32.
The Book of Jihad and Expeditions
٣٢-
كتاب الجهاد والسير
16
Chapter: The words of the Prophet (saws): "We (Prophets) have no heirs and whatever we leave behind is charity."
١٦
باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم " لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ "
Sahih Muslim 1759a
Ummul Momineen Aisha (رضي الله تعالى عنها) narrated that, Fatima (رضي الله تعالى عنها) the daughter of the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم) sent someone to Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) (when he was a caliph), asking for her inheritance of what Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) had left of the property bestowed on him by Allah from the Fay (booty gained without fighting) in Madina, and Fadak, and what remained of the Khumus of the Khaibar booty. On that, Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) said, ‘Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) said, ‘our property is not inherited. Whatever we leave, is Sadaqa, but the family of (the Prophet) Muhammad (صلى الله عليه وآله وسلم) can eat of this property.' By Allah, I will not make any change in the state of the Sadaqa of Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) and will leave it as it was during the lifetime of Allah's Apostle ( صلى الله عليه وآله وسلم), and will dispose of it as Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) used to do.’ So, Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) refused to give anything of that to Fatima (رضي الله تعالى عنها). So, she became angry with Abu Bakr (رضئ هللا تعال ی عنہ) and kept away from him and did not speak to him till she died. She remained alive for six months after the death of the Prophet ( صلى الله عليه وآله وسلم). When she died, her husband Ali ( رضي الله تعالى عنه), buried her at night without informing Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) and he said the funeral prayer by himself. When Fatima (رضي الله تعی ال عنہا) was alive, the people used to respect Ali (رضي الله تعالى عنه) much, but after her death, Ali (رضي الله تعالى عنه) noticed a change in the people's attitude towards him. So, Ali (رضي الله تعالى عنه) sought reconciliation with Abu Bakr (رضئ هللا تی عال عنہ) and gave him an oath of allegiance. Ali (رضئ هللا تعال ی عنہ) had not given the oath of allegiance during those months (the period between the Prophet's ﷺ - death and Fatima's - رضي الله تعالى عنها death). Ali (رضي الله تعالى عنه) sent someone to Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) saying, come to us, but let nobody come with you,’ as he disliked that Umar (رضي الله تعالى عنه) should come, Umar ( رضئ هللاتعالی عنہ) said (to Abu Bakr - رضي الله تعالى عنه), ‘No, by Allah, you shall not go to them alone, Abu Bakr (رضئ هللا تعال ی عنہ) said, ‘what do you think they will do to me? By Allah, I will go to them. So, Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) went to them, and then Ali (رضي الله تعالى عنه) recited Tashah-hud and said (to Abu Bakr رضئ هللا تعالی عنہ), ‘we know well your superiority and what Allah has given you, and we are not jealous of the good what Allah has bestowed upon you, but you did not consult us in the question of the rule and we thought that we have got a right in it because of our near relationship to Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) ." Thereupon, Abu Bakr's (رضي الله تعالى عنه) eyes flowed with tears. And when Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) spoke, he said, ‘by Him in Whose Hand my soul is to keep good relations with the relatives of Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) is dearer to me than to keep good relations with my own relatives. But as for the trouble which arose between me and you about his property, I will do my best to spend it according to what is good, and will not leave any rule or regulation which I saw Allah's Apostle (صلى الله عليه وآله وسلم) following, in disposing of it, but I will follow.’ On that Ali ( رضئهللا تعالی عنہ) said to Abu Bakr ( رضي الله تعالى عنه), ‘I promise to give you the oath of allegiance in this afternoon.’ So, when Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) had offered the Zuhr prayer, he ascended the pulpit and recited the Tashah-hud and then mentioned the story of Ali (رضي الله تعالى عنه) and his failure to give the oath of allegiance, and excused him, accepting what excuses he had offered. Then Ali (رضي الله تعالى عنه) got up and praying to Allah for forgiveness, he recited Tashah-hud, praised Abu Bakr's (رضي الله تعالى عنه) right, and said, that he had not done what he had done because of jealousy of Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) or as a protest of that Allah had favored him with. Ali (رضي الله تعالى عنه) added, ‘but we used to consider that we too had some right in this affair (of rulership) and that he (Abu Bakr رضي الله تعالى عنه) did not consult us in this matter, and therefore caused us to feel sorry.’ On that all the Muslims became happy and said, ‘you have done the right thing.’ The Muslims then became friendly with Ali ( رضئ هللاتعالی عنہ) as he returned to what the people had done (giving the oath of allegiance to Abu Bakr - رضي الله تعالى عنه).
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اپنا ترکہ مانگنے کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے جو اﷲ تعالیٰ نے دئیے آپ کو مدینہ میں اور فدک میں اور جو کچھ بچتا تھا خیبر کے خمس میں سے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جاویں وہ صدقہ ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اسی مال میں سے کھاوے گی اور میں تو قسم خدا کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو کچھ بھی نہیں بدلوں گا اس حال سے جیسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کچھ دینے اور حضرت فاطمہ کو غصہ آیا انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ وفات ہوئی ان کی ( نوویؒ نے کہا یہ ترک ملاقات وہ ترک نہیں جو شرع میں حرام ہے او روہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے ) اور وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں۔ ( بعضوں نے کہا آٹھ مہینے یا نو مہینے یا دو مہینے یا ستر دن ) بہرحال تین تاریخ رمضان مبارک ۱۱ھ مقدس کو انہوں نے انتقال فرمایا۔ جب ان کا انتقال ہوا ت وان کے خاوند حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو دفن کیااور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خبر نہ کی ( اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا بھی جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو ) اور نماز پڑھی ان پر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اور جب تک حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ زندہ تھیں تب تک لوگ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی طرف مائل تھے ( بوجہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ) ۔ جب وہ انتقال کرگئیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا لوگ میری طرف سے پھر گئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کرلینا چاہا اور ان سے بیعت کرلینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزرے تھے انہوں نے بیعت نہیں کی تھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا او ریہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آوے کیونکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا قسم خدا کی تم اکیلے ان کے پاس نہ جاؤگے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا وہ میرے ساتھ کیا کریں گے قسم خدا کی میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا ( جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں ) پھر کہا ہم نے پہچانا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ تمہاری فضیلت کو اور جو اﷲ نے تم کو دیا اور ہم رشک نہیں کرتے اس نعمت پر جو اﷲ نے تم کو دی ( یعنی خلافت او رحکومت ) لیکن تم نے اکیلے اکیلے یہ کام کرلیا اور ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا بھی حق ہے اس میں کیونکہ ہم قرابت رکھتے تھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ پھر برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو کہا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھ کو اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت ( یعنی فدک اور نضیر او رخمس خیبر وغیرہ ) اختلاف ہوا تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا او رمیں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے دیکھا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے بلکہ اس کو میں نے کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا اچھا آج سہ پہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے تو منبر پر چڑھے اور تشہد پڑھا او رحضرت علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر کرنے کا بیعت سے اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا وہ بھی کہا پھر دعا کی مغفرت کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر کرنا بیعت میں اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر شک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت میں ہمارا بھی حصہ ہے اور حضرت ابوبکر نے اکیلے بعیر صلاح کے یہ کام کرلیا اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے مسلمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل ہوگئے جب انہوں نے واجبی امر کو اختیار کیا۔
Am al-Mumineen Hazrat Ayesha (رضي الله تعالى عنه) se riwayat hai, Hazrat Fatima Zahra (رضي الله تعالى عنه) , Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki Sahibzati ne Hazrat Abu Bakr Siddiq (رضي الله تعالى عنه) ke pas kisi ko bhija apna turka mangne ko, Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke un malon mein se jo Allah Ta'ala ne diye aapko Madina mein aur Fadak mein aur jo kuchh bachta tha Khaibar ke khums mein se. Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ne kaha, Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya, "Hamara koi waris nahin hota aur jo hum chhoren jawein woh sadaqa hai aur Hazrat Muhammad (صلى الله عليه وآله وسلم) ki aulad usi mal mein se khawe gi aur mein to qasam Khuda ki Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke sadaqa ko kuchh bhi nahin badlon ga is hal se jaise Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke zamana Mubarak mein tha aur mein is mein wahi kam karun ga jo Janab Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) karte the." Gharz ki Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ne inkar kiya Hazrat Fatima (رضي الله تعالى عنه) ko kuchh dene aur Hazrat Fatima ko ghussa aya, unhon ne Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) se mulaqat chhod di aur baat nahin ki yahaan tak ki wafat hui un ki (Nouvi\u00e2\u20ac\u201d ne kaha yeh turk mulaqat woh turk nahin jo shar' mein haram hai aur woh yeh hai ki mulaqat ke waqt salam nahin kare ya salam ka jawab nahin de) aur woh Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke baad sirf chh mahina zinda rahein. (Bazon ne kaha aath mahine ya nau mahine ya do mahine ya sattar din) Baharhal teen tarikh Ramadan Mubarak 11H muqaddas ko unhon ne intikal farmaya. Jab un ka intikal hua to un ke khawand Hazrat Ali bin Abi Talib (رضي الله تعالى عنه) ne un ko raat ko dafan kiya aur Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ko khabar nahin ki (is se maloom hua ke raat ko dafan karna bhi jaiz hai aur din ko afzal hai agar koi uzr nahin ho) aur namaz padhi un par Hazrat Ali Karam Allah Wajhuh ne aur jab tak Hazrat Fatima Zahra (رضي الله تعالى عنه) zinda thi tab tak log Hazrat Ali Karam Allah Wajhuh ki taraf mail the (bojuh Fatima (رضي الله تعالى عنه) ke). Jab woh intikal kar gayin to Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne dekha log meri taraf se phir gaye. Unhon ne Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) se sulh kar lena chaha aur un se bay'at kar lena munasib samjha aur abhi tak kai mahine guzar gaye the unhon ne bay'at nahin ki thi Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) se to Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne Hazrat Abu Bakr Siddiq (رضي الله تعالى عنه) ko bula bhija aur yeh kehlabhija ke aap akela aaiye aap ke sath koi nahin aave kyon ke woh Hazrat Umar (رضي الله تعالى عنه) ka aana napasand karte the. Hazrat Umar (رضي الله تعالى عنه) ne Hazrat Abu Bakr Siddiq (رضي الله تعالى عنه) se kaha, "Qasam Khuda ki tum akela in ke pas nahin jaonge." Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ne kaha, "Woh mere sath kya karenge, qasam Khuda ki mein to akela jaon ga." Akhir Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) un ke pas gaye aur Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne tashahhud padha (jaise khutba ke shuru mein padhte hain) phir kaha, "Hum ne pehchana, ae Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) tumhari fazilat ko aur jo Allah ne tum ko diya aur hum rashk nahin karte is ne'mat par jo Allah ne tum ko di (yani khilafat aur hukumat) lekin tum ne akela akela yeh kam kar liya aur hum samajhte the ke hamara bhi haq hai is mein kyon ke hum qarabat rakhte the Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) se." Phir barabar Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) se baatein karte rahe yahaan tak ke Hazrat Abu Bakr Siddiq (رضي الله تعالى عنه) ki aankhein bhar aayi. Jab Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ne guftgu shuru ki to kaha, "Qasam us ki jis ke hath mein meri jaan hai Janab Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki qarabat ka lihaaz mujh ko apni qarabat se zyada hai aur yeh jo mujh mein aur tum mein in baaton ki babat (yani Fadak aur Nadhir aur khums Khaibar waghaira) ikhtilaaf hua to mein ne haq ko nahin chhoda aur mein ne woh koi kam nahin chhoda jis ko mein ne dekha Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko karte huye balke is ko mein ne kiya." Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) se kaha, "Achha aaj seh pahar ko hum aap se bay'at karenge." Jab Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) zuhr ki namaz se farig hue to mimbar par chare aur tashahhud padha aur Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ka qissa bayan kiya aur un ke der karne ka bay'at se aur jo uzr unhon ne bayan kiya tha woh bhi kaha phir dua ki maghfirat ki aur Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ne tashahhud padha aur Hazrat Abu Bakr Siddiq (رضي الله تعالى عنه) ki fazilat bayan ki aur yeh kaha ke mera der karna bay'at mein is wajh se nahin tha ke mujh ko Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) par shak hai ya un ki buzurghi aur fazilat ka mujhe inkar hai balke hum yeh samajhte the ke is khilafat mein hamara bhi hissa hai aur Hazrat Abu Bakr ne akela ba'ir salaah ke yeh kam kar liya is wajh se hamare dil ko yeh ranj hua. Yeh sun kar musalman khush hue aur sab ne Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) se kaha, "Tum ne theek kam kiya." Is roz se musalman Hazrat Ali (رضي الله تعالى عنه) ki taraf mail ho gaye jab unhon ne wajibi amar ko ikhtiyar kiya.
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، أَخْبَرَنَا حُجَيْنٌ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم - فِي هَذَا الْمَالِ " . وَإِنِّي وَاللَّهِ لاَ أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ - قَالَ - فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَيْلاً وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وِجْهَةٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ بَايَعَ تِلْكَ الأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلاَ يَأْتِنَا مَعَكَ أَحَدٌ - كَرَاهِيَةَ مَحْضَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - فَقَالَ عُمَرُ لأَبِي بَكْرٍ وَاللَّهِ لاَ تَدْخُلْ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ . فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَمَا عَسَاهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي إِنِّي وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ . فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ . فَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَضِيلَتَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالأَمْرِ وَكُنَّا نَحْنُ نَرَى لَنَا حَقًّا لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم . فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُ أَبَا بَكْرٍ حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحَبُّ إِلَىَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَمْوَالِ فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهِ عَنِ الْحَقِّ وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلاَّ صَنَعْتُهُ . فَقَالَ عَلِيٌّ لأَبِي بَكْرٍ مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ . فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ صَلاَةَ الظُّهْرِ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَأَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَلاَ إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا كُنَّا نَرَى لَنَا فِي الأَمْرِ نَصِيبًا فَاسْتُبِدَّ عَلَيْنَا بِهِ فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا أَصَبْتَ . فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الأَمْرَ الْمَعْرُوفَ .