44.
Book of Military Campaigns
٤٤-
كِتَابُ الْمَغَازِي
The Conversion of Salman, may Allah be pleased with him
إِسْلَامُ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
Musannaf Ibn Abi Shaybah 36605
Hazrat Salman narrates that I was from the lineage of horsemen of Persia. I was in a school and there were two boys with me. When both these boys came back from their teacher, they came to a priest and entered upon him. So I also entered upon that priest along with them. The priest said, 'Didn't I forbid both of you (boys) from bringing anyone to me?' Hazrat Salman says, 'I started visiting that priest, until I became more beloved to him than both those boys.' Hazrat Salman says, 'The priest said to me, 'When your family members ask you who kept you busy, then you say, 'My teacher.' And when your teacher asks you who kept you busy, then you say, 'My family members.'' 2. Then that priest intended to migrate (from there). So I said to that priest, 'I will also migrate with you.' So I migrated along with him and we landed in a village. Then a woman used to come to him (there). Then, when the time of that priest's death approached, that priest said to me, 'O Salman! Dig a pit near my head.' I dug a pit near him, and a pot of Dirhams came out. The priest said to me, 'Place this pot on my chest.' I placed that pot on his chest. Then the priest started saying, 'Destruction be upon my hoarding.' Then that priest died. I intended to take the Dirhams. Then I remembered his words, so I left the Dirhams. Then I informed the priests and worshippers about his death, so they came to him. I said to those who were present, 'This deceased has left some wealth.' Hazrat Salman says, 'Some young men from the village stood up and said, 'This is our father's wealth.' So they took that wealth.' 3. Hazrat Salman says, 'I said to the worshippers, 'Tell me about a knowledgeable person so that I may follow him.' They replied, 'We do not know of anyone more knowledgeable on the face of the earth than the man of Homs.' So I set out towards him and I met him. And I narrated this whole story to him.' Hazrat Salman says, 'He said, 'Did only the pursuit of knowledge bring you (here)?' I replied, 'Only the pursuit of knowledge brought me (here).' He said, 'I do not know of anyone more knowledgeable today on the face of the earth than a man who comes to Jerusalem every year. If you leave now, you will find his donkey present.' Hazrat Salman says, 'I set out, and suddenly I found his donkey present at the gate of Jerusalem. So I sat down near it, and that man had left. I did not see that man for a whole year. Then that man came, and I said to him, 'O servant of Allah! What have you done with me?' He asked, 'And (what) you are (still) here?' I replied, 'Yes!' He said, 'By Allah! I do not know of anyone more knowledgeable than the man who has appeared in the land of Tayma. If you leave now, you will find him, and he will have three signs: He will eat gifts and will not eat charity. And there will be a seal of Prophethood near the soft bone of his right shoulder, which will be like a pigeon's egg and its color will be like that of skin.' 4. Hazrat Salman says, 'So I left, while the ups and downs of the land continued to affect me, until I passed by some villagers, and they took me as a slave, then they sold me. Finally, a woman in Medina bought me. I heard people mentioning the Prophet (peace and blessings be upon him). Life was becoming very difficult. I said to that woman, 'Give me a gift for a day.' She said, 'Okay.' I went and collected wood and sold it. And prepared food. Then I went to the Prophet (peace and blessings be upon him) with that food. The food was a little. I placed that food in front of you (peace and blessings be upon him). You (peace and blessings be upon him) asked, 'What is this?' I submitted, 'It is charity.' It is said that you (peace and blessings be upon him) said to your companions, 'Eat.' And you (peace and blessings be upon him) did not eat yourself. Narrates, 'I said, 'This is one of the signs of that person.'' 5. Then I stayed for as long as Allah willed, then I said to my mistress, 'Give me a gift for a day.' She said, 'Okay.' I set out and gathered wood and sold it for a higher price than before and prepared food with that amount. I went to the Prophet (peace and blessings be upon him) with the food. You (peace and blessings be upon him) were present among your companions. I placed that food in front of you (peace and blessings be upon him). You (peace and blessings be upon him) asked, 'What is this?' I submitted, 'It is a gift.' So you (peace and blessings be upon him) put your blessed hand in it and said to your noble companions, 'Start in the name of Allah.' 6. And I was standing behind you (peace and blessings be upon him), and you (peace and blessings be upon him) removed your blessed shawl, and suddenly I saw the seal of Prophethood. I said, 'I bear witness that you are the Messenger of Allah.' You (peace and blessings be upon him) asked, 'What is the matter?' I told you (peace and blessings be upon him) about that person, then I asked, 'O Messenger of Allah (peace and blessings be upon him)! Will that person enter Paradise?' Because he had told me that you are a Prophet. You (peace and blessings be upon him) replied, 'Only the believing soul will enter Paradise.'
حضرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ میں فارس کے گھڑ سواروں کی اولاد میں سے تھا۔ اور میں ایک مکتب میں تھا اور میرے ساتھ دو لڑکے (اور) تھے۔ جب یہ دونوں لڑکے اپنے مُعلِّم (استاد) کے پاس سے واپس آئے تو ایک پادری کے پاس آئے اور اس پر داخل ہوئے۔ پس میں بھی ان کے ہمراہ اس پادری پر داخل ہوا۔ پادری نے کہا۔ کیا میں نے تم دونوں (لڑکوں) کو اس بات سے منع نہیں کیا تھا کہ تم میرے پاس کسی کو لے کر آؤ ؟ حضرت سلمان فرماتے ہیں : میں نے اس پادری کے پاس آنا جانا شروع کیا۔ یہاں تک کہ میں اس کو ان دونوں لڑکوں سے زیادہ محبوب ہوگیا۔ حضرت سلمان کہتے ہیں۔ پادری نے مجھے کہا : جب تجھ سے تیرے گھر والے سوال کریں کہ تمہیں کس نے روکے رکھا ؟ تو تم کہنا۔ میرے استاد نے۔ اور جب تم سے تمہارا استاد پوچھے۔ تمہیں کس نے روکے رکھا ؟ تو تم کہنا : میرے گھر والوں نے ۔ ٢۔ پھر اس پادری نے (وہاں سے) منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ تو میں نے اس پادری سے کہا۔ میں (بھی) آپ کے ساتھ نقل مکانی کروں گا۔ پس میں نے اس کے ہمراہ نقل مکانی کی اور ہم ایک بستی میں اترے۔ پس ایک عورت (وہاں پر) اس کے پاس آتی تھی۔ پھر جب اس پادری کی مرگ کا وقت قریب ہوا تو اس پادری نے مجھے کہا۔ اے سلمان ! میرے سر کے پاس گڑھا کھودو۔ میں نے اس کے پاس گڑھا کھودا تو درہموں کا ایک گھڑا نکلا۔ پادری نے مجھ سے کہا۔ اس گھڑے کو میرے سینہ پر انڈیل دو ۔ میں نے وہ گھڑا اس کے سینہ پر انڈیل دیا۔ پھر پادری کہنے لگا۔ ہلاکت ہو میری ذخیرہ اندوزی کی۔ پھر وہ پادری مرگیا۔ میں نے دراہم کو لینے کا ارادہ کیا۔ پھر مجھے اس کی بات یاد آئی تو میں نے دراہم کو چھوڑ دیا۔ پھر میں نے پادریوں اور عبادت گزاروں کو اس میت کی خبر دی تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے ۔ میں نے ان حاضرین سے کہا۔ یہ اس میت نے کچھ مال چھوڑا ہے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں : بستی میں سے کچھ نوجوان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کہا : یہ تو ہمارے باپ کا مال ہے۔ پس انھوں نے وہ مال لے لیا۔ ٣۔ حضرت سلمان کہتے ہیں میں نے عبادت گزاروں سے کہا۔ مجھے کسی صاحب علم آدمی کا بتاؤ تاکہ میں اس کے پیچھے چلوں۔ انھوں نے جواب دیا۔ ہمیں روئے زمین پر حمص کے آدمی سے بڑا صاحب علم معلوم نہیں ہے۔ سو میں اس کی طرف چل دیا اور میں نے اس سے ملاقات کی۔ اور اس کو یہ سارا قصہ سُنایا۔ حضرت سلمان کہتے ہیں۔ اس نے کہا۔ کیا تمہیں صرف علم کی طلب (یہاں) لائی ہے ؟ میں نے جواباً کہا۔ مجھے صرف علم کی طلب ہی (یہاں) لائی ہے۔ اس نے کہا : میں تو آج روئے زمین پر اس ایک آدمی سے بڑا کسی کو عالم نہیں جانتا جو آدمی ہر سال بیت المقدس میں آتا ہے۔ اگر تم ابھی چل پڑو گے تو اس کے گدھے کو موجود پاؤ گے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں۔ میں چل پڑا تو اچانک میں نے بیت المقدس کے دروازہ پر اس کے گدھے کو موجود پایا۔ پس میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور وہ آدمی چل دیا۔ میں نے اس آدمی کو پورا سال نہیں دیکھا۔ پھر وہ آدمی آیا تو میں نے اس سے کہا : اے بندۂِ خدا ! تو نے میرے ساتھ کیا کیا ہے ؟ اس نے پوچھا : اور (کیا) تم یہیں پر (رہے) ہو ؟ میں نے جواب دیا : ہاں ! اس نے کہا : مجھے تو، بخدا ! اس آدمی سے بڑے عالم کا پتہ نہیں ہے جو کہ ارض تیماء میں ظاہر ہوا ہے۔ اگر تم ابھی چل پڑو گے تو تم اس کو پالو گے اور اس میں تین نشانیاں ہوں گی۔ وہ شخص ہدیہ کھائے گا۔ اور صدقہ نہیں کھائے گا۔ اور اس کے داہنے کندھے کی نرم ہڈی کے پاس مہر نبوت ہوگی۔ جو کہ کبوتری کے انڈے کے مشابہ ہوگی اور اس کا رنگ کھال والا ہوگا۔ ٤۔ حضرت سلمان کہتے ہیں : پس میں چلا درآنحالیکہ مجھے زمین کی پستی اور بلندی متاثر کرتی رہی۔ یہاں تک میں دیہاتی لوگوں کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے غلام بنا لیا پھر انھوں نے مجھے بیچ دیا۔ یہاں تک کہ مجھے مدینہ میں ایک عورت نے خرید لیا۔ میں نے لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرتے ہوئے سُنا۔ زندگی بہت سخت گزر رہی تھی۔ میں نے اس عورت سے کہا : تم مجھے ایک دن ہدیہ کردو۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ میں چلا گیا اور لکڑیاں چُنی۔ اور ان کو فروخت کیا ۔ اور کھانا تیار کیا۔ پھر اس کھانے کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ وہ کھانا تھوڑا سا تھا۔ میں نے وہ کھانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ صدقہ ہے : کہتے ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا : کھاؤ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود تناول نہیں فرمایا : فرماتے ہیں۔ میں نے کہا : یہ اس شخص کی علامات میں سے ہے۔ ٥۔ پھر جتنی دیر اللہ نے چاہا ٹھہرا رہا پھر میں نے اپنی مالکن سے کہا۔ تم مجھے ایک دن ہدیہ کردو۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ میں چل پڑا اور لکڑیاں اکٹھی کیں اور انھیں پہلے سے زیادہ قیمت پر فروخت کیا اور اس رقم کا کھانا تیار کیا۔ کھانا لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ میں نے وہ کھانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ ہدیہ ہے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک میں داخل کیا اور اپنے صحابہ کرام سے فرمایا۔ اللہ کا نام لے کر شروع کردو۔ ٦۔ اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے والی جانب کھڑا ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر مبارک ہٹائی تو اچانک مجھے مہر نبوت دکھائی دی ۔ میں نے کہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آدمی کے بارے میں بیان کیا پھر میں نے پوچھا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا وہ شخص جنت میں جائے گا ؟ کیونکہ اس نے مجھے یہ بیان کیا تھا کہ آپ نبی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواباً ارشاد فرمایا۔ جنت میں صرف مؤمن جان ہی داخل ہوگی۔
Hazrat Salman bayan karte hain ki main Faras ke ghor sawaron ki aulaad mein se tha. Aur main ek maktab mein tha aur mere sath do larkay (aur) thay. Jab yeh donon larkay apne mu'allim (ustaad) ke pass se wapas aaye to ek padre ke pass aaye aur is par dakhil huye. Pas main bhi un ke humrah is padre par dakhil hua. Padre ne kaha. Kya maine tum donon (lڑkon) ko is baat se mana nahi kiya tha ki tum mere pass kisi ko le kar aao ? Hazrat Salman farmate hain : Maine is padre ke pass aana jana shuru kiya. Yahan tak ki main is ko in donon larkon se zyada mahboob hogaya. Hazrat Salman kahte hain. Padre ne mujhe kaha : Jab tujh se tere ghar walay sawal karen ki tumhen kis ne roke rakha ? To tum kahna. Mere ustaad ne. Aur jab tum se tumhara ustaad poochhe. Tumhen kis ne roke rakha ? To tum kahna : Mere ghar walon ne . 2. Phir is padre ne (wahan se) muntaqil hone ka irada kiya. To maine is padre se kaha. Main (bhi) aap ke sath naqal makani karoon ga. Pas maine is ke humrah naqal makani ki aur hum ek basti mein utre. Pas ek aurat (wahan par) is ke pass aati thi. Phir jab is padre ki marg ka waqt qareeb hua to is padre ne mujhe kaha. Aye Salman ! Mere sar ke pass garha khodho. Maine is ke pass garha khoda to dirhamon ka ek ghara nikla. Padre ne mujh se kaha. Is ghare ko mere seena par andail do . Maine woh ghara is ke seena par andail diya. Phir padre kahne laga. Halakat ho meri zakheera andozi ki. Phir woh padre margiya. Maine diraham ko lene ka irada kiya. Phir mujhe is ki baat yaad aai to maine diraham ko chhor diya. Phir maine padrion aur ibadat guzaron ko is mayyat ki khabar di to woh is ke pass hazir huye . Maine in hazireen se kaha. Yeh is mayyat ne kuch maal chhora hai. Hazrat Salman kahte hain : Basti mein se kuch jawan kharay hogaye aur unhon ne kaha : Yeh to humare baap ka maal hai. Pas unhon ne woh maal le liya. 3. Hazrat Salman kahte hain main ne ibadat guzaron se kaha. Mujhe kisi sahib ilm aadmi ka batao takay main is ke peechhe chaloon. Unhon ne jawab diya. Humen rue zameen par Hums ke aadmi se bada sahib ilm maloom nahi. So main is ki taraf chal diya aur main ne is se mulaqat ki. Aur is ko yeh sara qissa sunaaya. Hazrat Salman kahte hain. Is ne kaha. Kya tumhen sirf ilm ki talab (yahan) laai hai ? Maine jawaban kaha. Mujhe sirf ilm ki talab hi (yahan) laai hai. Is ne kaha : Main to aaj rue zameen par is ek aadmi se bada kisi ko alim nahi janta jo aadmi har saal Baitul Muqaddas mein aata hai. Agar tum abhi chal paro ge to is ke gadhe ko mojood pao ge. Hazrat Salman kahte hain. Main chal para to achanak main ne Baitul Muqaddas ke darwaza par is ke gadhe ko mojood paya. Pas main is ke pass baith gaya aur woh aadmi chal diya. Maine is aadmi ko poora saal nahi dekha. Phir woh aadmi aaya to main ne is se kaha : Aye bandah-e-Khuda ! To ne mere sath kya kya hai ? Is ne poocha : Aur (kya) tum yahin par (rahay) ho ? Maine jawab diya : Haan ! Is ne kaha : Mujhe to, bakhuda ! Is aadmi se bare alim ka pata nahi hai jo keh arz Taimaa mein zahir hua hai. Agar tum abhi chal paro ge to tum is ko pao ge aur is mein teen nishaniyan hon gi. Woh shakhs hadiya khaye ga. Aur sadqah nahi khaye ga. Aur is ke dahne kandhay ki narm haddi ke pass mohar-e-nabuwat hogi. Jo keh kabutar ke anday ke mushabih hogi aur is ka rang khal wala hoga. 4. Hazrat Salman kahte hain : Pas main chala daran halikay mujhe zameen ki pasti aur bulandi mutasir karti rahi. Yahan tak main dehati logon ke pass se guzara to unhon ne mujhe ghulam bana liya phir unhon ne mujhe bech diya. Yahan tak keh mujhe Madina mein ek aurat ne khareed liya. Maine logon ko Nabi Kareem (Sallallahu Alaihi Wasallam) ka zikr karte huye suna. Zindagi bahut sakht guzar rahi thi. Maine is aurat se kaha : Tum mujhe ek din hadiya kardo. Is ne kaha. Theek hai. Main chala gaya aur lakriyan chuni. Aur in ko farokht kiya . Aur khana taiyar kiya. Phir is khane ko Nabi Kareem (Sallallahu Alaihi Wasallam) ki khidmat mein le kar hazir hua. Woh khana thora sa tha. Maine woh khana aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ke samne rakh diya. Aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne poocha : Yeh kya hai ? Maine arz kiya. Sadqah hai : kahte hain : Aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne apne sahaba se farmaya : Khao. Aur aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne khud tanawul nahi farmaya : farmate hain. Maine kaha : Yeh is shakhs ki alamat mein se hai. 5. Phir jitni dair Allah ne chaha thahra raha phir maine apni malikin se kaha. Tum mujhe ek din hadiya kardo. Is ne kaha. Theek hai. Main chal para aur lakriyan ikatthi kin aur inhen pehle se zyada qeemat par farokht kiya aur is raqam ka khana taiyar kiya. Khana le kar Nabi (Sallallahu Alaihi Wasallam) ki khidmat mein hazir hua. Aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) apne sahaba ke darmiyan tashreef farma thay. Maine woh khana aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ke samne rakh diya. Aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne poocha. Yeh kya hai ? Maine arz kiya. Hadiya hai. To aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne apna dast mubarak mein dakhil kiya aur apne sahaba kiram se farmaya. Allah ka naam le kar shuru kardo. 6. Aur main aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ke peechhe wali janib khara hua aur aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne apni chadar mubarak hatai to achanak mujhe mohar-e-nabuwat dikhayi di . Maine kaha. Main gawahi deta hoon ki aap Allah ke Rasool hain. Aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne poocha. Yeh kya mamla hai ? Maine aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ko is aadmi ke bare mein bayan kiya phir maine poocha. Ya Rasool Allah (Sallallahu Alaihi Wasallam) ! Kya woh shakhs jannat mein jaye ga ? Kyunki us ne mujhe yeh bayan kiya tha ki aap Nabi hain. Aap (Sallallahu Alaihi Wasallam) ne jawaban irshad farmaya. Jannat mein sirf momin jaan hi dakhil hogi.
عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ : كُنْتُ مِنْ أَبْنَاءِ أَسَاوِرَةِ فَارِسَ وَكُنْتُ فِي كُتَّابٍ وَمَعِي غُلَامَانِ ، وَكَانَا إِذَا رَجَعَا مِنْ مُعَلِّمِهِمَا أَتَيَا قَسًّا فَدَخَلَا عَلَيْهِ فَدَخَلْتُ مَعَهُمَا ، فَقَالَ : أَلَمْ أَنْهَكُمَا أَنْ تَأْتِيَانِي بِأَحَدٍ ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أَخْتَلِفُ إِلَيْهِ حَتَّى كُنْتُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُمَا ، قَالَ فَقَالَ لِي : إِذَا سَأَلَكَ أَهْلُكَ مَنْ حَبَسَكَ ؟ فَقُلْ : مُعَلِّمِي ، وَإِذَا سَأَلَكَ مُعَلِّمُكَ : مَنْ حَبَسَكَ ؟ فَقُلْ : أَهْلِي ، ثُمَّ إِنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَتَحَوَّلَ ، فَقُلْتُ لَهُ : أَنَا أَتَحَوَّلُ مَعَكَ ، فَتَحَوَّلْتُ مَعَهُ فَنَزَلْنَا قَرْيَةً ، فَكَانَتِ امْرَأَةٌ تَأْتِيهِ ، فَلَمَّا حَضَرَ قَالَ لِي : يَا سَلْمَانُ : " احْفُرْ عِنْدَ رَأْسِي ، فَحَفَرْتُ عِنْدَ رَأْسِهِ فَاسْتَخْرَجْتُ جَرَّةً مِنْ دَرَاهِمَ ، فَقَالَ لِي : صُبَّهَا عَلَى صَدْرِي ، فَصَبَبْتُهَا عَلَى صَدْرِهِ ، فَكَانَ يَقُولُ : وَيْلٌ لِاقْتِنَائِي ، ثُمَّ إِنَّهُ مَاتَ فَهَمَمْتُ بِالدَّرَاهِمِ أَنْ آخُذَهَا ، ثُمَّ إِنِّي ذَكَرْتُ فَتَرَكْتُهَا ، ثُمَّ إِنِّي آذَنْتُ الْقِسِّيسِينَ وَالرُّهْبَانَ بِهِ فَحَضَرُوهُ فَقُلْتُ لَهُمْ : إِنَّهُ قَدْ تَرَكَ مَالًا ، قَالَ : فَقَامَ شَبَابٌ فِي الْقَرْيَةِ فَقَالُوا : هَذَا مَالُ أَبِينَا ، فَأَخَذُوهُ ، قَالَ : فَقُلْتُ لِلرُّهْبَانِ : أَخْبِرُونِي بِرَجُلٍ عَالِمٍ أَتْبَعُهُ ، قَالُوا : مَا نَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا أَعْلَمَ مِنْ رَجُلٍ بِحِمْصَ ، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهِ فَلَقِيتُهُ فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ ، قَالَ : فَقَالَ : أَوَمَا جَاءَ بِكَ إِلَّا طَلَبُ الْعِلْمِ ، قُلْتُ : مَا جَاءَ بِي إِلَّا طَلَبُ الْعِلْمِ ، قَالَ : فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ الْيَوْمَ فِي الْأَرْضِ أَعْلَمَ مِنْ رَجُلٍ يَأْتِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ كُلَّ سَنَةٍ ، إِنِ انْطَلَقْتَ الْآنَ وَجَدْتَ حِمَارَهُ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِهِ عَلَى بَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ، فَجَلَسْتُ عِنْدَهُ وَانْطَلَقَ ، فَلَمْ أَرَهُ حَتَّى الْحَوْلِ ، فَجَاءَ فَقُلْتُ لَهُ : يَا عَبْدَ اللَّهِ ، مَا صَنَعْتَ بِي ؟ قَالَ : وَأَنَّكَ لَهَا هُنَا ، قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ الْيَوْمَ رَجُلًا أَعْلَمَ مِنْ رَجُلٍ خَرَجَ بِأَرْضِ تَيْمَاءَ ، وَإِنْ تَنْطَلِقِ الْآنَ تُوَافِقْهُ ، وَفِيهِ ثَلَاثُ آيَاتٍ : يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ وَلَا يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ ، وَعِنْدَ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ الْيُمْنَى خَاتَمُ النُّبُوَّةِ مِثْلُ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ لَوْنُهَا لَوْنُ جِلْدِهِ ، قَالَ : فَانْطَلَقْتُ تَرْفَعُنِي أَرْضٌ وَتَخْفِضُنِي أُخْرَى حَتَّى مَرَرْتُ بِقَوْمٍ مِنَ الْأَعْرَابِ فَاسْتَعْبَدُونِي فَبَاعُونِي حَتَّى اشْتَرَتْنِي امْرَأَةٌ بِالْمَدِينَةِ ، فَسَمِعْتُهُمْ يَذْكُرُونَ النَّبِيَّ ﵊ وَكَانَ عَزِيزًا فَقُلْتُ لَهَا ، هَبِي لِي يَوْمًا ، قَالَتْ : نَعَمْ ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُهُ ، وَصَنَعْتُ طَعَامًا فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ وَكَانَ يَسِيرًا فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ : « مَا هَذَا »؟ قُلْتُ : صَدَقَةٌ ، قَالَ : فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ : « كُلُوا » ، وَلَمْ يَأْكُلْ ، قَالَ : قُلْتُ : هَذَا مِنْ عَلَامَتِهِ ، ثُمَّ مَكَثْتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَمْكُثَ ثُمَّ قُلْتُ لِمَوْلَاتِي : هَبِي لِي يَوْمًا ، قَالَتْ : نَعَمْ ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُهُ بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ ⦗ص:٣٤٢⦘ وَصَنَعْتُ بِهِ طَعَامًا ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﵇ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ ، قَالَ : « مَا هَذَا ؟» قُلْتُ هَدِيَّةٌ ، فَوَضَعَ يَدَهُ وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ : خُذُوا بِاسْمِ اللَّهِ ، وَقُمْتُ خَلْفَهُ ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ فَقُلْتُ : أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ ، قَالَ : وَمَا ذَاكَ ؟ فَحَدَّثْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ ثُمَّ قُلْتُ : أَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؛ فَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَنَّكَ نَبِيٌّ ؟ قَالَ : لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ "