65.
Prophetic Commentary on the Qur'an (Tafseer of the Prophet (pbuh))
٦٥-
كتاب التفسير
5
"O offspring of those whom We carried (in the ship) with Nūh (Noah)! Verily, he was a grateful slave." (V.17:3)
٥
باب {ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا}
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
abī hurayrah | Abu Hurairah al-Dausi | Companion |
abī zr‘h bn ‘amrūin bn jarīrin | Abu Zarah ibn Amr al-Bajali | Trustworthy |
abū ḥayyān al-taymī | Yahya ibn Sa'id at-Taymi | Trustworthy |
‘abd al-lah | Abdullah ibn al-Mubarak al-Hanzali | Trustworthy, firm, jurist, scholar, generous, warrior, gathered in him the qualities of goodness |
muḥammad bn muqātilin | Muhammad ibn Muqatil al-Marwazi | Trustworthy |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
أَبِي هُرَيْرَةَ | أبو هريرة الدوسي | صحابي |
أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ | أبو زرعة بن عمرو البجلي | ثقة |
أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ | يحيى بن سعيد التيمي | ثقة |
عَبْدُ اللَّهِ | عبد الله بن المبارك الحنظلي | ثقة ثبت فقيه عالم جواد مجاهد جمعت فيه خصال الخير |
مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ | محمد بن مقاتل المروزي | ثقة |
Sahih al-Bukhari 4712
Narrated Abu Huraira: Some (cooked) meat was brought to Allah Apostle and the meat of a forearm was presented to him as he used to like it. He ate a morsel of it and said, I will be the chief of all the people on the Day of Resurrection. Do you know the reason for it? Allah will gather all the human being of early generations as well as late generation on one plain so that the announcer will be able to make them all-hear his voice and the watcher will be able to see all of them. The sun will come so close to the people that they will suffer such distress and trouble as they will not be able to bear or stand. Then the people will say, 'Don't you see to what state you have reached? Won't you look for someone who can intercede for you with your Lord' Some people will say to some others, 'Go to Adam.' So they will go to Adam and say to him. 'You are the father of mankind; Allah created you with His Own Hand, and breathed into you of His Spirit (meaning the spirit which he created for you); and ordered the angels to prostrate before you; so (please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are? Don't you see what condition we have reached?' Adam will say, 'Today my Lord has become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. He forbade me (to eat of the fruit of) the tree, but I disobeyed Him . Myself! Myself! Myself! (I am preoccuied with my own problems). Go to someone else; go to Noah.' So they will go to Noah and say (to him), 'O Noah! You are the first (of Allah's Messengers) to the people of the earth, and Allah has named you a thankful slave; please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say.' Today my Lord has become angry as He has never become nor will ever become thereafter. I had (in the world) the right to make one definitely accepted invocation, and I made it against my nation. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Abraham.' They will go to Abraham and say, 'O Abraham! You are Allah's Messenger and His Khalil from among the people of the earth; so please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' He will say to them, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will ever become thereafter. I had told three lies (Abu Haiyan (the sub-narrator) mentioned them in the Hadith) Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Moses.' The people will then go to Moses and say, 'O Moses! You art Allah's Messenger and Allah gave you superiority above the others with this message and with His direct Talk to you; (please) intercede for us with your Lord Don't you see in what state we are?' Moses will say, 'My Lord has today become angry as He has never become before, nor will become thereafter, I killed a person whom I had not been ordered to kill. Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Jesus.' So they will go to Jesus and say, 'O Jesus! You are Allah's Messenger and His Word which He sent to Mary, and a superior soul created by Him, and you talked to the people while still young in the cradle. Please intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are?' Jesus will say. 'My Lord has today become angry as He has never become before nor will ever become thereafter. Jesus will not mention any sin, but will say, 'Myself! Myself! Myself! Go to someone else; go to Muhammad.' So they will come to me and say, 'O Muhammad ! You are Allah's Messenger and the last of the prophets, and Allah forgave your early and late sins. (Please) intercede for us with your Lord. Don't you see in what state we are? The Prophet added, Then I will go beneath Allah's Throne and fall in prostration before my Lord. And then Allah will guide me to such praises and glorification to Him as He has never guided anybody else before me. Then it will be said, 'O Muhammad Raise your head. Ask, and it will be granted. Intercede and It (your intercession) will be accepted.' So I will raise my head and Say, 'My followers, O my Lord! My followers, O my Lord'. It will be said, 'O Muhammad! Let those of your followers who have no accounts, enter through such a gate of the gates of Paradise as lies on the right; and they will share the other gates with the people. The Prophet further said, By Him in Whose Hand my soul is, the distance between every two gate-posts of Paradise is like the distance between Mecca and Busra (in Sham).
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ابوحیان (یحییٰ بن سعید) تیمی نے خبر دی۔ انہیں ابوزرعہ (ہرم) بن عمرو بن جریر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریم ﷺ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔ سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بےقراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے، دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے۔ کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے ”شکر گزار بندہ“ ( عبد شکور ) کا خطاب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔ نوح علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسی، نفسی، نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب، آپ ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے ( راوی ) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔ نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔ میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں موسیٰ علیہ السلام پاس کے جاؤ۔ سب لوگ موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔ آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے، اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔ نفسی، نفسی، نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ سب لوگ عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں، آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی، ہماری شفاعت کیجئے، آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے۔ عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے ( صرف ) اتنا کہیں گے، نفسی، نفسی، نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، محمد ( ﷺ ) کے پاس جاؤ۔ سب لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے محمد ( ﷺ ) ! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں، اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔ پھر کہا جائے گا، اے محمد! اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔ اے میرے رب! میری امت، اے میرے رب! میری امت پر کرم کر، کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے، جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے، جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔
Hum se Muhammad bin Muqatil ne bayan kiya, kaha hum ko Abdullah bin Mubarak ne khabar di, kaha hum ko Abu-Hayyan (Yahya bin Saeed) Tami ne khabar di. Inhen Abu Zar'ah (Haram) bin Amr bin Jareer ne aur un se Abu Hurairah (رضي الله تعالى عنه) ne bayan kiya ke Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein gosht laya gaya aur dast ka hissa aap ko pesh kiya gaya. To aap ne apne daanton se isse ek bar nochha aur Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ko dast ka gosht bahut pasand tha. Phir aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaaya ke qiyaamat ke din mein sab logoon ka sardar hon ga tumhen maloom bhi hai yeh kon sa din ho ga? Is din duniya ke shuru se qiyaamat ke din tak ki sari khalqat ek chatil maidann mein jama ho gi ke ek pukarne walay ki aawaz sab ke kanoon tak pahunch sake gi aur ek nazar sab ko dekh sake gi. Sooraj bilkul qareeb ho jaye ga aur logon ki pareshani aur bequrari ki koi had na rahe gi jo bardasht se bahir ho jaye gi. Log aapas mein kahen ge, dekhte nahi ke hamari kya haalat ho gayi hai. Kya aisa koi maqbool banda nahi hai jo Allah Paak ki bargah mein tumhari shifa'at kare? Baaz log baaz se kahen ge ke Adam Alayhis Salam ke paas chalna chahiye. Chnanchh sab log Adam Alayhis Salam ki khidmat mein haazir hon ge aur arz karen ge aap insanoon ke pardada hain, Allah Ta'ala ne aap ko apne haath se paida kiya aur apni taraf se khususiyat ke sath aap mein rooh phoonki. Farishtoon ko hukm diya aur unhon ne aap ko sujuda kiya is liye aap Rab ke huzoor mein hamari shifa'at kar den, aap dekh rahe hain ke hum kis haal ko pahunch chuke hain. Adam Alayhis Salam kahen ge ke mera Rab aaj intthae ghurabnaak hai. Is se pehle itna ghurabnaak woh kabhi nahi hua tha aur na aaj ke baad kabhi itna ghurabnaak hoga aur Rabb-ul-izzat ne mujhe bhi darakht se roka tha lekin maine is ki nafarmani ki, pas nafsi, nafsi, nafsi mujhe apni fikr hai tum kisi aur ke paas jao. Haan Noah Alayhis Salam ke paas jao. Chnanchh sab log Noah Alayhis Salam ki khidmat mein haazir hon ge aur arz karen ge, Aay Noah! Aap sab se pehle payambar hain jo ahl-e-zameen ki taraf bhijhe gaye the aur aap ko Allah ne "shukar guzar banda" (abd-e-shukoor) ka khitab diya. Aap hi hamare liye apne Rab ke huzoor mein shifa'at kar den, aap dekh rahe hain ke hum kis haalat ko pahunch gaye hain. Noah Alayhis Salam bhi kahen ge ke mera Rab aaj itna ghurabnaak hai ke is se pehle kabhi itna ghurabnaak nahi tha aur na aaj ke baad kabhi itna ghurabnaak hoga aur mujhe ek dua ki quboolit ka yakin dilaaya gaya tha jo maine apni qoum ke khilaf kar li thi. Nafsi, nafsi, nafsi aaj mujhe apne hi nafs ki fikr hai tum mere sewa kisi aur ke paas jao, Ibraheem Alayhis Salam ke paas jao. Sab log Ibraheem Alayhis Salam ki khidmat mein haazir hon ge aur arz karen ge, Aay Ibraheem! Aap Allah ke Nabi aur Allah ke Khaleel hain roye zameen mein muntkhaab, aap hamari shifa'at kijie, aap mulahaza farma rahe hain ke hum kis haalat ko pahunch chuke hain. Ibraheem Alayhis Salam bhi kahen ge ke aaj mera Rab bahut ghurabnaak hai? Itna ghurabnaak na woh pehle hua tha aur na aaj ke baad hoga aur maine teen jhoot boley the (ravi) Abu-Hayyan ne apni riwayat mein tinoon ka zikr kiya hai. Nafsi, nafsi, nafsi mujhe