18.
The Book of Divorce
١٨-
كتاب الطلاق


5
Chapter: Ila', Keeping away from one's wives and giving them the choice, And the saying of Allah, The Most High: "But if you help one another against him

٥
باب فِي الإِيلاَءِ وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ وَتَخْيِيرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}

Sahih Muslim 1479b

Abdullah bin Abbas (رضي الله تعالى عنه) narrated that I intended to ask 'Umar bin al-Khattab ( رضي الله تعالى عنه) about a verse, but I waited for one year to ask him out of his fear, until he went out for Hajj and I also accompanied him. As he came back, and we were on the way he stepped aside towards an Arak tree to ease himself. I waited for him until he was free. I then walked along with him and said, Commander of the Faithful, who are the two among the wives of Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) who backed up one another (in their demand for extra money)? He said, they were Ummul Momineen Hafsa (رضي الله تعالى عنها) and Ummul Momineen A'isha ( رضي الله تعالى عنها). I said to him, it is for one year that I intended to ask you about this matter, but I could not dare so on account of the awe for you. He said, do not do that. If you think that I have any knowledge, do ask me about that. And if I were to know that I would inform you. He (the narrator) stated that 'Umar (رضي الله تعالى عنه) had said, by Allah, during the days of ignorance we had no regard for women until Allah the Exalted revealed about them what, He has revealed and appointed (turn) for them what he appointed. He said, it so happened that I was thinking about some matter that my wife said, I wish you had done that and that. I said to her, it does not concern you and you should not feel disturbed in a matter which I intend to do. She said to me, how strange is it that you, Ibn Khattab (رضي الله تعالى عنه), do not like anyone to retort upon you, whereas your daughter retorts upon Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) until he spends the day in annoyance. 'Umar (رضي الله تعالى عنه) said, I took hold of my cloak, then came out of my house until I visited Ummul Momineen Hafsa (رضي الله تعالى عنها) and said to her, O daughter, (I heard) that you retort upon Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) until he spends the day in vexation, whereupon Ummul Momineen Hafsa (رضي الله تعالى عنها) said, by Allah, we do retort upon him. I said, you should bear in mind, my daughter, that I warn you against the punishment of Allah and the wrath of His Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم). You may not be misled by one whose beauty has fascinated her, and the love of Allah's Apostle ( صلى الله عليه وآله وسلم) for her. I then visited Ummul Momineen Umm Salama (رضي الله تعالى عنها) because of my relationship with her and I talked to her. Ummul Momineen Umm Salama (رضي الله تعالى عنها) said to me, Umar bin al-Khattab (رضي الله تعالى عنه), how strange is it that you meddle with every matter so much so that you are anxious to interfere between Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) and his wives, and this perturbed me so much that I refrained from saying what I had to say, so I came out of her apartment, and I had a friend from the Ansar. When I had been absent (from the company of the Prophet) he used to bring me the news and when he had been absent I used to bring him the news, and at that time we dreaded a king of Ghassan. It was mentioned to us that he intended to attack us, and our minds were haunted by him. My friend, the Ansari, came to me, and he knocked at the door and said, open it, open it. I said, has the Ghassani come? He said, (the matter is) more serious than that. The Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) has separated himself from his wives. I said, let the nose of Ummul Momineen Hafsa (رضي الله تعالى عنها) and Ummul Momineen A'isha (رضي الله تعالى عنها) be besmeared with dust. I then took hold of my cloth and went out until I came and found Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) in his attic to which he climbed by means of a ladder made of date-palm, and the servant of Allah's Apostle ( صلى الله عليه وآله وسلم) who was black had been sitting at the end of the ladder. I said, this is Umar ( رضي الله تعالى عنه). So, permission was granted to me. I narrated this news to Allah's Apostle ( صلى الله عليه وآله وسلم) and as I narrated the news concerning Ummul Momineen Umm Salama ( رضي الله تعالى عنها), Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) smiled. He was lying on the mat and there was nothing between him and that (mat), and under his head there was a pillow made of leather and it was stuffed with palm fiber and at his feet were lying a heap of a tree leaves meant for dyeing and near his head there was hanging a hide. And I saw the marks of the mat on the side of Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم), and so I wept. He said, what makes you weep? I said, Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم), the Khosrow and the Caesars (spend their lives in) the midst of (luxuries), whereas you are Allah's Apostle (are leading your life this way). Thereupon Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) said, do not you like that they should have riches of their world, and you have the Hereafter.

