات کا جھگڑا اس جائیداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بنی نضیر کے اموال میں سے ( خمس کے طور پر ) عنایت فرمائی تھی۔ اس پر عثمان اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ تھے کہنے لگے ‘ ہاں ‘ امیرالمؤمنین! ان حضرات میں فیصلہ فرما دیجئیے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے بےفکر کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم ( انبیاء ) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔“ جس سے آپ ﷺ کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ ﷺ نے یہ فرمایا تھا۔ اب عمر رضی اللہ عنہ، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ ﷺ نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ ﷺ نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم‏» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير‏» تک اور وہ حصہ آپ ﷺ کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ ﷺ نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے ( جہاد کے سامان فراہم کرنے میں ) خیر آپ ﷺ تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ ( دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں! ) پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ ﷺ کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے ( آپ ﷺ کی اس مخلص ) جائیداد پر قبضہ کیا اور جس طرح آپ ﷺ اس میں مصارف کیا کرتے تھے ‘ وہ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور اب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوا۔ میری خلافت کو دو سال ہو گئے ہیں۔ اور میں نے بھی اس جائیداد کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ جو مصارف رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں کیا کرتے تھے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا ‘ مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ جناب عباس! آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے ( ﷺ ) کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی ( فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ ان کے والد ( رسول اللہ ﷺ ) کی میراث انہیں ملنی چاہئے ‘ میں نے آپ دونوں حضرات سے عرض کر دیا کہ رسول اللہ ﷺ خود فرما گئے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی میراث تقسیم نہیں ہوتی ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ‘ تو میں نے تم سے کہا ‘ دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ جائیداد تمہارے سپرد کر دیتا ہوں ‘ لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ ﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کے شروع سے کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ جائیدادیں ہم کو دے دو۔ میں نے اسی شرط پر دے دی ‘ حاضرین کہو میں نے یہ جائیدادیں اسی شرط پر ان کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا ‘ بیشک اسی شرط پر آپ نے دی ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ میں نے اسی شرط پر یہ جائیدادیں آپ حضرات کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا بیشک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو؟ ( کیا جائیداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو ) قسم اللہ کی! جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کر دو۔ میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا۔

Hum se Ishaq bin Muhammad Farvi ne bayan kya, kaha hum se Malik bin Anas ne, un se Ibn Shahab ne, un se Malik bin Aus bin Hadthan ne (Zahri ne bayan kya ke) Muhammad bin Jubair ne mujh se (isi aane wali) hadees ka zikar kya tha. Is liye maine Malik bin Aus ki khidmat mein khud hazir ho kar un se is hadees ke mutalliq (ba taur tasdeeq) poocha. Unhon ne kaha ke din chadh aaya tha aur mein apne ghar walon ke sath baitha hua tha, itne mein Umar bin Khattab (RA) ka ek bulane wala mere paas aaya aur kaha ke Amir-ul-Momineen aap ko bula rahe hain. Mein is qasid ke sath hi chala gaya aur Umar (RA) ki khidmat mein hazir hua. Aap ek takht per boriya bichhaye, boriye per koi bichona na tha, sirf ek chamere ke takkiye per tek lagaye huye the. Mein salam kar ke baith gaya. Phir unhon ne farmaya, “Malik! Tumhari qaum ke kuch log mere paas aaye the, maine un ke liye kuch haqeer si imdad ka faisla kar liya hai. Tum ise apni nigrani mein un mein taqseem kara do.” Maine arz kya, “Ya Amir-ul-Momineen! Agar aap is kaam per kisi aur ko muqarrar farma dete to behtar hota.” Lekin Umar (RA) ne yahi israr kya ke nahin, apni hi tehweel mein bant do. Abhi mein wahin hazir tha ke Amir-ul-Momineen ke darban Yarfa aaye aur kaha ke Usman bin Affan, Abdur Rahman bin Auf, Zubair bin Awwam aur Sa’d bin Abi Waqqas (RA) andar aane ki ijazat chahte hain? Umar (RA) ne farmaya ke haan unhen andar bula lo. Aap ki ijazat per ye hazrat dakhil huye aur salam kar ke baith gaye. Yarfa bhi thori der baithte rahe aur phir andar aakar arz kya, “Ali aur Abbas (RA) ko bhi andar aane ki ijazat hai?” Aap ne farmaya ke haan unhen bhi andar bula lo. Aap ki ijazat per ye hazrat bhi andar tashreef le aaye aur salam kar ke baith gaye. Abbas (RA) ne kaha, “Ya Amir-ul-Momineen! Mera aur in ka faisla kar dijiye.” In hazrat ka jhagra is jaidad ke bare mein tha jo Allah Ta’ala ne apne Rasul (ﷺ) ko Bani Nazir ke amwal mein se (khums ke taur per) inaayat farmaayi thi. Is per Usman (RA) aur un ke sath jo deegar Sahaba (RA) the kahne lage, “Haan, Amir-ul-Momineen! In hazrat mein faisla farma dijiye aur har ek ko doosre ki taraf se befikar kar dijiye.” Umar (RA) ne kaha, “Achcha, to phir zara thehraiye aur dum le lijiye, mein aap logon se is Allah ki qasam de kar poochta hun jis ke hukm se aasmaan aur zameen qaaim hain. Kya aap logon ko maloom hai ke Rasul Allah (ﷺ) ne farmaya tha ke ‘Hum paighambaron ka koi waris nahin hota, jo kuch hum (anbiya) chhor kar jaate hain woh sadaqah hota hai.’ Jis se aap (ﷺ) ki murad khud apni zaat girami bhi thi.” In hazrat ne tasdeeq ki, ke ji haan, beshak aap (ﷺ) ne ye farmaya tha. Ab Umar (RA), Ali aur Abbas (RA) ki taraf mukhatib huye, un se poocha, “Mein aap hazrat ko Allah ki qasam deta hun, kya aap hazrat ko bhi maloom hai ke aap (ﷺ) ne aisa farmaya hai ya nahin?” Unhon ne bhi is ki tasdeeq ki ke aap (ﷺ) ne beshak aisa farmaya hai. Umar (RA) ne kaha ke ab mein aap logon se is mamle ki sharah bayan karta hun. Baat ye hai ke Allah Ta’ala ne apne Rasul (ﷺ) ke liye is ghanimat ka ek makhsus hissa muqarrar kar diya tha, jise aap (ﷺ) ne bhi kisi doosre ko nahin diya tha. Phir aap ne is ayat ki tilawat ki, “Wama afa Allah 'ala Rasulihi minhum” se Allah Ta’ala ke irshad “Qadeer” tak, aur woh hissa aap (ﷺ) ke liye khaas raha. Magar qasam Allah ki ye jaidad aap (ﷺ) ne tum ko chhor kar apne liye jor na rakhi, na khaas apne kharch mein laaye, balki tum hi logon ko den aur tumhare hi kaamon mein kharch kin. Ye jo jaidad bach rahi hai is mein se aap apni biwiyon ka saal bhar ka kharch liya karte, is ke baad jo baqi bachta woh Allah ke maal mein sharik kar dete (jihad ke saman faraham karne mein). Khair aap (ﷺ) to apni zindagi mein aisa hi karte rahe. Hazireen tum ko Allah ki qasam! Kya tum ye nahin jaante?” Unhon ne kaha, “Beshak jaante hain.” Phir Umar (RA) ne Ali aur Abbas (RA) se kaha, “Mein aap hazrat se bhi qasam de kar poochta hun, kya aap log ye nahin jaante hain?” (Donon hazrat ne jawab diya, “Haan!”) Phir Umar (RA) ne yun farmaya ke, “Phir Allah Ta’ala ne apne Nabi Kareem (ﷺ) ko duniya se utha liya to Abu Bakr Siddiq (RA) kahne lage ke mein Rasul Allah (ﷺ) ka khalifa hun aur is liye unhon ne (aap (ﷺ) ki is mukhlis) jaidad per qabza kya aur jis tarah aap (ﷺ) is mein masarif kya karte the woh karte rahe. Allah khoob jaanta hai ke Abu Bakr (RA) apne is tarz amal mein sache mukhlis, nekukar aur haq ki pairawi karne wale the. Phir Allah Ta’ala ne Abu Bakr (RA) ko bhi apne paas bula liya aur ab mein Abu Bakr (RA) ka naib muqarrar hua. Meri khilafat ko do saal ho gaye hain aur maine bhi is jaidad ko apni tehweel mein rakha hai. Jo masarif Rasul Allah (ﷺ) aur Abu Bakr (RA) is mein kya karte the waisa hi mein bhi karta raha aur Allah khoob jaanta hai ke mein apne is tarz amal mein sacha, mukhlis aur haq ki pairawi karne wala hun. Phir aap donon mere paas mujh se guftagu karne aaye aur ba ittefaq guftagu karne lage ke donon ka maqsad ek tha. Janab Abbas! Aap to is liye tashreef laaye ke aap ko apne bhateeje ((ﷺ)) ki miraas ka daawa mere samne pesh karna tha.” Phir Ali (RA) se farmaya ke aap is liye tashreef laaye ke aap ko apni biwi (Fatima (RA)) ka daawa pesh karna tha ke un ke walid (Rasul Allah (ﷺ)) ki miraas unhen milni chahiye. “Maine aap donon hazrat se arz kar diya ke Rasul Allah (ﷺ) khud farma gaye ke hum paighambaron ki koi miraas taqseem nahin hoti, hum jo kuch chhor jaate hain woh sadaqah hota hai. Phir mujh ko ye munasib maloom hua ke mein in jaidadon ko tumhare qabze mein de dun to maine tum se kaha, ‘Dekho agar tum chaho to mein ye jaidad tumhare supurd kar deta hun, lekin is ahd aur is iqrar per ke tum is ki aamdani se woh sab kaam karte raho ge jo aap (ﷺ) aur Abu Bakr Siddiq (RA) apni khilafat mein karte rahe aur jo kaam mein apni hukoomat ke shuru se karta raha.’ Tum ne is shart ko qabool kar ke darkhwast ki ke jaidaadein hum ko de do. Maine isi shart per de di. Hazireen kaho maine ye jaidaadein isi shart per in ke hawale ki hain ya nahin?” Unhon ne kaha, “Beshak isi shart per aap ne di hain.” Phir Umar (RA) ne Ali (RA) aur Abbas (RA) se farmaya, “Mein tum ko Allah ki qasam deta hun, maine isi shart per ye jaidaadein aap hazrat ke hawale ki hain ya nahin?” Unhon ne kaha, “Beshak.” Umar (RA) ne kaha, “Phir mujh se kis baat ka faisla chahte ho? (Kya jaidad ko taqseem karana chahte ho?) Qasam Allah ki! Jis ke hukm se zameen aur aasmaan qaaim hain mein to is ke siwa aur koi faisla karne wala nahin. Haan! Ye aur baat hai ke agar tum se is ka intezam nahin ho sakta to phir jaidad mere supurd kar do, mein is ka bhi kaam dekh lun ga.”

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ذَكَرَ لِيذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ ، فَقَالَ مَالِكٌ : بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي حِينَ مَتَعَ النَّهَارُ إِذَا رَسُولُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَأْتِينِي ، فَقَالَ : أَجِبْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى رِمَالِ سَرِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ جَلَسْتُ ، فَقَالَ : يَا مَالِ إِنَّهُ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ قَوْمِكَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَاقْبِضْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ ، فَقُلْتُ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَمَرْتَ بِهِ غَيْرِي ، قَالَ : اقْبِضْهُ أَيُّهَا الْمَرْءُ ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا ، فَقَالَ : هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يَسْتَأْذِنُونَ ، قَالَ : نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا ، ثُمَّ جَلَسَ يَرْفَا يَسِيرًا ، ثُمَّ قَالَ : هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ ، قَالَ : نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَدَخَلَا فَسَلَّمَا فَجَلَسَا ، فَقَالَ عَبَّاسٌ : يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ ، فَقَالَ الرَّهْطُ : عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ ، قَالَ عُمَرُ : تَيْدَكُمْ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ ، قَالَ الرَّهْطُ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ ، فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ : قَالَا : قَدْ قَالَ ذَلِكَ ، قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ ، ثُمَّ قَرَأَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ قَدْ أَعْطَاكُمُوهُ وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ، قَالُوا : نَعَمْ ، ثُمَّ قَالَ : لِعَلِيٍّ وعَبَّاسٍ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ، قَالَ عُمَرُ : ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَكُنْتُ أَنَا وَلِيَّ أَبِي بَكْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي تُكَلِّمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ جِئْتَنِي يَا عَبَّاسُ تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ ، وَجَاءَنِي هَذَا يُرِيدُ عَلِيًّا يُرِيدُ نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا ، فَقُلْتُ : لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا ، قُلْتُ : إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا ، فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا فَبِذَلِكَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ ؟ ، قَالَ : الرَّهْطُ نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ ، فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ ، قَالَا : نَعَمْ ، قَالَ : فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَإِنِّي أَكْفِيكُمَاهَا .