apne nafs ki fikr hai. Mere sewa kisi aur ke paas jao. Haan Musa Alayhis Salam paas ke jao. Sab log Musa Alayhis Salam ki khidmat mein haazir hon ge aur arz karen ge Aay Musa! Aap Allah ke Rasool hain, Allah Ta'ala ne aap ko apni taraf se risalat aur apne kalam ke zariye fazilat di. Aap hamari shifa'at apne Rab ke huzoor mein karen, aap mulahaza farma sakte hain ke hum kis haalat ko pahunch chuke hain. Musa Alayhis Salam kahen ge ke aaj Allah Ta'ala bahut ghurabnaak hai, itna ghurabnaak ke woh na pehle kabhi hua tha aur na aaj ke baad kabhi hoga aur maine ek shakhs ko qatal kar diya tha, halankeh Allah ki taraf se mujhe is ka koi hukm nahi mila tha. Nafsi, nafsi, nafsi bas mujhe aaj apni fikr hai, mere sewa kisi aur ke paas jao. Haan Isa Alayhis Salam ke paas jao. Sab log Isa Alayhis Salam ki khidmat mein haazir hon ge aur arz karen ge. Aay Isa! Aap Allah ke Rasool aur is ka kalam hain jise Allah ne Maryam Alayhis Salam par dala tha aur Allah ki taraf se rooh hain, aap ne bachpan mein ma'am ki god hi mein logon se baat ki thi, hamari shifa'at kijie, aap mulahaza farma sakte hain ke hamari kya haalat ho chuki hai. Isa bhi kahen ge ke mera Rab aaj is darjah ghurabnaak hai ke na is se pehle kabhi itna ghurabnaak hua tha aur na kabhi hoga aur aap kisi lugzsh ka zikr nahi karen ge (sirf) itna kahen ge, nafsi, nafsi, nafsi mere sewa kisi aur ke paas jao. Haan, Muhammad ((صلى الله عليه وآله وسلم)) ke paas jao. Sab log Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein haazir hon ge aur arz karen ge, Aay Muhammad ((صلى الله عليه وآله وسلم))! Aap Allah ke Rasool aur sab se aakhiri payambar hain aur Allah Ta'ala ne aap ke tamam agle pichhle gunaah maaf kar diye hain, apne Rab ke darbbar mein hamari shifa'at kijie. Aap khud mulahaza farma sakte hain ke hum kis haalat ko pahunch chuke hain. Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaaya ke aakhir mein aage barhon ga aur arsh tale pahunch kar apne Rab Azza-wajal ke liye sujuda mein gir paron ga, phir Allah Ta'ala mujh par apni hamd aur husn-e-thana ke darwaze khol de ga ke mujh se pehle kisi ko woh tariqe aur woh mahamid nahi bataye the. Phir kaha jaye ga, Aay Muhammad! Apna sar uthayiye, maange aap ko diya jaye ga. Shifa'at kijie, aap ki shifa'at qabool ho jaye gi. Ab mein apna sar uthaoon ga aur arz karoon ga. Aay mere Rab! Meri ummat, Aay mere Rab! Meri ummat par karam kar, kaha jaye ga Aay Muhammad! Apni ummat ke un logon ko jin par koi hisaab nahi hai, Jannat ke dahine darwaze se daakhil kijie waise unhen ikhtiyaar hai, jis darwaze se chahen dusre logon ke sath daakhil ho sakte hain. Phir Nabi Kareem (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaaya ke is zat ki qasam! Jis ke haath mein meri jaan hai. Jannat ke darwaze ke dono kinaron mein itna faasla hai jitna Makkah aur Hamir mein hai ya jitna Makkah aur Basra mein hai.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ ، فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ ، فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً ، ثُمَّ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي ، وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ ، وَلَا يَحْتَمِلُونَ ، فَيَقُولُ النَّاسُ : أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ : عَلَيْكُمْ بِآدَمَ ، فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ، فَيَقُولُونَ لَهُ : أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ، فَيَقُولُ آدَمُ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ ، فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ ، فَيَأْتُونَ نُوحًا ، فَيَقُولُونَ : يَا نُوحُ ، إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ ، وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ : إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ ، فَيَقُولُونَ : يَا إِبْرَاهِيمُ ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ لَهُمْ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى ، فَيَأْتُونَ مُوسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا مُوسَى ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ ، فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ، فَيَأْتُونَ عِيسَى ، فَيَقُولُونَ : يَا عِيسَى ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَيَقُولُ عِيسَى : إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ ، وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي ، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي ، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ ، فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا ، فَيَقُولُونَ : يَا مُحَمَّدُ ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ ، وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ ، أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ، فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ ، فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ، ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ ، وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ، ثُمَّ يُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ، ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي ، فَأَقُولُ : أُمَّتِي يَا رَبِّ ، أُمَّتِي يَا رَبِّ ، أُمَّتِي يَا رَبِّ ، فَيُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ ، ثُمَّ قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ ، أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى .