45.
Book of Trials
٤٥-
كِتَابُ الْفِتَنِ


What Was Mentioned About Uthman

‌مَا ذُكِرَ فِي عُثْمَانَ

Musannaf Ibn Abi Shaybah 37691

It is narrated from Jahm Fahri who said that I myself witnessed this incident that Sa'd and Ammarah sent a message to Hazrat Usman, the Caliph, saying, "Please come to us, we want to tell you about some things that you have newly implemented." Hazrat Usman sent a message back, "You guys go back today, I am busy today. Such and such a day is fixed for a meeting with you so that I can be prepared for the argument." Abu Muhsin says that the meaning of 'Ashzan' is 'I should be prepared for the argument with you'. So Sa'd went back but Ammarah refused to go back. Abu Muhsin said this twice. So the messenger of Hazrat Usman grabbed him and hit him. Then, on the appointed day when they all gathered, Hazrat Usman asked them, "What are you upset with me about?" They said, "We are upset about you hitting Ammarah." Hazrat Usman said, "Sa'd and Ammarah had come, I sent them a message to go back. Sa'd went back but Ammarah refused, so my messenger hit him without my order. By Allah, neither did I order it, nor was I pleased with it. Yet, I am present! Ammarah, take your revenge." Abu Muhsin explains that 'La-Yastabir' means to take revenge. Then they said, "We are upset with you that you have made different letters (Qirat) into one letter." Hazrat Usman said, "Hudhaifa came to me, so he said, 'What will you do when it will be said that this is the recitation of so-and-so, this is the recitation of so-and-so, and this is the recitation of so-and-so, just like the People of the Book differed in their books?' Therefore, if this act (uniting the Arabs on one recitation) is correct, then it is from Allah, and if it is wrong, then it is from Hudhaifa." Then they said, "We are also upset with you that you have designated pastures." Hazrat Usman said, "The Quraysh came to me and said that every tribe of Arabia has pastures except us, so I designated pastures for them. If you agree, keep it, and if you dislike it, change it." Or he said, "You do not designate it." Abu Muhsin is doubtful in this. Then they said, "We are upset with you because you have appointed your relatives, who are unwise people, over us." Hazrat Usman said, "Let the people of every city stand up and tell me whom they like, I will appoint him as governor, and whom they dislike, I will remove him." So the people of Basra said, "We are pleased with Abdullah bin Amir, keep him appointed." Then the people of Kufa said, "Saeed should be removed (Walid says that Abu Muhsin is doubtful) and Abu Musa should be appointed as governor over us." So Hazrat Usman did the same. The people of Sham said, "We are pleased with Hazrat Muawiyah, keep him appointed over us." And the people of Egypt said, "Remove Ibn Abi Sarh and appoint Amr bin Al-Aas as governor." Hazrat Usman did the same. They obtained whatever they demanded and returned happily. They were still on the way when a rider passed by them. They became suspicious of him, so they investigated him. A letter was found with him from a leather bag, which was addressed to their agent. Its content was, "Kill so-and-so and so-and-so." So they returned and went to Ali's service. Then they went with Ali to Hazrat Usman. Then they said to Hazrat Usman, "Here is your letter and here is your seal." Hazrat Usman said, "By Allah, neither did I write the letter, nor do I know anything about it, nor did I order it." Hazrat Ali said, "Then who do you think could be the writer?" Abu Muhsin says or said, "Then whom will you accuse?" Hazrat Usman said, "I think my scribe has acted deceitfully, and I also suspect you, O Ali!" Hazrat Ali said, "People are obedient to you." Hazrat Ali said, "Then why didn't you turn them away from me?" These people did not believe you and remained adamant until they besieged Hazrat Usman. Then Hazrat Usman turned towards them and said, "Do you consider my blood lawful? By Allah, the blood of a Muslim is not lawful except for three reasons: one, that he becomes an apostate, second, a married adulterer, and third, a murderer. By Allah, I do not think that I have committed any of these since I embraced Islam." The narrator says that those people remained firm on their stubbornness. Then Hazrat Usman requested the people not to shed blood. The narrator says that I saw Ibn Zubair coming out with an army to defeat those rebels. If they wanted to kill the rebels, they could have killed them. I saw Saeed bin Aswad wanting to kill a man with the width of his sword, he could have killed him. But Hazrat Usman had stopped the people, that's why people remained stopped. Then Abu Amr bin Madhal Khuza'i and Tujibi entered. One of them cut the veins of Hazrat Usman's neck with a broad-headed spear, the other struck him with a sword and lifted him up and martyred him. Then they ran away. They would travel by night and hide during the day until they reached a place between Egypt and Sham. They were hiding in a cave when a Nabataean passed by that area. He also had a donkey with him. A fly entered the donkey's nostrils. It went mad and ran until it entered the cave where those people were hiding. The owner of the donkey reached there in search of it and saw them. The man went to Muawiyah's agent and informed him about them. So Muawiyah caught and killed them.

جہم فہری سے منقول ہے کہتے ہیں کہ میں نے اس معاملہ کو ازخود مشاہدہ کیا کہ سعد اور عمارہ نے حضرت عثمان کو پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس آئیں ہم آپ کو ایسی چیزوں کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جو آپ نے نئی نکالی ہیں۔ حضرت عثمان نے پیغام بھیجا کہ آپ آج چلے جائیں آج میں مصروف ہوں فلاں دن تم سے ملاقات کے لیے مقرر ہے تاکہ میں خصومت کے لیے تیار ہوجاؤں ابو محصن کہتے ہیں کہ اشزن کا معنی ہے میں تمہارے ساتھ خصومت کے لیے تیار ہوجاؤں۔ سعد تو واپس چلے گئے عمار نے واپس جانے سے انکار کردیا ابو محصن نے یہ دودفعہ فرمایا۔ تو حضرت عثمان کے قاصد نے ان کو پکڑ کر مارا۔ پس مقررہ دن جب وہ سب جمع ہوئے تو حضرت عثمان نے ان سے کہا تم کس چیز پر مجھ سے ناراض ہو ؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ نے جو عمارکو مارا ہے اس پر ہم ناراض ہیں حضرت عثمان نے فرمایا کہ سعد اور عمار آئے تھے میں نے ان کو پیغام بھیجا کہ وہ چلے جائیں سعد تو چلے گئے مگر عمار نے انکار کیا تو میرے قاصد نے میرے حکم کے بغیر اس کو مارا اللہ کی قسم نہ تو میں نے اس کا حکم دیا تھا اور نہ ہی میں اس پر راضی تھا۔ پھر بھی میں حاضر ہوں ! عمار اپنا بدلہ لے لیں ابو محصن لیصطبر کا مطلب قصاص لینا بتلاتے ہیں۔ پھر وہ کہنے لگے ہم آپ سے ناراض ہیں کہ آپ نے مختلف حروف کو (قراء توں) ایک ہی حرف بنادیا حضرت عثمان نے فرمایا میرے پاس حذیفہ آئے تھے پس انھوں نے کہا کہ آپ اس وقت کیا کرسکیں گے جب کہا جائے گا فلاں کی قراءت ، فلاں کی قراءت اور فلاں کی قراءت جیسے اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا ؟ پس اگر یہ عمل ( ایک قراءت پر عربوں کو جمع کرنا) درست ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو حذیفہ کی طرف سے ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ہم آپ سے اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ آپ نے چراگاہیں مقرر کردیں ہیں۔ حضرت عثمان نے فرمایا میرے پاس قریش آئے تھے اور کہا تھا کہ عرب کی ہر قوم کے پاس چراگاہ موجود ہے سوائے ہمارے تو میں نے ان کے لیے چراگاہ مقرر کردی اگر تم راضی ہو تو اسے برقرار رکھو اور اگر تمہیں ناگواری ہوتی ہے تو اسے بدل دو یا یہ فرمایا کہ تم مقرر نہ کرو ابو محصن کو اس میں شک ہوا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ ہم آپ سے اس وجہ سے ناراض ہیں کہ آپ نے ہمارے اوپر اپنے اقرباء ناسمجھ لوگوں کو مسلط کردیا ہے۔ حضرت عثمان نے فرمایا ہر شہر والے کھڑے ہوں اور مجھے بتائیں جسے وہ پسند کرتے ہیں میں اس کو گورنر بنا دونگا اور جس کو ناپسند کرتے ہیں اس کو معزول کر دونگا۔ پس اہل بصرہ نے کہا ہم عبداللہ بن عامر سے راضی ہیں انہی کو برقرار رکھیے۔ پھر کوفہ والوں نے کہا سعید کو معزول کردیا جائے (ولید کہتے ہیں کہ ابو محصن کو شک ہوا ہے) اور ابو موسیٰ کو ہم پر گورنر بنایا جائے۔ پس حضرت عثمان نے ایسا ہی کیا۔ اہل شام نے کہا ہم حضرت معاویہ سے راضی ہیں ہم پر انھیں ہی برقرار رکھیے۔ اور اہل مصر نے کہا ابن ابو سرح کو معزول کرکے عمرو بن عاص کو گورنر بنایا جائے۔ حضرت عثمان نے ایسا کردیا۔ انھوں نے جس جس شئے کا تقاضہ کیا اسے انھوں نے حاصل کرلیا اور بخوشی واپس لوٹ گئے۔ ابھی وہ راستے میں تھے کہ ان کے پاس سے ایک سوار گزرا پس ان کو اس پر شک ہوا تو انھوں نے اس سے تحقیق کی تو اس کے پاس سے چمڑے کے برتن سے ایک خط برآمد ہوا جو ان کے عامل کے نام تھا۔ اس کا مضمون تھا کہ تم فلاں فلاں کی گردن ماردو۔ پس وہ لوٹے اور علی کی خدمت میں گئے پھر ان کے ساتھ علی حضرت عثمان کے پاس گئے پھر انھوں نے حضرت عثمان سے کہا یہ رہا آپ کا خط اور یہ رہی آپ کی مہر۔ حضرت عثمان نے فرمایا اللہ کی قسم نہ میں نے خط لکھا اور نہ میں اس کے بارے کچھ جانتا ہوں اور نہ ہی میں نے اس کا حکم دیا۔ حضرت علی نے فرمایا پھر آپ کے خیال میں کون ہوسکتا ہے لکھنے والا ابو محصن کہتے ہیں یا کہا پھر آپ کس پر تہمت لگائیں گے ؟ حضرت عثمان نے فرمایا میرا خیال ہے میرے کاتب نے دھوکا دہی سے کام لیا ہے، اور مجھے اے علی آپ پر بھی شک ہے حضرت علی نے فرمایا کہ لوگ آپ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا پھر آپ نے ان کو مجھ سے پھیر کیوں نہیں دیا۔ ان لوگوں نے آپ کا اعتبار نہ کیا اور اپنی ضد پر اڑے رہے یہاں تک کہ حضرت عثمان کا محاصرہ کرلیا۔ پھر حضرت عثمان ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم میرے خون کو حلال سمجھتے ہو ؟ اللہ کی قسم مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین وجہ سے ایک یہ کہ وہ مرتد ہوجائے، دوسرا شادی شدہ زانی اور تیسرا کسی کو قتل کرنے والا۔ اللہ کی قسم میں نہیں سمجھتا کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں ان میں سے کسی کا ارتکاب کیا ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ پھر حضرت عثمان نے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ خونریزی نہ کریں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن زبیر کو دیکھا کہ وہ ایک لشکر میں نکلے تاکہ ان باغیوں کو مغلوب کریں اگر وہ چاہتے کہ باغیوں کو قتل کریں تو قتل کرسکتے تھے۔ میں نے سعید بن اسود کو دیکھا کہ وہ اپنی تلوار کے عرض سے ایک شخص کو مارنا چاہتے تو مار سکتے تھے۔ لیکن حضرت عثمان نے لوگوں کو روکا تھا اس وجہ سے لوگ رکے رہے۔ پھر ابو عمرو بن مدہل خزاعی اور تجیبی اندر داخل ہوئے پس ا ن میں سے ایک نے چوڑے پھل والے نیزہ سے حضرت عثمان کی گردن کی رگوں کو کاٹ ڈالا دوسرے نے تلوار مار کر ان کو اوپر اٹھایا اور انھیں شہید کردیا پھر وہ بھاگ گئے رات کو وہ چلتے اور دن کو چھپ جاتے۔ یہاں تک کہ وہ مصر اور شام کے مابین ایک جگہ پر پہنچ گئے۔ وہ ایک غار میں چھپے ہوئے تھے کہ ایک نبطی اس علاقے سے نکلا اس کے ساتھ ایک گدھا بھی تھا اس گدھے کے نتھنے میں ایک مکھی گھس گئی وہ بدک کر بھاگا یہاں تک کہ اس غار میں داخل ہوا جس میں وہ لوگ چھپے ہوئے تھے۔ گدھے کا مالک اس کی تلاش میں یہاں تک پہنچا تو اس نے ان کو دیکھ لیا۔ وہ شخص حضرت معاویہ کے عامل کے پاس گیا اور اس کو ان کے بارے میں بتایا۔ پس حضرت معاویہ نے ان کو پکڑ کر قتل کردیا۔

Jehm Fahri se manqool hai kehte hain ke maine is mamle ko azkhud mushahida kya ke Saad aur Amara ne Hazrat Usman ko paigham bheja ke aap humare paas aayein hum aap ko aisi cheezon ke bare mein batana chahte hain jo aap ne nayi nikali hain. Hazrat Usman ne paigham bheja ke aap aaj chale jayen aaj mein masroof hun falan din tum se mulaqat ke liye muqarrar hai taake mein khusoomat ke liye taiyar hojaon Abu Mohsin kehte hain ke Ashzan ka mani hai mein tumhare saath khusoomat ke liye taiyar hojaon. Saad to wapas chale gaye Ammar ne wapas jaane se inkar kar diya Abu Mohsin ne yeh dodufa farmaya. To Hazrat Usman ke qasid ne un ko pakar kar mara. Pas muqarrara din jab woh sab jama hue to Hazrat Usman ne un se kaha tum kis cheez par mujh se naraz ho? To unhon ne kaha ke aap ne jo Ammar ko mara hai is par hum naraz hain Hazrat Usman ne farmaya ke Saad aur Ammar aaye the maine un ko paigham bheja ke woh chale jayen Saad to chale gaye magar Ammar ne inkar kya to mere qasid ne mere hukm ke baghair is ko mara Allah ki qasam na to maine is ka hukm diya tha aur na hi mein is par razi tha. Phir bhi mein hazir hun! Ammar apna badla le lein Abu Mohsin لیصطبر ka matlab qisas lena batlate hain. Phir woh kehne lage hum aap se naraz hain ke aap ne mukhtalif huroof ko (qaraon to) ek hi harf banadiya Hazrat Usman ne farmaya mere paas Hazifa aaye the pas unhon ne kaha ke aap is waqt kya karsaken ge jab kaha jayega falan ki qaraat, falan ki qaraat aur falan ki qaraat jaise ahl e kitab ne apni kitaabon mein ikhtilaf kya? Pas agar yeh amal (ek qaraat par arbon ko jama karna) durust hai to yeh Allah ki taraf se hai aur agar ghalat hai to Hazifa ki taraf se hai. Phir unhon ne kaha ke hum aap se is baat par bhi naraz hain ke aap ne charagahen muqarrar kardi hain. Hazrat Usman ne farmaya mere paas Quresh aaye the aur kaha tha ke Arab ki har qaum ke paas charagah maujood hai siwaye humare to maine un ke liye charagah muqarrar kardi agar tum razi ho to ise barqarar rakho aur agar tumhen naguwari hoti hai to ise badal do ya yeh farmaya ke tum muqarrar na karo Abu Mohsin ko is mein shak hua. Phir kehne lage ke hum aap se is wajah se naraz hain ke aap ne humare upar apne aqrabba nasamjh logon ko musallat kardiya. Hazrat Usman ne farmaya har shehar wale khare hon aur mujhe batayen jise woh pasand karte hain mein is ko governor bana dun aur jis ko napasand karte hain us ko mazul kar dun. Pas ehl e Basra ne kaha hum Abdullah bin Aamir se razi hain inhi ko barqarar rakhiye. Phir Kufa walon ne kaha Saeed ko mazul kardiya jaye (Waleed kehte hain ke Abu Mohsin ko shak hua hai) aur Abu Musa ko hum par governor banaya jaye. Pas Hazrat Usman ne aisa hi kya. Ehl e Sham ne kaha hum Hazrat Muawiya se razi hain hum par inhen hi barqarar rakhiye. Aur ehl e Misr ne kaha Ibn Abu Sarh ko mazul karke Amr bin Aas ko governor banaya jaye. Hazrat Usman ne aisa kardiya. Unhon ne jis jis shey ka taqazah kya use unhon ne hasil karli aur khushi se wapas laut gaye. Abhi woh raste mein the ke un ke paas se ek sawar guzara pas un ko is par shak hua to unhon ne is se tahqeeq ki to is ke paas se chamre ke bartan se ek khat baramda hua jo un ke aamil ke naam tha. Is ka mazmoon tha ke tum falan falan ki gardan maro do. Pas woh laute aur Ali ki khidmat mein gaye phir un ke saath Ali Hazrat Usman ke paas gaye phir unhon ne Hazrat Usman se kaha yeh raha aap ka khat aur yeh rahi aap ki mohar. Hazrat Usman ne farmaya Allah ki qasam na maine khat likha aur na mein is ke bare kuchh janta hun aur na hi maine is ka hukm diya. Hazrat Ali ne farmaya phir aap ke khayal mein kaun hosakta hai likhne wala Abu Mohsin kehte hain ya kaha phir aap kis par tohmat lagayenge? Hazrat Usman ne farmaya mera khayal hai mere katib ne dhoka dahi se kaam liya hai, aur mujhe aye Ali aap par bhi shak hai Hazrat Ali ne farmaya ke log aap ki ita'at karne wale hain. Hazrat Ali ne farmaya phir aap ne in ko mujh se phir kyon nahin diya. In logon ne aap ka aetbaar na kya aur apni zid par are rahe yahan tak ke Hazrat Usman ka muhasira karliya. Phir Hazrat Usman un ki taraf mutawajjah hue aur farmaya tum mere khoon ko halal samajhte ho? Allah ki qasam musalman ka khoon halal nahin magar teen wajah se ek yeh ke woh murtad hojaye, doosra shadi shuda zani aur teesra kisi ko qatl karne wala. Allah ki qasam mein nahin samajhta ke jab se mein Islam laya hun in mein se kisi ka irtikab kya ho. Rawi kehte hain ke woh log apni zid par date rahe. Phir Hazrat Usman ne logon se mutalba kya ke woh khoon rezi na karen. Rawi kehte hain ke maine Ibn Zubair ko dekha ke woh ek lashkar mein nikle taake in baagiyon ko magloob karen agar woh chahte ke baagiyon ko qatl karen to qatl karsakte the. Maine Saeed bin Aswad ko dekha ke woh apni talwar ke arz se ek shakhs ko marna chahte to maar sakte the. Lekin Hazrat Usman ne logon ko roka tha is wajah se log ruke rahe. Phir Abu Amr bin Madhal Khuza'i aur Tajibi andar dakhil hue pas un mein se ek ne chaure phal wale neza se Hazrat Usman ki gardan ki ragon ko kaat dala doosre ne talwar maar kar un ko upar uthaya aur unhen shaheed kardiya phir woh bhaag gaye raat ko woh chalte aur din ko chhup jate. Yahan tak ke woh Misr aur Sham ke ma bain ek jagah par pahunche. Woh ek ghaar mein chhupe hue the ke ek nabti is ilaqe se nikla is ke saath ek gadha bhi tha is gadhe ke nathne mein ek makhi ghus gayi woh badak kar bhaga yahan tak ke is ghaar mein dakhil hua jis mein woh log chhupe hue the. Gadhe ka malik is ki talaash mein yahan tak pahuncha to us ne un ko dekh liya. Woh shakhs Hazrat Muawiya ke aamil ke paas gaya aur is ko un ke bare mein bataya. Pas Hazrat Muawiya ne un ko pakar kar qatl kardiya.

أَبُو بَكْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مِحْصَنٍ ، أَخُو حَمَّادِ بْنِ نُمَيْرٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ وَاسِطَ ، قَالَ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي جَهْمٌ ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ ، قَالَ : أَنَا شَاهِدُ هَذَا الْأَمْرِ ، قَالَ : جَاءَ سَعْدٌ وَعَمَّارٌ فَأَرْسَلُوا إِلَى عُثْمَانَ أَنِ ائْتِنَا ، فَإِنَّا نُرِيدُ أَنْ نَذْكُرَ لَكَ أَشْيَاءَ أَحْدَثْتَهَا أَوْ ⦗ص:٥٢٢⦘ أَشْيَاءَ فَعَلْتَهَا ، قَالَ : فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ أَنِ انْصَرَفُوا الْيَوْمَ ، فَإِنِّي مُشْتَغِلٌ وَمِيعَادُكُمْ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا حَتَّى أَشَرْنَ ، قَالَ أَبُو مِحْصَنٍ : أَشَرْنَ : أَسْتَعِدُّ لِخُصُومَتِكُمْ ، قَالَ : فَانْصَرَفَ سَعْدٌ وَأَبَى عَمَّارٌ أَنْ يَنْصَرِفَ ، قَالَهَا أَبُو مِحْصَنٍ مَرَّتَيْنِ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَهُ رَسُولُ عُثْمَانَ فَضَرَبَهُ ، قَالَ : فَلَمَّا اجْتَمَعُوا لِلْمِيعَادِ وَمَنْ مَعَهُمْ قَالَ لَهُمْ عُثْمَانُ مَا تَنْقِمُونَ مِنِّي ؟ قَالُوا : نَنْقِمُ عَلَيْكَ ضَرْبَكَ عَمَّارًا ، قَالَ : قَالَ عُثْمَانُ : جَاءَ سَعْدٌ وَعَمَّارٌ فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِمَا ، فَانْصَرَفَ سَعْدٌ وَأَبَى عَمَّارٌ أَنْ يَنْصَرِفَ ، فَتَنَاوَلَهُ رَسُولٌ مِنْ غَيْرِ أَمْرِي ; فَوَاللَّهِ مَا أَمَرْتُ وَلَا رَضِيتُ ، فَهَذِهِ يَدِي لِعَمَّارٍ فَيَصْطَبِرُ ، قَالَ أَبُو مِحْصَنٍ : يَعْنِي : يَقْتَصُّ ، قَالُوا : نَنْقِمُ عَلَيْكَ أَنَّكَ جَعَلْتَ الْحُرُوفَ حَرْفًا وَاحِدًا ، قَالَ : جَاءَنِي حُذَيْفَةُ فَقَالَ : مَا كُنْتُ صَانِعًا إِذَا قِيلَ : قِرَاءَةُ فُلَانٍ وَقِرَاءَةُ فُلَانٍ وَقِرَاءَةُ فُلَانٍ ، كَمَا اخْتَلَفَ أَهْلُ الْكِتَابِ ، فَإِنْ يَكُ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ ، وَإِنْ يَكُ خَطَأً فَمِنْ حُذَيْفَةَ ، قَالُوا : نَنْقِمُ عَلَيْكَ أَنَّكَ حَمَيْتَ الْحِمَى ، قَالَ : جَاءَتْنِي قُرَيْشٌ فَقَالَتْ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنَ الْعَرَبِ قَوْمٌ إِلَّا لَهُمْ حِمًى يَرْعَوْنَ فِيهِ غَيْرَهَا ، فَقُلْتُ ذَلِكَ لَهُمْ ; فَإِنْ رَضِيتُمْ فَأَقِرُّوا ، وَإِنْ كَرِهْتُمْ فَغَيِّرُوا ، أَوْ قَالَ لَا تُقِرُّوا شَكَّ أَبُو مِحْصَنٍ ، قَالُوا : وَنَنْقِمُ عَلَيْكَ أَنَّكَ اسْتَعْمَلْتَ السُّفَهَاءَ أَقَارِبَكَ قَالَ فَلْيَقُمْ أَهْلُ كُلِّ مِصْرٍ يَسْأَلُونِي صَاحِبَهُمُ الَّذِي يُحِبُّونَهُ فَأَسْتَعْمِلُهُ عَلَيْهِمْ وَأَعْزِلُ عَنْهُمُ الَّذِي يَكْرَهُونَ ، قَالَ : فَقَالَ أَهْلُ الْبَصْرَةِ : رَضِينَا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ ، فَأَقِرَّهُ عَلَيْنَا ، وَقَالَ أَهْلُ الْكُوفَةِ : اعْزِلْ سَعِيدًا ، وَقَالَ الْوَلِيدُ شَكَّ أَبُو مِحْصَنٍ : وَاسْتَعْمِلْ عَلَيْنَا أَبَا مُوسَى فَفَعَلَ ، قَالَ : وَقَالَ أَهْلُ الشَّامِ : قَدْ رَضِينَا بِمُعَاوِيَةَ فَأَقِرَّهُ عَلَيْنَا ، وَقَالَ أَهْلُ مِصْرَ : اعْزِلْ عَنَّا ابْنَ أَبِي سَرْحٍ ، وَاسْتَعْمِلْ عَلَيْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، فَفَعَلَ ، قَالَ : فَمَا جَاءُوا بِشَيْءٍ إِلَّا خَرَجَ مِنْهُ قَالَ : فَانْصَرَفُوا رَاضِينَ ، فَبَيْنَمَا بَعْضُهُمْ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ إِذْ مَرَّ بِهِمْ رَاكِبٌ فَاتَّهَمُوهُ فَفَتَّشُوهُ فَأَصَابُوا مَعَهُ كِتَابًا فِي إِدَاوَةٍ إِلَى عَامِلِهِمْ أَنْ خُذْ فُلَانًا وَفُلَانًا فَاضْرِبْ أَعْنَاقَهُمْ ، قَالَ : فَرَجَعُوا فَبَدَءُوا بِعَلِيٍّ فَجَاءَ مَعَهُمْ إِلَى عُثْمَانَ ، فَقَالُوا : هَذَا كِتَابُكَ وَهَذَا خَاتَمُكَ ، فَقَالَ عُثْمَانُ : وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ وَلَا عَلِمْتُ وَلَا أَمَرْتُ ، قَالَ : فَمَا تَظُنُّ ؟ قَالَ أَبُو مِحْصَنٍ : تَتَّهِمُ ، قَالَ : أَظُنُّ كَاتِبِي غَدَرَ وَأَظُنُّكَ بِهِ يَا عَلِيُّ ، قَالَ : فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : وَلِمَ تَظُنُّنِي بِذَاكَ ؟ قَالَ : لِأَنَّكَ مُطَاعٌ عِنْدَ الْقَوْمِ ، قَالَ : ثُمَّ لَمْ تَرُدَّهُمْ عَنِّي ، قَالَ : فَأَبَى الْقَوْمُ وَأَلَحُّوا عَلَيْهِ حَتَّى حَصَرُوهُ ، قَالَ : فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ : بِمَ تَسْتَحِلُّونَ دَمِي ؟ فَوَاللَّهِ مَا حَلَّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ : مُرْتَدٌّ عَنِ الْإِسْلَامِ أَوْ ثَيِّبٌ زَانٍ أَوْ قَاتِلُ نَفْسٍ ، فَوَاللَّهِ مَا عَمِلْتُ شَيْئًا مِنْهُنَّ مُنْذُ أَسْلَمْتُ ، قَالَ : فَأَلَحَّ الْقَوْمُ عَلَيْهِ ، قَالَ : وَنَاشَدَ عُثْمَانُ النَّاسَ أَنْ لَا تُرَاقَ فِيهِ مِحْجَمَةٌ مِنْ دَمٍ ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَخْرُجُ عَلَيْهِمْ فِي كَتِيبَةٍ حَتَّى يَهْزِمَهُمْ ، لَوْ شَاءُوا أَنْ يَقْتُلُوا مِنْهُمْ لَقَتَلُوا ، قَالَ : وَرَأَيْتُ سَعِيدَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْبَخْتَرِيَّ وَإِنَّهُ لَيَضْرِبُ رَجُلًا بِعَرْضِ السَّيْفِ لَوْ شَاءَ أَنْ يَقْتُلَهُ لَقَتَلَهُ ، وَلَكِنَّ عُثْمَانَ عَزَمَ عَلَى النَّاسِ فَأَمْسَكُوا ، قَالَ : فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو عَمْرِو بْنُ بُدَيْلٍ الْخُزَاعِيُّ التُّجِيبِيُّ ، قَالَ فَطَعَنَهُ أَحَدُهُمَا بِمِشْقَصٍ فِي أَوْدَاجِهِ وَعَلَاهُ الْآخَرُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلُوهُ ، ثُمَّ انْطَلَقُوا هِرَابًا يَسِيرُونَ بِاللَّيْلِ وَيَكْمُنُونَ بِالنَّهَارِ حَتَّى أَتَوْا بَلَدًا بَيْنَ مِصْرَ وَالشَّامِ ، قَالَ فَكَمَنُوا فِي غَارٍ ، قَالَ : فَجَاءَ نَبَطِيٌّ مِنْ تِلْكَ الْبِلَادِ مَعَهُ حِمَارٌ ، قَالَ : فَدَخَلَ ذُبَابٌ فِي مِنْخَرِ الْحِمَارِ ، قَالَ : فَنَفَرَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِمُ الْغَارَ ، وَطَلَبَهُ صَاحِبُهُ فَرَآهُمْ : فَانْطَلَقَ إِلَى عَامِلِ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ : فَأَخْبَرَهُ بِهِمْ ، قَالَ : فَأَخَذَهُمْ مُعَاوِيَةُ فَضَرَبَ أَعْنَاقَهُمْ