47.
Chapters on Tafsir
٤٧-
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم


25
Chapter: Regarding Surat An-Nur

٢٥
باب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ

Jami` at-Tirmidhi 3180

Ummul Momineen Aisha (رضي الله تعالى عنها) narrated that what was said about me had been said, and I myself was unaware of it. The Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) got up and addressed the people. He recited the Tashahhud and after praising and expressing gratitude to Allah, as He deserved, he said, 'to proceed’ ( ُأَمَّا بَعْد), O people, give me your opinion regarding those people who made a forged story against my wife. By Allah, I do not know anything bad about her at all. By Allah, they accused her of being with a man about whom I have never known anything bad, and he never entered my house unless I was present there, and whenever I went on a journey, he went with me.' Sa'd bin Mu'adh (رضي الله تعالى عنه) got up and said, 'O Apostle of Allah ( صلى الله عليه وآله وسلم), allow me to chop their heads off!' Then a man from Al-Khazraj, to whom the mother of Hassan bin Thabit was a relative, got up and said (to Sa'd), 'you have told a lie. By Allah, if those persons were from Al-Aws, you would not like to chop their heads.' It was probable that some evil would take place between Aws and Khazraj in the Masjid while I was unaware of that. Imam Tirmidhi said, this Hadith is Hasan Sahih Gharib as a narration of Hisham bin Urwah. Yunus bin Yazid, Ma'mar, and others reported this Hadith from Az-Zuhri, from Urwah bin Az-Zubair, Sa'id bin Al-Musayyab, 'Alqamah bin Waqqas Al-Laithi and 'Ubaidullah bin Abdullah, from Ummul Momineen Aishah (رضي الله تعالى عنها), and it is longer and more complete than the narration of Hisham bin Urwah.


Grade: Sahih

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: ”لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیر موجودگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہا ہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں رہا ہے“، ( یہ سن کر ) سعد بن معاذ رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر، عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے میں ان کی گردنیں اڑا دوں، ( یہ سن کر ) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے ( سعد بن معاذ سے مخاطب ہو کر ) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئیے، اللہ کی قسم! اگر یہ ( تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے ) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑا دیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس و خزرج کے درمیان مسجد ہی میں فساد عظیم برپا ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا، ( عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں ) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی، جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی ( قضائے حاجت کی ) ضرورت سے گھر سے باہر نکلی، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ ( راستہ میں ) ٹھوکر کھائی تو کہہ اٹھیں: مسطح تباہ برباد ہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر ( ٹوکا ) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی ( بد دعا ) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھر یہی لفظ دہرایا تو میں نے ڈانٹا ( اور جھڑک دیا ) کیسی ( خراب ) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برا بھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں: ( بیٹی ) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا: کیا ایسا ہوا؟ ( یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟ ) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی، تو ان میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، ( بلکہ ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئیے، رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک لڑکا کر دیا، ( اور میں اپنے ابا کے گھر آ گئی ) میں گھر میں داخل ہوئی تو ( اپنی ماں ) ام رومان کو نیچے پایا اور ( اپنے ابا ) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی! کیسے آئیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بتا دیا اور انہیں ساری باتیں ( اور سارا قصہ ) سنا دیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جو مجھے پہنچی، انہوں نے کہا: بیٹی! اپنے آپ کو سنبھالو، کیونکہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین و جمیل عورت ہو جس سے وہ مرد ( بے انتہا ) محبت کرتا ہو، اس سے اس کی سوکنیں حسد نہ کرتی ( اور جلن نہ رکھتی ) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا: کیا میرے ابو جان کو بھی یہ بات معلوم ہو چکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے ( پھر ) پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ بھی ان باتوں سے واقف ہو چکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، ( یہ سن کر ) میں غم سے نڈھال ہو گئی اور رو پڑی، ابوبکر رضی الله عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے، میری ماں سے پوچھا، اسے کیا ہوا؟ ( یہ کیوں رو رہی ہے؟ ) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں ( اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں ) وہ اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں، ( یہ سن کر ) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، ( مگر ) انہوں نے کہا: اے میری ( لاڈلی ) بیٹی! میں تمہیں قسم دلا کر کہتا ہوں تو اپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہو گئی، رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی ( بریرہ ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں، بس یہ بات ہے کہ ( کام کرتے کرتے تھک کر ) سو جاتی ہیں اور بکری آ کر گندھا ہوا آٹا کھا جاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا، ( باتیں نہ بنا ) رسول اللہ ﷺ کو سچ سچ بتا ( اس سے اس پوچھ تاچھ میں ) وہ ( اپنے مقام و مرتبہ سے ) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک و برتر ہے اللہ کی ذات، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے، پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہو گئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولا ہے ۱؎، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو کر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آ گئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اور ہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”حمد و صلاۃ کے بعد: ”عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہو گئی یا اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے“، اسی دوران انصار کی ایک عورت آ کر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے ( اس طرح کی ) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیا جواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جو بات کہی ہے اس بارے میں ( میری طرف سے ) صفائی دیجئیے، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا، تو میں نے کلمہ شہادت ادا کیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئیے، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی ( بےگناہ ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیا ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کر لیا ہے، اور میں قسم اللہ کی! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی ( میں نے مثال دینے کے لیے ) یعقوب علیہ السلام کا نام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہو سکی، ( مجھے ان کا نام یاد نہ آ سکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا ) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون» کہا ۲؎۔ اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہو گئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے: ”اے عائشہ! خوش ہو جاؤ اللہ نے تمہاری براۃ میں آیت نازل فرما دی ہے“، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہو کر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی! میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی، نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان مند اور شکر گزار ہوں گی جس نے میری براۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت و تہمت سنی، لیکن اس پر تردید و انکار نہ کیا، اور نہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی و دینداری کی وجہ سے بچا لیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی و بھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ( شریک بہتان ہو کر ) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہو گئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن ابی بن سلول تھے، اور یہی منافق ( فتنہ پردازوں کا سردار و سرغنہ ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی الله عنہ نے قسم کھا لی کہ اب وہ ( اس احسان فراموش و بدگو ) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت «ولا يأتل أولوا الفضل منكم والسعة» ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں، «أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله» ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔ «ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم» ۵؎ ( یہ آیت سن کر ) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی! ہمارے رب! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبیداللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔

“Am-ul-Momineen Ayesha Radiallahu Anha kehti hain ke jab mere bare mein afwahein phelai jaane lagin jo phelai gain, main in se be-khabar thi, Rasool-Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) khade hue aur mere taluq se ek khutbah diya, aap ne shahadaiten padheen, Allah ke shayan-e-shan tareef o sana ki, aur hamd o salaat ke bad farmaaya: ”Logon! Humein in logon ke bare mein maslahat do jin hon ne meri ghar wali par tehmmat lagayi hai, qasam Allah ki! Main ne apni biwi mein kabhi koi burai nahin dekhi, unhon ne meri biwi ko is shakhs ke sath muttham kiya hai jis ke bare mein Allah ki qasam! Main ne kabhi koi burai nahin jaani, woh mere ghar mein kabhi bhi meri ghair-maujoodgi mein dakhil nahin hua, woh jab bhi mere ghar mein aya hai main maujood raha hun, aur jab bhi main ghar se ghaib hua, safar mein raha woh bhi mere sath ghar se door safar mein raha hai“, ( yeh sun kar ) Saad bin Muaz Radiallahu Anha ne khade ho kar, arz kiya: Allah ke Rasool! Mujhe ijazat dejiye main un ki gardanien uda doon, ( yeh sun kar ) Khazraj qabile ka ek aur shakhs jis ke qabile se Hassan bin Thabit ki maa thi khade hua is ne ( Saad bin Muaz se mukhatib ho kar ) kaha: Aap jhoot aur ghalat baat kah rahe hain, suniye, Allah ki qasam! Agar yeh ( tehmmat lagane walay aap ke qabile ) Aus ke hote to yeh pasand nah karta ke aap un ki gardanien uda dein, yeh bahs o takrar itni bari ke Aus o Khazraj ke darmiyan masjid hi mein fasad azim barpa ho jaane ka khatra paida ho gaya, ( Ayesha Radiallahu Anha kehti hain ) mujhe is ki bhi khabar nahin hui, jab is din ki shaam hui to main apni ( qaza-e-hajat ki ) zarurat se ghar se bahar nikli, mere sath Mushttaq ki maa bhi thi, woh ( rasta mein ) thokar khai to keh uthin: Mushttaq tabaah barbaad ho! Main ne un se kaha: Aap kaisi maa hain bete ko gali deti hain? To woh chup rahin, phir dobara thokar khai to phir wahi lafz dohraaya, Mushttaq halak ho, main ne phir ( toka ) main ne kaha: Aap kaisi maa hain? Apne bete ko gali ( bad dua ) deti hain? Woh phir khamosh rahin, phir jab teesri bar thokar khai to phir yahi lafz dohraaya to main ne danta ( aur jhark diya ) kaisi ( kharab ) maa hain aap? Apne hi bete ko bura bhala kah rahi hain, woh bolin: ( beti ) qasam Allah ki main use sirf tere maamle mein bura bhala kah rahi hun, main ne poocha: Mere kis maamle mein? Tab unhon ne mujhe sari baaten khol khol kar batai, main ne un se poocha: Kya aisa hua? ( yeh sari baaten phail gain? ) Unhon ne kaha: Haan, qasam Allah ki! Yeh sun kar main ghar lot aai, to in mein jis kaam ke liye nikli thi, nikli hi nahin, mujhe is qaza-e-hajat ki thodi ya zyada kuchh bhi zarurat mahsus nahin hui, ( balke ) mujhe tez bukhar charh aaya, main ne Rasool-Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) se kaha: Mujhe mere aba ke ghar bhej dijiye, Rasool-Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne mere sath ek ladka kar diya, ( aur main apne aba ke ghar a gai ) main ghar mein dakhil hui to ( apni maa ) Um-e-Roman ko neeche payi aur ( apne aba ) Abu Bakr ko ghar ke ooper padhte hue paya, meri maa ne kaha: Beti! Kaise aain? Ayesha Radiallahu Anha kehti hain: Main ne unhein bata diya aur unhein sari baaten ( aur sara qissa ) suna diya, magar unhein yeh baaten sun kar woh azit nahin pahinchi jo mujhe pahinchi, unhon ne kaha: Beti! Apne aap ko sambhalo, kyunke Allah ki qasam! Bahut kam aisa hota hai ke kisi mard ki koi husn o jamil aurat ho jis se woh mard ( be-inteha ) mohabbat karta ho, us se us ki sokaniyan hasad nahin karti ( aur jaln nahin rakhati ) hon aur is ke bare mein lagayi bajhai nahin karti hon, gharaz ki unhein itna saddma nahin pahincha jitna mujhe pahincha, main ne poocha: Kya mere abu jan ko bhi yeh baat maloom ho chuki hai? Unhon ne kaha: Haan, main ne ( phir ) poocha kya Rasool-Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) bhi in baton se waqif ho chuke hain? Unhon ne kaha: Haan, ( yeh sun kar ) main gham se nidhal ho gai aur ro padi, Abu Bakr Radiallahu Anha chhat par Quran padh rahe the, mere rone ki awaz sun kar neeche utar aaye, meri maa se poocha, use kya hua? ( yeh kyun ro rahi hai? ) Unhon ne kaha: Is ke mutaliq jo baaten kahi gain ( aur afwahein phelai gain ) woh use bhi maloom ho gain, ( yeh sun kar ) un ki bhi aankhein beh padin, ( magar ) unhon ne kaha: Ae meri ( ladli ) beti! Main tumhein qasam dila kar kehta hun to apne ghar lot ja, main apne ghar wapis ho gai, Rasool-Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) mere ghar tashreef laye aur meri londee ( Brira ) se mere mutaliq poochh taach ki, us ne kaha: Nahin, qasam Allah ki! Main in mein koi aib nahin jaanti, haan, bas yeh baat hai ke ( kaam karte karte thaak kar ) so jati hain aur bakri a kar gandha hua aata kha jati hai, baaz sahabon ne use danta, ( baaten nahin bana ) Rasool-Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ko sach sach bata ( is se is poochh taach mein ) woh ( apne maqam o martaba se ) niche utar aaye, us ne kaha: Subhan Allah! Paak o bartr hai Allah ki zat, qasam Allah ki! Main unhein bas aisi hi jaanti hun jaise sonar surkh sone ke dale ko jaanta pehchanta hai, phir is maamle ki khabar is shakhs ko bhi ho gai jis par tehmmat lagayi gai thi.Us nay kaha: Subhan Allah! Qasam Allah ki, main nay apni poori zindagi mein kabhi kisi ka seenah aur pahloo nahin khola hai 1، Aaisha Radiyallahu anha kehti hain: Woh Allah ki rah mein shaheed ho kar mare, mere maan baap subah hi mere pass aa gaye aur hamare hi pass rahe. Asar padh kar Rasoolullah Sallallahu alaihi wassalam hamare yahan tashreef le aaye, aur hamare pass pahunche, mere maan baap hamare daayein aur baayein baithe huwe the, Rasoolullah Sallallahu alaihi wassalam nay shahadaatain padhi, Allah ki shayan shan hamd o sana bayan ki, phir farmaya: "Hamd o salaat ke baad: "Aaisha! Agar tu burai ki murtakib ho gayi ya apne nafs par zulm kar baithi hai to Allah se tobah kar, Allah apne bandon ki tobah qabool karta hai", isi doran Ansar ki ek aurat aa kar darwaze mein beth gayi thi, main nay arz kiya: Is aurat ke samne (is tarah ki) koi baat karte huwe kya aap ko sharm mahsus nahin hui? Baharhal Rasoolullah Sallallahu alaihi wassalam nay hamen nasihat farmaai, main apne baap ki taraf mutawajjih hui, un se kaha: Aap Rasoolullah Sallallahu alaihi wassalam ki baat ka jawab dein, unhon nay kaha: Main kya jawab doon? Main apni maan ki taraf palti, main nay un se kaha: Rasoolullah Sallallahu alaihi wassalam nay jo baat kahi hai is bare mein (meri taraf se) safai dejiye, unhon nay kaha: Kya kahoon main? Jab mere maan baap nay kuchh jawab nahin diya, to main nay kalam-e-shahadat ada kiya, Allah ke shayan shan iski hamd o sana bayan ki, phir main nay kaha: Suniye, qasam Allah ki! Agar main aap logoon se kehti hoon ke main nay aisa kuchh nahin kiya aur Allah gawaah hai ke main sacchi (begunah) hoon tab bhi mujhe aap ke samne is se faida hasil nahin ho sakta kyun ke aap hi yeh baat kehne wale hain aur aap ke dilon mein yeh baat beth gayi hai aur agar main yeh keh doon ke main nay aisa kiya hai aur Allah khoob jaanta hai ke main nay nahin kiya, to aap zarur kahen ge ke is nay to itraf-e-jurm kar liya hai, aur main qasam Allah ki! Apne aur aap ke liye is se ziada munasib haal koi misal nahin pati (main nay misal dene ke liye) Yaqoob Alayhisalam ka naam dhunda aur yaad kiya, magar main is par qader nahin ho saki, (mujhe un ka naam yaad nah aaya to main nay Abuyusuf keh diya) magar Yousef Alayhisalam ke baap ki misal jab ke unhon nay «F sabar jameel wallahul musta'an ala ma tasifoon» kaha 2، Isi waqt Rasoolullah Sallallahu alaihi wassalam par wahi naazil hone lagi to hum sab khamosh ho gaye, phir aap par se wahi ke aasar khatam huwe to main nay aap ke chehre se khushi phootti huwi dekhi, aap apni peshani se pasina ponchhte huwe farmane lage: "Aaisha! Khush ho jao Allah nay tumhari baraat mein ayat naazil farma di hai", mujhe is waqt sakht ghussa aaya jab mere maan baap nay mujh se kaha: Khadri ho kar aap ka shukriya ada kar, main nay kaha: Nahin, qasam Allah ki! Main aap ka shukriya ada karne ke liye khadri nahin hongi, nah main un ki tarif karoon gi aur nah aap dono ki, nah main un ki ehsaan mand hongi aur nah aap dono ka balke main is Allah ka ehsaan mand aur shukr guzar hongi jis nay meri baraat mein ayat naazil farmaai, aap logoon nay to meri ghaibat o tehmat suni, lekin is par tardid o inkar nahin kiya, aur nah isay rok dene aur badal dene ki koshish ki, Aaisha Radiyallahu anha kaha karti thin: Rahi Zainab bin Hajish to Allah nay unhein un ki neiki o deendari ki wajah se bacha liya, unhon nay is qase mein jab bhi kaha, achchi o bhalli baat hi kahi, balke un ki bahan Hamnah (sharik bahtaan ho kar) halak hone walon ke sath halak ho gayi, aur jo log is bahtaan bazi aur prapegande mein lage huwe the woh Musata, Hassan bin Sabit aur munafiq Abdullah bin Abi bin Salul the, aur yahi munafiq (fitna parwazon ka sardar o sarghana) hi is muamle mein apni siyasat chalata aur apne hum khyal logoon ko yakja rakhta tha, yahi woh shakhs tha aur is ke sath Hamnah bhi thi, jo is fitna angizi mein pish pish thi, Abu Bakr Radiyallahu anhu nay qasam kha li ke ab woh (is ehsaan faramosh o badgu) Musata ko kabhi koi faida nah pahunchayenge, is par ayat «Wa la ya'tal aulaa al fadl min kum wa al su'a» 3، naazil hui, is se yahan murad Abu Bakr hain, «An yu'too aulaa al qurba wa al masaakin wa al muhajireen fi sabeel Allah» 4، is se ishara Musata ki taraf hai.«Alaa tuhabon an yaghfir-Allah lakom wa-Allah Ghafoor Raheem» 5؎ ( yeh aayat sun kar ) Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) nay kaha: kyun nahin, qasam Allah ki! Hamare Rab! Hum pasand karte hain ke tu hamen bakhsh de, phir musattah ko dene lage jo pehle dete they. Imam Tirmidhi kehte hain: 1- yeh hadees Hisham bin عروہ ki riwayat se Hasan sahih gharib hai, 2- is hadees ko Yunus bin Yazid, Mu'ammar aur kai doosre logoon ne عروہ bin Zubair, Saeed bin Musayyib, 'Alaqmah bin Waqas Laithi aur 'Ubaidullah bin 'Abdullah se aur in sabhon ne A'isha se riwayat ki hai, yeh hadees Hisham bin عروہ ki hadees se lambi bhi hai aur mukammal bhi hai.

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، ‏‏‏‏‏‏فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَامَ رَجُلٌ مِنَ بَنِي الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، ‏‏‏‏‏‏فَعَثَرَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ تَعِسَ مِسْطَحٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ تَعِسَ مِسْطَحٌ، ‏‏‏‏‏‏فَانْتَهَرْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ ؟ فَسَكَتَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ تَعِسَ مِسْطَحٌ، ‏‏‏‏‏‏فَانْتَهَرْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ ؟ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ فِي أَيِّ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَقَدْ كَانَ هَذَا ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏وَوُعِكْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ أُمِّي:‏‏‏‏ مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَأَخْبَرْتُهَا وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقِيلَ فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِأُمِّي:‏‏‏‏ مَا شَأْنُهَا ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلَ وَقَدِ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، ‏‏‏‏‏‏فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَجِبْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَاذَا أَقُولُ ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَجِيبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ أَقُولُ مَاذَا ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَئِنْ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ:‏‏‏‏ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18 قَالَتْ:‏‏‏‏ وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي أَبَوَايَ:‏‏‏‏ قُومِي إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ وَيَجْمَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ سورة النور آية 22 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي:‏‏‏‏ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَعْنِي:‏‏‏‏ مِسْطَحًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وعبيد الله بن عبد الله، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ.