47.
Chapters on Tafsir
٤٧-
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
76
Chapter: Regarding Surat Al-Buruj
٧٦
باب وَمِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
ṣuhaybin | Suhayb al-Rumi | Companion |
‘abd al-raḥman bn abī laylá | Abdur-Rahman ibn Abi Layla al-Ansari | Trustworthy |
thābitin al-bunānī | Thaabit ibn Aslam al-Banani | Trustworthy |
ma‘marin | Muammar ibn Abi Amr al-Azdi | Trustworthy, Upright, Excellent |
‘abd al-razzāq | Abd al-Razzaq ibn Hammam al-Himyari | Trustworthy Haafiz |
wa‘abd bn ḥamīd | Abd ibn Hamid al-Kashi | Trustworthy Hadith Scholar |
maḥmūd bn ghaylān | Mahmud ibn Ghailan al-Adawi | Trustworthy |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
صُهَيْبٍ | صهيب الرومي | صحابي |
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى | عبد الرحمن بن أبي ليلى الأنصاري | ثقة |
ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ | ثابت بن أسلم البناني | ثقة |
مَعْمَرٍ | معمر بن أبي عمرو الأزدي | ثقة ثبت فاضل |
عَبْدُ الرَّزَّاقِ | عبد الرزاق بن همام الحميري | ثقة حافظ |
وَعَبْدُ بْنُ حميد | عبد بن حميد الكشي | ثقة حافظ |
مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ | محمود بن غيلان العدوي | ثقة |
Jami` at-Tirmidhi 3340
Suhaib (رضي الله تعالى عنه) narrated that when the Apostle of Allahhad performed Asr, he began mumbling ( َهَمَس). Al-Hams ( ُالْهَمْس) according to some of them, is moving the lips as if he is speaking. It was said to the Prophet (صلى الله عليه وآله وسلم), ‘O Apostle of Allah ( صلى الله عليه وآله وسلم), after you perforؑed Asr, you were ؑuؑbling?’ He said, ‘there was a Prophet among the Prophets, and he was amazed with his people, so he said, ‘who can stand against these people? Then Allah revealed to him, that they must choose between some of them suffering from wrath, and between enemies of theirs assaulting them. They chose the wrath. So, death was inflicted upon them such that seventy-thousands of them died in one day. Imam Tirmidhi said, this Hadith is Hasan Gharib.
Grade: Sahih
صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر پڑھتے تھے، تو «همس» ( سرگوشی ) کرتے، «همس» بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہونٹوں کو اس طرح حرکت دینا ( ہلانا ) ہے تو ان وہ باتیں کر رہا ہے ( آخر کار ) آپ سے پوچھ ہی لیا گیا، اللہ کے رسول! جب آپ عصر کی نماز پڑھتے ہیں تو آپ دھیرے دھیرے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں ( کیا پڑھتے ہیں؟ ) آپ نے نبیوں میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کیا، وہ نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور کہا: ان کے مقابلے میں کون کھڑا ہو سکتا ہے؟ اللہ نے اس نبی کو وحی کیا کہ تم اپنی قوم کے لیے دو باتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کر لو، یا تو میں ان سے انتقام لوں یا میں ان پر ان کے دشمن کو مسلط کر دوں، تو انہوں نے «نقمہ» ( سزا و بدلہ ) کو پسند کیا، نتیجۃً اللہ نے ان پر موت مسلط کر دی، چنانچہ ایک دن میں ستر ہزار لوگ مر گئے ۱؎۔ صہیب ( راوی ) کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو اس کے ساتھ آپ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی، آپ نے فرمایا: ”ایک بادشاہ تھا اس بادشاہ کا ایک کاہن تھا، وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتا تھا، اس کاہن نے بادشاہ سے کہا: میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو، راوی کو یہاں شبہہ ہو گیا کہ «غلاما فهما» کہا یا «فطنا لقنا» کہا ( معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے ) میں اسے اپنا یہ علم سکھا دوں، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں مر گیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہو جائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو، آپ فرماتے ہیں: اس نے جن صفات و خصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا، لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کاہن کے پاس حاضر ہوا کر اور اس کے پاس باربار آتا جاتا ہے وہ لڑکا اس کاہن کے پاس آنے جانے لگا، اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہا کرتا تھا ( اس حدیث کے ایک راوی ) معمر کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے، وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبر دی، کہا: میں اللہ کی عبادت کرنے لگا ہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کر دیا، کاہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیا جایا کرے گا، لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتا دی، راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے؟ تو کہہ دیا کرو گھر والوں کے پاس تھا، اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے، راوی کہتے ہیں: غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہوا جنہیں ایک جانور نے روک رکھا تھا، بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا، لڑکے نے یہ کیا کہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ! راہب جو کہتا ہے اگر وہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کر دینے کی توفیق چاہتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کر دیا، لوگوں نے پوچھا: اسے کس نے مارا؟ جنہوں نے دیکھا تھا، انہوں نے کہا: فلاں لڑکے نے، یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ گئے، لوگوں نے کہا: اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا، یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا: اگر تو میری بینائی واپس لا دے تو میں تجھے یہ دوں گا، لڑکے نے کہا: میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینائی عطا کرنے والے پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔ ( بالکل ایمان لے آؤں گا ) ۔ راوی کہتے ہیں: لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی، یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا، ان کا معاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا، اس نے انہیں بلا بھیجا تو انہیں لا کر حاضر کیا گیا، اس نے ان سے کہا: میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کر ڈالوں گا، پھر اس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کر ڈالنے کا حکم دیا، ان میں سے ایک کے سر کے بیچوں بیچ ( مانگ ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کر دیا گیا، پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چنانچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اور جب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے، تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کر گرنے لگے، یہاں تک کہ صرف لڑکا باقی بچا، پھر جب وہ واپس آیا تو بادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیا کہ اسے سمندر میں لے جاؤ، اور اسے اس میں ڈبو کر آ جاؤ، اسے سمندر پر لے جایا گیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبو دیا، اور خود لڑکے کو بچا لیا، ( لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا ) اور اس سے کہا: تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو، اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلا رہا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے، بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا، لڑکا سولی پر لٹکا دیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا، اور تیر مارتے ہوئے کہا: «بسم الله رب هذا الغلام» بادشاہ نے تیر چلایا تو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مر گیا ( شہید ) ہو گیا، لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں، ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں“، آپ نے فرمایا: ”بادشاہ سے کہا گیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہو گئے ہیں ( اب کیا کریں گے؟ ) “ آپ نے فرمایا: ”اس نے کئی ایک کھائیاں ( گڈھے ) کھودوائے اور اس میں لکڑیاں ڈلوا دیں اور آگ بھڑکا دی، لوگوں کو اکٹھا کر کے کہا: جو اپنے ( نئے ) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے، پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا“، آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتا ہے ( پھر آپ نے آیت «قتل أصحاب الأخدود النار ذات الوقود» سے لے کر «العزيز الحميد» تک پڑھی ۲؎۔ راوی کہتے ہیں: لڑکا ( سولی پر لٹکا کر قتل کر دئیے جانے کے بعد ) دفن کر دیا گیا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا، اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
Sahib radiAllahu 'anhu kehte hain ke RasoolAllah (صلى الله عليه وآله وسلم) jab 'Asr padhte the, to 'hams' (sargoshi) karte, 'hams' ba'az logoon ke kahne ke mutabiq apne dono honto ko is tarah harkat dena (hilana) hai to in wo baaten kar raha hai (akhir kar) aap se pooch hi liya gaya, Allah ke Rasool! Jab aap 'Asr ki namaz padhte hain to aap dhire dhire apne honth hilate hain (kya padhte hain?) aap ne nabiyon mein se ek Nabi ka qissa bayan kiya, wo Nabi apni ummat ki kasrat dekh kar bahut khush hue, aur kaha: In ke muqable mein kaun khada ho sakta hai? Allah ne is Nabi ko wahi kiya ke tum apni qoum ke liye do baton mein se koi ek baat pasand kar lo, ya to mein in se intiqam loon ya mein in par in ke dushman ko muslat kar doon, to unhon ne 'naqma' (sazaw badla) ko pasand kiya, natijatan Allah ne un par maut muslat kar di, chanancha ek din mein sattar hazar log mar gaye. Sahib (ravi) kehte hain ke jab aap ne yeh hadees bayan ki to is ke sath aap ne ek aur hadees bhi bayan farmaayi, aap ne farmaya: ''Ek badshah tha is badshah ka ek kahan tha, wo apne badshah ko khabarin batata tha, is kahan ne badshah se kaha: Mere liye ek hoshiyar ladka dhondh do, ravi ko yahaan shabha ho gaya ke 'ghulama fahima' kaha ya 'fitna laqna' kaha (mani taqreeban dono alfaz ka ek hi hai) mein isse apna yeh ilm sikha doon, kyunki mein darta hoon ke agar mein mar gaya to tumhare pass se yeh ilm khatam ho jayega aur tum mein koi nah reh jayega jo is ilm se waqif ho, aap farmate hain: Us ne jin sifat wa khusosiyat ka hamil ladka bataya tha logoon ne is ke liye waisa hi ladka dhondh diya, logoon ne is ladke se kaha ke wo is kahan ke pass hazir hua kare aur is ke pass bar bar aata jata hai wo ladka is kahan ke pass aane jane laga, is ladke ke raste mein ek ibadat khane ke andar ek rahib reha karta tha (is hadees ke ek ravi) Ma'mar kehte hain: Mein samjhta hoon ibadat khane ke log is waqt ke musalman the, wo ladka jab bhi is rahib ke pass se guzarta din ki kuch nah kuch baaten is se poocha karta, yeh silsila chalta raha yahaan tak ke is ladke ne rahib ko apne mutalliq khabar di, kaha: Mein Allah ki ibadat karne laga hoon wo ladka rahib ke pass ziada se ziada dair tak bethne aur rukne laga aur kahan ke pass aana jana kam kar diya, kahan ne ladke walon ke yahaan kahlla bhija ke lagta hai ladka ab mere pass nah aaya jaya karega, ladke ne rahib ko bhi yeh baat bata di, rahib ne ladke se kaha ke jab kahan tum se pooche ke kahaan the? To kah diya karo ghar walon ke pass tha, aur jab tere ghar wale kahin ke to kahaan tha? To in ko bataya ke tum kahan ke pass the, ravi kehte hain: Ghulam ke din aise hi kat rahe the ke ek din ladke ka guzar logoon ki ek aisi bari jamaat par hua jinhein ek janwar ne rok rakha tha, ba'az logoon ne kaha ke wo choupayaa sher tha, ladke ne yeh kiya ke ek pathar uthaya aur kaha: Aay Allah! Rahib jo kehta hai agar wo sach hai to mein tujh se isse qatl kar dene ki tawfiq chahta hoon, yeh keh kar us ne isse pathar mara aur janwar ko halak kar diya, logoon ne poocha: Isse kis ne mara? Jinhon ne dekha tha, unhon ne kaha: Falan ladke ne, yeh sun kar log achumbhe mein pad gaye, logoon ne kaha: Is ladke ne aisa ilm seekha hai jise koi doosra nahin janta, yeh baat ek andhe ne suni to us ne ladke se kaha: Agar to meri binaai waapas la de to mein tujhe yeh doon ga, ladke ne kaha: Mein tujh se yeh sab chizen nahin mangta to yeh bata agar teri binaai tujhe waapas mil gai to kya to apni binaai ata karne wale par iman le aayega? Us ne kaha: Haan. (Bilkul iman le aaoon ga). Ravi kehte hain: Ladke ne Allah se dua ki to Allah ne is ki binaai waapas loot a di, yeh dekh kar andha iman le aaya, un ka maamla badshah tak pahunch gaya, us ne unhein bula bhija to unhein la kar hazir kiya gaya, us ne un se kaha: Mein tum sab ko alag alag tariqon se qatl kar dalon ga, phir us ne rahib ko aur is shakhs ko jo pehle andha tha qatl kar dalne ka hukm diya, in mein se ek ke sar ke bichon bich (mang) par ara rakh kar cheer diya gaya aur doosre ko doosre tariqe se qatl kar diya gaya, phir ladke ke bare mein hukm diya ke isse aise pahaar par le jao jo aisa aisa ho aur isse is pahaar ki choti par se neeche phenk do chanancha log isse is khas pahaar par le gaye aur jab is aakhri jagah par pahunch gaye jahan se wo log isse phenk dena chahte the, to wo khud hi is pahaar se ladhk ladhk kar girne lage, yahaan tak ke sirf ladka baki bacha, phir jab wo waapas aaya to badshah ne is ke mutalliq phir hukm diya ke isse samandar mein le jao, aur isse is mein dabo kar aa jao, isse samandar par le jaya gaya to Allah ne in sab ko jo is ladke ke sath gaye huye the dabo diya, aur khud ladke ko bacha liya, (ladka bach kar phir badshah ke pass aaya) aur us se kaha: Tum mujhe is tarah se mar nah sako ge illa yeh ke tum mujhe suli par latka do aur mujhe teer maro, aur teer marte waqt kaho is Allah ke naam se mein teer chala raha hoon jo is ladke ka Rab hai, badshah ne is ladke ke sath aisa hi karne ka hukm diya, ladka suli par latka diya gaya phir badshah ne is par teer mara, aur teer marte huye kaha: 'Bismillah Rabba hazaa al-ghulaam' badshah ne teer chalaaya to ladke ne apna hath apni kanpati par rakh liya phir mar gaya (shaheed) ho gaya, log bol uthe is ladke ko aisa ilm hasil tha jo kisi aur ko maloom nahin, hum to is ladke ke Rab par iman late hain'', aap ne farmaya: ''Badshah se kaha gaya ke aap to teen hi aadmiyon se ghabhra gaye jinhon ne aap ki mukhalafat ki, ab to yeh sare ke sare log hi aap ke khilaf ho gaye hain (ab kya karenge?)'' aap ne farmaya: ''Us ne kai ek khaain (gadhe) khudwaaye aur is mein lakriyan dalwa de aur aag bhadka di, logoon ko ikkatha kar ke kaha: Jo apne (nay) din se phir jayega isse hum chhod denge aur jo apne din se nah palte ga hum isse is aag mein jhonk denge, phir wo unhein in gadhon mein dalne laga'', aap ne farmaya: ''Allah Ta'ala inhein logoon ke mutalliq farmata hai (phir aap ne aayat 'Qatl aashab al-akhood al-nar zat al-waqood' se le kar 'al-aziz al-hamid' tak padhi). Ravi kehte hain: Ladka (suli par latka kar qatl kar diye jaane ke baad) dafan kar diya gaya tha, kaha jata hai ke wo ladka Umar bin Khattab radiAllahu 'anhu ke zamane mein zameen se nikala gaya, is ki angliyan is ki kanpati par isi tarah rakhi hui thi jis tarah us ne apne qatl hote waqt rakha tha. Imam Tirmidhi kehte hain: Yeh hadees hasan gharib hai."
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ هَمَسَ وَالْهَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ: تَحَرُّكُ شَفَتَيْهِ كَأَنَّهُ يَتَكَلَّمُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ هَمَسْتَ، قَالَ: إِنَّ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِهِ ، فَقَالَ: مَنْ تَقُولُ لِهَؤُلَاءِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْهُمْ، وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ، فَاخْتَارَ النِّقْمَةَ، فَسَلَّطَ عَلَيْهِمُ الْمَوْتَ فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا. (حديث موقوف) قَالَ: وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ الْآخَرِ، قَالَ: كَانَ مَلِكٌ مِنَ الْمُلُوكِ وَكَانَ لِذَلِكَ الْمَلِكِ كَاهِنٌ يَكْهَنُ لَهُ، فَقَالَ الْكَاهِنُ: انْظُرُوا لِي غُلَامًا فَهِمًا، أَوْ قَالَ: فَطِنًا لَقِنًا فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ فَيَنْقَطِعَ مِنْكُمْ هَذَا الْعِلْمُ وَلَا يَكُونَ فِيكُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ، قَالَ: فَنَظَرُوا لَهُ عَلَى مَا وَصَفَ، فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِكَ الْكَاهِنَ وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ، وَكَانَ عَلَى طَرِيقِ الْغُلَامِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ، قَالَ مَعْمَرٌ: أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ، قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَسْأَلُ ذَلِكَ الرَّاهِبَ كُلَّمَا مَرَّ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَخْبَرَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ، قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَمْكُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ، وَيُبْطِئُ عَنِ الْكَاهِنِ، فَأَرْسَلَ الْكَاهِنُ إِلَى أَهْلِ الْغُلَامِ إِنَّهُ لَا يَكَادُ يَحْضُرُنِي، فَأَخْبَرَ الْغُلَامُ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: إِذَا قَالَ لَكَ الْكَاهِنُ: أَيْنَ كُنْتَ ؟ فَقُلْ: عِنْدَ أَهْلِي، وَإِذَا قَالَ لَكَ أَهْلُكَ: أَيْنَ كُنْتَ ؟ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّكَ كُنْتَ عِنْدَ الْكَاهِنِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا الْغُلَامُ عَلَى ذَلِكَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنَ النَّاسِ كَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ تِلْكَ الدَّابَّةَ كَانَتْ أَسَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ الْغُلَامُ حَجَرًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ حَقًّا فَأَسْأَلُكَ أَنْ أَقْتُلَهَا، قَالَ: ثُمَّ رَمَى فَقَتَلَ الدَّابَّةَ، فَقَالَ النَّاسُ: مَنْ قَتَلَهَا ؟ قَالُوا: الْغُلَامُ، فَفَزِعَ النَّاسُ وَقَالُوا: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَى فَقَالَ لَهُ: إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَكَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ لَهُ: لَا أُرِيدُ مِنْكَ هَذَا، وَلَكِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْكَ بَصَرُكَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْكَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ فَآمَنَ الْأَعْمَى، فَبَلَغَ الْمَلِكَ أَمْرُهُمْ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ فَأُتِيَ بِهِمْ، فَقَالَ: لَأَقْتُلَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْكُمْ قِتْلَةً لَا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ، فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ أَعْمَى، فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَى مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ، وَقَتَلَ الْآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَى، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلَامِ، فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ، فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْجَبَلِ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَبَلِ وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا الْغُلَامُ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِكُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَى الْبَحْرِ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ، فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَى الْبَحْرِ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ، فَقَالَ الْغُلَامُ لِلْمَلِكِ: إِنَّكَ لَا تَقْتُلُنِي حَتَّى تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي، وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ فَصُلِبَ ثُمَّ رَمَاهُ، فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلَامِ، قَالَ: فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَهُ عَلَى صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ ثُمَّ مَاتَ، فَقَالَ أُنَاسٌ: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلَامِ، قَالَ: فَقِيلَ لِلْمَلِكِ أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَكَ ثَلَاثَةٌ، فَهَذَا الْعَالَمُ كُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوكَ، قَالَ: فَخَدَّ أُخْدُودًا ثُمَّ أَلْقَى فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ، ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ، فَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَكْنَاهُ وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ، فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْكَ الْأُخْدُودِ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِ: قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ 4 النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ 5 حَتَّى بَلَغَ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ سورة البروج آية 4 ـ 8، قَالَ: فَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّهُ دُفِنَ، فَيُذْكَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأُصْبُعُهُ عَلَى صُدْغِهِ كَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.