معمر نے زہری سے ، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا : میں شدت سے خواہش مند رہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نبی ﷺ کی ازواج میں سے ان دو کے بارے میں سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : "" اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو تو یقینا تمہارے دل آگے جھک گئے ہیں "" حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حج ( کا سفر ) کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا ، ( واپسی پر ) ہم راستے کے ایک حصے میں تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ ( اپنی ضرورت کے لیے راستے سے ) ایک طرف ہٹ گئے اور میں بھی پانی کا برتن لیے ان کے ساتھ ہٹ گیا ، وہ صحرا میں چلے گئے ، پھر میرے پاس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی انڈیلا ، انہوں نے وضو کیا تو میں نے کہا : اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی بیویوں میں سے وہ دو کون سی تھیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : "" اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرو تو یقینا تمہارے دل جھک گئے ہیں؟ "" عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ابن عباس! تم پر تعجب ہے! ۔ ۔ ۔ زہری نے کہا : اللہ کی قسم! انہوں ( ابن عباس رضی اللہ عنہ ) نے جو سوال ان سے کیا ، وہ انہیں برا لگا اور انہوں نے ( اس کا جواب ) چھپایا بھی نہیں ۔ ۔ انہوں نے کہا : وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بات سنانے لگے اور کہا : ہم قریش کے لوگ ایسی قوم تھے جو اپنی عورتوں پر غالب تھے ، جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسے لوگ پائے جن پر ان کی عورتیں غالب تھیں ، چنانچہ ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں سے سیکھنا شروع کر دیا ۔ ( مردوں کو پلٹ کر جواب دینے لگیں ۔ ) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : میرا گھر بالائی علاقے بنی امیہ بن زید کے محلے میں تھا ، ایک دن میں اپنی بیوی پر ناراض ہوا ، تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی ، مجھے اس کا جواب دینا بڑا ناگوار گزرا تو اس نے کہا : تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دوں؟ اللہ کی قسم! نبی ﷺ کی ازواج بھی آپ ﷺ کو جواب دے دیتی ہیں ، اور ان میں سے کوئی ایک تو آپ ﷺ کو رات تک پورا دن چھوڑ بھی دیتی ہے ( روٹھی رہتی ہے ۔ ) میں چلا ، حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا اور کہا : کیا تم رسول اللہ ﷺ کو پلٹ کر جواب دے دیتی ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ میں نے ( پھر ) پوچھا : کیا تم میں سے کوئی انہیں رات تک دن بھر کے لیے چھوڑ بھی دیتی ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہاں! میں نے کہا : تم میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو جاتی ہے کہ اپنے رسول ﷺ کی ناراضی کی وجہ سے اللہ ( بھی ) اس پر ناراض ہو جائے گا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گی؟ ( آیندہ ) تم رسول اللہ ﷺ کو جواب دینا نہ ان سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا ، تمہیں جو چاہئے مجھ سے مانگ لینا ۔ تمہیں یہ بات دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی ( سوکن ) تم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب ہے ۔ ۔ ان کی مراد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ۔ ۔ انصار میں سے میرا ایک پڑوسی تھا ۔ ۔ ہم باری باری ( بالائی علاقے سے ) اتر کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔ ایک دن وہ اترتا اور ایک دن میں اترتا ، وہ میرے پاس وحی وغیرہ کی خبریں لاتا اور میں بھی ( اپنی باری کے دن ) اس کے پاس اسی طرح کی خبریں لاتا ۔ اور ( ان دنوں ) ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ غسانی ہمارے ساتھ لڑائی کرنے کے لیے گھوڑوں کو کھڑیاں لگا رہے تھے ، میرا ساتھی ( رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے عوالی سے ) اترا ، پھر عشاء کے وقت میرے پاس آیا ، میرا دروازہ کھٹکھٹایا ، پھر مجھے آواز دی ، میں باہر نکلا تو اس نے کہا : ایک بہت بڑا واقعہ رونما ہو گیا ہے ۔ میں نے پوچھا : کیا ہوا؟ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا : نہیں ، بلکہ وہ اس سے بھی بڑا اور لمبا چوڑا ( معاملہ ) ہے ۔ نبی ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ۔ میں نے کہا : حفصہ تو ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑ گئی ۔ میں تو ( پہلے ہی ) سمجھتا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے ۔ ( دوسرے دن ) جب میں صبح کی نماز پڑھ چکا تو اپنے کپڑے پہنے ، مدینہ میں آیا اور حفصہ کے پاس گیا ، وہ رو رہی تھی ۔ میں نے پوچھا : کیا رسول اللہ ﷺ نے تم سب کو طلاق دے دی ہے؟ اس نے کہا : میں نہیں جانتی ، البتہ آپ الگ تھلگ اس بالاخانے میں ہیں ۔ میں آپ کے سیاہ فام غلام کے پاس آیا ، اور اسے کہا ، عمر کے لیے اجازت مانگو ۔ وہ گیا ، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا : میں نے آُ ﷺ کے سامنے تمہارا ذکر کیا مگر آپ خاموش رہے ۔ میں چلا آیا حتی کہ منبر کے پاس آ کر بیٹھ گیا ، تو وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے ، ان میں سے بعض رو رہے تھے ، میں تھوڑی دیر بیٹھا ، پھر جو کیفیت مجھ پر طاری تھی وہ مجھ پر غالب آ گئی ۔ میں پھر غلام کے پاس آیا اور کہا : عمر کے لیے اجازت مانگو ، وہ اندر داخل ہوا ، پھر میری طرف باہر آیا اور کہا : میں نے آپ ﷺ کے سامنے تمہارا ذکر کیا ، مگر آپ خاموش رہے ۔ میں پیٹھ پھیر کر مڑا تو اچانک غلام مجھے بلانے لگا ، اور کہا : اندر چلے جاؤ ، آپ ﷺ نے تمہیں اجازت دے دی ہے ۔ میں اندر داخل ہوا ، رسول اللہ ﷺ کو سلام عرض کیا تو دیکھا کہ آپ بنتی کی ایک چٹائی پر سہارا لے کر بیٹھے تھے ، جس نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دیے تھے ، میں نے عرض کی : کیا آپ نے اللہ کے رسول! اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے میری طرف ( دیکھتے ہوئے ) اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا : "" نہیں ۔ "" میں نے کہا : اللہ اکبر ۔ اللہ کے رسول! اگر آپ ہمیں دیکھتے تو ہم قریش ایسی قوم تھے جو اپنی بیویوں پر غالب رہتے تھے ۔ جب ہم مدینہ آئے تو ہم نے ایسی قوم کو پایا جن کی عورتیں ان پر غالب تھیں ، تو ہماری عورتوں نے بھی ان کی عورتوں ( کی عادت ) سے سیکھنا شروع کر دیا ، چنانچہ ایک دن میں اپنی بیوی پر برہم ہوا تو وہ مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی ۔ مجھے اس کا جواب دینا انتہائی ناگوار گزرا ، اس نے کہا : تمہیں یہ ناگوار گزرتا ہے کہ میں تمہیں جواب دیتی ہوں؟ اللہ کی قسم! نبی ﷺ کی بیویاں بھی آپ کو جواب دے دیتی ہیں ، اور ان میں سے کوئی تو آپ کو رات تک چھوڑ بھی دیتی ( روٹھ بھی جاتی ) ہے ۔ تو میں نے کہا : ان میں سے جس نے ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور خسارے میں پڑی ۔ کیا ( یہ کام کر کے ) ان میں سے کوئی اس بات سے بے خوف ہو سکتی ہے کہ اپنے رسول کی ناراضی کی وجہ سے اللہ اس پر ناراض ہو جائے ( اگر ایسا ہوا ) تو وہ تباہ ہو گئی ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ مسکرا دیے تو میں نے کہا : اللہ کے رسول! میں حفصہ کے پاس گیا اور اس نے کہا : تمہیں یہ بات کسی دھوکے میں نہ ڈال دے کہ تمہاری ہمسائی ( سوکن ) تم سے زیادہ خوبصورت اور اللہ کے رسول ﷺ کو تم سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس پر آپ دوبارہ مسکرائے تو میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! ( کچھ دیر بیٹھ کر ) بات چیت کروں ، آپ نے فرمایا : "" ہاں ۔ "" چنانچہ میں بیٹھ گیا اور میں نے سر اوپر کر کے گھر میں نگاہ دوڑائی تو اللہ کی قسم! اس میں تین چمڑوں کے سوا کچھ نہ تھا جس پر نظر پڑتی ، میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! دعا فرمائیے کہ اللہ آپ کی امت پر فراخی فرمائے ۔ فارسیوں اور رومیوں پر وسعت کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے ۔ اس پر آپ ﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے ، پھر فرمایا : "" ابن خطاب! کیا تم کسی شک میں مبتلا ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان ( کے حصے ) کی اچھی چیزیں جلد ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں ۔ "" میں نے عرض کی : اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب کیجیے ۔ اور آپ نے ان ( ازواج ) پر سخت غصے کی وجہ سے قسم کھا لی تھی کہ ایک مہینہ ان کے پاس نہیں جائیں گے ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب فرمایا ۔ ( کہ بیویوں کی بات پر آپ کیوں غمزدہ ہوتے اور حلال چیزوں سے دور رہنے کی قسم کھاتے ہیں

Mu'ammar ne Zahri se, unhon ne 'Ubaidullah bin 'Abdillah bin Abi Thu'r se, unhon ne Hazrat Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه) se riwayat ki, unhon ne kaha: main shiddat se khwahishmand raha tha ke Hazrat Umar (رضي الله تعالى عنه) se Nabi (صلى الله عليه وآله وسلم) ki azwaj mein se un do ke baare mein sawal karoon jin ke muta'alliq Allah Ta'ala ne farmaya: "Agar tum donon Allah se tauba karti ho to yaqinan tumhare dil aage jhuk gaye hain" hatta ke Hazrat Umar (رضي الله تعالى عنه) ne Hajj (ka safar) kiya aur main ne bhi un ke sath Hajj kiya, (wapsi par) hum raste ke ek hisse mein the ke Umar (رضي الله تعالى عنه) (apni zarurat ke liye raste se) ek taraf hat gaye aur main bhi pani ka bartan liye un ke sath hat gaya, woh sahra mein chale gaye, phir mere pass aaye to main ne un ke hathon par pani indila, unhon ne wazu kiya to main ne kaha: "Ai Amir ul Momineen! Nabi (صلى الله عليه وآله وسلم) ki biwiyon mein se woh do kon si thi jin ke baare mein Allah Ta'ala ne farmaya hai: "Agar tum donon Allah se tauba karo to yaqinan tumhare dil jhuk gaye hain?" Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: "Ibn Abbas! Tum par ta'ajjub hai! . . . Zahri ne kaha: "Allah ki qasam! Unhon (Ibn Abbas (رضي الله تعالى عنه) ) ne jo sawal un se kiya, woh unhen bura laga aur unhon (is ka jawab) chhupaya bhi nahi . . . Unhon ne kaha: "Woh Hafsah aur Ayesha (رضي الله تعالى عنه) thin." Phir Hazrat Umar (رضي الله تعالى عنه) baat sunane lagay aur kaha: "Hum Quraish ke log aisi qoum the jo apni auraton par ghalib the, jab hum Madina aaye to hum ne aise log paye jin par un ki auratien ghalib thin, chananche hamari auraton ne bhi un ki auraton se seekhna shuru kar diya. (Mardon ko palt kar jawab dene lagi. ) Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: "Mera ghar balaie ilaqe Bani Umayya bin Zaid ke mahalle mein tha, ek din main apni biwi par naraz hua, to woh mujhe palt kar jawab dene lagi, mujhe is ka jawab dena bada nagawar guzara to us ne kaha: "Tumhen yeh nagawar guzarta hai ke main tumhen jawab doon? Allah ki qasam! Nabi (صلى الله عليه وآله وسلم) ki azwaj bhi aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ko jawab de deti hain, aur in mein se koi ek to aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ko raat tak pura din chhod bhi deti hai (rothi rehti hai.) Main chala, Hafsah radiyallahu anha ke han gaya aur kaha: "Kya tum Rasoolullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko palt kar jawab de deti ho?" Unhon ne kaha: "Ji han." Main ne (phir) poocha: "Kya tum mein se koi unhen raat tak din bhar ke liye chhod bhi deti hai?" Unhon ne kaha: "Ji han!" Main ne kaha: "Tum mein se jis ne bhi aisa kiya woh nakam hui aur khasare mein padi. Kya tum mein se koi is baat se be khauf ho jati hai ke apne Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم) ki narazi ki wajah se Allah (bhi) is par naraz ho jayega to woh tabah o barbad ho jayegi? (Aindah) tum Rasoolullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko jawab dena nahin un se kisi cheez ka mutaliba karna, tumhen jo chahiye mujh se mang lena. Tumhen yeh baat dhoke mein nahin dal de ke tumhari hamsai (sukan) tum se zyada khoobsoorat aur Rasoolullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko zyada mahaboob hai . . . Un ki mraad Hazrat Ayesha radiyallahu anha se thi. Hazrat Umar (رضي الله تعالى عنه) ne kaha: . . . Ansar mein se mera ek padoosi tha . . . Hum bari bari (balaie ilaqe se) utar kar Rasoolullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein haazir hote the. Ek din woh utarta aur ek din main utarta, woh mere pass wahi waghera ki khabarain lata aur main bhi (apni bari ke din) us ke pass isi tarah ki khabarain lata. Aur (un dinon) hum aapas mein baatein kar rahe the ke Ghassani hamare sath ladhai karne ke liye ghodon ko khariyan laga rahe the, mera saathi (Rasoolullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein haazir hone ke liye awali se) utra, phir Isha ke waqt mere pass aya, mera darwaza khutkhutya, phir mujhe awaz di, main bahar nikla to us ne kaha: "Ek bahut bada waqia ronma ho gaya hai." Main ne poocha: "Kya hua? Kya Ghassani aa gaye?" Us ne kaha: "Nahin, balke woh is se bhi bada aur lamba choda (mu'amala) hai."Nabi صلی اللہ علیہ وسلم ne apni biwiyon ko talaq de di hai. Main ne kaha: Hafsah to nakam hui aur khasare mein pad gayi. Main to (pehlay hi) samjhata tha ke aisa hone wala hai. (Dusre din) jab main subah ki namaz padh chuka to apne kapray pehnay, Madina mein aaya aur Hafsah ke pass gaya, woh ro rahi thi. Main ne poocha: Kya Rasool Allah صلی اللہ علیہ وسلم ne tum sab ko talaq de di hai? Us ne kaha: Main nahi jaanti, balki aap alg thalag is balakhanay mein hain. Main aap ke siyah faam ghulam ke pass aaya, aur use kaha: Umar ke liye ijazat mango. Woh gaya, phir meri taraf bahar aaya aur kaha: Main ne Aap صلی اللہ علیہ وسلم ke samne tumhara zikr kiya magar aap khamosh rahay. Main chala aaya hathi ke manbar ke pass aakar baith gaya, to wahan bahut se log baithay thay, in mein se baaz ro rahay thay, main thodi der baitha, phir jo kayfiyat mujh per tari thi woh mujh per ghalib aa gayi. Main phir ghulam ke pass aaya aur kaha: Umar ke liye ijazat mango, woh andar daakhil hua, phir meri taraf bahar aaya aur kaha: Main ne Aap صلی اللہ علیہ وسلم ke samne tumhara zikr kiya, magar aap khamosh rahay. Main peeth phir kar mada to achanak ghulam mujhe bulane laga, aur kaha: Andar chale jao, Aap صلی اللہ علیہ وسلم ne tumhein ijazat de di hai. Main andar daakhil hua, Rasool Allah صلی اللہ علیہ وسلم ko salam arz kiya to dekha ke Aap banati ki ek chatai per sahaara le kar baithe thay, jis ne Aap ke pahloo per nishan daal diye thay. Main ne arz ki: Kya Aap ne Allah ke Rasool! apni biwiyon ko talaq de di hai? Aap ne meri taraf (dekhty huway) apna sar mubarak uthaya aur farmaaya: ""Nahin. "" Main ne kaha: Allah Akbar. Allah ke Rasool! agar Aap humhein dekhte to hum Quraish aisi qoum thi jo apni biwiyon per ghalib rahte thay. Jab hum Madina aaye to hum ne aisi qoum ko paya jin ki aurtein in par ghalib thin, to hamari aurton ne bhi in ki aurton (ki adat) se seekhna shuru kar diya, chananchh ek din main apni bivi per barham hua to woh mujhe palat kar jawab dene lagi. Mujhe is ka jawab dena intehai nagawar guzara, us ne kaha: Tumhein ye nagawar guzarta hai ke main tumhein jawab deti hun? Allah ki qasam! Nabi صلی اللہ علیہ وسلم ki biwiyan bhi aap ko jawab de deti hain, aur in mein se koi to aap ko raat tak chhoor bhi deti (roth bhi jati) hai. To main ne kaha: In mein se jis ne aisa kiya woh nakam hui aur khasare mein padi. Kya (yeh kaam kar ke) in mein se koi is baat se be khauf ho sakti hai ke apne Rasool ki narazgi ki wajah se Allah is per naraz ho jaye (agar aisa hua) to woh tabah ho gayi. Is per Rasool Allah صلی اللہ علیہ وسلم muskura diye to main ne kaha: Allah ke Rasool! Main Hafsah ke pass gaya aur us ne kaha: Tumhein ye baat kisi dhokay mein na daal de ke tumhari hamsai (sukun) tum se ziada khubsurat aur Allah ke Rasool صلی اللہ علیہ وسلم ko tum se ziada mohabbat hai. Is per Aap dobara muskraye to main ne arz ki: Allah ke Rasool! (Kuchh der baith kar) baat cheet karun, Aap ne farmaaya: ""Haaan. "" Chananchh main baith gaya aur main ne sar ooper kar ke ghar mein nigah daurai to Allah ki qasam! Is mein teen chamron ke siwa kuchh na tha jis per nazar padti. Main ne arz ki: Allah ke Rasool! Dua farmaye ke Allah aap ki ummat per farakhi farmaye. Farsiyon aur Romiyon per wasaat ki gayi hai halankeh woh Allah Taala ki ibadat nahi karte. Is per Aap صلی اللہ علیہ وسلم sidhay ho kar baith gaye, phir farmaaya: ""Ibn Khatab! Kya tum kisi shak mein mubtala ho? Yeh aise log hain jinhon ne in (ke hisse) ki achchi cheezain jaldi hi duniya mein de di gayi hain. "" Main ne arz ki: Allah ke Rasool! Mere liye bakhshish talab kije. Aur aap ne un (azwaj) per sakht ghusse ki wajah se qasam kha li thi ke ek mahina un ke pass nahin jayenge. Yahan tak ke Allah Taala ne aap per atab farmaaya. (Ke biwiyon ki baat per aap kyon ghamzada hote aur halal cheezon se door rahnay ki qasam khate hain

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ، - يَعْنِي ابْنَ بِلاَلٍ - أَخْبَرَنِي يَحْيَى، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، يُحَدِّثُ قَالَ مَكَثْتُ سَنَةً وَأَنَا أُرِيدُ، أَنْ أَسْأَلَ، عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْلَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعَ فَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ ‏.‏ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ ‏.‏ قَالَ فَلاَ تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَسَلْنِي عَنْهُ فَإِنْ كُنْتُ أَعْلَمُهُ أَخْبَرْتُكَ - قَالَ - وَقَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَأْتَمِرُهُ إِذْ قَالَتْ لِي امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا فَقُلْتُ لَهَا وَمَا لَكِ أَنْتِ وَلِمَا هَا هُنَا وَمَا تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ ‏.‏ قَالَ عُمَرُ فَآخُذُ رِدَائِي ثُمَّ أَخْرُجُ مَكَانِي حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ ‏.‏ فَقَالَتْ حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ ‏.‏ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ يَا بُنَيَّةُ لاَ يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي قَدْ أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا وَحُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِيَّاهَا ‏.‏ ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ لِي أُمُّ سَلَمَةَ عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَدْ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَىْءٍ حَتَّى تَبْتَغِي أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَزْوَاجِهِ ‏.‏ قَالَ فَأَخَذَتْنِي أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَنَحْنُ حِينَئِذٍ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدِ امْتَلأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَأَتَى صَاحِبِي الأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ وَقَالَ افْتَحِ افْتَحْ ‏.‏ فَقُلْتُ جَاءَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَزْوَاجَهُ ‏.‏ فَقُلْتُ رَغِمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ ‏.‏ ثُمَّ آخُذُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يُرْتَقَى إِلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلاَمٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ هَذَا عُمَرُ ‏.‏ فَأُذِنَ لِي ‏.‏ قَالَ عُمَرُ فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَىْءٌ وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَضْبُورًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أُهُبًا مُعَلَّقَةً فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَبَكَيْتُ فَقَالَ ‏"‏ مَا يُبْكِيكَ ‏"‏ ‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا وَلَكَ الآخِرَةُ ‏"‏ ‏.‏