5.
The Book of Fasting
٥-
كِتَابُ الصِّيَامِ


1364.

1364.

الأسمالشهرةالرتبة
عَمِّي عبد الله بن وهب القرشي ثقة حافظ
أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَهْبٍ أحمد بن عبد الرحمن القرشي ضعيف الحديث
عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عبد المطلب بن ربيعة الهاشمي صحابي
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ عبد الله بن الحارث الهاشمي ثقة
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ عبد الله بن الحارث الهاشمي ثقة
ابْنِ شِهَابٍ محمد بن شهاب الزهري الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه
ابْنُ شِهَابٍ محمد بن شهاب الزهري الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه
عُقَيْلٍ عقيل بن خالد الأيلي ثقة ثبت
يُونُسُ يونس بن يزيد الأيلي ثقة
ابْنُ سَلامَةَ سلامة بن روح القرشي صدوق له أوهام
ابْنُ وَهْبٍ عبد الله بن وهب القرشي ثقة حافظ
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَافِقِيُّ عيسى بن إبراهيم المثرودي ثقة
مُحَمَّدِ بْنِ عَزِيزٍ الأَيْلِيِّ محمد بن عزيز الأيلي مقبول

Sahih Ibn Khuzaymah 1998

Mr. Aswad narrates that when Hazrat Misruq and I went to Umm al-Mu'mineen Hazrat Aisha Siddiqa (may Allah be pleased with her) to inquire about intimacy, we felt shy. I said that we came to ask a question but we are shy. She said, "What is the question? Ask whatever you want to ask." We asked, "Did the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) engage in intimacy while fasting?" She replied, "You sometimes do it, but you have more control over your desires and nafs than him." Imam Abu Bakr (may Allah have mercy on him) said that Allah Almighty addressed His Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) and his Ummah in the Arabic language, which is vaster than all languages. No one can encompass all its knowledge and arts except the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him). Arabs, in their lexicon, apply one noun to two or more things, and sometimes give multiple names to one thing. Sometimes Allah Almighty prohibits one thing and permits another, while using the same name for both the permitted and prohibited things. Similarly, sometimes a prohibited thing is permitted, and the same name is applied to both. In this way, one name applies to two different things; one is permitted and the other is prohibited, although they have the same name. A person unfamiliar with the Arabic language cannot understand this and applies both meanings to one thing. He imagines that both are contradictory because one act is permitted by a name, while another is prohibited by the same name. It is not permissible for someone with such limited knowledge to explain fiqh issues and issue fatwas. It is obligatory for him to acquire knowledge or remain silent until he gains enough knowledge to give fatwas and solve religious matters. Whoever understands this art knows that what is permitted is different from what is prohibited, even though they share the same name. A similar issue that Allah Almighty mentioned in His Book is that intimacy with women is not permissible for those who are fasting during the day. The Exalted says: "So now have sexual relations with them and seek that which Allah has ordained for you (children), and eat and drink until the white thread (light of dawn) becomes distinct to you from the black thread (darkness of night), then complete the fast till nightfall" [Surah Al-Baqarah: 187]. Therefore, Allah Almighty permitted intimacy with women and eating and drinking at night. Then, He commanded us to complete the fast until nightfall, with the condition that intimacy and eating and drinking were permissible at night. Now, the intimacy that involves intercourse breaks the fast of a fasting person. However, Allah Almighty, through the actions of His Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him), has permitted intimacy less than intercourse (kissing, hugging, and expressing love) while fasting. Because the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) used to engage in intimacy while fasting. The intimacy that Allah Almighty mentioned in His Book as breaking the fast is different from the intimacy that the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) engaged in while fasting. Thus, intimacy is a single name applied to two actions: one is permissible while fasting during the day, while the other is prohibited and breaks the fast. Similarly, Allah Almighty says: "O you who believe, when the call is proclaimed for the prayer (on the day of) Friday, then hasten to the remembrance of Allah and leave off business" [Surah Al-Jumu'ah: 9]. So, Allah Almighty commanded hastening (running) for Friday prayer. However, the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said: "When you come for prayer, do not come running but walk calmly and peacefully." Therefore, hastening is a name that applies to both running and walking fast, and also to going towards a place. Therefore, the hastening that Allah Almighty commanded refers to going to the mosque for Friday prayer. And the hastening that the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) prohibited refers to running and walking fast. Thus, the name "hastening" applies to two actions: one is permitted and commanded, while the other is prohibited. I will soon explain these types in the book "Ma'ani al-Qur'an," if Allah Almighty grants me success. Insha'Allah.


Grade: Sahih

جناب اسود بیان کرتے ہیں کہ میں اور مسروق اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں مباشرت کی متعلق سوال کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو ہمیں شرم آ گئی، میں نے عرض کی کہ ہم ایک سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے تھے مگر ہم شرما گئے ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ وہ سوال کیا ہے؟ جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو۔ ہم نے عرض کی کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرلیتے تھے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ کبھی کبھار ایسا کر لیتے تھے لیکن آپ اپنی خواہش اور نفس پر تم سے کہیں زیادہ قابو رکھنے والے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اُن کی اُمّت کو عربی زبان میں خطاب کیا ہے جو تمام زبانوں سے زیادہ وسیع ہے۔ جس کے تمام علوم وفنون کا احاطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ اور عرب اپنی اپنی لغت میں ایک ہی اسم کا دو چیزوں پر اطلاق کرتے ہیں اور کئی چیزوں پر بھی کردیتے ہیں اور کبھی ایک ہی چیز کو کئی کئی نام دے دیتے ہیں۔ کبھی الله تعالی ایک چیز سے منع کر دیتا ہے اور ایک دوسری چیز کو مباح قرار دے دیتا ہے حالانکہ ان مباح اورممنوع دونوں چیزوں پر ایک ہی نام کا اطلاق کرتا ہے۔ اسی طرح کبھی ممنوع چیز کو مباح قرار دے دیتا ہے اور دونوں پر ایک ہی نام کا اطلاق کیا گیا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک ہی نام دو مختلف چیزوں پر واقع ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک مباح اور دوسرا ممنوع ہوتا ہے جبکہ دونوں کا نام ایک ہی ہوتا ہے۔ عربی زبان سے نا واقف شخص یہ بات سمجھ نہیں سکتا اور وہ ایک ہی چیز پر دونوں معانی محمول کر دیتا ہے۔ وہ یہ وہم دیتا ہے کہ دونوں چیزیں متضاد ہیں کیونکہ ایک کام ایک نام سے جائز قرار دیا گیا ہے تو دوسرا فعل اسی نام سے ممنوع کیا گیا ہے۔ جس شخص کا کلی علم اتنا ہی ہو تو اُس کے لئے فقہی مسائل بیان کرنا اور فتوے جاری کرنا جائز نہیں ہے۔ اس پر واجب ہے کہ علم حاصل کرے یا خاموش بیٹھ جائے۔ یہاں تک کہ وہ اتنا علم حاصل کرلے جس کے ساتھ فتوے دینا اور علمی مسائل حل کرنا جائز ہو۔ اور جوشخص یہ فن سمجھ لے وہ جان لیتا ہے کہ جو چیز جائز قرار دی گئی ہے وہ منوع چیز کے علاوہ ہے۔ اگرچہ دونوں پر ایک ہی اسم کا اطلاق ہوا ہو۔ اسی قسم سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ روزے والے دن عورتوں سے مباشرت کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے «‏‏‏‏فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ» ‏‏‏‏ [ سورة البقرة: 187 ] ”اس لئے اب تم ان سے ہمبستری کرسکتے ہو اور اللہ نے تمہارے لئے جو لکھ رکھا ہے وہ تلاش کرو اور کھاؤ اور پیو حتّیٰ کہ تمہارے لئے صبح کی سفید دھاری، کالی داری سے واضح ہو جائے پھرتم روزے کو رات تک پورا کرو۔“ لہٰذا اللہ تعالی نے رات کے وقت عورتوں سے مباشرت اور کھانا پینا جائز قرار دیا ہے۔ پھر ہمیں رات تک روزہ مکمّل کرنے کا حُکم دیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ رات کو مباشرت کرنا اور کھانا پینا جائز تھا اب وہ مباشرت جو جماع ہے وہ روزے دار کا روزہ توڑ دیگی اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے روزے کی حالت میں جماع سے کم مباشرت (بوس و کنار اور پیار ومحبت) کو جائز قرار دیا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مباشرت کرلیتے تھے۔ وہ مباشرت جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے کہ وہ روزہ توڑ دیتی ہے وہ اس مباشرت سے مختلف ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ مباشرت ایک ہی اسم ہے جو دو فعلوں پر واقع ہوا ہے۔ ان میں سے ایک روزے کی حالت میں دن کے وقت جائز ہے جبکہ دوسرا روزے کی حالت میں منع ہے اور روزے کو توڑ دیتا ہے۔ اسی قسم سے اللہ تعالی کا یہ ارشا ہے «‏‏‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ» ‏‏‏‏ [ سورة الجمعة: 9 ] ”اے ایمان والو، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دے دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت کرنا چھوڑ دو۔“ پس اللہ تعالی نے جمعہ کے لئے سعی (دوڑنے) کا حُکم دیا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم نماز کے لئے آو تو تم دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ آرام و سکون کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ“ لہٰذا سعی ایک ایسا اسم ہے جو دوڑنے اور تیز چلنے پر واقع ہوتا ہے اور کسی جگہ کی طرف جانے پر بھی واقع ہوتا ہے۔ لہٰذا جس سعی کا الله تعالی نے حُکم دیا ہے اس سے مراد جمعہ کے لئے مسجد میں جانا ہے۔ اور جس سعی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اس سے مراد دوڑ نا اور تیز رفتاری ہے۔ اس طرح سعی کا اسم دو فعلوں پر واقع ہوا ہے۔ ایک جائز ہے جس کا حُکم دیا گیا ہے اور دوسرا ممنوع ہے۔ میں عنقریب یہ قسم، کتاب معاني القرآن میں بیان کروں گا۔ اگر الله تعالیٰ نے اس کام کی توفیق عطا کی۔ ان شاء الله تعالیٰ

Janab Aswad bayan karte hain ke main aur Masruq Umm ul Momineen Sayyida Ayesha Radi Allahu Anha ki khidmat mein mubashrat ki mutalliq sawal karne ke liye hazir huye to hamein sharm aa gayi, maine arz ki ke hum ek sawal poochne ke liye hazir huye the magar hum sharma gaye hain to unhon ne kaha ke wo sawal kya hai? Jo poochna chahte ho pooch lo. Hum ne arz ki ke kya Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam rozey ki halat mein mubashrat kar lete thay? Unhon ne jawab diya ke aap kabhi kabhaar aisa kar lete thay lekin aap apni khwahish aur nafs par tum se kahin zyada qaboo rakhne wale thay. Imam Abu Bakr Rahmatullah Alaih farmate hain ke Allah Ta'ala ne apne Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ko aur un ki ummat ko Arabi zaban mein khitab kiya hai jo tamam zabanon se zyada wasee hai. Jis ke tamam uloom o funoon ka ihata Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ke siwa koi nahin kar sakta. Aur Arab apni apni lughat mein ek hi ism ka do cheezon par itlaq karte hain aur kai cheezon par bhi kar dete hain aur kabhi ek hi cheez ko kai kai naam de dete hain. Kabhi Allah Ta'ala ek cheez se mana kar deta hai aur ek dusri cheez ko mubah karar deta hai halanke in mubah aur mamnu dono cheezon par ek hi naam ka itlaq karta hai. Isi tarah kabhi mamnu cheez ko mubah karar deta hai aur dono par ek hi naam ka itlaq kiya gaya hota hai. Is tarah ek hi naam do mukhtalif cheezon par waqe hota hai. In mein se ek mubah aur dusra mamnu hota hai jabke dono ka naam ek hi hota hai. Arabi zaban se na waqif shakhs ye baat samajh nahin sakta aur wo ek hi cheez par dono ma'ani mahmul kar deta hai. Wo ye wahm deta hai ke dono cheezen mutzaad hain kyunki ek kaam ek naam se jaiz karar diya gaya hai to dusra fi'l usi naam se mamnu kiya gaya hai. Jis shakhs ka kulli ilm itna hi ho to us ke liye fiqhi masa'il bayan karna aur fatwe jari karna jaiz nahin hai. Is par wajib hai ke ilm hasil kare ya khamosh baith jaye. Yahan tak ke wo itna ilm hasil kar le jis ke sath fatwe dena aur ilmi masa'il hal karna jaiz ho. Aur jo shakhs ye fann samajh le wo jaan leta hai ke jo cheez jaiz karar di gayi hai wo manoo cheez ke ilawa hai. Agarche dono par ek hi ism ka itlaq hua ho. Isi qism se ek masla ye bhi hai jise Allah Ta'ala ne apni kitab mein bayan kiya hai ke rozedaar din auraton se mubashrat karna jaiz nahin hai. Irshad Bari Ta'ala hai "Fa al'aanu baashiruhunna wabtaghoo ma kataba Allahu lakum; wakuloo washraboo hattaa yatabayyana lakumul khaitul abyadu mina khaitilaswadi minal fajri; thumma atimmoos siyaama ilaal layl" (Surah Al-Baqarah: 187). "Is liye ab tum un se humbistari kar sakte ho aur Allah ne tumhare liye jo likh rakha hai wo talash karo aur khao aur piyo hattak ke tumhare liye subah ki safed dhari, kaali dhari se wazeh ho jaye phir tum rozey ko raat tak poora karo." Lihaza Allah Ta'ala ne raat ke waqt auraton se mubashrat aur khana peena jaiz karar diya hai. Phir hamein raat tak roza mukम्मal karne ka hukm diya hai is shart ke sath ke raat ko mubashrat karna aur khana peena jaiz tha ab wo mubashrat jo jima hai wo rozedaar ka roza to tod degi aur Allah Ta'ala ne apne Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ke fi'l se rozey ki halat mein jima se kam mubashrat (bos o kinar aur pyar o muhabbat) ko jaiz karar diya hai. Kyunki Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam rozey ki halat mein mubashrat kar lete thay. Wo mubashrat jo Allah Ta'ala ne apni kitab mein zikar ki hai ke wo roza tod deti hai wo is mubashrat se mukhtalif hai jo Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam rozey ki halat mein kiya karte thay. Chunache mubashrat ek hi ism hai jo do fi'lon par waqe hua hai. In mein se ek rozey ki halat mein din ke waqt jaiz hai jabke dusra rozey ki halat mein mana hai aur rozey ko tod deta hai. Isi qism se Allah Ta'ala ka ye irshad hai "Ya ayyuhal lazeena aamanoo iza noodiya lis salati min yawmil jumu'ati fas'aw ilaa zikrillahi wazaruul bay' " (Surah Al-Jumu'ah: 9). "Aye Imaan walo, jab jumma ke din namaz ke liye azan de di jaye to tum Allah ke zikar ki taraf daudo aur kharid o farokht karna chhod do." Pas Allah Ta'ala ne jumma ke liye sa'ee (daudne) ka hukm diya hai. Jabke Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam farmate hain: "Jab tum namaz ke liye aao to tum daute huye mat aao balke aaram o sukoon ke sath chalte huye aao." Lihaza sa'ee ek aisa ism hai jo daudne aur tez chalne par waqe hota hai aur kisi jagah ki taraf jane par bhi waqe hota hai. Lihaza jis sa'ee ka Allah Ta'ala ne hukm diya hai us se murad jumma ke liye masjid mein jana hai. Aur jis sa'ee se Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne mana kiya hai us se murad daudna aur tez raftari hai. Is tarah sa'ee ka ism do fi'lon par waqe hua hai. Ek jaiz hai jis ka hukm diya gaya hai aur dusra mamnu hai. Main anqareeb ye qism, kitab Ma'ani Al-Quran mein bayan karoonga. Agar Allah Ta'ala ne is kaam ki taufeeq ata ki. In Sha Allah Ta'ala.

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الأَسْوَدِ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَمَسْرُوقٌ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ نَسْأَلُهَا عَنِ الْمُبَاشَرَةِ، فَاسْتَحْيَيْنَا، قَالَ: قُلْتُ: جِئْنَا نَسْأَلُ حَاجَةً، فَاسْتَحْيَيْنَا. فَقَالَتْ: مَا هِيَ؟ سَلا عَمَّا بَدَا لَكُمَا. قَالَ: قُلْنَا: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ قَالَتْ:" قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، وَلَكِنَّهُ كَانَ أَمْلَكَ لإِرْبِهِ مِنْكُمْ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّمَا خَاطَبَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتَهُ بِلُغَةِ الْعَرَبِ أَوْسَعِ اللُّغَاتِ كُلِّهَا، الَّتِي لا يُحِيطُ بِعِلْمِ جَمِيعِهَا أَحَدٌ غَيْرُ نَبِيٍّ، وَالْعَرَبُ فِي لُغَاتِهَا تُوقِعُ اسْمَ الْوَاحِدِ عَلَى شَيْئَيْنِ، وَعَلَى أَشْيَاءَ ذَوَاتِ عَدَدٍ، وَقَدْ يُسَمَّى الشَّيْءُ الْوَاحِدُ بِأَسْمَاءَ، وَقَدْ يَزْجُرُ اللَّهُ عَنِ الشَّيْءِ، وَيُبِيحُ شَيْئًا آخَرَ غَيْرَ الشَّيْءِ الْمَزْجُورِ عَنْهُ، وَوَقَعَ اسْمُ الْوَاحِدِ عَلَى الشَّيْئَيْنِ جَمِيعًا: عَلَى الْمُبَاحِ، وَعَلَى الْمَحْظُورِ، وَكَذَلِكَ قَدْ يُبِيحُ الشَّيْءَ الْمَزْجُورَ عَنْهُ، وَوَقَعَ اسْمُ الْوَاحِدِ عَلَيْهِمَا جَمِيعًا، فَيَكُونُ اسْمُ الْوَاحِدِ وَاقِعًا عَلَى الشَّيْئَيْنِ الْمُخْتَلِفَيْنِ، أَحَدُهُمَا مُبَاحٌ، وَالآخَرُ مَحْظُورٌ، وَاسْمُهَا وَاحِدٌ. فَلَمْ يَفْهَمْ هَذَا مَنْ سَفِهَ لِسَانَ الْعَرَبِ، وَحَمَلَ الْمَعْنَى فِي ذَلِكَ عَلَى شَيْءٍ وَاحِدٍ، يُوهِمُ أَنَّ الأَمْرَيْنِ مُتَضَادَّانِ، إِذْ أُبِيحَ فِعْلٌ مُسَمًّى بِاسْمٍ، وَحُظِرَ فِعْلٌ تَسَمَّى بِذَلِكَ الاسْمِ سَوَاءً. فَمَنْ كَانَ هَذَا مَبْلَغُهُ مِنَ الْعِلْمِ، لَمْ يَحِلَّ لَهُ تَعَاطِي الْفِقْهِ، وَلا الْفُتْيَا، وَوَجَبَ عَلَيْهِ التَّعَلُّمُ، أَوِ السَّكْتُ، إِلَى أَنْ يُدْرِكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا يَجُوزُ مَعَهُ الْفُتْيَا، وَتَعَاطِي الْعِلْمِ. وَمَنْ فَهِمَ هَذِهِ الصَّنَاعَةَ عَلِمَ أَنَّ مَا أُبِيحَ غَيْرُ مَا حُظِرَ، وَإِنْ كَانَ اسْمُ الْوَاحِدِ قَدْ يَقَعُ عَلَى الْمُبَاحِ وَعَلَى الْمَحْظُورِ جَمِيعًا، فَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ الَّذِي ذَكَرْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ دَلَّ فِي كِتَابِهِ أَنَّ مُبَاشَرَةَ النِّسَاءِ فِي نَهَارِ الصَّوْمِ غَيْرُ جَائِزٍ كَقَوْلِهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ سورة البقرة آية 187 فَأَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُبَاشَرَةَ النِّسَاءِ وَالأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِاللَّيْلِ، ثُمَّ أَمَرَنَا بِإِتْمَامِ الصِّيَامِ إِلَى اللَّيْلِ، عَلَى أَنَّ الْمُبَاشَرَةَ الْمُبَاحَةَ بِاللَّيْلِ الْمَقْرُونَةَ إِلَى الأَكْلِ وَالشُّرْبِ هِيَ الْجِمَاعُ الْمُفَطِّرُ لِلصَّائِمِ، وَأَبَاحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِفِعْلِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُبَاشَرَةَ الَّتِي هِيَ دُونَ الْجِمَاعِ فِي الصِّيَامِ، إِذْ كَانَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ. وَالْمُبَاشَرَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا اللَّهُ فِي كِتَابِهِ أَنَّهَا تُفَطِّرُ الصَّائِمَ هِيَ غَيْرُ الْمُبَاشَرَةِ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُهَا فِي صِيَامِهِ. وَالْمُبَاشَرَةُ اسْمٌ وَاحِدٌ وَاقِعٌ عَلَى فِعْلَيْنِ: إِحْدَاهُمَا: مُبَاحَةٌ فِي نَهَارِ الصَّوْمِ، وَالأُخْرَى: مَحْظُورَةٌ فِي نَهَارِ الصَّوْمِ، مُفَطِّرَةٌ لِلصَّائِمِ. وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ سورة الجمعة آية 9 فَأَمَرَ رَبُّنَا جَلَّ وَعَلا بِالسَّعْيِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلاةَ فَلا تَأْتُوهَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ، إِيتُوهَا تَمْشُونَ وَعَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ". فَاسْمُ السَّعْيِ يَقَعُ عَلَى الْهَرْوَلَةِ، وَشِدَّةِ الْمَشْيِ، وَالْمُضِيِّ إِلَى الْمَوْضِعِ، فَالسَّعْيُ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُسْعَى إِلَى الْجُمُعَةِ، هُوَ الْمُضِيُّ إِلَيْهَا، وَالسَّعْيُ الَّذِي زَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ إِتْيَانَ الصَّلاةِ هُوَ الْهَرْوَلَةُ وَسُرْعَةُ الْمَشْيِ. فَاسْمُ السَّعْيِ وَاقِعٌ عَلَى فِعْلَيْنِ: أَحَدُهُمَا مَأْمُورٌ، وَالآخَرُ مَنْهِيٌّ عَنْهُ. وَسَأُبَيِّنُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى هَذَا الْجِنْسَ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ، إِنْ وَفَّقَ اللَّهُ لِذَلِكَ