32.
Statement of Knowing the Companions of the Prophet (may Allah be pleased with them)
٣٢-
بیان معرفة الصحابة الكرام رضوان الله علیهم


Virtues of Hazrat Abu al-'Aas bin Rabi' (may Allah be pleased with him), the son-in-law of the Prophet Muhammad ﷺ

داماد رسول الله صلى الله عليه وسلم، حضرة أبو العاص بن ربيع، رضي الله عنه، أفضله.

Mustadrak Al Hakim 5038

Aisha, the Mother of the Believers, may Allah be pleased with her, narrated: When the people of Mecca sent ransoms for their prisoners, Zainab, the daughter of the Messenger of Allah, may Allah be pleased with her, sent property as ransom for her husband, Abu al-As, may Allah be pleased with him. Among the property was a necklace that her mother, Khadija, may Allah be pleased with her, had given her at the time of her marriage to Abu al-As. When the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, saw the necklace, he was overcome with emotion and wept. He said to his companions, "If you deem it appropriate, release Zainab's prisoner and return the property she sent as ransom." The Companions, may Allah be pleased with them, wholeheartedly agreed and released Abu al-As and returned the property that Zainab had sent. However, Abu al-As remained firm in his state of disbelief. Some time before the conquest of Mecca, Abu al-As went to Syria with a trade caravan carrying goods belonging to the Quraysh of Mecca. On their way back, after completing their trade, they encountered a detachment of the army of the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace. (It is also said that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, himself sent this detachment to meet the caravan returning from Syria, which included Abu al-As. This detachment consisted of 170 warriors and was led by Zayd ibn Harithah, may Allah be pleased with him. This event took place in the month of Jumada al-Ula in the sixth year of Hijra.) The detachment seized the caravan's goods and took them captive, but Abu al-As managed to escape their grasp. When the detachment returned, Abu al-As went to Zainab, the daughter of the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, seeking refuge and to retrieve his property. Zainab granted him refuge. Then, when the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, came out for the Fajr prayer and said the takbir (opening Allahu Akbar of prayer), all the people also said the takbir with him. Aisha, the Mother of the Believers, may Allah be pleased with her, narrated: Zainab cried out in a loud voice, "O people! I have granted refuge to Abu al-As ibn al-Rabi!" When the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, finished the prayer, he turned to the people and said, "O people! Did you hear what I heard?" They replied, "Yes." He said, "By the One in Whose grip is my soul, I did not know about this matter until I heard what you heard. Even the least of the Muslims can grant refuge." Then, the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, went to Zainab and said, "O my daughter! Treat him kindly, but do not be alone with him, for you are not lawful for him." Ibn Ishaq said: Aisha, the Mother of the Believers, may Allah be pleased with her, narrated that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, sent a message to the detachment that had seized Abu al-As's caravan, saying, "This man is one of us, and you have taken his property. If you would be so kind as to return his property to him, it would please me. But if you refuse, then I have no objection, for it is the spoils of war that Allah has granted you, and you are more deserving of it." The Companions, may Allah be pleased with them, replied, "O Messenger of Allah, how could we disobey you? We will return his property to him." So they returned everything that belonged to Abu al-As. If someone had even a single rope of his, it was returned to him. If someone had a small utensil or an old bow or a waterskin of his, it was returned to him. One man brought a beautiful slave girl and returned her. In short, every last bit of his property was returned to him. Then Abu al-As returned to Mecca and returned all the goods to their owners from the Quraysh. Then he said to the Quraysh, "O people of Quraysh! Is there anyone among you whose property has not been returned to them?" They replied, "No, may Allah reward you with the best. We have found you to be a trustworthy and righteous man." Then Abu al-As said, "I bear witness that there is no god but Allah, and I bear witness that Muhammad is His servant and Messenger. The only reason I delayed my acceptance of Islam was that I did not want you to suspect that I embraced Islam only to seize your property. Now that I have returned all your property to you and am free from any obligation to you, I have accepted Islam." Then he left them and went to the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace. Ibn Ishaq said: Dawud ibn Husayn reported on the authority of Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, regarding the marriage contract: The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, gave Zainab in marriage to Abu al-As seven years later based on their previous marriage contract, and did not perform a new one. Abu al-As returned to Mecca after embracing Islam. He did not participate in any battle with the Prophet. Later, he came to Medina and passed away in the month of Dhul-Hijjah in the twelfth year of Hijra, during the caliphate of Abu Bakr, may Allah be pleased with him. He had bequeathed his will to Zubayr ibn al-Awwam, may Allah be pleased with him.

" ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کے فدیے بھیجے ، تو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے فدیے کی مد میں مال بھیجا ، اس مال میں وہ ہار بھی تھا جو ان کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کے موقع پر ان کو پہنایا تھا ، جب رسول اللہ ﷺ نے وہ ہار دیکھا تو آپ پر رقت طاری ہو گئی ، آپ بہت روئے ، آپ ﷺ نے ( صحابہ سے مخاطب ہو کر ) فرمایا : اگر تم ( مناسب سمجھو تو ) زینب کے قیدی کو رہا کر دو ، اور اس نے فدیے میں جو مال بھیجا ہے وہ واپس لوٹا دو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بات کو دل و جان سے قبول کر لیا ، اور حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو رہا کر دیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا مال واپس کر دیا ، اس کے بعد بھی حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ حالت شرک پر ہی قائم رہے ، فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ قریش مکہ کا سامان تجارت لے کر ملک شام گئے ، جب تجارت سے فارغ ہو کر واپس آ رہے تھے ، تو رسول اللہ ﷺ کے ایک لشکر کی جماعت کی ان سے ملاقات ہوئی ، ( یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس لشکر کو رسول اللہ ﷺ نے بذات خود اسی قافلے سے ملاقات کے لئے روانہ کیا تھا ، جو شام سے واپس آ رہا تھا اور اس میں ابوالعاص بھی تھے ، یہ لشکر 170 مجاہدین پر مشتمل تھا اور ان کے امیر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ، ( یہ بات جمادی الاولی چھٹی سن ہجری کی ہے ) اس لشکر نے اس قافلے والوں کا مال چھین لیا اور ان کو گرفتار کر لیا ، لیکن ابوالعاص رضی اللہ عنہ ان کے ہاتھ نہ آئے ، جب یہ لشکر واپس آ گیا ، ابوالعاص رضی اللہ عنہ اپنا مال لینے کے لئے ، رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، اور ان سے پناہ مانگی ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ان کو پناہ دے دی ، پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لئے نکلے اور ( نماز کے لئے ) تکبیر کہی ، تو تمام لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تکبیر کہی ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھجوایا تو نبی اکرم ﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے ( اپنے شوہر ) ابوالعاص کے فدیے کے طور پر کچھ مال بھجوایا ، جس میں انہوں نے وہ ہار بھی بھجوا دیا ، جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے موقع پر انہیں دیا تھا ، جب نبی اکرم ﷺ نے وہ ہار ملاحظہ فرمایا تو آپ پر شدید رقت طاری ہو گئی ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بآواز بلند پکار کر کہا : اے لوگو ! میں نے ابوالعاص بن ربیع کو پناہ دے دی ہے ، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا : اے لوگو ! جو آواز میں نے سنی ہے ، کیا وہ آواز تم نے بھی سنی ہے ؟لوگوں نے کہا : جی ہاں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو آواز تم نے سنی اس کے سننے سے پہلے مجھے بھی اس بات کا پتا نہیں تھا ، بیشک ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے ، پھر رسول اللہ ﷺ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے ، اور فرمایا : اے بیٹی ! اس کا خیال رکھنا ، لیکن اس کے ساتھ تنہا نہ ہونا کیونکہ تم اس پر حلال نہیں ہو ۔ ٭٭ ابن اسحاق کہتے ہیں : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جو لشکر ابوالعاص کا قافلہ لوٹ کر آیا تھا ، اس کی جانب رسول اللہ ﷺ نے پیغام بھیجا ’’ یہ آدمی ہمارا ہے اور تم لوگوں نے اس کا مال چھینا ہے ، اگر تم مہربانی کر کے اس کا مال اس کو لوٹا دو تو مجھے دلی خوشی ہو گی ، اور اگر تمہیں اس بات سے انکار ہو تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ، کیونکہ یہ وہ مال غنیمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے ، اور تم لوگ ہی اس کے زیادہ حقدار ہو ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ( ہماری کیا مجال ہے کہ آپ کا حکم ٹالیں ) ہم اس کا مال اس کو لوٹا دیتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ابوالعاص کا مال اس کو لوٹا دیا ۔ حتی کہ کسی کے پاس اگر ان کی کوئی ایک رسی بھی تھی تو وہ بھی اس کو دے دی گئی ، کسی کے پاس کوئی چھوٹا موٹا برتن یا پرانی کمان یا مشکیزہ تھا وہ بھی واپس کر دیا گیا ، ایک آدمی ایک خوبصورت لونڈی لے کے آیا ، اور واپس کر دی ، الغرض ان کی پائی پائی واپس کر دی گئی ۔ پھر وہ مکہ کی جانب روانہ ہو گئے ، مکہ مکرمہ پہنچ کر قریش مکہ کا تمام مال ان کے مالکوں کو واپس کر دیا ۔ پھر قریش سے کہا : اے گروہ قریش ! تم میں کوئی آدمی ایسا تو نہیں بچا جس کو اس کا مال واپس نہ ملا ہو ؟ قریش نے جواباً کہا : نہیں ، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، ہم نے آپ کو امانتدار اور اچھا انسان پایا ۔ اس کے بعد ابوالعاص نے کہا : تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اور ابھی تک میں قبول اسلام سے صرف اس لئے رکا رہا کہ تم کہیں میرے بارے میں یہ بدگمانی نہ کرو کہ میں نے تمہارا مال ہتھیانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے اب جبکہ میں نے وہ تمام مال تمہیں ادا کر دیا ہے اور میں تمہاری طرف سے فارغ ہوں تو میں نے اسلام قبول کر لیا ، پھر وہ وہاں سے نکلے اور رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ۔ ٭٭ ابن اسحاق کہتے ہیں : داود بن حصین نے عکرمہ کے حوالے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ بیان نقل کیا ہے : رسول اللہ ﷺ نے سات سال بعد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو پہلے نکاح کی بنیاد پر ابوالعاص کے ساتھ رخصت فرما دیا ، نیا کچھ نہیں کیا ۔ ابوالعاص رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ مکہ میں آ گئے ، انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ کسی غزوہ میں شرکت نہیں کی ۔ بعد میں وہ مدینہ منورہ میں آ گئے اور بارہویں سن ہجری میں ذی الحجہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فوت ہوئے ۔ اور انہوں نے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی طرف وصیت فرمائی تھی ۔"

Ummulmomineen Hazrat Aisha ( (رضي الله تعالى عنه) ا) farmati hain: Jab ahle Makkah ne apne qaidion ke fidiye bheje, to Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki sahabzadi Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne apne شوہر Hazrat Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) ke fidiye ki mad mein maal bheja, iss maal mein woh haar bhi tha jo unki walida mohtarma Hazrat Khadija ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne Hazrat Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) ke saath nikah ke mauqe par unko pehnaya tha, jab Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne woh haar dekha to aap par riqqat tari ho gai, aap bahut roye, aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne (sahaba se mukhatib ho kar) farmaya: Agar tum (munasib samjho to) Zainab ke qaidi ko riha kar do, aur usne fidiye mein jo maal bheja hai woh wapas lauta do. Sahaba kiram (رضي الله تعالى عنه) ne iss baat ko dil o jaan se qubool kar liya, aur Hazrat Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) ko riha kar diya aur Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ka bheja hua maal wapas kar diya, iss ke baad bhi Hazrat Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) halat shirk par hi qaim rahe, Fath Makkah se kuch arsa pehle Hazrat Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) Quresh Makkah ka saman tijarat le kar mulk Sham gaye, jab tijarat se farigh ho kar wapas aa rahe the, to Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke ek lashkar ki jamaat ki unse mulaqat hui, (ye bhi kaha gaya hai ki iss lashkar ko Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne biz'zat khud isi qafile se mulaqat ke liye rawana kiya tha, jo Sham se wapas aa raha tha aur iss mein Abu Al-Aas bhi the, ye lashkar 170 mujahidin par mushtamil tha aur unke ameer Hazrat Zaid bin Haritha (رضي الله تعالى عنه) the, (ye baat Jamadi al-Awwal chhati san chhati hijri ki hai) iss lashkar ne iss qafile walon ka maal chheen liya aur unko giriftar kar liya, lekin Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) unke haath na aaye, jab ye lashkar wapas aa gaya, Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) apna maal lene ke liye, Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki sahabzadi Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ke paas aaye, aur unse panah mangi, Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne unko panah de di, phir jab Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) namaz fajr ke liye nikle aur (namaz ke liye) takbeer kahi, to tamam logon ne bhi aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke humraah takbeer kahi. Ummulmomineen Hazrat Aisha ( (رضي الله تعالى عنه) ا) bayan karti hain: Jab ahle Makkah ne apne qaidion ka fiddiya bhejwaya to Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) ki sahabzadi Sayyida Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne (apne شوہر) Abu Al-Aas ke fiddiya ke taur par kuch maal bhejwaya, jis mein unhon ne woh haar bhi bhejwa diya, jo Sayyida Khadija ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne Sayyida Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ki rukhsati ke mauqe par unhen diya tha, jab Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) ne woh haar mulahiza farmaya to aap par shadeed riqqat tari ho gai. Ummulmomineen Hazrat Aisha ( (رضي الله تعالى عنه) ا) farmati hain: Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ne baawaz بلند pukar kar kaha: Aye logo! mein ne Abu Al-Aas bin Rabia ko panah de di hai, jab Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) namaz se farigh huye to logon ki jaanib mutwajeh ho kar farmaya: Aye logo! jo aawaz mein ne suni hai, kya woh aawaz tum ne bhi suni hai? Logon ne kaha: Ji haan. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: Iss zaat ki qasam jis ke qubza qudrat mein meri jaan hai jo aawaz tum ne suni uss ke sun ne se pehle mujhe bhi iss baat ka pata nahi tha, beshak ek adna musalman bhi kisi ko panah de sakta hai, phir Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ke paas tashreef laaye, aur farmaya: Aye beti! iss ka khayal rakhna, lekin iss ke saath tanha na hona kyunki tum iss par halal nahi ho. ** Ibn Ishaq kehte hain: Ummulmomineen Hazrat Aisha ( (رضي الله تعالى عنه) ا) farmati hain: Jo lashkar Abu Al-Aas ka qafila loot kar aaya tha, usski jaanib Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne paigham bheja ''ye aadmi hamara hai aur tum logon ne uska maal chheena hai, agar tum mehrbani kar ke uska maal usko lauta do to mujhe dili khushi hogi, aur agar tumhen iss baat se inkar ho to bhi mujhe koi aitraaz nahi hai, kyunki ye woh maal ghanimat hai jo Allah Ta'ala ne tumhen ata farmaya hai, aur tum log hi uske zyada haqdaar ho, Sahaba kiram (رضي الله تعالى عنه) ne arz ki: Ya Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) (hamari kya majaal hai ki aap ka hukum talen) hum uska maal usko lauta dete hain. Chunancha unhon ne Abu Al-Aas ka maal usko lauta diya. Hatta ki kisi ke paas agar unki koi ek rassi bhi thi to woh bhi usko de di gai, kisi ke paas koi chhota mota bartan ya purani kaman ya mashkiza tha woh bhi wapas kar diya gaya, ek aadmi ek khoobsurat laundi le ke aaya, aur wapas kar di, al-gharaz unki pai pai wapas kar di gai. Phir woh Makkah ki jaanib rawana huye, Makkah Mukarramah pahunch kar Quresh Makkah ka tamam maal unke maalkon ko wapas kar diya. Phir Quresh se kaha: Aye giroh Quresh! tum mein koi aadmi aisa to nahi bacha jis ko uska maal wapas na mila ho? Quresh ne jawaban kaha: nahi, Allah Ta'ala aap ko jaza-e-khair ata farmaye, hum ne aap ko amanatdaar aur achcha insaan paya. Iss ke baad Abu Al-Aas ne kaha: To mein gawahi deta hun ki Allah Ta'ala ke siwa koi ibadat ke layeq nahi hai aur mein gawahi deta hun ki beshak Muhammad (صلى الله عليه وآله وسلم) uske bande aur Rasool hain. Aur abhi tak mein qubool Islam se sirf iss liye ruka raha ki tum kahin mere bare mein ye badgumni na karo ki mein ne tumhara maal hathiyane ke liye Islam qubool kiya hai ab jabke mein ne woh tamam maal tumhen ada kar diya hai aur mein tumhari taraf se farigh hun to mein ne Islam qubool kar liya, phir woh wahan se nikle aur Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ki baargaah mein hazir ho gaye. ** Ibn Ishaq kehte hain: Dawud bin Hissain ne Uqramah ke hawale se Ibn Abbas ( (رضي الله تعالى عنه) a ka ye bayan naqal kiya hai: Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ne saat saal baad Hazrat Zainab ( (رضي الله تعالى عنه) ا) ko pehle nikah ki bunyad par Abu Al-Aas ke saath rukhsat farma diya, naya kuch nahi kiya. Abu Al-Aas (رضي الله تعالى عنه) Islam qubool karne ke baad dobara Makkah mein aa gaye, unhon ne Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) ke humraah kisi ghazwa mein shirkat nahi ki. Baad mein woh Madinah Munawwarah mein aa gaye aur barahween san hijri mein Zul-Hijjah mein Hazrat Abu Bakr (رضي الله تعالى عنه) ke daur khilafat mein فوت huye. Aur unhon ne Hazrat Zubair bin Awwam (رضي الله تعالى عنه) ki taraf wasiyat farmaai thi.

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: لَمَّا بَعَثَ أَهْلُ مَكَّةَ فِي فِدَاءِ أُسَارَاهُمْ بَعَثَتَ زَيْنَبُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِدَاءِ أَبِي الْعَاصِ بِمَالٍ وَبَعَثَتْ فِيهِ بِقِلَادَةٍ كَانَتْ خَدِيجَةُ أَدْخَلَتْهَا بِهَا عَلَى أَبِي الْعَاصِ حِينَ بَنَى عَلَيْهَا، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْقِلَادَةَ رَقَّ لَهَا رِقَّةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: «إِنْ رَأَيْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوا أَسِيرَهَا وَتَرُدُّوا عَلَيْهَا الَّذِي لَهَا فَافْعَلُوا» ، فَقَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَطْلَقُوهُ وَرُدُّوا عَلَيْهِ الَّذِي لَهَا، وَلَمْ يَزَلْ أَبُو الْعَاصِ مُقِيمًا عَلَى شِرْكِهِ حَتَّى إِذَا كَانَ قُبَيْلَ فَتْحِ مَكَّةَ خَرَجَ بِتِجَارَةٍ إِلَى الشَّامِ بِأَمْوَالٍ مِنْ أَمْوَالِ قُرَيْشٍ أَبْضَعُوهَا مَعَهُ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ تِجَارَتِهِ، وَأَقْبَلَ قَافِلًا لَقِيَتْهُ سَرِيَّةٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقِيلَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ هُوَ الَّذِي وَجَّهَ السَّرِيَّةَ لِلْعِيرِ الَّتِي فِيهَا أَبُو الْعَاصِ قَافِلَةً مِنَ الشَّامِ، وَكَانُوا سَبْعِينَ وَمِائَةَ رَاكِبٍ، أَمِيرُهُمْ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ وَذَلِكَ فِي جُمَادَى الْأُولَى فِي سَنَةِ سِتٍّ مِنَ الْهِجْرَةِ، فَأَخَذُوا مَا فِي تِلْكَ الْعِيرِ مِنَ الْأَثْقَالِ، وَأَسَرُوا أُنَاسًا مِنَ الْعِيرِ فَأَعْجَزَهُمْ أَبُو الْعَاصِ هَرَبًا، فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِيَّةُ بِمَا أَصَابُوا أَقْبَلَ أَبُو الْعَاصِ مِنَ اللَّيْلِ فِي طَلَبِ مَالِهِ حَتَّى دَخَلَ عَلَى زَيْنَبَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَجَارَ بِهَا فَأَجَارَتْهُ، فَلَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَلَاةِ الصُّبْحِ فَكَبَّرَ وَكَبَّرَ النَّاسُ مَعَهُ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: فَحَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ: صَرَخَتْ زَيْنَبُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي قَدْ أَجَرْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، قَالَ: فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ هَلْ سَمِعْتُمْ مَا سَمِعْتُ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا عَلِمْتُ بِشَيْءٍ كَانَ حَتَّى سَمِعْتُ مِنْهُ مَا سَمِعْتُمْ، إِنَّهُ يُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَدْنَاهُمْ» ، ثُمَّ انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ عَلَى ابْنَتِهِ زَيْنَبَ، فَقَالَ: «أَيْ بُنَيَّةُ، أَكْرِمِي مَثْوَاهُ، وَلَا يَخْلُصُ إِلَيْكِ فَإِنَّكَ لَا تَحَلِّينَ لَهُ» قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى السَّرِيَّةِ الَّذِينَ أَصَابُوا مَالَ أَبِي الْعَاصِ وَقَالَ لَهُمْ: «إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ مِنَّا حَيْثُ قَدْ عَلِمْتُمْ وَقَدْ أَصَبْتُمْ لَهُ مَالًا، فَإِنْ تُحْسِنُوا تَرُدُّوا عَلَيْهِ الَّذِي لَهُ، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، وَإِنْ أَبَيْتُمْ ذَلِكَ فَهُوَ فَيْءُ اللَّهِ الَّذِي أَفَاءَهُ عَلَيْكُمْ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ بِهِ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلْ نَرُدَّهُ عَلَيْهِ، قَالَ: «فَرَدُّوا عَلَيْهِ مَالَهُ» حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِي بِالْحَبْلِ وَيَأْتِي الرَّجُلُ بِالشَّنَّةِ وَالْإِدَاوَةِ حَتَّى أَنَّ أَحَدَهُمْ لَيَأْتِي بِالشَّطَاطِ حَتَّى رَدُّوا عَلَيْهِ مَالَهُ بِأَسْرِهِ لَا يَفْقِدُ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ احْتَمَلَ إِلَى مَكَّةَ، فَأَدَّى إِلَى كُلِّ ذِي مَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ مَالَهُ مِمَّنْ كَانَ أَبْضَعَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، هَلْ بَقِيَ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ عِنْدِي مَالٌ لَمْ يَأْخُذْهُ؟ قَالُوا: لَا فَجَزَاكَ اللَّهَ خَيْرًا، فَقَدْ وَجَدْنَاكَ وَفِيًّا كَرِيمًا، قَالَ: فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنَّ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَمَا مَنَعَنِي مِنَ الْإِسْلَامِ عِنْدَهُ إِلَّا تَخَوُّفًا أَنْ تَظُنُّوا أَنِّي إِنَّمَا أَرَدْتُ أَخْذَ أَمْوَالِكُمْ، فَلَمَّا أَدَّاهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْكُمْ وَفَرَغْتُ مِنْهَا أَسْلَمْتُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: فَحَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «رَدُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ لَمْ يُحْدِثْ شَيْئًا بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ» ، ثُمَّ إِنَّ أَبَا الْعَاصِ رَجَعَ إِلَى مَكَّةَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ، فَلَمْ يَشْهَدْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَشْهَدًا، ثُمَّ قَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعْدَ ذَلِكَ فَتُوُفِّيَ فِي ذِي الْحِجَّةِ مِنْ سَنَةِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَوْصَى إِلَى الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