32.
Statement of Knowing the Companions of the Prophet (may Allah be pleased with them)
٣٢-
بیان معرفة الصحابة الكرام رضوان الله علیهم


The incident of accepting Islam of Hazrat Hamza ibn Abdul Muttalib

تذكرة قبول حضرة حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه الإسلام

Mustadrak Al Hakim 4878

Ibn Ishaq states that a man from the tribe of Banu Aslam informed us that Abu Jahl, may he be cursed, was following the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, at Mount Safa, and was harassing him, insulting him, and slandering him. But the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, did not respond to him. And the freed slave girl of Abdullah bin Jad'an was listening to all of this from her residence on Mount Safa. Then Abu Jahl left from there and went and sat in a gathering of Quraysh near the Kaaba. Not much time had passed when Abdullah bin Abdul Muttalib returned from hunting, adorned with his bow and arrows. And whenever he would return from hunting, he would perform Tawaf of the Kaaba before going home, then he would stop by the people sitting there, and after exchanging greetings, he would sit with them and chat for a while. Hamza, may Allah be pleased with him, was the most respected and valiant among the youth of Quraysh. And Hamza was still adhering to the religion of his people, he was a polytheist. That slave girl came to Hamza, may Allah be pleased with him (by this time, the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, had left for his home), and said, "O Abu Amara! I wish you had seen what Abu al-Hakam did to your cousin, Muhammad. A short while ago, he encountered him here and caused him much grief, hurled insults, and spoke ill of him. Then he went from here to join a gathering of Quraysh sitting near the Kaaba." Throughout this entire ordeal, Muhammad, peace and blessings be upon him, did not respond to him. Hamza, may Allah be pleased with him, became enraged because Allah Almighty had instilled in his heart honor and respect for the Prophet, peace and blessings be upon him. He quickly left from there, and unlike his usual practice of stopping by the people while going for the Tawaf of the Kaaba, he did not stop by anyone that day but went directly to Masjid al-Haram, searching for Abu Jahl. When he entered the mosque, his gaze fell upon Abu Jahl sitting among the people. He went straight to him, stood over him, and struck him forcefully on the head with his bow. Some men from Banu Makhzum stood up to fight Hamza, may Allah be pleased with him, in support of Abu Jahl and said, "O Hamza! It seems you are abandoning your religion." Hamza replied, "Can anyone stop me? It has become clear to me that Muhammad, peace and blessings be upon him, is the Messenger of Allah, and indeed, whatever he says is the truth. By Allah! I will not abandon this religion. If you are truthful, then stop me." Abu Jahl said, "Leave Abu Amara, I have hurled extremely foul insults at his cousin." Hamza, may Allah be pleased with him, remained steadfast in Islam, continued to follow the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, and made things easier for him. When Hamza embraced Islam, Quraysh realized that the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, was gaining strength, and that Hamza, may Allah be pleased with him, would defend him. Therefore, they desisted from the plots they were hatching against the Muslims. In this regard, Sa'd, may Allah be pleased with him, has said, "When the first blow landed on Abu Jahl, someone in the unstable crowd began by saying, 'Taste, O Abu Jahl, what you have earned through your deceit.'" The narrator says, "Then Hamza, may Allah be pleased with him, returned to his home, and Satan came to him and said, 'You are a chieftain of Quraysh, and you have chosen to follow this Saabi and have abandoned the religion of your forefathers. Death is better than what you have done.'" Hamza, may Allah be pleased with him, prayed, "O Allah! If I am on the right path, then solidify it in my heart, otherwise, make a way for me to escape from this in which I am caught." He spent the entire night in such distress that he had never experienced before. Satanic whispers kept coming to him throughout the night. When morning came, he presented himself before the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, and said, "O my nephew! I am caught in such a dilemma that I do not understand how to escape it. I cannot remain steadfast on a belief about which I do not even know if it is the path of truth or misguidance. Therefore, I want you to tell me something that will give me peace of heart." The Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, preached to him, gave him glad tidings, and instilled fear in his heart. By the grace of the counsel and advice of the Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, Allah Almighty strengthened his faith. Then he said, "I bear witness, like a discerning and truthful person, that you are indeed truthful. Therefore, O son of my uncle! Declare your faith openly. By Allah! I do not wish for today's sun to rise while I am still upon my former religion." Thus, Hamza, may Allah be pleased with him, became one of those due to whom Allah Almighty honored His religion.

" ابن اسحاق کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی اسلم کے ایک شخص نے ہمیں بتایا ہے کہ ابوجہل لعین کوہ صفا پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے پڑا ہوا تھا ، اور آپ ﷺ کو تکلیفیں اور گالیاں دے رہا تھا ، اور آپ ﷺ کی کردار کشی کر رہا تھا ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کو کوئی جواب نہ دیا ۔ اور عبداللہ بن جدعان کی آزاد کردہ لونڈی کوہ صفا کے اوپر اپنی رہائش گاہ میں یہ سب سن رہی تھی ۔ پھر ابوجہل وہاں سے نکل آیا اور کعبہ کے قریب قریش کی ایک مجلس میں آ کر بیٹھ گیا ۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی کمان زیب تن کئے ہوئے شکار سے واپس لوٹے ، اور آپ جب بھی شکار سے واپس لوٹتے تو گھر جانے سے پہلے کعبۃ اللہ کا طواف کرتے ، پھر وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس ٹھہرتے ، دعا سلام کے بعد ان کے پاس بیٹھ کر کچھ دیر بات چیت کرتے ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ قریش کے جوانوں میں سے سب سے زیادہ معزز اور غیور تھے ۔ اور حضرت حمزہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے ، مشرک تھے ۔ وہ لونڈی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی ( اس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے گھر جانے کے لئے روانہ ہو چکے تھے ) اور کہنے لگی : اے ابوعمارہ ! کاش کہ تم وہ حالات دیکھ لیتے جو ابوالحکم نے تیرے چچا زاد بھائی محمد کے ساتھ کیا ہے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے یہاں پر اس ( بدبخت ) کی ان سے ملاقات ہوئی اور اس نے محمد ﷺ کو بہت تکلیف دی اور گالیاں بکی ہیں ، اور بہت برا بھلا کہا ۔ پھر وہ یہاں سے کعبہ کے قریب بیٹھے ہوئے قریش کی ایک مجلس کی جانب چلا گیا ہے ، اس پورے معاملہ میں محمد ﷺ نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بہت غصہ آیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں نبی اکرم ﷺ کی عزت و کرامت ڈال دی تھی ۔ آپ بہت جلدی کے ساتھ وہاں سے نکلے ، اور جس طرح پہلے بیت اللہ کے طواف کے لئے جاتے ہوئے لوگوں کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اس دن کسی کے پاس بھی نہیں ٹھہرے بلکہ ابوجہل کو تلاش کرتے ہوئے سیدھے مسجد حرام میں گئے ، جب مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے ابوجہل پر نظر پڑ گئی ، تو آپ سیدھے اسی کے پاس آئے ، اس کے پاس کھڑے ہو کر اپنی کمان اس کے سر پر بہت زور سے ماری ، بنی مخزوم کے کچھ لوگ ابوجہل کی حمایت میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑنے کے لئے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : اے حمزہ ! ہمیں لگ رہا ہے کہ تم اپنا دین چھوڑ رہے ہو ، حضرت حمزہ نے فرمایا : مجھے کوئی روک سکتا ہے ؟میرے اوپر یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور بے شک جو کچھ وہ کہتے ہیں برحق ہے ۔ خدا کی قسم ! میں اس دین کو نہیں چھوڑتا ہوں ، اگر تم سچے ہو تو مجھے روک کر دکھاؤ ، ابوجہل نے کہا : ابوعمارہ کو چھوڑ دو ، میں نے اس کے چچا زاد بھائی کو بہت غلیظ گالیاں دی ہیں ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسلام پر قائم رہے ، رسول اکرم ﷺ کی پیروی کرتے رہے اور رسول اللہ ﷺ کے لئے آسانیاں پیدا کرتے رہے ۔ جب حضرت حمزہ مسلمان ہو گئے تو قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ تقویت پا رہے ہیں ، اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ان کا دفاع کریں گے اس لئے تم جو سازشیں مسلمانوں کے خلاف کر رہے تھے ان سے اب باز رہو ، اسی سلسلہ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ہے جب ابوجہل کو پہلی ضرب لگائی تو غیر مستقرر جز میں جو کچھ کہا اس کا آغاز یوں کیا : ذق اباجھل بما غشیت راوی کہتے ہیں : پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر تشریف لائے ، تو شیطان آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : آپ قریش کے سردار ہیں ، آپ نے اس صابی کی پیروی اختیار کر لی ہے اور اپنے آباء و اجداد کا دین چھوڑ دیا ہے ، آپ نے جو کچھ کیا ہے اس سے تو موت بہتر ہے ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی : یا اللہ اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی تصدیق میرے دل میں ڈال دے ورنہ میں جس میں مبتلا ہو چکا ہوں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے ۔ آپ نے یہ رات اس قدر پریشانی میں گزاری کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا ، ساری رات شیطانی وسوسے آتے رہے ، جب صبح ہوئی تو آپ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی : اے میرے بھتیجے ! میں ایسے مخمصے میں پھنسا ہوا ہوں کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سے کیسے جان چھڑاؤں ، میں ایسے نظرئیے پر قائم نہیں رہ سکتا جس کے بارے میں مجھے یہ پتا ہی نہیں ہے کہ یہ راہ حق ہے یا گمراہی ہے ۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیں کہ جس سے مجھے اطمینان قلبی حاصل ہو جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو وعظ و نصیحت فرمائی ، کچھ خوشخبریاں سنائیں ، کچھ ڈر سنایا ، رسول اللہ ﷺ کے پند و نصائح کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ایمان مضبوط کر دیا ۔ تب وہ بولے : میں ایک سمجھدار ، مصدق کی طرح گواہی دیتا ہوں کہ آپ بے شک سچے ہیں ۔ اس لئے اے میرے چچا کے بیٹے ! آپ اپنے دین کو ظاہر کریں ، خدا کی قسم ! میں نہیں چاہتا کہ آج کا سورج طلوع ہو اور میں اپنے سابقہ دین پر ہوں ۔ چنانچہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی بدولت اللہ تعالیٰ نے دین کو عزت بخشی ہے ۔"

ibn ishaq kahte hain ki qabeela bani aslam ke ek shakhs ne humein bataya hai ki abujahl laeen koh safa par rasool allah ﷺ ke peechhe para hua tha , aur aap ﷺ ko takleefen aur galiyan de raha tha , aur aap ﷺ ki kirdar kushi kar raha tha , lekin rasool allah ﷺ ne is ko koi jawab na diya . aur abdullah bin jadhan ki azad kardah laundi koh safa ke upar apni rahaish gah mein ye sab sun rahi thi . phir abujahl wahan se nikal aaya aur kaaba ke qareeb quraish ki ek majlis mein aa kar baith gaya . abhi zyada dair nahin guzri thi ki hazrat abdullah bin abdulmuttalib apni kaman zeb tan kiye huye shikar se wapas laute , aur aap jab bhi shikar se wapas lautte to ghar jaane se pehle kaabatullah ka tawaf karte , phir wahan baithe huye logon ke paas theherte , dua salam ke baad un ke paas baith kar kuchh dair baat cheet karte . hazrat hamza razi allah anhu quraish ke jawanon mein se sabse zyada moazziz aur ghayoor the . aur hazrat hamza abhi tak apni qaum ke deen par qaem the , mushrik the . woh laundi hazrat hamza razi allah anhu ke paas aai ( is waqt rasool allah ﷺ apne ghar jaane ke liye rawana ho chuke the ) aur kahne lagi : aye abuamara ! kash ki tum woh haalaat dekh lete jo abu alhakam ne tere chacha zad bhai mohammad ke sath kiya hai . abhi kuchh dair pehle yahan par is ( badbakht ) ki in se mulaqat hui aur is ne mohammad ﷺ ko bahut takleef di aur galiyan baki hain , aur bahut bura bhala kaha . phir woh yahan se kaaba ke qareeb baithe huye quraish ki ek majlis ki janib chala gaya hai , is poore mamle mein mohammad ﷺ ne is ko koi jawab nahin diya . hazrat hamza razi allah anhu ko bahut ghussa aaya kyunki allah taala ne un ke dil mein nabi akram ﷺ ki izzat o karamat daal di thi . aap bahut jaldi ke sath wahan se nikle , aur jis tarah pehle baitullah ke tawaf ke liye jaate huye logon ke paas thehra karte the is din kisi ke paas bhi nahin thehre balki abujahl ko talaash karte huye seedhe masjid haram mein gaye , jab masjid mein dakhil huye to logon ke darmiyan baithe huye abujahl par nazar pad gayi , to aap seedhe isi ke paas aaye , is ke paas khade ho kar apni kaman is ke sar par bahut zor se maari , bani makhzoom ke kuchh log abujahl ki himayat mein hazrat hamza razi allah anhu ke sath ladne ke liye khade huye aur kahne lage : aye hamza ! humein lag raha hai ki tum apna deen chhod rahe ho , hazrat hamza ne farmaya : mujhe koi rok sakta hai ?mere upar ye haqeeqat ashkar ho gayi hai ki mohammad ﷺ allah ke rasool hain aur be shak jo kuchh woh kahte hain barhaq hai . khuda ki qasam ! mein is deen ko nahin chhodta hun , agar tum sachche ho to mujhe rok kar dikhaao , abujahl ne kaha : abuamara ko chhod do , maine is ke chacha zad bhai ko bahut ghaleez galiyan di hain . hazrat hamza razi allah anhu islam par qaem rahe , rasool akram ﷺ ki pairavi karte rahe aur rasool allah ﷺ ke liye aasaniyan paida karte rahe . jab hazrat hamza musalman ho gaye to quraish ko ye yaqeen ho gaya ki rasool allah ﷺ taqwiat pa rahe hain , aur hazrat hamza razi allah anhu un ka difa karenge is liye tum jo saazishein musalmanon ke khilaf kar rahe the un se ab baz raho , isi silsila mein hazrat saad razi allah anhu ne kaha hai jab abujahl ko pehli zarb lagai to ghair mustaqir juz mein jo kuchh kaha is ka aaghaz yun kiya : zaq abajhal bima ghashit ravi kahte hain : phir hazrat hamza razi allah anhu apne ghar tashreef laaye , to shaitan aap ke paas aaya aur kahne laga : aap quraish ke sardar hain , aap ne is sabi ki pairavi ikhtiyar kar li hai aur apne aba o ajdad ka deen chhod diya hai , aap ne jo kuchh kiya hai is se to maut behtar hai . hazrat hamza razi allah anhu ne dua maangi : ya allah agar mein hidayat par hun to is ki tasdeeq mere dil mein daal de warna mein jis mein mubtala ho chuka hun is se nikalne ka koi rasta bana de . aap ne ye raat is qadar pareshani mein guzari ki is se pehle kabhi bhi aisa nahin hua tha , sari raat shaitani waswase aate rahe , jab subah hui to aap rasool allah ﷺ ki bargah mein hazir huye aur arz ki : aye mere bhateeje ! mein aise mukhmase mein phansa hua hun ki mujhe samajh nahin aa rahi ki is se kaise jaan chhudauun , mein aise nazariye par qaem nahin reh sakta jis ke baare mein mujhe ye pata hi nahin hai ki ye rah haq hai ya gumrahi hai . is liye mein chahta hun ki aap mujhe koi aisi baat bata dein ki jis se mujhe itminan qalbi hasil ho jaye . rasool allah ﷺ ne un ko waz o nasihat farmai , kuchh khushkhabriyan sunaien , kuchh dar sunaya , rasool allah ﷺ ke pand o nasihat ki badolat allah taala ne un ke dil mein imaan mazboot kar diya . tab woh bole : mein ek samajhdaar , musaddiq ki tarah gawahi deta hun ki aap be shak sachche hain . is liye aye mere chacha ke bete ! aap apne deen ko zahir karen , khuda ki qasam ! mein nahin chahta ki aaj ka sooraj taloo ho aur mein apne sabiqah deen par hun . chunancha hazrat hamza razi allah anhu un logon mein se hain jin ki badolat allah taala ne deen ko izzat bakhshi hai .

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي رَجُلٌ، مِنْ أَسْلَمَ وَكَانَ وَاعِيَهُ، أَنَّ أَبَا جَهْلٍ اعْتَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الصَّفَا، فَآذَاهُ وَشَتَمَهُ وَقَالَ فِيهِ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْعَيْبِ لِدِينِهِ، وَالتَّضْعِيفِ لَهُ، «فَلَمْ يُكَلِّمْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، وَمَوْلَاةٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُدْعَانَ التَّيْمِيِّ فِي مَسْكَنٍ لَهَا فَوْقَ الصَّفَا تَسْمَعُ ذَلِكَ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَعَمَدَ إِلَى نَادِي قُرَيْشٍ عِنْدَ الْكَعْبَةِ فَجَلَسَ مَعَهُمْ، وَلَمْ يَلْبَثْ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْ أَقْبَلَ مُتَوَشِّحًا قَوْسَهُ رَاجِعًا مِنْ قَنْصٍ لَهُ، وَكَانَ إِذَا فَعَلَ ذَلِكَ لَمْ يَمُرَّ عَلَى نَادِي قُرَيْشٍ، وَأَشَدُّهَا شَكِيمَةً، وَكَانَ يَوْمَئِذٍ مُشْرِكًا عَلَى دَيْنِ قَوْمِهِ، فَجَاءَتْهُ الْمَوْلَاةُ وَقَدْ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا عُمَارَةُ، لَوْ رَأَيْتَ مَا لَقِيَ ابْنُ أَخِيكَ مُحَمَّدٍ مِنْ أَبِي الْحَكَمَ آنِفًا وَجَدَهُ هَا هُنَا، فَآذَاهُ وَشَتَمَهُ، وَبَلَغَ مَا يُكْرَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ فَعَمَدَ إِلَى نَادِي قُرَيْشٍ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَجَلَسَ مَعَهُمْ وَلَمْ يُكَلِّمْ مُحَمَّدًا، فَاحْتَمَلَ حَمْزَةُ الْغَضَبَ لِمَا أَرَادَ اللَّهُ مِنْ كَرَامَتِهِ، فَخَرَجَ سَرِيعًا لَا يَقِفُ عَلَى أَحَدٍ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ، يُرِيدُ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ مُتَعَمِّدًا لِأَبِي جَهْلٍ أَنْ يَقَعَ بِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ نَظَرَ إِلَيْهِ جَالِسًا فِي الْقَوْمِ فَأَقْبَلَ نَحْوَهُ، حَتَّى إِذَا قَامَ عَلَى رَأْسِهِ رَفَعَ الْقَوْسَ فَضَرَبَهُ عَلَى رَأْسِهِ ضَرْبَةً مَمْلُوءَةً، وَقَامَتْ رِجَالٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ إِلَى حَمْزَةَ لِيَنْصُرُوا أَبَا جَهْلٍ، فَقَالُوا: مَا نَرَاكَ يَا حَمْزَةُ إِلَّا صَبَأْتَ، فَقَالَ حَمْزَةُ: وَمَا يَمْنَعُنِي وَقَدِ اسْتَبَانَ لِي ذَلِكَ مِنْهُ، أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَّ الَّذِي يَقُولُ حَقٌّ، فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِعُ، فَامْنَعُونِي إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: دَعُوا أَبَا عُمَارَةَ، لَقَدْ سَبَبْتُ ابْنَ أَخِيهِ سَبًّا قَبِيحًا، وَمَرَّ حَمْزَةُ عَلَى إِسْلَامِهِ، وَتَابَعَ يُخَفِّفُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمْزَةُ عَلِمَتْ قُرَيْشٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ عَزَّ وَامْتَنَعَ، وَأَنَّ حَمْزَةَ سَيَمْنَعُهُ، فَكَفُّوا عَنْ بَعْضِ مَا كَانُوا يَتَنَاوَلُونَهُ وَيَنَالُونَ مِنْهُ، فَقَالَ فِي ذَلِكَ سَعْدٌ حِينَ ضَرَبَ أَبَا جَهْلٍ، فَذَكَرَ رَجَزًا غَيْرً مُسْتَقَرٍّ أَوَّلُهُ ذُقْ أَبَا جَهْلٍ بِمَا غَشِيَتْ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ حَمْزَةُ إِلَى بَيْتِهِ فَأَتَاهُ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ: أَنْتَ سَيِّدُ قُرَيْشٍ اتَّبَعْتَ هَذَا الصَّابِئَ وَتَرَكْتَ دَيْنَ آبَائِكَ، لَلْمَوْتُ خَيْرٌ لَكَ مِمَّا صَنَعْتَ، فَأَقْبَلَ عَلَى حَمْزَةَ شَبَهٌ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتُ؟ اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ رُشْدًا فَاجْعَلْ تَصْدِيقَهُ فِي قَلْبِي وَإِلَّا فَاجْعَلْ لِي مِمَّا وَقَعْتُ فِيهِ مَخْرَجًا، فَبَاتَ بِلَيْلَةٍ لَمْ يَبِتْ بِمِثْلِهَا مِنْ وَسْوَسَةِ الشَّيْطَانِ، حَتَّى أَصْبَحَ فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ابْنَ أَخِي، إِنِّي وَقَعْتُ فِي أَمَرٍ لَا أَعْرِفُ الْمَخْرَجَ مِنْهُ، وَأَقَامَهُ مَثَلِي عَلَى مَا لَا أَدْرِي مَا هُوَ أَرْشَدُ هُوَ أَمْ غَيْرُ شَدِيدٍ، فَحَدَّثَنِي حَدِيثًا فَقَدِ اسْتَشْهَيْتُ يَا ابْنَ أَخِي أَنْ تُحَدِّثَنِي، «فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَّرَهُ وَوَعَظَهُ وَخَوَّفَهُ وَبَشَّرَهُ» ، فَأَلْقَى اللَّهُ فِي نَفْسِهِ الْإِيمَانَ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ إِنَّكَ لَصَادِقٌ شَهَادَةً الْمُصَدِّقِ وَالْمُعَارِفِ، فَأَظْهِرْ يَا ابْنَ أَخِي دِينَكَ، فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنْ لِي مَا أَلَمَعَتِ الشَّمْسُ، وَإِنِّي عَلَى دِينِي الْأَوَّلِ، قَالَ: فَكَانَ حَمْزَةُ مِمَّنْ أَعَزَّ اللَّهُ بِهِ الدِّينَ