6.
The Book of Prayer - Travellers
٦-
كتاب صلاة المسافرين وقصرها
52
Chapter: How `Amr bin `Abasah became Muslim
٥٢
باب إِسْلاَمِ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ
Name | Fame | Rank |
---|---|---|
‘amrūun bn ‘bst al-sulamī | Amr ibn Absa al-Salami | Companion |
abī umāmah | Suhayb bin Ajlan Al-Bahli | Companion |
‘ikrimah | Akrama bin Amar Al-Ajli | Truthful, makes mistakes |
abī umāmah | Suhayb bin Ajlan Al-Bahli | Companion |
wayaḥyá bn abī kathīrin | Yahya ibn Abi Kathir al-Ta'i | Trustworthy and reliable, but he conceals the narrator's name and narrates interrupted chains. |
shaddād bn ‘abd al-lah abū ‘ammārin | Shaddad ibn Abdullah al-Qurashi | Trustworthy |
‘ikrimah bn ‘ammārin | Akrama bin Amar Al-Ajli | Truthful, makes mistakes |
al-naḍr bn muḥammadin | al-Nadr ibn Muhammad al-Jarshi | Trustworthy, he has unique narrations |
aḥmad bn ja‘farin al-ma‘qirī | Ahmad ibn Ja'far al-Ma'qari | Acceptable |
الأسم | الشهرة | الرتبة |
---|---|---|
عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ | عمرو بن عبسة السلمي | صحابي |
أَبِي أُمَامَةَ | صدي بن عجلان الباهلي | صحابي |
عِكْرِمَةُ | عكرمة بن عمار العجلي | صدوق يغلط |
أَبِي أُمَامَةَ | صدي بن عجلان الباهلي | صحابي |
ويَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ | يحيى بن أبي كثير الطائي | ثقة ثبت لكنه يدلس ويرسل |
شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَمَّارٍ | شداد بن عبد الله القرشي | ثقة |
عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ | عكرمة بن عمار العجلي | صدوق يغلط |
النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ | النضر بن محمد الجرشي | ثقة له أفراد |
أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ | أحمد بن جعفر المعقري | مقبول |
Sahih Muslim 832
Amr bin Abasa Sulami (رضي الله تعالى عنه) narrated that in the state of the ignorance (before embracing Islam), I used to think that the people were in error and they were not on anything (which may be called the right path) and worshipped the idols. Meanwhile, I heard of a man in Makka who was giving news (on the basis of his prophetic knowledge); so I sat on my ride and went to him. The Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) was at that time hiding as his people had made life hard for him. I adopted a friendly attitude (towards the Makkans and thus managed) to enter Makka and go to him (the Prophet ﷺ) and I said to him, ‘who are you?’ He said, ‘I am a Prophet (of Allah)’. I again said, ‘who is a Prophet?’ He said, I have been sent by Allah’. I said, ‘what is that which you have been sent with?’ He said, ‘I have been sent to join ties of relationship (with kindness and affection), to break the Idols, and to proclaim the oneness of Allah nothing is to be associated with Him’. I said. ‘who is with you in this?’ He said, ‘a free man and a slave’. He (the narrator) said, Abu Bakr and Bilal رضي الله تعالى عنهما were there with him among those who had embraced Islam by that time. I said, ‘I intend to follow you’. He said, ‘during these days you would not be able to do so. Don't you see the (hard) condition under which I and (my) people are living? You better go back to your people and when you hear that I have been granted victory, you come to me’. So, I went to my family. I was in my home when the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) came to Madina. I was among my people and used to seek news and ask people when he arrived in Madina. Then a group of people belonging to Yathrib (Madina) came. I said (to them), ‘how is that person getting on who has come to Madina?’ They said, ‘the people are hastening to him, while his people (the polytheists of Makka) planned to kill him, but they could not do so. I (on hearing it) came to Madina and went to him and said, Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم), do you recognize me? He said, ‘yes, you are the same man who met me at Makka’. I said, ‘it is so. I again said, Prophet of Allah ( صلى الله عليه وآله وسلم), tell me that which Allah has taught you and which I do not know, tell me about the prayer’. He said, ‘observe the dawn prayer, then stop praying when the sun is rising till it is fully up, for when it rises it comes up between the horns of Satan, and the unbelievers prostrate themselves to it at that time. Then pray, for the prayer is witnessed and attended (by angels) till the shadow becomes about the length of a lance; then cease prayer, for at that time Hell is heated up. Then when the shadow moves forward, pray, for the prayer is witnessed and attended by angels, till you pray the afternoon prayer, then cease prayer till the sun sets, for it sets between the horns of devil, and at that time the unbelievers prostrate themselves before it’. I said, ‘Apostle of Allah’, tell me about ablution also. He said, ‘none of you who uses water for ablution and rinses his mouth, snuffs up water and blows it, but the sins of his face, and his mouth and his nostrils fall out. When he washes his face, as Allah has commanded him, the sins of his face fall out from the end of his beard with water. Then (when) he washes his forearms up to the elbows, the sins of his arms fall out along with water from his finger-tips. And when he wipes his head, the sins of his head fall out from the points of his hair along with water. And (when) he washes his feet up to the ankles, the sins of his feet fall out from his toes along with water. And if he stands to pray and praises Allah, lauds Him and glorifies Him with what becomes Him and shows wholehearted devotion to Allah, his sins would depart leaving him (as innocent) as he was on the day his mother bore him. Amr bin 'Abasa (رضي الله تعالى عنه) narrated this Hadith to Abu Umama, a companion of the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم), and Abu Umama ( رضي الله تعالى عنه) said to him. ‘Amr bin Abasa, think what you are saying that such (a great reward) is given to a man at one place (only in the act of ablution and prayer). Upon this Amr said, Abu Umama (رضي الله تعالى عنه), I have grown old and my bones have become weak and I am at the door of death; what impetus is there for me to attribute a lie to Allah and the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم)? Had I heard it from the Apostle of Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) once, twice, or three times (even seven times), I would have never narrated it, but I have heard it from him on occasions more than these’.
ابو عمار شداد بن عبداللہ اور یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو امامہ سے روایت کی ۔ ۔ ۔ عکرمہ نے کہا : شداد ابو امامہ اور واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مل چکا ہے ، وہ شام کے سفر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہااور ان کی فضیلت اور خوبی کی تعریف کی ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، انھوں نے کہا : عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا : میں جب اپنے جاہلیت کے دور میں تھا تو ( یہ بات ) سمجھتا تھا کہ لوگ گمراہ ہیں اور جب وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو کسی ( سچی ) چیز ( دین ) پر نہیں ، پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے ، میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آگیا ، اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ چھپے ہوئے تھے ، آپ کی قوم ( کے لوگ ) آپ کے خلاف دلیر ، اور جری تھے ۔ میں ایک لطیف تدبیر اختیار کرکے مکہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے پوچھا آپ کیا ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا : " میں نبی ہوں ۔ " پھر میں نے پوچھا : " نبی کیا ہوتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا : " مجھے اللہ نے بھیجا ہے ۔ " میں نے کہا : آپ کو کیا ( پیغام ) دے کر بھیجا ہے؟آپ نے فرمایا : " اللہ تعالیٰ مجھے صلہ رحمی ، بتوں کو توڑنے ، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے ، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے ( کاپیغام ) دے کر بھیجا ہے ۔ " میں نے آپ سے پوچھا : آپ کے ساتھ اس ( دین ) پر اور کون ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا : " ایک آزاد اور ایک غلام ۔ " ۔ ۔ ۔ کہا : آپ ﷺ کے ساتھ اس وقت ایمان لانے والوں میں سے ابو بکر اور بلال رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے ۔ میں نے کہا : میں بھی آپ کا متبع ہوں ۔ فرمایا : " تم اپنے آج کل کے حالات میں ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے؟لیکن ( ان حالات میں ) تم اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آگیا ہوں تو میرے پاس آجانا ۔ " کہا : تو میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا ۔ او ( بعد ازاں ) رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لے گئے میں اپنے گھر ہی میں تھا ، جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے ۔ تو میں بھی خبریں لینے اور لوگوں سے آپ کے حالات پوچھنے میں لگ گیا ۔ حتیٰ کہ میرے پاس اہل یثرب ( مدینہ والوں ) میں سے کچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا : یہ شخص جو مدینہ میں آیا ہے اس نے کیا کچھ کیا ہے؟انھوں نے کہا : لوگ تیزی سے ان ( کے دین ) کی طرف بڑھ رہے ہیں ، آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کرسکے ۔ اس پر میں مدینہ آیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟آپ نے فرمایا : " ہاں تم وہی ہو ناں جو مجھ سے مکہ میں ملے تھے؟ " کہا : تو میں نے عرض کی : جی ہاں ، اور پھر پوچھا : اے اللہ کے نبی! مجھے وہ ( سب ) بتایئے جو اللہ نے آپ کوسکھایا ہے اور میں اس سے ناواقف ہوں ، مجھے نماز کے بارے میں بتایئے ۔ آپ نے فرمایا : " صبح کی نماز پڑھو اور پھر نمازسے رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل کر بلند ہوجائے کیونکہ وہ جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان ( اپنے سینگوں کو آگے کرکے یوں دیکھاتا ہے جیسے وہ اُس ) کے دو سینگوں کےدرمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس ( سورج ) کو سجدہ کرتے ہیں ، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتاہے اور اس میں ( فرشتے ) حاضر ہوتے ہیں یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے ( سورج بالکل سر پر آجائے ) تو پھر نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو ایندھن سے بھر کو بھڑکایاجاتا ہے ، پھر جب سایہ آئے جائے ( سورج ڈھل جائے ) تو نمازپڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ کیاجاتا ہے اور اس میں حاضری دی جاتی ہے حتیٰ کہ تم عصر سے فارغ ہوجاؤ ، پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج ( پوری طرح ) غروب ہوجائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں میں غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ۔ " کہا : پھر میں نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ﷺ ! تو وضو؟مجھے اس کے بارے میں بھی بتایئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : " تم میں سے جوشخص بھی وضو کے لئے پانی اپنے قریب کرتاہے ۔ پھر کلی کرتاہے اور ناک میں پانی کھینچ کر اسے جھاڑتاہے تو اس سے اس کے چہرے ، منہ ، اور ناک کے نتھنوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ، پھر جب وہ اللہ کے حکم کےمطابق اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو لازماً اس کے چہرے کےگناہ بھی پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کے کناروں سے گر جاتے ہیں ، پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں ( کے اوپر ) تک دھوتا ہے ۔ تو لازماً اس کے ہاتھوں کےگناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گرجاتے ہیں ، پھر وہ سر کا مسح کرتاہے تو اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے بالوں کے اطراف سے زائل ہوجاتے ہیں ، پھر وہ ٹخنوں ( کے اوپر ) تک اپنے دونوں قدم دھوتا ہے ۔ تو اس کے دونوں پاؤں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں ، پھر اگر وہ کھڑا ہوانماز پڑھی اور اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا اور بزرگی بیان کی اور اپنا دل اللہ کے لئے ( ہر قسم کے دوسرے خیالات وتصورات سے ) خالی کرلیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکلتا ہے جس طرح اس وقت تھا جس دن اس کی ماں نے اسے ( ہر قسم کے گناہوں سے پاک ) جنا تھا ۔ " حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے ( ایک اور ) صحابی حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا : اے عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !دیکھ لوتم کیا کہہ رہے ہو ۔ ایک ہی جگہ اس آدمی کو اتناکچھ عطا کردیا جاتا ہے! اس پر عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : اے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میری عمر بڑھ گئی ہے میری ہڈیاں نرم ہوگئیں ہیں اور میری موت کا وقت بھی قریب آچکا ہے اور مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولوں ۔ اور اس کے رسول ﷺ پر جھوٹ بولوں ۔ اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے ایک ، دو ، تین ۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ انھوں نے سات بار شمار کیا ۔ ۔ ۔ بار نہ سنا ہوتا تو میں اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا بلکہ میں نے تو اسے آپ ﷺ سے اس سے بھی زیادہ بارسنا ہے ۔
Abu Umar Shadad bin Abdullah aur Yahya bin Abi Kثیر ne Abu Imamah se riwayat ki. . . . Uqrumah ne kaha: Shadad Abu Imamah aur Wathillah radi Allahu ta'ala anhu se mil chuka hai, woh Sham ke safar mein Hazrat Anas radi Allahu ta'ala anhu ke sath raha aur unki fazilat aur khubi ki tarif ki. Hazrat Abu Imamah radi Allahu ta'ala anhu se riwayat hai, unhon ne kaha: Amr bin Ubasah Salmi radi Allahu ta'ala anhu ne kaha: Main jab apne jahiliyat ke dor mein tha to ( yeh baat ) samajhata tha ke log gumrah hain aur jab woh butoon ki ibadat karte hain to kisi ( sachi ) cheez ( din ) par nahin, phir maine Makkah ke ek aadmi ke bare mein suna ke woh bahut si baaton ki khabar deta hai, main apni sawari par baita aur un ke paas aagaya, is zamane mein Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) chhupe hue the, aap ki qoum ( ke log ) aap ke khilaf diler, aur jari the. Main ek lateef tadbir ikhtiyar karke Makkah mein aap ki khidmat mein haazir hua aur aap se poocha aap kya hain? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: " Main Nabi hoon. " Phir maine poocha: " Nabi kya hota hai? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: " Mujhe Allah ne bheja hai. " Maine kaha: Aap ko kya ( piygam ) de kar bheja hai? Aap ne farmaya: " Allah ta'ala mujhe silah rahmi, butoon ko todne, Allah ta'ala ko ek qarar dene, aur us ke sath kisi cheez ko shareek nahin thahrne ( ka piygam ) de kar bheja hai. " Maine aap se poocha: Aap ke sath is ( din ) par aur kon hai? Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: " Ek aazad aur ek gulam. " . . . . Kaha: Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke sath is waqt iman lane walon mein se Abu Bakr aur Bilal radwan Allahu anhum ajma'in the. Maine kaha: Main bhi aap ka mutabi hoon. Farmaya: " Tum apne aaj kal ke halat mein aisa karne ki istilaat nahin rakhte. Kya tum mera aur logon ka haal nahin dekhte? Lekin ( in halat mein ) tum apne ghar ki taraf loot jao aur jab mere bare mein suno ke main ghalib aagaya hoon to mere paas aajana. " Kaha: To main apne ghar walon ke paas loot gaya. O ( ba'd azan ) Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) Madina tashreef le gaye main apne ghar hi mein tha, jab aap (صلى الله عليه وآله وسلم) Madina tashreef laye. To main bhi khabarain lene aur logon se aap ke halat poochhne mein lag gaya. Hatya ke mere paas Ahl e Yathrib ( Madina walon ) mein se kuchh log aaye to maine poocha: Yeh shakhs jo Madina mein aaya hai is ne kya kuchh kiya hai? Unhon ne kaha: Log tezi se in ( ke din ) ki taraf barh rahe hain, aap ki qoum ne aap ko qatal karna chaha tha lekin woh aisa nahin kar sake. Is par main Madina aaya aur aap ki khidmat mein haazir hua aur arz ki: Aye Allah ke Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم)! Kya aap mujhe pehchante hain? Aap ne farmaya: " Haan tum wahi ho naan jo mujh se Makkah mein mile the? " Kaha: To maine arz ki: Ji haan, aur phir poocha: Aye Allah ke Nabi! Mujhe woh ( sab ) batayie jo Allah ne aap ko sikhaya hai aur main is se navaqif hoon, mujhe namaz ke bare mein batayie. Aap ne farmaya: " Subah ki namaz padho aur phir namaz se ruk jao hatya ke sooraj nikal kar buland ho jaye kyun ke woh jab taloo' hota hai to shaitan ( apne singon ko aage karke yun dekhta hai jaise woh us ) ke do singon ke darmiyan taloo' hota hai aur is waqt kaafir is ( sooraj ) ko sajda karte hain, is ke bad namaz padho kyun ke namaz ka mushahada hota hai aur is mein ( farishte ) haazir hote hain yahan tak ke jab nize ka saya is ke sath lag jaye ( sooraj bilkul sar par aajaye ) to phir namaz se ruk jao kyun ke is waqt Jahannam ko andhan se bhar ko bharkaya jata hai, phir jab saya aaye jaye ( sooraj dhal jaye ) to namaz padho kyun ke namaz ka mushahada kiya jata hai aur is mein haazri di jati hai hatya ke tum asr se farig ho jao, phir namaz se ruk jao yahan tak ke sooraj ( puri tarah ) gharoob ho jaye kyun ke woh shaitan ke do singon mein gharoob hota hai aur is waqt kaafir is ke samne sajda karte hain. " Kaha: Phir maine poocha: Aye Allah ke Nabi (صلى الله عليه وآله وسلم)! To wudoo? Mujhe is ke bare mein bhi batayie. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne farmaya: " Tum mein se jo shakhs bhi wudoo ke liye pani apne qareeb karta hai. Phir kali karta hai aur nak mein pani kheench kar use jhaarta hai to is se is ke chehre, munh, aur nak ke nathoon ke gunah jhad jaate hain, phir jab woh Allah ke hukm ke mutabiq apne chehre ko dhota hai to lazmi is ke chehre ke gunah bhi pani ke sath is ki daadhi ke kinaron se gar jaate hain, phir woh apne dono hathoon ko kohniyon ( ke oopar ) tak dhota hai. To lazmi is ke hathoon ke gunah pani ke sath is ke poron se gar jaate hain, phir woh sar ka masah karta hai to is ke sar ke gunah pani ke sath is ke balon ke aaraf se za'il ho jaate hain, phir woh takhon ( ke oopar ) tak apne dono qadam dhota hai. To is ke dono paon ke gunah pani ke sath is ke poron se gar jaate hain, phir agar woh khada hua namaz padhi aur Allah ke shayan shan is ki hamd wathna aur buzorgi bayan ki aur apna dil Allah ke liye ( har qism ke doosre khiyalat watsoo'rat se ) khali kar liya to woh apne gunahon se is tarah nikalta hai jis tarah us waqt tha jis din is ki maan ne use ( har qism ke gunahon se pak ) jana tha. " Hazrat Amr bin Ubasah radi Allahu ta'ala anhu ne yeh hadees Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) ke ( ek aur ) sahabi Hazrat Abu Imamah radi Allahu ta'ala anhu ko sunaai to Abu Imamah radi Allahu ta'ala anhu ne un se kaha: Aye Amr bin Ubasah radi Allahu ta'ala anhu! Dekh lo tum kya keh rahe ho. Ek hi jagah is aadmi ko itna kuchh ata kar diya jata hai! Is par Amr radi Allahu ta'ala anhu ne kaha: Aye Abu Imamah radi Allahu ta'ala anhu! Meri umr barh gayi hai meri haddian naram ho gayin hain aur meri mout ka waqt bhi qareeb aa chuka hai aur mujhe koi zarurat nahin ke Allah par jhoot bolon. Aur is ke Rasool (صلى الله عليه وآله وسلم) par jhoot bolon. Agar maine is hadees ko Rasool Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) se ek, do, teen. . . . hatya ke unhon ne sat baar shumar kiya. . . . bar nahin suna hota to main is hadees ko kabhi bayan nahin karta balke maine to use aap (صلى الله عليه وآله وسلم) se is se bhi ziada baar suna hai.
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو عَمَّارٍ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، - قَالَ عِكْرِمَةُ وَلَقِيَ شَدَّادٌ أَبَا أُمَامَةَ وَوَاثِلَةَ وَصَحِبَ أَنَسًا إِلَى الشَّامِ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَضْلاً وَخَيْرًا - عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ السُّلَمِيُّ كُنْتُ وَأَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَى ضَلاَلَةٍ وَأَنَّهُمْ لَيْسُوا عَلَى شَىْءٍ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الأَوْثَانَ فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَكَّةَ يُخْبِرُ أَخْبَارًا فَقَعَدْتُ عَلَى رَاحِلَتِي فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُسْتَخْفِيًا جُرَءَاءُ عَلَيْهِ قَوْمُهُ فَتَلَطَّفْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ فَقُلْتُ لَهُ مَا أَنْتَ قَالَ " أَنَا نَبِيٌّ " . فَقُلْتُ وَمَا نَبِيٌّ قَالَ " أَرْسَلَنِي اللَّهُ " . فَقُلْتُ وَبِأَىِّ شَىْءٍ أَرْسَلَكَ قَالَ " أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الأَرْحَامِ وَكَسْرِ الأَوْثَانِ وَأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ لاَ يُشْرَكُ بِهِ شَىْءٌ " . قُلْتُ لَهُ فَمَنْ مَعَكَ عَلَى هَذَا قَالَ " حُرٌّ وَعَبْدٌ " . قَالَ وَمَعَهُ يَوْمَئِذٍ أَبُو بَكْرٍ وَبِلاَلٌ مِمَّنْ آمَنَ بِهِ . فَقُلْتُ إِنِّي مُتَّبِعُكَ . قَالَ " إِنَّكَ لاَ تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَوْمَكَ هَذَا أَلاَ تَرَى حَالِي وَحَالَ النَّاسِ وَلَكِنِ ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَإِذَا سَمِعْتَ بِي قَدْ ظَهَرْتُ فَأْتِنِي " . قَالَ فَذَهَبْتُ إِلَى أَهْلِي وَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَكُنْتُ فِي أَهْلِي فَجَعَلْتُ أَتَخَبَّرُ الأَخْبَارَ وَأَسْأَلُ النَّاسَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ حَتَّى قَدِمَ عَلَىَّ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ يَثْرِبَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَقُلْتُ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَقَالُوا النَّاسُ إِلَيْهِ سِرَاعٌ وَقَدْ أَرَادَ قَوْمُهُ قَتْلَهُ فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا ذَلِكَ . فَقَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَعْرِفُنِي قَالَ " نَعَمْ أَنْتَ الَّذِي لَقِيتَنِي بِمَكَّةَ " . قَالَ فَقُلْتُ بَلَى . فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ وَأَجْهَلُهُ . أَخْبِرْنِي عَنِ الصَّلاَةِ قَالَ " صَلِّ صَلاَةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلاَةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَتَّى تَرْتَفِعَ فَإِنَّهَا تَطْلُعُ حِينَ تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَىْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ ثُمَّ صَلِّ فَإِنَّ الصَّلاَةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى يَسْتَقِلَّ الظِّلُّ بِالرُّمْحِ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلاَةِ فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَىْءُ فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلاَةَ مَشْهُودَةٌ مَحْضُورَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ أَقْصِرْ عَنِ الصَّلاَةِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَىْ شَيْطَانٍ وَحِينَئِذٍ يَسْجُدُ لَهَا الْكُفَّارُ " . قَالَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَالْوُضُوءُ حَدِّثْنِي عَنْهُ قَالَ " مَا مِنْكُمْ رَجُلٌ يُقَرِّبُ وَضُوءَهُ فَيَتَمَضْمَضُ وَيَسْتَنْشِقُ فَيَنْتَثِرُ إِلاَّ خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ وَفِيهِ وَخَيَاشِيمِهِ ثُمَّ إِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِلاَّ خَرَّتْ خَطَايَا وَجْهِهِ مِنْ أَطْرَافِ لِحْيَتِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَغْسِلُ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ إِلاَّ خَرَّتْ خَطَايَا يَدَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَمْسَحُ رَأْسَهُ إِلاَّ خَرَّتْ خَطَايَا رَأْسِهِ مِنْ أَطْرَافِ شَعْرِهِ مَعَ الْمَاءِ ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ إِلاَّ خَرَّتْ خَطَايَا رِجْلَيْهِ مِنْ أَنَامِلِهِ مَعَ الْمَاءِ فَإِنْ هُوَ قَامَ فَصَلَّى فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَمَجَّدَهُ بِالَّذِي هُوَ لَهُ أَهْلٌ وَفَرَّغَ قَلْبَهُ لِلَّهِ إِلاَّ انْصَرَفَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ " . فَحَدَّثَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا أُمَامَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لَهُ أَبُو أُمَامَةَ يَا عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ انْظُرْ مَا تَقُولُ فِي مَقَامٍ وَاحِدٍ يُعْطَى هَذَا الرَّجُلُ فَقَالَ عَمْرٌو يَا أَبَا أُمَامَةَ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي وَاقْتَرَبَ أَجَلِي وَمَا بِي حَاجَةٌ أَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ وَلاَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا - حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ - مَا حَدَّثْتُ بِهِ أَبَدًا وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ .