Abu Huraira (رضي الله تعالى عنه) narrated that the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) said, if any owner of gold or silver does not pay what is due on him, when the Day of Resurrection would come, plates of fire would be beaten out for him; these would then be heated in the fire of Hell and his sides, his forehead and his back would be cauterized with them. Whenever these cool down, (the process would be) repeated during a day the extent of which would be fifty thousand years, until judgment is pronounced among servants, and he sees whether his path is to take him to Paradise or to Hell. It was said, O Apostle of Allah ( صلىہللا عليه و آله وسلم), what about the camel? He (the Prophet ﷺ) said, ‘if any owner of the camel does not pay what is due on him, and of his due in that (camel) is (also) to milk it on the day when it comes down to water. When the Day of Resurrection comes a soft sandy plain would be set for him, as extensive as possible, (he will find) that not a single young one is missing, and they will trample him with their hoofs and bite him with their mouths. As often as the first of them passes him, the last of them would be made to return during a day the extent of which would be fifty thousand years, until judgment is pronounced among servants and he sees whether his path is to take him to Paradise or to Hell. It was (again) said, O Apostle of Allah ( صلى ہللاعليه و آله وسلم), what about cows (cattle) and sheep? He said, ‘if any owner of the cattle and sheep does not pay what is due on him, when the Day of Resurrection comes a soft sandy plain would be spread for him, he will find none of them missing, with twisted horns, without horns or with a broken horn, and they will gore him with their horns and trample him with their hoofs. As often as the first of them passes him the last of them would be made to return to him during a day the extent of which would be fifty thousand years, until judgment would be pronounced among the servants. And he would be shown his path-path leading him to Paradise or to Hell. It was said, O Apostle of Allah ( صلى ہللا عليه و آلهوسلم), what about the horse? Upon this he said, ‘the horses are of three types. To one than (these are) a burden, and to another man (these are) a covering, and still to another man (these are) a source of reward. The one for whom these are a burden is the person who rears them in order to show off, for vainglory and for opposing the Muslims; so, they are a burden for him. The one for whom these are a covering is the person who rears them for the sake of Allah but does not forget the right of Allah concerning their backs and their necks, and so they are a covering for him. As for those which bring reward (these refer to) the person who rears them for the sake of Allah to be used for Muslims and he puts them in meadow and field. And whatever thing do these eat from that meadow and field would be recorded on his behalf as good deeds, as would also the amount of their dung and urine. And these would not break their halter and prance a course or two without having got recorded the amount of their hoof marks and their dung as a good deed on his behalf (their owner). And their master does not bring them past a river from which they drink, though he did not intend to quench their thirst, but Allah would record for him the amount of what they drink on his behalf as deeds. It was said, O Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم), what about the asses?, Upon this he said, ‘nothing has been revealed to me in regard to the asses (in particular) except this one verse of a comprehensive nature - َُ هًا يَرَّ ةٍ خَيْرفَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَر- ْوَمَنْ يَعْمَل َّمِثْقَالَ ذَر َُ هًّا يَرةٍ شَر [He who does an atom's weight of good will see it, and he who does an atom's weight of evil will see it]. (Az-Zalzala - 7).
حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے ( یا ان کی قیمت میں سے ) ان کا حق ( زکاۃ ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہوگا ( انھیں ) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا ، جب وہ ( تختیاں ) پھر سے ( آگ میں ) جائیں گی ، انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا ، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے ( یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا ) حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا ، پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا ۔ "" آپ ﷺ سے پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ﷺ !اونٹوں کا کیا حکم ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا : "" کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن ( ضرورت مندوں اور مسافروں کےلئے ) ان کا دودھ نکالا جائے ، اور جب قیامت کا دن ہوگااس ( مالک ) ایک وسیع چٹیل میدان میں ان ( اونٹوں ) کے سامنے بچھا ( لٹا ) دیاجائے گا ، وہ ( اونٹ دنیا میں تعداد اور فربہی کے اعتبار سے ) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے ، وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا ، وہ اسے اپنے قدموں سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے ، جب بھی ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزر جائےگا تو دوسرا اس پر واپس لے آیا جائے گا ، یہ اس دن میں ( بار بار ) ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی ، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائےگا اور اسے اور اسے جنت کادوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھایاجائے گا ۔ آپ ﷺ سے عر ض کی گئی : اللہ کے رسول ﷺ !تو گائے اور بکریاں؟آپ ﷺ نے فرمایا : "" اورنہ گائے اور بکریوں کا کوئی مالک ہوگا جو ان کا حق ادا نہیں کرتا ، مگر جب قیامت کادن ہوگا تو اسے ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بچھایا ( لِٹایا ) جائے گا ۔ وہ ان میں سے کسی ایک ( جانور ) کو بھی گم نہیں پائےگا ۔ ان میں کوئی ( گائے یا بکری ) نہ مڑے سینگوں والی ہوگی ، نہ بغیر سینگوں کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی ( سب سیدھے تیز سینگوں والی ہوں گی ) وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سمو سے روندیں گی ، ( یہ معاملہ ) اس دن میں ( ہوگا ) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا ، جب پہلا ( جانور ) گزر جائے گا تو ان کا دوسرا ( جانور واپس ) لے آیا جائے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا ، اور سے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ د یکھایا جائے گا ۔ "" عرض کی گئی : اے اللہ کے رسول ﷺ !تو گھوڑے؟آپ ﷺ نے فرمایا : "" گھوڑے تین طرح کے ہیں : وہ جو آدمی کے بوجھ ہیں ، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر ( پردہ پوشی کا باعث ) ہیں ۔ تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں ۔ بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاکاری ، فخر وغرور ، اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لئے بوجھ ( گناہ ) ہیں ۔ اور وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں تو وہ ( اس ) آدمی ( کے گھوڑے ہیں ) جس نے انھیں ( موقع ملنے پر ) اللہ کی راہ میں ( خود جہاد کرنے کے لئے ) باندھ رکھا ہے ، پھر وہ ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو یہ اس کے لئے باعث ستر ہیں ( چاہے اسے جہاد کا موقع ملے یا نہ ملے ) اور وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو وہ ( اس ) آدمی ( کے گھوڑے ہیں ) جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر کسی چراگاہ یا باغیچے میں باندھ رکھا ہے ( اور وہ خود جہاد پر جاسکے یا نہ جاسکے انھیں دوسروں کو جہاد کے لئے دیتا ہے ) یہ گھوڑے اس چراگاہ یاباغ میں سے جتنا بھی کھائیں گے تو اس شخص کے لئے اتنی تعداد میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس شخص کے لئے ان کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر ( بھی ) نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور وہ گھوڑے اپنی رسی تڑواکر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ نہیں لگائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ا س شخص کےلئے ان کے قدموں کے نشانات اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دے گا اور نہ ہی ان کا مالک انھیں لے کر کسی نہر پر سے گزرے گا اور وہ گھوڑے اس نہر میں سے پانی پیئں گے جبکہ وہ ( مالک ) ان کو پانی پلانا ( بھی ) نہیں چاہتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اتنی نیکیاں لکھ دے گا جتنا ان گھوڑوں نے پانی پیا ۔ "" عرض کی گئی : اے اللہ کے رسول ﷺ !اور گدھے؟آپ ﷺ نے فرمایا : "" مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کوئی چیز نازل نہیں کی گئی : فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿﴾ "" جو کوئی ایک زرے کی مقداار میں نیکی کرے گا ( قیامت کے دن ) اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک زرے کے برابر بُرائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔ ""
Hafs bin Maisarah Sanaani ne Zaid bin Aslam se hadeeth bayan ki ke un ko Abu Saleh Zukaan ne khabar di ke unhon ne Hazrat Abu Hurairah Radiallahu Ta'ala Anhu ko kahte huwe suna: Rasoolullah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: Jo bhi sone aur chaandi ka malik in mein se (ya in ki qeemat mein se) in ka haq (zakah) ada nahin karta to jab qiyaamat ka din hoga (unhen) is ke liye aag ki takhtiyan bana di jaengi aur unhen Jahannam ki aag mein garm kiya jayega aur phir an se is ke pahloo, is ki peshani aur is ki peeth ko dagha jayega, jab woh (takhtiyan) phir se (aag mein) jaengi, unhen phir se is ke liye vapas laya jayega, is din jis ki miqdar pachas hazaar saal hai (yeh amal masalsil hota rahega) hatta ke bando ke darmiyan faisala kar diya jayega, phir woh jannat ya dozak ki taraf apna raasta dekh lega. "" Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) se poocha gaya: Aey Allah ke Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم)! Onton ka kya hukm hai? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: "" Koi onto ka malik nahin jo in ka haq ada nahin karta aur in ka haq yeh bhi hai ke in ko pani pilane ke din (zarooratmandon aur musafiron ke liye) in ka doodh nikala jaye, aur jab qiyaamat ka din hoga is (malik) aik wasee chatil maidan mein in (onton) ke samne bachha (litaya) diya jayega, woh (ont dunia mein tadaad aur farbahi ke e'tibar se) jitne zyada se zyada wafir the is halat mein honge, woh in mein se doodh chhudaye huwe aik bacche ko bhi gam nahin payega, woh isse apne qadmon se rondaynge aur apne munh se kaatengay, jab bhi in mein se pehla ont is par se guzar jayega to doosra is par vapas le aya jayega, yeh is din mein (bar bar) hoga jis ki miqdar pachas hazaar saal hogi, yahaan tak ke bando ke darmiyan faisla ho jayega aur isse aur isse jannat ka dozak ki taraf is ka raasta dikhaya jayega. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) se arz ki gai: Allah ke Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم)! To gaye aur bakriyan? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: "" Aur nah gaye aur bakriyon ka koi malik hoga jo in ka haq ada nahin karta, magar jab qiyaamat ka din hoga to isse in ke samne wasee chatil maidan mein bachhaya (litaya) jayega. Woh in mein se kisi aik (janwar) ko bhi gam nahin payega. In mein koi (gay ya bakri) nah murde singon wali hogi, nah baghair singon ke aur nah hi koi tote singon wali hogi (sab sidhe tez singon wali honge) woh isse apne singon se maarengi aur apne samu se rondayngi, (yeh maamla) is din mein (hoga) jo pachas hazaar saal ke barabar hoga, jab pehla (janwar) guzar jayega to in ka doosra (janwar vapas) le aya jayega hatta ke bando ke darmiyan faisla ho jayega, aur se jannat ya dozak ki taraf is ka raasta dekhaya jayega. "" Arz ki gai: Aey Allah ke Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم)! To ghode? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: "" Ghode teen tarah ke hain: Woh jo aadmi ke bojh hain, doosre woh jo aadmi ke liye satr (pardah poshi ka bais) hain. Teesre woh jo aadmi ke liye ajar wa sawab ka bais hain. Bojh aur gunaah ka bais woh ghode hain jin ko in malik riyakari, fakhr o ghuror, aur musalmanon ki dushmani ke liye bandhta hai to yeh ghode is ke liye bojh (gunaah) hain. Aur woh jo is ke liye pardah poshi ka bais hain to woh (is) aadmi (ke ghode hain) jis ne unhen (mauqa milne par) Allah ki raah mein (khud jihad karne ke liye) bandh rakha hai, phir woh in ki pishtoon aur gardanon mein Allah ke haq ko nahin bhula to yeh is ke liye bais satr hain (chahe isse jihad ka mauqa mile ya nah mile) aur woh ghode jo is ke liye ajar wa sawab ka bais hain to woh (is) aadmi (ke ghode hain) jis ne unhen Allah ki raah mein ahl e islam ki khatir kisi charaagah ya bagiche mein bandh rakha hai (aur woh khud jihad par ja sake ya nah ja sake unhen dusron ko jihad ke liye deta hai) yeh ghode is charaagah ya bag mein se jitna bhi khaengay to is shakhs ke liye itni tadaad mein nekiyan likh di jayengay aur is shakhs ke liye in ki leed aur peshab ki miqdar ke barabar (bhi) nekiyan likh di jayengay aur woh ghode apni rasi tadwa kar aik do teelon ki dour nahin lagaengay magar Allah Ta'ala is shakhs ke liye in ke qadmon ke nishanaat aur leed ki tadaad ke barabar nekiyan likh de ga aur nah hi in ka malik unhen le kar kisi nahar par se guzarayga aur woh ghode is nahar mein se pani piengay jab ki woh (malik) in ko pani pilana (bhi) nahin chahta magar Allah Ta'ala is shakhs ke liye itni nekiyan likh dega jitna in ghodon ne pani piya. "" Arz ki gai: Aey Allah ke Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم)! Aur gadhe? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: "" Mujh par gadhon ke baray mein is munfarid aur jaame' ayat ke siwa koi cheez nazil nahin ki gai: Faman ya'mal mithqala zarratin khairan yarahu ﴿﴾ Waman ya'mal mithqala zarratin sharran yarahu ﴿﴾ " Jo koi aik zarre ki miqdaar mein neki karega (qiyaamat ke din) isse dekh lega aur jo koi aik zarre ke barabar burai karega isse dekh lega. ""
وَحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، - يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ - عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ، ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلاَ فِضَّةٍ لاَ يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلاَّ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحَ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيُرَى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ " . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالإِبِلُ قَالَ " وَلاَ صَاحِبُ إِبِلٍ لاَ يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا إِلاَّ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ لاَ يَفْقِدُ مِنَهَا فَصِيلاً وَاحِدًا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولاَهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيُرَى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ " . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ قَالَ " وَلاَ صَاحِبُ بَقَرٍ وَلاَ غَنَمٍ لاَ يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلاَّ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ لاَ يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلاَ جَلْحَاءُ وَلاَ عَضْبَاءُ تَنْطِحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلاَفِهَا كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولاَهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيُرَى سَبِيلُهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ " . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ قَالَ " الْخَيْلُ ثَلاَثَةٌ هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الإِسْلاَمِ فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلاَ رِقَابِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لأَهْلِ الإِسْلاَمِ فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَىْءٍ إِلاَّ كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ وَلاَ تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ إِلاَّ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ وَلاَ مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلاَ يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا إِلاَّ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ " . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ قَالَ " مَا أُنْزِلَ عَلَىَّ فِي الْحُمُرِ شَىْءٌ إِلاَّ هَذِهِ الآيَةُ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ { فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ} " .