31.
Book of Expeditions and Jihad
٣١-
كتاب الغزوة والجهاد
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
ibn ‘abbāsin | Abdullah bin Abbas Al-Qurashi | Companion |
‘ubayd al-lah bn ‘abd al-lah bn ‘tbh | Ubayd Allah ibn Abd Allah al-Hudhali | Trustworthy jurist, sound |
al-zuhrī | Muhammad ibn Shihab al-Zuhri | The Faqih, the Hafiz, agreed upon for his greatness and mastery |
ibn isḥāq | Ibn Ishaq al-Qurashi | Saduq Mudallis |
yūnus bn bukayrin | Younus ibn Bukayr Al-Shaybani | Saduq Hasan al-Hadith |
aḥmad bn ‘abd al-jabbār | Ahmad bin Abd Al-Jabbar Al-Attardi | Weak in Hadith |
abū al-‘abbās muḥammad bn ya‘qūb | Muhammad ibn Ya'qub al-Umawi | Trustworthy Hadith Scholar |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
ابْنِ عَبَّاسٍ | عبد الله بن العباس القرشي | صحابي |
عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ | عبيد الله بن عبد الله الهذلي | ثقة فقيه ثبت |
الزُّهْرِيُّ | محمد بن شهاب الزهري | الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه |
ابْنِ إِسْحَاقَ | ابن إسحاق القرشي | صدوق مدلس |
يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ | يونس بن بكير الشيباني | صدوق حسن الحديث |
أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ | أحمد بن عبد الجبار العطاردي | ضعيف الحديث |
أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ | محمد بن يعقوب الأموي | ثقة حافظ |
Mustadrak Al Hakim 4359
Narrated Abdullah bin Abbas: The Messenger of Allah ﷺ set out in the year of the Conquest of Makkah, and he passed through "Mar-al-Zahran" with ten thousand Muslims. Many people from the tribes of (Banu) Salim and Muzaynah were among them, and there was a (large) number of Muslims in each tribe. At that time, all the Muhajirin (emigrants) and Ansar (helpers) were accompanying the Messenger of Allah ﷺ, and not one of them was left behind. The people of Quraysh had no idea; neither had any news of the Messenger of Allah ﷺ reached them, nor did they understand what he would do with them. Abu Sufyan and Abdullah bin Abi Umayya bin Mughirah went to the Messenger of Allah ﷺ in "Thanniyat-al-Uqab" between Makkah and Madinah and expressed their desire to meet him. Umm Salamah (May Allah be pleased with her) conveyed their request to him, saying: "O Messenger of Allah ﷺ! (One of them is) your cousin, and the other is the son of your paternal aunt and your father-in-law." He ﷺ said: "I do not care about either of them. My uncle disregarded my honor, and the son of my paternal aunt and father-in-law is the one who spoke very badly of me in Makkah." Abu Sufyan bin Harb was accompanied by his son. When he learned of the Messenger of Allah ﷺ's sentiments, he said: "By Allah! Either the Messenger of Allah ﷺ will allow me (to meet him), or I will take this son of mine with me and go away to a distant place where we will die of hunger and thirst." When this reached the Messenger of Allah ﷺ, he showed leniency towards them, and then both of them appeared before him. Abu Sufyan apologized for his past mistakes and recited the following verses in favor of Islam: "By Allah! There were days when I used to raise the flag to make the army of Lat victorious over the army of Muhammad. I was like a man who is lost in darkness, but this is the time (to embrace) the truth. Allah has guided me, and I have come to the straight path. So tell the tribe of Thaqif that I do not want to fight them, and tell Thaqif that they are with me, so let them promise (to embrace Islam). A guide has shown me the straight path, and changed my being, and he guided me to Allah, whom I had completely rejected. I used to run far away from Muhammad, and people used to associate me with Muhammad, even though I did not want to be associated with him. That was a group (to which I previously belonged) in which whoever did not speak in their support according to their desire was blamed and considered guilty, even if he was wise. I wanted to please them, and I would not talk to any nation until they presented me with a gift from every gathering. Whatever wealth the army I was in acquired and consumed was the earnings of my hand and tongue. And surely the one whom you have expelled and spoken ill of will soon rise above all kinship and strive for you." (Ibn Abbas) said: When he said: "...the one whom you have expelled...", the Messenger of Allah ﷺ struck his chest with his hand and said: "You are the one who expelled me." Ibn Ishaq said: The mother of the Messenger of Allah ﷺ, went to visit her maternal uncles in Bani Najjar and died there in Abwa'. ** This Hadith is Sahih (authentic) according to the criteria of Imam Muslim (may Allah have mercy on him), but the two Shaykhs (Al-Bukhari and Muslim) did not narrate it. Abu Sufyan bin Harb (may Allah be pleased with him) was the foster brother of the Messenger of Allah ﷺ; both were nursed by Halimah Sa'diyah (may Allah be pleased with her). And he was also the cousin of the Messenger of Allah ﷺ. But he treated the Messenger of Allah ﷺ unjustly and on several occasions he slandered him. Even Hassan bin Thabit (may Allah be pleased with him) responded to him in his qasidah (poem). In it he says: "You have found fault with him ﷺ, and I have responded to it, and in the court of Allah Almighty there will be retribution." This complete Hadith and the entire qasidah are present in the Hadith of Sahih Muslim Sharif. Hassan bin Thabit (may Allah be pleased with him) used to seek permission to condemn (Abu Sufyan), but the Messenger of Allah ﷺ would forbid him.
" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال روانہ ہوئے اور دس ہزار مسلمانوں کی ہمراہی میں ’’ مرالظہران ‘‘ سے گزرے ( قبیلہ بنو ) سلیم اور مزینہ قبیلے کے بہت سے افراد اس میں شامل تھے ۔ اور ہر قبیلے میں مسلمانوں کی ایک ( اچھی خاصی ) تعداد تھی ۔ اس وقت تمام مہاجرین اور انصار رسول اللہ ﷺ کے قافلے کے ہمراہ تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہا تھا ۔ قریش کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ۔ نہ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کی کوئی خبر پہنچ رہی تھی اور نہ ان کو یہ سمجھ آ رہی تھی کہ آپ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ۔ اور ابوسفیان اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ’’ ثنیۃ العقاب ‘‘ میں حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کی خدمت میں حاضری کی خواہش ظاہر کی ۔ ان کی درخواست حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ تک پہنچاتے ہوئے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! ( ان میں ایک ) آپ کا چچا زاد اور دوسرا آپ کی پھوپھی کا بیٹا اور خسر ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے ان دونوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ میرے چچا نے میری عزت اچھالی تھی اور میری پھوپھی کا بیٹا اور خسر یہ وہی ہے جس نے مکہ میں مجھے بہت برا بھلا کہا تھا ۔ ابوسفیان بن حارث کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا ۔ جب اس کو رسول اللہ ﷺ کے ان تاثرات کا پتہ چلا تو بولا : خدا کی قسم ! یا تو رسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دے دیں گے ورنہ میں اپنے اس بچے کو اپنے ساتھ لے کر کہیں دور نکل جاؤں گا ، جہاں بھوک اور پیاس کے ساتھ ہم مر جائیں گے ۔ جب یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ نے ان کے لئے نرمی اختیار فرمائی ، پھر یہ دونوں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ تو ابوسفیان نے اپنی گزشتہ خطاؤں کی معذرت کرتے ہوئے اسلام کے حق میں درج ذیل اشعار پڑھے ۔ خدا کی قسم ! وہ دن بھی تھے جب میں لات کے لشکر کو محمد کے لشکر پر غالب کرنے کے لئے علم بلند کیا کرتا تھا ۔ میں اس حیران آدمی کی طرح تھا جو اندھیرے میں پھنسا ہوا ہو ، لیکن یہ حق ( کو تسلیم کر لینے ) کا وقت ہے ۔ اللہ نے مجھے ہدایت دی ہے اور میں سیدھے راستہ پر آ گیا ہوں ۔ پس تم قبیلہ ثقیف کو کہہ دو کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا ، اور ثقیف سے کہہ دو کہ وہ میرے پاس ہیں ، تو وہ وعدہ کریں ۔ ایک ہدایت دینے والے نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ، اور میری ذات کو بدل کر رکھ دیا اور اس نے اللہ کی طرف میری راہنمائی کی جس کو میں بالکل دھتکار چکا تھا ۔ میں محمد ﷺ سے بہت دور بھاگتا تھا ، اور لوگ مجھے محمد سے منسوب کرتے تھے اگرچہ میں ان سے منسوب ہونا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ ایسی جماعت تھی ( جس میں ، میں پہلے شامل تھا ) کہ جو ان کی خواہش کے مطابق ان کی حمایت میں نہ بولتا اس کو ملامت کی جاتی اور اسے خطاوار ٹھہرایا جاتا اگرچہ وہ عقل مند ہی کیوں نہ ہوتا ۔ میں ان کو راضی کرنا چاہتا تھا اور میں کسی قوم کے ساتھ اس وقت تک گفتگو نہیں کیا کرتا تھا جب تک وہ مجھے ہر مجلس کا ہدیہ پیش نہ کر دیتے تھے ۔ میں جس لشکر میں بھی رہا تو انہوں نے جو کچھ مال پایا اور جو کھایا سب میرے ہاتھ اور میری زبان کی کمائی تھی ۔ اور بے شک جس شخص کو تم نے نکالا اور برا بھلا کہا ، عنقریب وہ تمام رشتہ داریوں سے بالاتر ہو کر تمہارے لئے جدوجہد کرے گا ۔ ( حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ) فرماتے ہیں : جب اس نے کہا : الی من طردت کل مطرد تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا : انت الذی طردتنی کل مطرد ( تو ہی ہے جس نے مجھے بالکل دھتکار دیا تھا ) ابن اسحاق کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کی والدہ ماجدہ اپنے ماموؤں سے ملنے بنی نجار گئی تھیں تو وہیں مقام ابواء میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ ٭٭ یہ حدیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین رحمۃ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا ۔ اور ابوسفیان بن حارث رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا رضاعی بھائی تھا دونوں کو حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا تھا ۔ اور وہ حضور ﷺ کا چچا زاد بھائی بھی تھا ۔ لیکن اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور کئی مرتبہ آپ کی شان میں ہرزہ سرائی کی ۔ حتی کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے قصیدے میں اس کا جواب دیا ۔ اس میں آپ فرماتے ہیں : تو نے آپ ﷺ کی عیب جوئی کی ہے اور میں نے اس کا جواب دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کا بدلہ ملے گا ۔ یہ مکمل حدیث اور پورا قصیدہ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں موجود ہے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اس ( ابوسفیان ) کی مذمت بیان کرنے کی اجازت مانگا کرتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ منع فرما دیا کرتے تھے ۔"
Hazrat Abdullah bin Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a farmate hain : Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) Fath Makkah wale saal rawana hue aur das hazaar Musalmanon ki hamrahi mein '' Meraj Zahran '' se guzre ( Qabeela Banu ) Saleem aur Mazeena qabeele ke bahut se afrad is mein shamil the . Aur har qabeele mein Musalmanon ki ek ( achi khasi ) tadaad thi . Is waqt tamam muhajireen aur Ansar Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke qafle ke hamrah the aur in mein se koi ek bhi peeche nahin raha tha . Quresh ko kuch pata nahin chal raha tha . Na un ke paas Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki koi khabar pahunch rahi thi aur na un ko yeh samajh aa rahi thi ki aap un ke sath kya suluk karenge . Aur Abusufyan aur Abdullah bin Abi Umayyah bin Mugheerah Makkah aur Madina ke darmiyan '' Saniyah al Uqab '' mein Huzoor (صلى الله عليه وآله وسلم) ke paas pahunche aur aap ki khidmat mein hazari ki khwahish zahir ki . Un ki darkhwast Hazrat Umme Salma ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne aap tak pahunchate hue kaha : Ya Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ! ( in mein ek ) Aap ka chacha zad aur dusra aap ki phoophi ka beta aur khasar hai . Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya : Mujhe in donon ki koi parwah nahin hai . Mere chacha ne meri izzat uchali thi aur meri phoophi ka beta aur khasar yeh wohi hai jis ne Makkah mein mujhe bahut bura bhala kaha tha . Abusufyan bin Harith ke sath is ka beta bhi tha . Jab is ko Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke in tasurat ka pata chala to bola : Khuda ki qasam ! Ya to Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) mujhe ijazat de denge warna mein apne is bache ko apne sath lekar kahin door nikal jaunga , jahan bhook aur pyaas ke sath hum mar jayenge . Jab yeh baat Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) tak pahunchi to aap ne un ke liye narmi ikhtiyar farmai , phir yeh donon Huzoor (صلى الله عليه وآله وسلم) ki khidmat mein hazir hue . To Abusufyan ne apni guzishta khataon ki mazrat karte hue Islam ke haq mein darj zail ashaar parhe . Khuda ki qasam ! Woh din bhi the jab mein Laat ke lashkar ko Muhammad ke lashkar par ghalib karne ke liye ilm buland karta tha . Mein is hairan aadmi ki tarah tha jo andhere mein phansa hua ho , lekin yeh haq ( ko tasleem kar lene ) ka waqt hai . Allah ne mujhe hidayat di hai aur mein seedhe rasta par aa gaya hun . Pas tum qabeela Thaqeef ko keh do ki mein tum se ladna nahin chahta , aur Thaqeef se keh do ki woh mere paas hain , to woh waada karen . Ek hidayat dene wale ne mujhe seedha rasta dikhaya , aur meri zaat ko badal kar rakh diya aur us ne Allah ki taraf meri rahnumai ki jis ko mein bilkul dhutkar chuka tha . Mein Muhammad (صلى الله عليه وآله وسلم) se bahut door bhagta tha , aur log mujhe Muhammad se mansoob karte the agarche mein un se mansoob hona nahin chahta tha . Woh aisi jamaat thi ( jis mein , mein pehle shamil tha ) ki jo un ki khwahish ke mutabiq un ki himayat mein na bolta us ko malamat ki jati aur use khataawar thehraya jata agarche woh aql mand hi kyun na hota . Mein un ko raazi karna chahta tha aur mein kisi qaum ke sath is waqt tak guftagu nahin karta tha jab tak woh mujhe har majlis ka hadiya pesh na kar dete the . Mein jis lashkar mein bhi raha to unhon ne jo kuch maal paya aur jo khaya sab mere hath aur meri zaban ki kamai thi . Aur be shak jis shakhs ko tum ne nikala aur bura bhala kaha , anqareeb woh tamam rishtedariyon se balatar ho kar tumhare liye jad-o-jehad karega . ( Hazrat Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ) farmate hain : Jab us ne kaha : Ila man taradt kull mutaradd to Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne us ke seene par hath maar kar farmaya : Anta alldhi taradtani kull mutaradd ( Tu hi hai jis ne mujhe bilkul dhutkar diya tha ) Ibn Ishaq kehte hain : Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki walida majda apne mammon se milne Bani Najjar gayi thin to wahin maqam Abwa mein un ka inteqal ho gaya . ** Yeh hadees Imam Muslim Rehmatullah Alaih ke miyaar ke mutabiq sahi hai lekin Sheikhain Rehmatullah Alaihema ne is ko naqal nahin kiya . Aur Abusufyan bin Harith (رضي الله تعالى عنه) Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ka rizayi bhai tha donon ko Haleema Saadiya ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne doodh pilaya tha . Aur woh Huzoor (صلى الله عليه وآله وسلم) ka chacha zad bhai bhi tha . Lekin us ne Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke sath narwa suluk kiya aur kai martaba aap ki shan mein harza sarai ki . Hatta ki Hazrat Hassan bin Thabit (رضي الله تعالى عنه) ne apne qaseede mein is ka jawab diya . Is mein aap farmate hain : Tu ne aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki aib joee ki hai aur mein ne is ka jawab diya hai aur Allah Ta'ala ki bargah mein is ka badla milega . Yeh mukammal hadees aur poora qaseeda Sahih Muslim Shareef ki hadees mein maujood hai . Hazrat Hassan bin Thabit (رضي الله تعالى عنه) is ( Abusufyan ) ki mazammat bayan karne ki ijazat manga karte the lekin Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) mana farma diya karte the .
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ عَامَ الْفَتْحِ حَتَّى نَزَلَ مَرَّ الظَّهْرَانِ فِي عَشَرَةِ آلَافٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَبَّعَتْ سُلَيْمٌ وَأَلَّفَتْ مُزَيْنَةُ وَفِي كُلِّ الْقَبَائِلِ عَدَدٌ وَإِسْلَامٌ وَأَوْعَبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، فَلَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ، وَقَدْ عَمِيَتِ الْأَخْبَارُ عَلَى قُرَيْشٍ، فَلَا يَأْتِيَهُمْ خَبَرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَدْرُونَ مَا هُوَ صَانِعٌ، وَكَانَ أَبُو سُفْيَانُ بْنُ الْحَارِثِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَدْ لَقِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَنِيَّةَ الْعِقَابِ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَالْتَمَسَا الدُّخُولَ عَلَيْهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ عَمِّكَ، وَابْنُ عَمَّتِكَ، وَصِهْرُكِ، فَقَالَ: «لَا حَاجَةَ لِي فِيهِمَا، أَمَّا ابْنُ عَمِّي فَهَتَكَ عِرْضِي، وَأَمَّا ابْنُ عَمَّتِي وَصِهْرِي فَهُوَ الَّذِي، قَالَ لِي بِمَكَّةَ مَا قَالَ» فَلَمَّا خَرَجَ الْخَبَرُ إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ وَمَعَ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْحَارِثِ ابْنٌ لَهُ فَقَالَ: وَاللَّهِ لَيَأَذْنَنَّ رَسُولُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ لَآخُذَنَّ بِيَدِ ابْنِي هَذَا، ثُمَّ لَنَذْهَبَنَّ فِي الْأَرْضِ حَتَّى نَمُوتَ عَطَشًا أَوْ جُوعًا، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقَّ لَهُمَا فَدَخَلَا عَلَيْهِ فَأَنْشَدَهُ أَبُو سُفْيَانَ قَوْلَهُ فِي إِسْلَامِهِ، وَاعْتِذَارِهِ مِمَّا كَانَ مَضَى فِيهِ، فَقَالَ: [البحر الطويل] لَعَمْرُكَ إِنِّي يَوْمَ أَحْمِلُ رَايَةً ... لِتَغْلِبَ خَيْلُ اللَّاتِ خَيْلَ مُحَمَّدِ لَكَا لِمُدْلِجِ الْحَيْرَانُ أَظْلَمَ لَيْلَةً ... فَهَذَا أَوَانُ الْحَقِّ أَهْدِي وَأَهْتَدِي فَقُلْ لِثَقِيفٍ لَا أُرِيدُ قِتَالَكُمْ ... وَقُلْ لِثَقِيفٍ تِلْكَ عِنْدِي فَاوْعَدِي هَدَانِي هَادٍ غَيْرَ نَفْسِي وَدَلَّنِي ... إِلَى اللَّهِ مَنْ طَرَدْتُ كُلَّ مَطْرَدِ أَفِرُّ سَرِيعًا جَاهِدًا عَنْ مُحَمَّدٍ ... وَأَدَّعِي وَلَوْ لَمْ أَنْتَسِبْ لِمُحَمَّدِ هُمْ عُصْبَةُ مَنْ لَمْ يَقُلْ بِهَواهُمْ ... وَإِنْ كَانَ ذَا رَأْيٍ يُلِمْ وَيُفَنَّدِ أُرِيدُ لِأَرِضِيَهُمْ وَلَسْتُ بِلَافِظٍ ... مَعَ الْقَوْمِ مَا لَمْ أُهْدَ فِي كُلِّ مَقْعَدِ فَمَا كُنْتُ فِي الْجَيْشِ الَّذِي نَالَ عَامِرًا ... وَلَا كَلَّ عَنْ خَيْرٍ لِسَانِي وَلَا يَدِي قَبَائِلُ جَاءَتْ مِنْ بِلَادٍ بَعِيدَةٍ ... تَوَابِعُ جَاءَتْ مِنْ سِهَامٍ وَسُرْدَدِ وَإِنَّ الَّذِي أَخَرَجْتُمْ وَشَتَمْتُمْ ... سَيَسْعَى لَكُمْ سَعْيَ امْرِئٍ غَيْرِ قَعْدَدِ قَالَ: فَلَمَّا أَنْشَدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَى اللَّهِ مَنْ طُرِدْتُ كُلَّ مَطْرَدِ، ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِهِ، فَقَالَ: «أَنْتَ طَرَدْتَنِي كُلَّ مَطْرَدِ» ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: «مَاتَتْ أُمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْأَبْوَاءِ، وَهِيَ تَزُورُ خَوَالَهَا مِنْ بَنِي النَّجَّارِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ «،» وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَخُو رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْهُمَا حَلِيمَةُ، وَابْنُ عَمِّهِ، ثُمَّ عَامَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمُعَامَلَاتٍ قَبِيحَةٍ، وَهَجَاهُ غَيْرَ مَرَّةٍ حَتَّى أَجَابَهُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِقَصِيدَتِهِ الَّتِي، يَقُولُ فِيهَا: [البحر الوافر] هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ ... وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ الْحَدِيثُ وَالْقَصِيدَةُ بِطُولِهَا مُخَرَّجَةٌ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ لِمُسْلِمٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَقَدْ كَانَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَأْذِنُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَهْجُوَهُ فَلَا يَأْذَنُ لَهُ [التعليق - من تلخيص الذهبي] 4359 - على شرط مسلم