Al-Hasan ibn 'Ali (may Allah be well pleased with him and his father) said:
“My maternal aunt Hind asked the son of Abu Hala, who was a describer of the finery of Allah’s Messenger (Allah bless him and give him peace), to describe something of it that would be of interest to me, so he said: Allah’s Messenger (Allah bless him and give him peace) was an honored dignitary, whose face shone with the radiance of the moon on the night of the full moon. He was taller than medium-sized, and shorter than the slender giant. His head was grand and impressive, with loosely curled hair. If his forelock became divided, he would part it. Otherwise his hair would not cross over his earlobes, and he would let it grow plentiful and long. He was bright of color, broad of forehead, endowed with arched eyebrows, perfect without being conjoined, with a vein between them that anger would cause to pulsate. The bridge of his nose was curved. He had a light that would rise over him, and someone who did not reflect on him would consider him haughty. He was thickly bearded, endowed with smooth cheeks, a wide mouth, cleft teeth, and a delicate strip of hair from the top of the chest to the navel. It was as if his neck were the neck of a statue shaped in pure silver. He was well proportioned in physique, firmly cohesive, with the stomach and the breast in even balance. He was wide-chested, broad-shouldered, endowed with stout limbs and very shiny bare skin. Between the top of the chest and the navel by a strip of hair like a line of writing, while his breasts and stomach were bare apart from that. He had hair on his arms and shoulders and the upper parts of his chest. His forearms were long. He had a sensitive touch of the hand. The palms of his hands and the soles of his feet were thickset. His extremities were well formed [sa’il (or he may have said sha’il)]. The hollows of his soles were very deep-set. His feet were so smooth that water bounced off them. When he left a place, he would go away striding decisively. He would tread inclining forward and walk comfortably. His gait was brisk. When he walked, it was as if he were descending a declivity, and when he looked around, he looked around altogether. He lowered his eyesight, and he spent more time looking at the ground than he did looking at the sky. The majority of his looking was observation. He would urge his Companions to proceed ahead of him, and he would be the first to greet anyone he encountered with the salutation of peace.”
حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ماموں ھند بن ابی ھالہ سے دریافت کیا (کیونکہ) وہ آپ ﷺ کے حلیہ مبارک کو بڑی کثرت اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے، اور میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے آپ ﷺ کے ایسے اوصاف بتادیں جن کو میں اپنے دل میں بٹھالوں، تو وہ کہنے لگے کہ: ’’ آپ ﷺ نہایت عظیم اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، چودھویں رات کے چاند کی طرح آپ ﷺ کا چہرہ مبارک چمکتا تھا۔ قد مبارک عام درمیانے قد سے کچھ لمبا اور بہت لمبے قد سے تھوڑا کم تھا۔ سر مبارک (اعتدال کے ساتھ) بڑا تھا، بال مبارک کچھ گھنگھریالے تھے، پیشانی کے بال اگر کھل جاتے تو آپ ﷺ ان کی مانگ نکال لیتے ورنہ آپ ﷺ کے بال جب وفرہ ہوتے تو کانوں کی لو سے زیادہ لمبے نہ ہوتے، آپ ﷺ چمکدار روشن رنگ والے تھے، پیشانی وسیع اور کشادہ تھی، آپ ﷺ لمبی، باریک خمدار پلکوں والے تھے جوپوری اور کامل تھیں، ان کے کنارے آپس میں ملے ہوئے نہیں تھے، ان کے درمیان ایک رگ جو غصے کے وقت خون سے بھر کر اوپر ابھر آتی تھی، یہ درمیان سے محدب تھی آپ ﷺ کے ناک کا بانسہ باریک اور لمبا اس کے اوپر ایک اونچا نور دکھائی دیتا، جس نے غور سے نہ دیکھا ہوتا وہ خیال کرتا کہ آپ ﷺ کی ناک مبارک درمیان سے اونچی ہے، آپ ﷺ گھنی داڑھی والے اور کشادہ و ہموار رخساروں والے تھے، کشادہ منہ والے تھے، دانت مبارک کھلے اور کشادہ تھے، سینے کے بال ناف تک باریک لکیر کی طرح تھے، آپ ﷺ کی گردن مبارک صاف چاندی کی طرح خوبصورت منقش مورتی کی گردن جیسی تھی، درمیانی اور معتدل خلقت والے تھے، مضبوط اور متوازن جسم والے تھے، آپ ﷺ کا سینہ اور پیٹ برابر اور ہموار تھا، آپ ﷺ کا سینہ مبارک کشادہ تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان کچھ دوری اور فرق تھا، آپ ﷺ کی ہڈیوں کے جوڑ موٹے اور گوشت سے پُر تھے، جسم کا وہ حصہ جوکپڑے سے یا بالوں سے ننگا ہوتا وہ روشن اور چمکدار تھا، سینے کے اوپر سے ناف تک ایک لکیر کی طرح بال ملے ہوئے تھے، چھاتی اور پیٹ بالوں سے خالی تھے، دونوں بازوؤں، کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے، کلائیوں اور پنڈلیوں کی ہڈیاں لمبی تھیں، اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں موٹی اور مضبوط تھیں، انگلیاں لمبی اور پاؤں کے تلوے قدرے گہرے تھے، قدم ہموار اور اتنے نرم و نازک کہ ان پر پانی نہیں ٹھہرتا تھا، چلتے تو قوت کے ساتھ آگے کی جانب جھک کرچلتے، بڑے سکون اور وقار کے ساتھ تیز تیز چلتے، چلتے ہوئے معلوم ہوتا کہ آپ ﷺ بلندی سے نشیب کی طرف اُتر رہے ہیں اور جب کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو یکبارگی متوجہ ہوتے، نظر جھکا کر چلتے، آپ ﷺ کی نگاہ آسمان کے بجائے زمین کی طرف زیادہ ہوتی، آپ ﷺ کی عادت عموماً گوشہ چشم سے دیکھنے کی تھی، صحابہ کرام کو اپنے آگے چلاتے، اور جو شخص بھی ملتا اُسے سلام کرنے میں پہل کرتے۔ ‘‘ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے کہا کہ آپ ﷺ کی بول چال اور گفتگو کے متعلق کچھ ذکر کریں تو انھوں نے کہا: ’’ نبی اکرم ﷺ مسلسل غمگین رہتے اور ہمیشہ سوچ اور فکر میں ڈوبے رہتے، کسی وقت بھی آپ ﷺ کو آرام میسر نہیں تھا، آپ ﷺ لمبی دیر تک خاموش رہتے اور بلاضرورت کوئی کلام نہ کرتے، کلام کی ابتداء اور اختتام اللہ تعالیٰ کے نام سے فرماتے، آپ ﷺ کا کلام جامع کلمات پر مشتمل ہوتا، آپ ﷺ کا کلام الگ الگ الفاظ و کلمات والا ہوتا، آپ ﷺ کی بات ایسی مکمل ہوتی کہ اس میں تشنگی یا زیادتی نہ ہوتی۔ آپ ﷺ سخت دل اور ظالم بھی نہیں تھے اور نہ ہی کوتاہ اندیش یا کسی کو حقیر سمجھنے والے، کسی کا احسان اگرچہ تھوڑا ہو، اس کو بڑا خیال کرتے اور اس کی نیکی میں سے کسی چیز کی بھی مذمت نہیں کرتے تھے۔ آپ کھانے پینے کی کسی چیز میں عیب نہیں نکالتے تھے اور نہ ہی اس کی بے جا تعریف کرتے۔ دنیا اور اس کے تمام اُمور آپ ﷺ کو غضبناک نہ کرسکے، ہاں اگر حق سے تجاوز کی جاتی توکوئی چیز بھی آپ ﷺ کے غصے کو اس وقت تک روک نہ سکتی جب تک آپ ﷺ اس کا انتقام نہ لے لیتے۔ آپ ﷺ اپنی ذات کے لیے ناراض نہ ہوتے اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے انتقام لیتے تھے۔ جب آپ ﷺ اشارہ فرماتے تو اپنے پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے، جب کسی بات پر تعجب کا اظہار فرماتے تو ہتھیلی کو اُلٹا کردیتے، جب بات فرماتے تو آپ ﷺ کی بات ہتھیلی کو تحریک دینے کے ساتھ ملی ہوتی اور اپنی دائیں ہتھیلی اپنے دائیں انگوٹھے کی اندر والی جانب بند کرتے، جب آپ ﷺ غصہ میں ہوتے تو منہ پھیرلیتے اور احتراز فرماتے اور جب خوش ہوتے تو اپنی نظر جھکا دیتے، آپ ﷺ کا زیادہ سے زیادہ ہنسنا صرف مسکراہٹ تک محدود تھا۔ آپ ﷺ مسکراتے تو اولوں کی طرح سفید دانت ظاہر ہوتے۔‘‘سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ عرصہ یہ باتیں اپنے بھائی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ذکر نہ کیں، پھر جب ان سے ذکر کیں تو مجھے معلوم ہوا کہ انھوں نے مجھ سے بھی پہلے جا کر ان سے یہ باتیں معلوم کرلی تھیں، اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے والد محترم (سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے نبی اکرم ﷺ کے گھر میں آنے جانے اور شکل و صورت کے متعلق بھی دریافت کیا تھا۔ غرض یہ کہ انھوں نے کوئی چیز بھی نہیں چھوڑی۔ تو سیّدنا حسین کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے نبی اکرم ﷺ کے گھر آنے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جب آپ ﷺ گھر میں آتے تو اپنے وقت کے تین حصے بنالیتے، ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضیت کے لیے، دوسرا حصہ اپنے گھر والوں کے حقوق اور کام کاج کے لیے، اور تیسرا حصہ اپنی ذات کے حقوق اور کام کاج کے لیے، پھر اپنے حصے کو اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے، پھر عام لوگوں پر خواص کے ذریعے یہ حصہ بھی دے دیتے، اور اپنے کے لیے کچھ وقت بھی بچا کر نہ رکھتے۔ آپ ﷺ کی سیرت سے ایک بات یہ تھی کہ آپ ﷺ اپنی اُمت والے حصے میں اپنے حکم سے صاحب فضل لوگوں کو ترجیح دیتے، اور دین داری میں ان کے مرتبے کے مطابق اس کو تقسیم کردیتے، تو ان میں کوئی ایک ضرورت والا ہوتا، کوئی دو ضرورتوں والا، اور کوئی زیادہ ضرورتوں والا۔ تو آپ ﷺ ان کی ایسی ضروریات کی تکمیل میں مشغول رہتے، جو ان کی اپنی اور پوری اُمت کی اصلاح سے متعلق ہوتیں۔ وہ لوگ آپ ﷺ سے اچھی باتوں کے متعلق پوچھتے اور آپ ﷺ انھیں ایسے جواب دیتے رہتے، جو ان کی ضرورت یا حیثیت کے مناسب حال ہوتا۔ اور آپ ﷺ فرماتے: ’’ یہاں پر موجود لوگ میری یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں۔ اسی طرح جو لوگ یہاں نہیں پہنچ پاتے ان کی ضرورتیں مجھ تک پہنچاؤ۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے قدموں کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے گا۔ ‘‘ ’’آپ ﷺ کے پاس ایسی ہی اصلاحی باتیں کی جاتیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی بات آپ ﷺ قبول ہی نہ فرماتے۔ اکابر لوگ آپ ﷺ کے پاس جاتے، اور وافر علم کی دولت لے کر واپس پلٹتے، پھر لوگوں کے پاس خیر اور بھلائی کے راہنما بن کر میدان عمل میں آتے۔ ‘‘سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر میں نے حسین رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کے باہر جانے کے متعلق سوال کیا کہ اس دوران کیا کام کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواباً کہا: ’’ رسول اللہ ﷺ اپنی زبان مبارک بامقصد باتوں کے علاوہ بالکل روک کر رکھتے، لوگوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کرتے، انھیں ایک دوسرے سے متنفر نہ کرتے، آپ ﷺ ہر قوم کے معزز آدمی کی عزت کرتے، اور اس کو ان کا سرپرست بناتے، آپ ﷺ لوگوں کو بداعمالیوں سے بچنے کی تلقین فرماتے اور خود بھی ان سے محتاط رہتے مگر ان کی شر اور بدخلقی کو اپنے دل میں بالکل جگہ نہ دیتے۔ آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کے حالات ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے پھر اچھی چیز کی تحسین فرماتے اور اس کو قوت بخشتے، اور بری چیز کی قباحت بیان کرکے اس کو کمزور کرنے کی کوشش فرماتے۔ آپ ﷺ ہمیشہ میانہ روی اختیار فرماتے، اختلاف بالکل نہ کرتے تھے۔ آپ ﷺ کبھی بھی غفلت نہ کرتے کہ کہیں لوگ بھی غافل نہ ہو جائیں، اور حق سے ہٹ کر باطل کی طرف نہ جھک جائیں۔ ہر مشکل گھڑی کے لیے آپ ﷺ کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے تیاری موجود ہوتی، جو حق سے کمی کوتاہی یا تجاوز کرنے سے بالکل محفوظ رکھتی۔ ‘‘ ’’آپ ﷺ کا قرب انھیں حاصل ہوتا جو سب سے زیادہ پسندیدہ سمجھے جاتے تھے۔ درجات کے لحاظ سے سب سے بہتر آدمی آپ ﷺ کے ہاں وہ شمار ہوتا، جو سب سے زیادہ خیر خواہ ہوتا، اور مقام و مرتبہ کی رُو سے سب سے بڑا آدمی آپ ﷺ کی نظر میں وہ ہوتا جو غم خواری اور ہمدردی میں سب سے اچھا ہوتا۔ ‘‘ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : پھر میں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کے بیٹھنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا: ’’ رسول اللہ ﷺ جب بھی بیٹھتے یا اُٹھتے تو اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور کرتے، جب کسی مجلس میں آتے تو جہاں جگہ ملتی وہاں بیٹھ جاتے اور (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی) یہی حکم دیتے۔ آپ ﷺ مجلس کے ہر آدمی کو اس کا حصہ دیتے، آپ ﷺ کا ہم نشین یہ خیال بھی نہ کرتا کہ کوئی دوسرا شخص آپ ﷺ کی نظر میں اس سے زیادہ معزز ہے۔ جو لوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوتے، جب تک وہ نہ چلے جاتے آپ ﷺ وہاں بیٹھے رہتے، اگر کوئی آپ ﷺ سے کچھ مانگتا، تو آپ ﷺ اسے ضرور دیتے یا نرم لہجے میں معذرت فرماتے۔ آپ ﷺ کی کشادہ روئی اور خوش خلقی تمام لوگوں کو حاوی اور شامل تھی۔ آپ ﷺ تو ان کے لیے باپ کی طرح تھے اور وہ سارے آپ ﷺ کے نزدیک برابر حق رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کی مجلس علم، حوصلہ، حیاء، امانت اور صبر کی ہوتی، جس میں آوازیں بلند نہ کی جاتیں، قابلِ احترام چیزوں پر عیب نہ لگایا جاتا، اور نہ ہی کسی کے عیوب کی اشاعت کی جاتی۔ تقویٰ اور پرہیزگاری کے علاوہ سب برابر ہوتے، سب ایک دوسرے کے لیے عاجزی اور انکساری سے پیش آتے۔ بڑے کی عزت و وقار، چھوٹے پر رحم، ضرورت مند کو ترجیح اور مسافر بے وطن کی حفاظت و دیکھ بھال کا لحاظ رکھا جاتا۔ ‘‘
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت آپ ﷺ کے ہم نشینوں کے متعلق کیسی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ کشادہ روئی اور ہنس مکھی سے پیش آتے، نہایت نرم خو اور نرم پہلو تھے، ترش رو اور سخت دل نہیں تھے، نہ شور برپا کرتے، نہ بے ہودہ باتیں کرتے، نہ ہی کسی کو عیب لگاتے اور نہ ہی آپ ﷺ بخل کرتے۔ جو چیز پسند نہ ہوتی، اس سے بے پرواہ رہتے، آپ ﷺ اپنے اُمیدوار کو اس کی نیکی سے مایوس نہیں فرماتے تھے اور نہ اس کو ناکام ہونے دیتے۔ آپ ﷺ نے اپنی ذات کو تین چیزوں سے محفوظ رکھا: جھگڑے سے، بہت باتیں کرنے یا بہت مال اکٹھا کرنے سے، اور فضول و بے مقصد باتوں سے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کی تین باتوں کو چھوڑا ہوا تھا: آپ ﷺ کسی کی مذمت نہ کرتے، نہ کسی کو عیب لگاتے، اور نہ کسی کے نقائص تلاش کرتے، آپ ﷺ زبان سے وہی بات نکالتے جس کے ثواب کی آپ ﷺ کو اُمید ہوتی۔ جب آپ ﷺ کلام کرتے تو سب لوگ سرجھکادیتے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں، جب آپ ﷺ خاموش ہوتے، تب وہ کلام کرتے۔ لوگ آپ ﷺ کے پاس بات کرنے میں جھگڑتے نہ تھے۔ بلکہ جو شخص بھی بات کرتا اس کے فارغ ہونے تک سب اس کے لیے خاموش رہتے۔ آپ ﷺ سب کی بات اسی طرح توجہ سے سنتے، جس طرح سب سے پہلے کی بات سنی ہوتی۔ ‘‘
’’جس بات پر سب لوگ ہنستے آپ ﷺ بھی اس پر ہنستے اور لوگ جس بات پر تعجب کرتے آپ ﷺ بھی اس پر تعجب کرتے تھے۔ باہر سے آنے والے مسافر کی بول چال یا مانگنے میں زیادتی اور سختی پر صبر فرماتے تھے، اسی لیے آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہ چاہتے تھے کہ کوئی باہر کے دیہات سے اجنبی آدمی آئے، اور آپ ﷺ سے سوال کرے، تاکہ وہ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔‘‘ آپ ﷺ فرماتے: ’’جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ اپنی ضرورت کی چیز مانگ رہا ہے، تو ضرور اس کی مدد کرو۔ ‘‘’’پوری پوری تعریف (جو مبالغہ سے خالی ہوتی) کرنے والے کی تعریف کو ہی قبول فرماتے، اسی طرح آپ ﷺ کسی کی بات کو اس وقت تک نہ کاٹتے، جب تک وہ حد سے تجاوز نہ کرجائے، جب وہ تجاوز کرتا تو آپ ﷺ اس کی بات کو منع کردیتے یا وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ ‘‘
Hasan bin Ali (رضي الله تعالى عنه) farmate hain mainne apne mamun Hind bin Abi Hala se daryaft kiya (kyunki) woh Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke haliya mubarak ko badi kasrat aur wazahat se bayan kiya karte the, aur main chahta tha ke woh mujhe Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke aise ausaf bataden jin ko main apne dil mein bitha loon, to woh kahne lage ke: '' Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) nihayat azeem aur ba waqar shakhsiyat ke malik the, chaudhvin raat ke chand ki tarah Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka chehra mubarak chamakta tha. Qad mubarak aam darmiyana qad se kuch lamba aur bahut lambe qad se thora kam tha. Sar mubarak (aitdal ke sath) bada tha, baal mubarak kuch ghungrale the, peshani ke baal agar khul jate to Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) un ki mang nikal lete warna Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke baal jab wafra hote to kanon ki lo se zyada lambe na hote, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) chamkdar roshan rang wale the, peshani wase aur kashada thi, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) lambi, bareek khumdar palkon wale the jo puri aur kamil thin, in ke kinare aapas mein mile hue nahin the, in ke darmiyan ek rag jo ghusse ke waqt khoon se bhar kar upar ubhar aati thi, yah darmiyan se muhaddab thi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke nak ka bansah bareek aur lamba is ke upar ek uncha noor dikhayi deta, jis ne ghaur se na dekha hota woh khayal karta ke Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki nak mubarak darmiyan se unchi hai, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ghani darhi wale aur kashada wa humwar rukhsaron wale the, kashada munh wale the, dant mubarak khule aur kashada the, sine ke baal naaf tak bareek lakeer ki tarah the, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki gardan mubarak saaf chandi ki tarah khoobsurat munqash moorti ki gardan jaisi thi, darmiyani aur motadil khalqat wale the, mazbut aur mutwazin jism wale the, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka seena aur pet barabar aur humwar tha, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka seena mubarak kashada tha. Donon kandhon ke darmiyan kuch doori aur farq tha, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki haddiyon ke jor mote aur gosht se pur the, jism ka woh hissa jo kapde se ya baalon se nanga hota woh roshan aur chamkdar tha, sine ke upar se naaf tak ek lakeer ki tarah baal mile hue the, chhati aur pet baalon se khali the, donon bazuon, kandhon aur seena ke balai hissa par baal the, kalaiyon aur pindliyon ki haddiyan lambi thin, aur hatheliyan kashada thin, hath aur paon ki haddiyan moti aur mazbut thin, ungliyan lambi aur paon ke talwe qadre gahre the, qadam humwar aur itne narm o nazuk ke in par pani nahin thaharta tha, chalte to quwwat ke sath aage ki janib jhuk kar chalte, bade sukoon aur waqar ke sath tez tez chalte, chalte hue maloom hota ke Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) bulandi se nashib ki taraf utar rahe hain aur jab kisi ki taraf mutawajjah hote to yakbargi mutawajjah hote, nazar jhuka kar chalte, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki nigaah aasman ke bajaye zameen ki taraf zyada hoti, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki aadat amuman gosha chashm se dekhne ki thi, Sahaba kiram ko apne aage chalate, aur jo shakhs bhi milta usse salam karne mein pahal karte. '' Sayyiduna Hasan (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : mainne kaha ke Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki bol chaal aur guftgu ke mutalliq kuch zikar karen to unhon ne kaha: '' Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) musalsal ghamgeen rahte aur hamesha soch aur fikr mein doobe rahte, kisi waqt bhi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ko aaram misar nahin tha, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) lambi der tak khamosh rahte aur bila zaroorat koi kalaam na karte, kalaam ki ibtida aur ikhtitam Allah Ta'ala ke naam se farmate, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka kalaam jame kalimat par mushtamil hota, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka kalaam alag alag alfaz o kalimat wala hota, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki baat aisi mukammal hoti ke is mein tishnagi ya ziyadati na hoti. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) sakht dil aur zalim bhi nahin the aur na hi kotah andesh ya kisi ko haqir samajhne wale, kisi ka ehsaan agarchi thora ho, us ko bada khayal karte aur us ki neki mein se kisi cheez ki bhi mazammat nahin karte the. Aap khane pine ki kisi cheez mein aib nahin nikalte the aur na hi us ki be ja tareef karte. Duniya aur us ke tamam umoor Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ko ghazabnak na karsake, haan agar haq se tajawuz ki jati to koi cheez bhi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke ghusse ko us waqt tak rok na sakti jab tak Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) is ka intiqam na le lete. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) apni zaat ke liye naraaz na hote aur na hi apni zaat ke liye intiqam lete the. Jab Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ishara farmate to apne pure hath se ishara farmate, jab kisi baat par ta'ajjub ka izhaar farmate to hatheli ko ulta kar dete, jab baat farmate to Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki baat hatheli ko tahreek dene ke sath mili hoti aur apni dayen hatheli apne dayen angoothe ki andar wali janib band karte, jab Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ghussa mein hote to munh pher lete aur ihtiraaz farmate aur jab khush hote to apni nazar jhuka dete, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka zyada se zyada hansna sirf muskurahat tak mahdood tha. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) muskurate to awwalon ki tarah safed dant zahir hote.''Sayyiduna Hasan (رضي الله تعالى عنه) farmate hain ke mainne kuch arsa yah baten apne bhai Sayyiduna Hussain (رضي الله تعالى عنه) se zikar na kin, phir jab un se zikar kin to mujhe maloom hua ke unhon ne mujh se bhi pehle ja kar un se yah baten maloom karli thin, aur mujhe yah bhi maloom hua ke unhon ne apne walid mohtaram (Sayyiduna Ali al-Murtaza (رضي الله تعالى عنه) ) se Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) ke ghar mein aane jane aur shakal o surat ke mutalliq bhi daryaft kiya tha. Gharz yah ke unhon ne koi cheez bhi nahin chhori. To Sayyiduna Hussain kahte hain ke mainne apne walid mohtaram se Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) ke ghar aane ke mutalliq daryaft kiya to unhon ne farmaya: ''Jab Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ghar mein aate to apne waqt ke teen hisse banalate, ek hissa Allah Ta'ala ki ibaadat o riyazat ke liye, doosra hissa apne ghar walon ke huqooq aur kaam kaj ke liye, aur teesra hissa apni zaat ke huqooq aur kaam kaj ke liye, phir apne hisse ko apne aur logon ke darmiyan taqseem kar dete, phir aam logon par khas ke zariye yah hissa bhi de dete, aur apne ke liye kuch waqt bhi bacha kar na rakhte. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki seerat se ek baat yah thi ke Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) apni ummat wale hisse mein apne hukm se sahib fazl logon ko tarjih dete, aur deen dari mein un ke martabe ke mutabiq is ko taqseem kar dete, to un mein koi ek zaroorat wala hota, koi do zarooraton wala, aur koi zyada zarooraton wala. To Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) un ki aisi zarooriyat ki takmeel mein mashgool rahte, jo un ki apni aur puri ummat ki islaah se mutalliq hoti. Woh log Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) se achchhi baton ke mutalliq poochhte aur Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) unhen aise jawab dete rahte, jo un ki zaroorat ya haisiyat ke munasib haal hota. Aur Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) farmate: '' Yahan par maujood log meri yah baten un logon tak pahunchaen jo yahan maujood nahin. Isi tarah jo log yahan nahin pahunch pate un ki zarooraten mujh tak pahunchao. Is ke sile mein Allah Ta'ala qayamat ke din tumhare qadmon ko dagmagane se mahfooz rakhega. '' ''Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke paas aisi hi islahi baten ki jati. Is ke ilawa aur koi baat Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) qubool hi na farmate. Akabir log Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke paas jate, aur waafir ilm ki daulat le kar wapas palatte, phir logon ke paas khair aur bhalai ke rahnuma ban kar maidan amal mein aate. ''Sayyiduna Hasan (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : phir mainne Hussain (رضي الله تعالى عنه) se Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke bahar jane ke mutalliq sawal kiya ke is dauran kya kaam karte the? To unhon ne jawaban kaha: '' Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) apni zaban mubarak ba maqsad baton ke ilawa bilkul rok kar rakhte, logon ko aapas mein jorhne ki koshish karte, unhen ek doosre se mutanaffir na karte, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) har qaum ke muazziz aadmi ki izzat karte, aur is ko un ka sarparast banate, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) logon ko bad amaliyon se bachne ki talqeen farmate aur khud bhi un se muhtat rahte magar un ki shar aur bad khalqi ko apne dil mein bilkul jagah na dete. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) apne sathiyon ke haalaat ek doosre se poochhte rahte phir achchhi cheez ki tahseen farmate aur is ko quwwat bakhshte, aur buri cheez ki qabahat bayan kar ke is ko kamzor karne ki koshish farmate. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) hamesha miyane rawi ikhtiyar farmate, ikhtilaf bilkul na karte the. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) kabhi bhi ghaflat na karte ke kahin log bhi ghafil na ho jaen, aur haq se hat kar baatil ki taraf na jhuk jaen. Har mushkil ghari ke liye Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke paas is se niptne ke liye taiyari maujood hoti, jo haq se kami kotahi ya tajawuz karne se bilkul mahfooz rakhti. '' ''Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka qurb unhen hasil hota jo sab se zyada pasandida samjhe jate the. Darjaat ke lihaz se sab se behtar aadmi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke han woh shumar hota, jo sab se zyada khair khwah hota, aur maqam o martaba ki ru se sab se bada aadmi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki nazar mein woh hota jo gham khwari aur hamdardi mein sab se achchha hota. '' Sayyiduna Hasan (رضي الله تعالى عنه) kahte hain : phir mainne Sayyiduna Hussain (رضي الله تعالى عنه) se Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke baithne ke mutalliq sawal kiya to unhon ne kaha: '' Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) jab bhi baithte ya uthte to Allah Ta'ala ka zikar zaroor karte, jab kisi majlis mein aate to jahan jagah milti wahan baith jate aur (Sahaba kiram (رضي الله تعالى عنه) ko bhi) yahi hukm dete. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) majlis ke har aadmi ko is ka hissa dete, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ka ham nashin yah khayal bhi na karta ke koi doosra shakhs Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki nazar mein is se zyada muazziz hai. Jo log Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke paas baithe hote, jab tak woh na chale jate Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) wahan baithe rahte, agar koi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) se kuch mangta, to Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ise zaroor dete ya narm lehje mein mazarat farmate. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki kashada rui aur khush khalqi tamam logon ko havi aur shamil thi. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) to un ke liye baap ki tarah the aur woh sare Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke nazdeek barabar haq rakhte the. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ki majlis ilm, hausla, haya, amaanat aur sabr ki hoti, jis mein awaazein buland na ki jati, qabil e ehtiram cheezon par aib na lagaya jata, aur na hi kisi ke uyoob ki isha'at ki jati. Taqwa aur parhez gari ke ilawa sab barabar hote, sab ek doosre ke liye aajzi aur inkasari se pesh aate. Bade ki izzat o waqar, chhote par raham, zaroorat mand ko tarjih aur musafir be watan ki hifazat o dekh bhaal ka lihaz rakha jata. '' Sayyiduna Hussain (رضي الله تعالى عنه) farmate hain : phir mainne apne walid mohtaram se poochha ke Nabi Akram (صلى الله عليه وآله وسلم) ki seerat Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke ham nashinon ke mutalliq kaisi thi? To unhon ne farmaya: '' Rasul Allah (صلى الله عليه وآله وسلم) hamesha kashada rui aur hans mukhi se pesh aate, nihayat narm kho aur narm pehlu the, tarsh ru aur sakht dil nahin the, na shor barpa karte, na be huda baten karte, na hi kisi ko aib lagate aur na hi Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) bukhl karte. Jo cheez pasand na hoti, is se be parwah rahte, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) apne umeedwar ko is ki neki se mayoos nahin farmate the aur na is ko nakaam hone dete. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne apni zaat ko teen cheezon se mahfooz rakha: jhagre se, bahut baten karne ya bahut maal ikattha karne se, aur fuzool o be maqsad baton se. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ne logon ki teen baton ko chhora hua tha: Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) kisi ki mazammat na karte, na kisi ko aib lagate, aur na kisi ke nuqais talaash karte, Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) zaban se wohi baat nikalte jis ke sawab ki Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ko umeed hoti. Jab Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) kalaam karte to sab log sar jhuka dete goya ke un ke saron par parinde hain, jab Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) khamosh hote, tab woh kalaam karte. Log Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) ke paas baat karne mein jhagdte na the. Balke jo shakhs bhi baat karta is ke farigh hone tak sab is ke liye khamosh rahte. Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) sab ki baat isi tarah tawajjah se sunte, jis tarah sab se pehle ki baat suni hoti. '' ''Jis baat par sab log hanste Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) bhi is par hanste aur log jis baat par ta'ajjub karte Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) bhi is par ta'ajjub karte the. Bahar se aane wale musafir ki bol chaal ya mangne mein ziyadati aur sakhti par sabr farmate the, isi liye Aap ke Sahaba kiram (رضي الله تعالى عنه) bhi yah chahte the ke koi bahar ke dihat se ajnabi aadmi aaye, aur Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) se sawal kare, taake woh bhi is se mustafid hosaken.'' Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) farmate: ''Jab tum kisi ko dekho ke woh apni zaroorat ki cheez mang raha hai, to zaroor is ki madad karo. '' ''Puri puri tareef (jo mubalgha se khali hoti) karne wale ki tareef ko hi qubool farmate, isi tarah Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) kisi ki baat ko is waqt tak na katte, jab tak woh had se tajawuz na kar jaye, jab woh tajawuz karta to Aap (صلى الله عليه وآله وسلم) is ki baat ko mana karte ya wahan se uth khade hote. ''.